اسلام تکریمِ انسانیت کا پیغام لے کر آیا

عائشہ مبشر

سماج (Society) ایسے افراد کا مجموعہ یا گروہ ہے جو ایک مخصوص عمرانی معاہدے کے تحت رشتوں اور روابط کے ذریعہ باہم منسلک ہوتے ہیں۔ کسی بھی سماج میں مرد اور عورت وہ بنیادی اکائی ہیں جو معاشرے کو ریاست کے فراہم کردہ مواقع، وسائل اور حقوق کی مدد سے ایک مکمل فلاحی اور ترقی یافتہ معاشرہ بناتے ہیں۔ جب وسائل اور مواقع کی فراہمی عدم توازن کا شکار ہو جائے تو وہ طبقاتی او رجنسیاتی استحصال کو جنم دیتی ہے۔ استحصالی معاشروں میں جنسی اور معاشی طور پر کمزور طبقہ نشانہ بنتا ہے۔ خواتین معاشرے کی وہ اہم اکائی ہیں جن کی تعداد بے شک نصف ہے مگر فلاحی ریاست کی تشکیل میں ان کا کردارکہیں ذیادہ ہے کیونکہ بقیہ نصف انہیں کے بطن سے جنم لیتا اور پرورش پاتا ہے۔

اسلام انسانیت کے لئے تکریم، وقار اور حقوق کے تحفظ کا پیغام لیکر آیا ہے۔ اسلام سے قبل ہر کمزور طبقہ طاقتور کے زیر نگیں تھا۔ جبکہ اسلام کی حقوقِ نسواں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو عورت کے مذہبی، سماجی، معاشرتی، قانونی، آئینی، سیاسی اور انتظامی کردار کو نہ صرف استحکام دیا گیا بلکہ حقوق کی فراہمی کی ضمانت بھی مہیا کی۔ آج کے جدید دور میں جہاں معاشروں نے اخلاقی و سماجی ترقی کی منازل طے کی ہیں وہیں اخلاقی تنزلی کا شکار بھی ہوئے ہیں۔ بالخصوص صنف نازک کے استحصال نے معاشرے کو عدم توازن کا شکار کردیا ہے۔ جس کیردِ عمل کے طور پر عصر حاضر میں ویمن ایمپاورمنٹ کے عنوان سے ایسے فروعی نظریات فروغ پا گئے ہیں اس سے خواتین کے حالات میں بہتری کے بجائے تنزلی آرہی ہے۔ اسلام نے معاشرے کی بنیاد جن اصولوں پر استوار کی ہے ان میں حقوق و فرائض کا حسین امتزاج پیش کیا ہے اور مرد اور عورت کے لئے برابر حقوق و فرائض متعین کئے ہیں۔

1۔ اللہ رب العزت نے درجہ تخلیق میں عورت اور مرد کو ایک ہی مرتبہ پر رکھا اسی طرح انسانیت کی تکوین و تشکیل میں عورت مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا ہے پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا۔ پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں ( کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘ (النساء 4: 1)

2۔ عورت پر سے دائمی معصیت کی لعنت ہٹا دی گئی۔ اور اس پر سے ذلت کا داغ دور کر دیا گیا کہ عورت اور مرد دونوں کو شیطان نے وسوسہ میں ڈالا، جس کے نتیجے میں وہ جنت سے اخراج کے مستحق ہوئے تھے۔

3۔ عورت اور مرد کے لئے اللہ رب العزت کے ہاں اجر کا استحقاق برابر قرار پایا۔ ان دونوں میں سے جو کوئی بھی عمل کرے گا اسے پوری اور برابر جزاء ملے گی ارشادِ ربانی ہے:

’’ان کے رب نے انکی التجاء قبول کی (اور فرمایا) میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو۔‘‘ ( آلِ عمران، 3: 195)

4۔ اسلام عورت کے لئے تربیت اور نفقہ کے حق کا ضامن بنا کہ اسے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، اور علاج کی سہولت ’’ولی الامر‘‘ کی طرف سے ملے گی۔

5۔ عورت کو عصت وعفت کا حق عطا کیا اور معاشرے میں عورت کی عزت و احترام کو یقینی بنانے کے لئے اس کے حق عصت کا تحفظ لازمی قرار دیا۔

’’(اے رسول مکرم)مومنوں سے کہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کیلئے پاکیزگی کا موجب ہے۔ اللہ اس سے واقف ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں۔‘‘

