بانیٔ پاکستان کی شخصیت و کردار کے چند اہم گوشے

ڈاکٹر انیلہ مبشر

برصغیر پاک و ہند میں برطانوی اقتدار کے خلاف مسلمانوں کی تحریک آزادی تقریباً ایک صدی پر محیط ہے۔ بیسویں صدی میں اس قافلہ حریت کے میرکارواں قائداعظم محمد علی جناح تھے۔ بابائے قوم کو اسلامیان ہند کا محسنِ اعظم، رہبر کامل، عظیم مدبر، دور اندیش سیاستدان اور صاحبِ فراست و بصیرت رہنما ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ کی انفرادیت یہ ہے کہ آپ تحریک پاکستان کے سب سے ہیجان انگیز و پُرآشوب دور میں معرکہ حق و باطل سے نبرد آزما ہوئے اور اپنی مسحور کن، کرشمہ ساز شخصیت اور معجزاتی صلاحیتوں کی بدولت قوم کے لیے پروانہ آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

قائداعظم محمدعلی جناحؒ مسلمانوں کے دورِ زوال میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک تھے۔ دس کروڑ مسلمانوں کی روحانی، مذہبی، معاشرتی، تہذیبی اور معاشی آزادی، اکثریت کا جابرانہ تسلط سے نجات اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کا تحفظ قائد کی ذات سے وابستہ تھا۔ جن کے کردار کی ذرا سی لغزش مسلمانوں کے مستقل زوال کا سبب بن سکتی تھی۔ یہ برطانوی اقتدار کا وہ دور تھا جب اسلامیان ہند کی غلامی و آزادی کے درمیان قائداعظم کی بصیرت کارفرما تھی۔ اُن کی تاریخ ساز قیادت کے بغیر مسلمان ہندو اکثریت کے سمندر میں ڈوب کر ایک غیر موثر اقلیت بن کر رہ جاتے۔ قائد کے سیاسی شعور، بصیرت اور بالغ نظری نے مایوس قوم کو رفعت و بلندی کی نئی منزلوں سے آشنا کیا۔

آپ کی کثیر الجہت اور جامع الصفات شخصیت کا جائزہ لیں تو یہ نظریہ تقویت پکڑتاہے کہ شخصیت تاریخی حقائق و حالات سے زیادہ قد آور ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ تاریخ کا رخ موڑنے پر قدرت رکھتی ہے۔ پروفیسر ٹنلے ولپرٹ اپنی کتاب ’’جناح آف پاکستان‘‘ میں اسی نکتے کو اجاگر کرتے ہوئے اس عظیم ہستی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’بہت کم افراد تاریخ کا دھارا بدلتے ہیں۔ کم ہی ہوں گے جنھوں نے نقشہ عالم کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ کسی کو یہ شرف حاصل نہیں کہ اس نے کسی نئی مملکت کی تشکیل کی ہو۔ محمد علی جناحؒ نے یہ تینوں کام سرانجام دیئے۔ اُن کی شخصیت مسلم لیگ میں اپنے تمام ہم عصروں کے کارناموں میں بلند ترین معیار کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘

قائداعظمؒ کی بلند پایہ شخصیت اور عظمت کردار کا تذکرہ لارڈ مونٹ بیٹن آخری وائسرائے ہند نے اپنی یاد داشتوں میں کیا ہے حالانکہ وہ جناح مخالفت اور ہندو نوازی میں بہت مشہور تھے۔

جناح کی شخصیت بھی بڑی ممتاز اورنمایاں تھی۔ چٹان کی طرح اپنے مقام پر محکم اور سخت اور اس کے ساتھ انتہائی درجے کا ٹھنڈے دل و دماغ کا انسان۔ یہ ممکن ہی نہ تھا کہ تم اس کے سینے کی گہرائیوں میں اتر سکو۔ نہایت ذہین و فطین۔ وہ میرے دلائل کو نہایت آسانی سے سمجھ جاتے لیکن اس کے بعد ایسا محسوس ہوتاجیسے انھوںنے اپنے اور میرے درمیان کوئی حجاب حال جڑ دیا ہو۔ وہ تمام دلائل کو ایک طرف رکھ دیتے اور مَیں اُن کے جواب کے لیے ان کے دماغ میں ذرا سی تحریک پیدا کرنے میں ناکام رہتا۔ مَیں انھیں اُن کے مقام سے ذرا برابر بھی نہ سرکا سکتا۔‘‘

ایک انٹرویو میں لارڈ مونٹ بیٹن نے اعتراف کیا کہ اُن کا بطور وائسرائے ہندوستان جانے کا مقصد صرف ہندوستان کو متحد رکھنا اور تقسیم ہند کو روکنا تھا مگر صدر مسلم لیگ محمد علی جناح ایک پہاڑ کی طرح اس راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ اُن کے ارادے تبدیل کرنے کے لیے میری ہر کوشش ناکام رہ گئی اور بالآخر مجھے ان کے سامنے جھکنا پڑا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لارد مونٹ بیٹن اور کانگرس کے گٹھ جوڑ اور سازشی کاروائیوں کے باوجود کانگریسی قائدین کے ہاتھوں صرف اقتدار منتقل ہوا لیکن امت مسلمہ کو حقیقی آزادی کی نعمت نصیب ہوئی جو قائد کے آئینی استدلال، دلیل محکم اور استقامت کے باعث ہی ممکن ہوسکی۔

