مرتبہ: نور فاطمہ

جسمانی امراض غذائی بداعتدالی سے لاحق ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید میں فرماتے ہیں: ’’کھاؤ پیو مگر اسراف نہ کرو۔‘‘

تاجدارِ مدینہ شافی روزِ محشر نبی مکرم ﷺ کی حیات طیبہ اعتدال کا ایک بے مثال عملی نمونہ تھی۔ اس لیے اگر ہم حضور اکرم ﷺ کی پیروی کریں تو ہم ظاہری جسمانی و باطنی امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

غذائی بداعتدالی کی کئی صورتیں:

  • ضرورت سے زائد غذا لے لینا۔
  • ہر وقت جانوروں کی طرح چرتے رہنا۔
  • غذا میں مزاجی عدم استحکام (بلا مصلح)
  • باسی غذائیں۔
  • جی نہ چاہتے ہوئے زبردستی غذا لینی پڑے۔
  • غذا کو مکمل چبائے بغیر حلق میں اتار لینا۔
  • کھانے کے اختتام پر پانی پینے کی عادت۔
  • مسلسل ایک ہی قسم کی کوئی پسندیدہ غذا کا استعمال۔
  • غذا بنانے میں حفظانِ صحت کے اصولوں سے انحراف۔
  • رات کا کھانا کھا کر فوراً سو جانا۔
  • غذاؤں میں روغن کا کثرت سے استعمال۔
  • غذا میں تیز مرچ مصالحوں کا استعمال۔
  • پکنے میں کچی رہ جانے والی غذائیں۔

علاوہ ازیں موسمی اثرات بدلتے موسم بھی کمزور جسموں کو کسی نہ کسی مرض میں مبتلا کردیتے ہیں۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ جاندار جسموں میں جب کسی بھی غیر فطری عمل کی بناء پر عدم توازن کی صورت رونما ہوتی ہے تو اجسام علیل ہوجاتے ہیں اور علیل جسم کو شفاء سے ہمکنار کرنا سنتِ رسول ﷺ ہے تاکہ جسمانی علالت و کمزوری کی بناء پر احکامِ شریعت کی پیروی میں کوتاہی نہ ہوجائے۔ اس لیے لاحق ہونے والی جسمانی تکالیف کا علاج اصول کے مطابق کرنا ضروری ہے جیسا کہ حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔

امام مسلمؒ نے صحیح مسلم میں ابوزبیر کی حدیث جو جار بن عبداللہؓ کی سند سے مروی ہے روایت کی ہے کہ:

’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر مرض کا علاج موجود ہے، جب دوا کا استعمال مرض کے مطابق کیا جاتا ہے تو حکم الہٰی کے طفیل شفاء ہوجاتی ہے۔‘‘

مسلم نے مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کو اپنی کتاب کے باب السلام میں بذیل حدیث (2204) ذکر کیا ہے، جس میں انہوں نے باب قائم کیا ہے کہ ’’ہر بیماری کے لیے دوا ہے اور دوا کرنا مستحب ہے۔‘‘

صحیحین میں عطاء نے جلیل القدر صحابی حضرت ابوہرییرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ اللہ تبارک تعالیٰ نے دنیا میں جب کوئی مرض پیدا فرمائی تو اس کی شفاء اور دوا بھی ساتھ ہی ساتھ نازل فرمائی۔ (بخاری شریف)

حالتِ مرض میں دوا لینی ضروری ہے جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ سے ثابت ہے:

مسند امام احمدؒ میں حضرت زیاد رضی اللہ عنہ بن علاقہ کی حدیث جو اسامہ رضی اللہ عنہ بن شریک کی وساطت سے بیان کی گئی ہے، جس میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھا کہ کچھ دیہاتی باشندے حاضر ہوئے اور نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ اے رسول اللہ ﷺ ہم دوا لیں؟ آپ ﷺ نے ارشادِ مبارک فرمایا ہوں، اے اللہ کے بندو! ضرور دوا کرو، اس لیے کہ رب تعالیٰ نے جو مرض دنیا میں پیدا کی اس کی شفاء و دوا بھی پیدا کی، صرف ایک بیماری کی کوئی دوانہیں پیدا فرمائی۔

لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ وہ کون سی بیماری ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا بڑھاپا جو لاعلاج ہے۔

مندرجہ بالا حدیث کو احمد نے 27814 اور ابن ماجہ نے بذیل حدیث نمبر 3436 اور ابوداؤد نے بذیل حدیث نمبر3855 اول طب میں ذکر کیا ہے اور ترمذی نے حدیث نمبر2039 فی الطب میں اس باب کے ساتھ کہ علاج بالدوا اور اس پر لوگوںکو ابھارنا کہ علاج کریں گے کے ذیل میں تحریر کیا ہے۔ اس کی اسناد درست ہیں۔ ابن حبان نے حدیث نمبر1924, 1395 کے ذیل میں اور بوصیری نے اپنی زوائد میں بیان کیا، ترمذی نے اسے حدیث حسن صحیح کہا ہے اور اس باب میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، ابوخزاعہ رضی اللہ عنہ عن ابیہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے۔

علاج معالجہ باقاعدہ ایک مکمل علم ہے جس کا جاننا اور کوشش ایک کامیاب معالج کے لیے ضروری ہے جیسا کہ ذیل کی حدیث سے ثابت ہے۔

مسند احمد میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی وساطت سے بیان ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے کوئی مرض دنیا میں ایسی نہیں بھیجی جس کے لیے شفاء نہ نازل کی ہو جنہوں نے جاننا چاہا انہیں بتایا اور جنہوں نے پرواہ کی انہیں ناواقف رکھا۔‘‘

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کو احمدنے بذیل حدیث 4334, 4267, 4236, 3922, 3578 اور ابن ماجہ نے 3438 میں ذکر کیا ہے اس کی اسناد صحیح ہے۔ بوصیری نے اپنی زوائد میں اور حاکم نے 197/4196/4 میں اس کا ذکر رقم کیا ہے اور علامہ ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے۔

دوائیں دم درود یقینا شفائی اثرات کے حامل ہیں تب ہی ان کے استعمال اور تائید خداوندی سے مریض شفاء پاتاہے جیسا کہ ذیل کی حدیث مبارکہ سے ثابت ہے جو کہ مسندو سنن دونوں میں ابو خزامہ رضی اللہ عنہ کی وساطت سے رقم ہے۔

’’کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا آپ ﷺ کے سامنے ہے کہ ہم جھاڑ پھونک کرتے ہیں اور دواؤں کا استعمال کرتے ہیں اور بیسیوں پرہیز کرتے ہیں جن سے نفع ہوتا ہے تو کیا تقدیر الہٰی کی اس سے مخالفت تونہیں ہوتی آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ بھی تو تقدیر الہٰی ہے کہ یہ ساری چیزیں اپنا اثر دکھاتی ہیں۔‘‘

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کو احمد نے 421/3 اور ترمذی نے حدیث نمبر2066 کے تحت اور حاکم نے 1199/4 اور ابن ماجہ نے 3437 میں ذکر کیا ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی نامعلوم ہے اور باقی رجال سند ثقہ ہیں، اگر ابوخزامہ کے حالات و واقعات تہذیب میں پڑھیں اور اس باب میں حاکم نے 199/4 میں حکیم بن حزام سے روایت بیان کی ہے جس کی صحت اور موافقت علامہ ذہبی نے بھی کی ہے۔

دکھی انسانیت کو جگہ جگہ تکالیف سے شفاء کے لیے بے شمار حدیث مبارکہ کی وساطت سے راہنمائی کی گئی ہے جن کا ذکر اگلے صفحات پر آتا رہے گا۔

عموماً جسمانی امراض غذائی بداعتدالی کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں اسی لیے ذیل کی حدیث مبارکہ میں خصوصی طور پر پیٹ بھر کر کھانے والوں کو خبردار کیا گیا ہے کیونکہ مادی امراض کی ابتدا غذا اور معدہ سے شروع ہوتی ہے۔

احمد نے 132/4 میں اور ترمذی نے بذیل حدیث نمبر11281 اور ابن ماجہ نے بذیل حدیث نمبر33349 میں ذیل کی حدیث مبارکہ کا ذکر کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔

حدیث مبارکہ ہے:

’’کسی خالی برتن کو بھرنا اتنا برانہیں ہے جتنا کہ آدمی کا خالی شکم بھرنا، انسان کے لیے چند لقمہ کافی ہیں، جو اس کی توانائی کو باقی رکھیں، اگر پیٹ بھرنے کا ہی خیال ہے اور اس سے مضر نہ ہو تو ایک تہائی کھانا ایک تہائی پانی اور ایک تہائی حفاظتِ نفس کے لیے رکھے۔‘‘

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے جہاں غذائی اعتدال کا فارمولا ملتا ہے وہاں ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ بالا حدیث مبارکہ پر عمل پیرا ہوکر جہاں ہم جسمانی امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں وہاں ہم باطنی طور پر نفسِ امارہ کی سرکشی سے محفوظ رہ سکتے ہیں جو کہ ہر وقت ہمارے ایمان کو داغ دارکرنے کے لیے چوکس رہتاہے۔ سبحان اللہ محض غذائی اعتدال سے جسم بھی محفوظ اور روح بھی اور سب سے بڑھ کر ایمان بھی۔

آپ نے اکثر دیکھا ہوگاکہ جب ہم غیر منتخب شدہ یا کثرت سے غذا کا استعمال کرتے ہیں اور یہ بدپرہیزی ایک عادت بنالیتے ہیں تب امراض کا ایک اچھا خاصا جم غفیر جسم و جاں کو اپنا مسکن بناکر جسمانی و روحانی طور پر ہمیں مفلوج کردیتا ہے۔

جسمانی امراض سے بچنے کے لیے ہمیں آپ ﷺ کی ہدایات پر سختی سے کاربند رہنا ہوگا جوکہ ہمارے دین اور ہماری جسمانی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

فرمانِ رسول عربی ﷺ ہے کہ:

’’انسان کو وہی لقمے کافی یں جن سے اس کی پشت مضبوط ہو اس کی قوت کو زوال نہ ہو اور جس سے ضعف بدن نہ ہونے پائے۔ اگر اس سے زیادہ کھانا چاہتا ہے تو اپنے شکم کا ایک تہائی کھانا کھائے اور دوسری تہائی پانی کے لیے چھوڑ دے اور تیسری تہائی خود اپنے لیے باقی رکھے۔‘‘

غذائی بد اعتدالی کی بناء پر زیادت مادہ کی وجہ سے افعال جسم متاثر ہوتے ہیں اور ہمیں اکثر و بیشتر ان افعالی بگاڑ سے واسطہ پڑتا رہتا ہے جس کے رد عمل میں مختلف امراض جنم لیتے رہتے ہیں۔

غذا انسانی جسم کے لیے ایک ضروری جزو ہے جیسا کہ زندہ رہنے کے لیے آکسیجن ضروری ہے۔ غذا انسانی جسم کے لیے ضروری تو ہے لیکن کتنی ضروری ہے یہی حکمت ہے۔ پہلے یہ دیکھنا ہے بحساب عمر انسان کو کتنی غذاکی ضرورت ہے یعنی یہ طے پایا کہ ایک انسان کو 80 فیصد غذا کی ضرورت ہے تو اب ہم نے یہ حکمتِ عملی اپنانی ہے کہ جسم انسانی کو 80 فیصد غذا کی ضرورت ہے لیکن کم از کم غذا کی مقدار کون سی ہونی چاہئے جس سے جسم انسانی کے افعال متاثر نہ ہوں اور انسان روزمرہ کے تمام کاموں کو بآسانی انجام دے لے۔ جیساکہ گذشتہ سطور میں حدیث مبارکہ موجود ہے جس میں رسول عربی ﷺ کا فرمان خوشبودار ہے کہ انسان کو وہی لقمے کافی ہیں جن سے اس کی پشت مضبوط ہو، اس کی قوت کو زوال نہ ہو اور جس سے ضعفِ بدن نہ ہونے پائے اور اگر زیادہ کھانا چاہے تو اپنے پیٹ کا ایک تہائی کھانا کھائے اور ایک تہائی پانی کے لیے چھوڑ دے اور ایک تہائی خود اپنے لیے باقی رکھے۔

غذا لینے کا یہ فلسفہ آفاقی ہے اس پر عمل کرنے سے یقینا تمام ایسے امراض سے انشورڈ ہوجاتے ہیں جن کی ابتدا معدہ میں غذائی عدم توازن کی بنا پر ہوتی ہے۔

اگر ہم کھانا مقدارمیں زیادہ کھالیں تو یقینا پانی کے لیے جگہ کم پڑ جائے گی اور اگر پانی مقدار سے زیادہ لیا جائے یقینا شکمی بدنظمی کی وجہ سے بے چینی اور مقام معدہ پر بوجھ کا احساس غالب آجائے گا جسم تھکا ماندہ محسوس ہوگا اور اگر پانی کم لیں گے تو امراض کی ماں قبض سے واسطہ پڑ جائے گا۔

تجربات سابقہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سیر ہوکر کھانا بدنی قوتوں میں ضعف پیدا کردیتا ہے۔

امراض چونکہ ہماری لاقانونیت کی بناء پر ہمارے جسموں میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور ہم چونکہ قوانین توڑنے کے مرتکب ہوچکے ہوتے ہیں اس لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی ان کوتاہیوں کی معافی اللہ تبارک وتعالیٰ سے مانگنی چاہیے اور بعد ازاں لاحق مرض سے نجات کے لیے دعا کرنی چاہیے اور پھر علاج بالادویہ یا علاج بالادعیہ یعنی آیات مبارکہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