6۔ اسلام نے خواتین کو رازداری کاحق عطا فرمایا جس کے تناظر میں پردہ کے احکامات نازل فرمائے۔ سورۃ احزاب میں اللہ رب العزت فرماتا ہے ’’اور جب تم عورتوں سے کوئی چیز طلب کرو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگ لو۔ یہ تمہارے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔‘‘

7۔ سب سے اہم حق جو اسلام عورت کو دیتا ہے وہ تعلیم وتربیت ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے: ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان( مرد و عورت ) پر فرض ہے۔‘‘

8۔ اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حقِ ملکیت عطا کیا وہ نہ صرف خود کما سکتی ہے بلکہ وراثت کے تحت حاصل ہونے والی املاک کی مالک بھی بن سکتی ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے جو انہوں نے کمایا۔‘‘

الغرض اسلام نے خواتین کے اجتماعی اور انفررادی حقوق کاتحفظ یقینی بنایا۔ انفرادی حیات میں خواتین کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کی حیثیت سے حقوق و فرائض کا حسین امتزاج عطا کیا جس میں نکاح کا حق، خلع کا حق، بلوغت سے قبل ولی کے کئے ہوئے نکاح کو رد کر دینے کا حق، مہر کا حق، کفالت کاحق، اعتماد کاحق، حسنِ سلوک کا حق، تشدد سے تحفظ کا حق، گواہی کاحق، قانونی شخصیت ہونے کاحق اور حقوق زوجیت مرد کے مساوی عطا فرمائے۔

محض یہی نہیں اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے خواتین کو سیاسی حقوق عطا کئے۔ عورت کا ریاستی کردار واضح کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور اہلِ ایمان مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے رفیق اور مدد گار ہیں، اوروہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔‘‘

اسلام عورت کو ایک مکمل قانونی فرد تسلیم کرتے ہوئے سربراہ کے چناؤ، قانون سازی اور دیگر ریاستی معاملات میں مردوں کے برابر رائے دہی کا حق ہے۔ مقننہ میں نمائندگی کاحق ہے۔ اسلام عورت کو بطور سیاسی مشیر متعین کرتا ہے، انتظامی ذمہ داریوں پر تقرری کا حق دیتا ہے، سفارتی مناصب پر فائز ہونے کا حق دیتا ہے، ریاست کی دفاعی ذمہ داریوں پر نمائندگی کاحق دیتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اسلامی فلاحی معاشرے میں خواتین اسلام کے عطا کردہ حقوق کی برکات کے سبب سماجی، معاشرتی، سیاسی، اور انتظامی میدانوں میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو ارتقاء کی اعلیٰ منازل کی طرف گامزن کرنے کا باعث بنتی ہے۔ مسائل تب جنم لیتے ہیں جب اسلام کے اس اعلیٰ نظام کو روایات و اقدار سے متصل و منطبق کرنے کی بجائے ان سے متصادم قرار دے کر ترک کردیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم پر ویمن لیگ کے ہمہ جہت فورم کا قیام عمل میں لایا گیا۔

WOICE منہاج القرآن ویمن لیگ کا وہ اہم ترین فورم ہے جو خواتین کے تمام سماجی، معاشرتی، معاشی مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہے۔ WOICE مندرجہ ذیل منصوبہ جات پر کام کررہی ہے۔

1۔ Awareness Projects کے تحت خواتین کی بیداری شعور اور حقوق و فرائض سے آگاہی کے لئے آن لائن اور آن گراؤنڈ ورکشاپس اور سیشنز منعقد کروائے جاتے ہیں۔ یہ Awareness sessions درج ذیل جہات پر کام کرتے ہیں:

  • تعلیمی سماجی قانونی
  • طبی اخلاقی

2۔ WOICE Care کے پراجیکٹ کیتحت ملک عزیز میں بسنے والے پسماندہ طبقے کو خود کفالت کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے بااثر اور بہترین و وافر وسائل رکھنے والے احباب کو ضرورت مند خواتین کی مدد کے لئے ایک شفاف موثر اور سریع پلیٹ فارم فراہم کیا جاتا ہے۔

3۔ WOICE Food Bank کے زیر اہتمام بیوگان، یتیموںاور نادار خواتین کو راشن پیکجز تقسیم کئے جاتے ہیں۔ امسال پاکستان بھر میں WOICE کے تحت COVID-19 وباء کے دوران ہزاروں کی تعداد میں خا ندانوں کو سپورٹ کیا گیا۔

4۔ WOICE ہنر گھر: میرا ہنر، میری کامیابی

معاشرے کو باہنر، باصلاحیت اور کامیاب خواتین فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین میں ہنر اور مختلف فنون سیکھنے کے رحجان کو فروغ دینے کے لئے ملک بھر میں مختلف مقامات پر WOICE ہنر گھروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ جس میں مختلف النوع ہنر سکھانے کیلئے کورسز کروائے جاتے ہیں۔ ویسے توبہت سارے ادارہ جات بھی ویمن ووکیشنل ٹریننگ پر کام کر رہے ہیں مگر WOICE ہنر گھر کی انفرادیت یہ ہے کہ ان میں بے سہارا اور ضرورت مند خواتین کو مفت فنی تربیت دی جاتی ہے نہ صرف ٹریننگ بلکہ روزگار فراہم کرنے کی کاوش بھی کی جاتی ہے۔ ہنر گھر میں کروائے جانے والے کورسز میں سلائی کورس، کمپیوٹر کورس، پروفیشنل کوکنگ کورس کروائے جاتے ہیں۔

انسان کی تخلیق کے ساتھ حقوق کی فراہمی کا سلسلہ بھی شروع کردیاگیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو زندگی عطا کی ہے تواس کی حفاظت کا حق بھی عطا فرمایا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اپنی تمام عوام کو زندگی، مال، صحت کی حفاظت اور تعلیم کی فراہمی کا ذمہ دارہے۔ اور حکومتی اداروں کے ذریعے ان حقوق کی یکساں فراہمی کی یقین دہانی کرواتا ہے۔ WOICE ڈیپارٹمنٹ اپنے تمام پراجیکٹس کے ذریعے اور ملک بھر میں اپنی والنٹئیرز کی ٹیمز اور دستیاب وسائل کی مدد سے پاکستانی خواتین کے استحکام کے لئے کوشاں ہے۔ اور پاکستانی خواتین کو معاونت اور تربیت کے ذریعے حقوق کی فراہمی کی کاوش اور فرائض کی ادائیگی کا شعور دینے کے لئے ہمہ وقت سرگرم عمل رہتے ہیں۔ اس قافلے میں جتنے دردمند ہم قدم ہوں کم ہیں ہم نے اپنے عظیم قائد کی تربیت کے مطابق اپنے سفر کا آغاز کر رکھا ہے۔ آپ سب کو بھی دعوت ہے کہ آپ اس سفرمیں بطورِ والنٹئیر، ٹرینر، ڈونر، اور سپانسر ہمارے ساتھ شامل ہوں۔ کڑی سے کڑی ملے گی ہاتھ سے ہاتھ ملے گا تو ہم سب مل کے کہیں کڑی دھوپ میں چھاؤں، کہیں تیز و تند آندھی میں مضبوط ستون اور کہیں گھپ اندھیرے میں روشن مشعل کی مانند معاشرے کی نشیب و فراز میں الجھی خواتین کو انتہائی حفاظت، نرمی اور مضبوطی سے معاشرے کا فعال فرد بننے میں اپنا کردار ادا کرنے میں متحد ہونگے۔ ( عائشہ مبشر نائب ناظمہ ویمن لیگ )

اس تحریر کی تیاری میں حضور سیدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصنیف اسلامن میں خواتین کے حقوق سے استفادہ کیا گیا ہے۔

ویمن لیگ کے یومِ تاسیس کے لئے پیغام:

منہاج القرآن ویمن لیگ اس دور جدید میں تنوع، وسعت، ہمہ جہتی کی وہ صبح نور ہے جو ہر دن نئے عزم نئے ارادے اور لازاوال جوش کے ساتھ طلوع ہوتی ہے۔

اپنے عظیم قائد حضور سیدی شیخ الاسلام کی ردائے تجدید دیں اوڑھے، اٰحیائے دیں کے لوازم سیلیس، اقامت دیں کیلئے علم حق بلند کرتے ہوئے نعرہ ایثارووفا ء کی گونج میں چہار دانگ عالم کو اپنے خونِ جگر سے سینچ رہی ہیں۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کے اس تینتیسویں یوم تاسیس پر میں اپنے عہد رفاقت کی تجدید کرتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کو اس مشن کیلئے وقف کرنے کاعزم کرتی ہوں۔