اسی لیے مسز سروجنی نائیڈو یہ کہنے پر مجبور ہوئی۔ اگر مسلم لیگ کے پاس ایک سوگاندھی، ایک سو نہرو اور ایک سو ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگرس کے پاس صرف ایک جناح ہوتے ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا۔

قائداعظم محمدعلی جناح کی سیاسی زندگی کے درخشاں پہلوئوں کا جائزہ لیں تو وہ اپنے ہم عصر ہندو لیڈروں سے کہیں زیادہ بلند اخلاقی قدروں کے حامل انسان تھے۔ موتی لال نہرو، جواہر لال نہرو، سردار پٹیل اور سب سے بڑھ کر گاندھی جی رواداری اور وسیع النظری کا دعویٰ کرنے کے باوجود تحریک خلافت، نہرو رپورٹ، گول میز کانفرنس کانگرسی وزارتوں اور ہندوستان کے آئینی و قانونی مسائل کے حل کی کوششوں کے دوران منافقتوں اور سیاسی دوغلے پن کا شکار نظر آتے ہیں مگر قائداعظم نے اخلاقیات کو سیاسیات سے کبھی الگ نہ کیا۔ منافقت آپ کے کردار کا کبھی حصہ نہ تھی۔ آپ نے فہم و فراست سے جس راستے کا انتخاب کیا پھر اس سے انحراف کرتے دکھائی نہ دیئے۔ جھوٹ اور دکھاوا آپ کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا تھا۔مثلاً تحریک خلافت کے دوران جب غیر قانونی اقدامات اٹھائے گئے اور سول نافرمانی کا آغاز ہوا تو آپ نے خود کو تحریک سے الگ کرلیا۔ آپ نے اپنی پوری سیاسی جدوجہد میں گاندھی جی یا دوسرے کانگریسی لیڈروںکی طرح قانون شکنی نہیں کی اور نہ ہی جیل گئے۔آپ نے ایک کانگریسی رہنما سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے انداز سیاست کے بارے میں فرمایا:

تمہاری ہمیشہ یہی خواہش رہی ہے کہ جس سے لوگ خوش ہوتے ہوں تم وہی کرو لیکن میرا کام کرنے کا طریقہ مختلف ہے میں سب سے پہلے فیصلہ کرتا ہوں کہ درست کیا اور صحیح کیا ہے اور پھر اپنے فیصلے کے مطابق کام کرتاہوں۔ یوں لوگ میری پیروی کرنے لگتے ہیں اورمخالفت مٹ جاتی ہے۔

سیاست کی طرح آپ نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں بھی اعلیٰ اخلاقی قدروں کو پامال نہ ہونے دیا۔ محنت شاقہ کی بدولت آپ صفحہ اول کے وکلا میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کی فیس ایک ہزار روپے فی گھنٹہ تھی۔ ایک مرتبہ آپ کے موکل نے آپ کو اپنے مقدمے کے کاغذات پڑھنے کے لیے 10 ہزار روپے دیئے تو آپ نے کاغذات پڑھنے کے بعد 6500 روپے واپس کردیئے اور فرمایا کہ میں نے ساڑھے تین گھنٹے میں ان کا مطالعہ کرلیا تھا۔

1940ء سے 1947ء تک کے ہنگامہ خیز دور میں آپ رائے عامہ کو پاکستان کے حق میں کرنے کے لیے طوفانی دورے کرتے ایک مرتبہ گاندھی جی نے طنز کرتے ہوئے کہا میں ایک امیر قوم کا رہنما ہوںمگر سفر ہمیشہ ریل کے تیسرے درجے میں کرتا ہوں لیکن قائداعظم ایک غریب اور مفلس قوم کے رہنما ہیں مگر ایئر کنڈیشنڈ ڈبے میں سفر کرتے ہیں۔ آخرمسلم لیگ اتنے اخراجات کیوںاٹھاتی ہے۔آپ نے مسکراکر جواب دیا:

مسٹر گاندھی بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ میں ایئر کنڈیشنڈ ڈبوں میں سفر کرتا ہوں اور وہ تھرڈ کلاس میں آتے جاتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں اپنا کرایہ اپنی جیب سے اداکرتاہوں اور ان کے سفرکا خرچ کانگرس کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔

تاریخ و سیاسیات کے نامور محقق ڈاکٹر صفدر محمود کے مطابق پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بننے کے بعد ایک مرتبہ قائد کے چھوٹے بھائی ان سے ملنے آئے اور کارڈ پر لکھا:

بردر آف گورنر جنرل آپ اقربا پروری کو اس قدر ناپسند کرتے تھے کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے بردر آف گورنر جنرل کے الفاظ کاٹ دیئے اور بھائی کو پیغام بھیجا کہ ملاقات کے لیے پہلے سے وقت لینا ضروری ہے۔

آپ کے اعلیٰ و ارفع افکار ونظریات، کردار کی بلند حوصلگی، خوداعتمادی، مقصد سے عشق، مسلسل محنت و مستقل مزاجی ہمیشہ سے نوجوان نسل اور طلبا کے لیے مشعل راہ رہی ہے۔ آپ کو مسلم نوجوان طلبہ سے بہت سی امیدیں تھیں۔مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، اسلامیہ کالج لاہور اور اسلامیہ کالج پشاور حریت پسند مسلمان طلبہ کے مرکز تھے۔ آپ کو جب بھی ان اداروں سے خطاب کی دعوت ملتی آپ فوراً قبول کرلیتے۔مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے طلبا سے 1941ء میں لاہور میں خطاب کرتے ہوئے ان کی رہنمائی ان الفاظ میں فرمائی:

دولت کا چھن جانا کوئی معنی نہیں رکھتا
جرات چھن گئی تو کافی کچھ ضائع ہوگیا
عزت چھن گئی تو زیادہ تر ضائع ہوگیا
حوصلہ و روح چھن گئی تو سب کچھ ضائع ہوگیا

آپ نوجوانوںکے ذریعے قوم کو یہی پیغام دیتے رہے کہ جدوجہد کے صبر آزما لمحوں میں حوصلہ نہیں ہارنا۔ جذبہ جنوں اور روح کو زندہ رکھتاہے۔

قیام پاکستان کے ابتدائی ایام میں ایک محفل میں آپ کی ملاقات خاتون رہنما بیگم شائستہ اکرام اللہ سے ہوئی۔ آپ نے پوچھا شائستہ پاکستان بن گیا۔ اب تم کیسا محسوس کرتی ہو۔ انھوں نے جواب دیا بہت سکون محسوس کرتی ہوں مگر قائداعظم دلی کا اُفق مجھے یہاں دکھائی نہیں دیتا جس پر لال قلعہ، شاہجہانی مسجد اور قطب مینار کے گنبد و مینار ابھرے ہوئے تھے۔ قائداعظم نے کچھ سوچ کر جواب دیا:

تم Formکا تحفظ چاہتی تھی یا روح کا۔ اگر روح محفوظ ہوگئی تو ہم یہاں بھی وہی گنبد و مینار پیدا کرلیں گے۔

قائداعظم محمد علی جناحؒ نہ تو مذہبی مصلح تھے اور نہ مذہبی پیشوا اور نہ انھوں نے کبھی ایسا دعویٰ کیا مگر مشیت الہٰی کی بدولت اپنے فکرو عمل سے اس خطہ ارضی میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور تہذیب اسلامی کے احیاء کے لیے ایک ایسا وطن معرض وجود میں لانے میں کامیاب ہوئے جو دس کروڑ مسلمانوں کی امنگوں کا ترجمان، ان کی مذہبی آزادی معاشی خوشحالی اور تہذیبی حقوق کا ضامن تھا۔ مگر اس راہ پُر خار کی آبلہ پائی میں انھوں نے اپنی صحت، جوانی اور ذاتی زندگی کا آرام و سکون سب کھودیا بلکہ اپنا تن من دھن اس وطن اور اس کے باسیوں پر نچھاور کردیا۔ آپ نے اپنی املاک و جائیداد اسلامیہ کالج پشاور، سندھ مدرسۃ الاسلام اور علی گڑھ یونیورسٹی کے نام وقف کرکے قوم کے نوجوان طلبہ کو اپنی حقیقی وارث قرار دے دیا۔ انھوںنے اپنی صحت کی قربانی دی تاکہ ہم صحت یاب ہوسکیں۔ انھوں نے نیند کو خود پر حرام کیا تاکہ آرام کی نیند مسلمانوں کا مقدر بنے۔ انھوں نے عمر بھر کے اثاثے مسلم تعلیمی اداروں کو منتقل کردیئے تاکہ ہم علم کی دولت سے بہرہ مند ہوسکیں۔ آپ نے جو رشتہ اپنی قوم کے ساتھ استوار کیا ایسا رشتہ کبھی فنا نہیں ہوتا بدستور قائم رہتا ہے۔ وہ اپنی ذات، اپنی انا اور اپنے مفاد سے بالاتر مسلمانوںکی ذات، مسلمانوں کی ملی انا اور مسلمانوں کے مفاد کے ساتھ وابستہ و پیوستہ تھے۔ اسی رشتے کی قوت پر وہ ایک زندہ رہنما ہیں۔ آپ کے پُرمغز بیانات، اعلانات، خطابات و تقاریر مستقبل کا لائحہ عمل فراہم کرتے ہیں جس سے قوم آج بھی استفادہ کرسکتی ہے۔یقینا آپ کل بھی میر کارواں تھے اور آج بھی میر کارواں ہیں۔

نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیے
نگہہ بلند سخن دلنواز جا پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے