عورت کی معاشرے میں ہمہ جہت شخصیت

مناہل عروج

عورت معاشرے کی اکائی ہے۔ عورت معاشرے کا وہ ستون ہے کہ جس کے بغیر معاشرہ پروان نہیں چڑھ سکتا۔ معاشرے میں عورت کا کردار باحیا ہے اور اسی میں ہی عورت کی خوبصورتی پوشیدہ ہے۔ حیا کا تعلق عورت کے لباس، رنگ، ذات، جسم، یا خون سے ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اس کے دل اور روح سے ہے۔ جسم کا وہ پاکیزہ حصہ کہ جس میں اللہ عزوجل رہتا ہے کہ وہ روح جو انسان کو انسانیت، محبت اور باہمی یکجہتی سکھاتی ہے۔ باکردار وہ عورت ہے کہ جس کے دل اور روح میں اللہ اور محرم رشتوں کے علاوہ اور کسی کی محبت نہیں بستی

کامیاب انسان وہ ہے کہ جو دل کے رشتوں پر خون کے رشتوں کو اہمیت دے۔ عورت ایک نہایت نازک شے ہے مگر معاشرہ عورت کے بغیر نامکمل ہے۔ معاشرے میں عورت کا کردار بہت اہم ہے اور اس کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہیں۔ معاشرے میں ایک عورت کی حیثیت درج ذیل جہتوں سے واضح کی گئی ہے۔

بحیثیت ماں

اسلام سے قبل (عورت) ماں کی معاشرے میں کوئی عزت نہ تھی۔ اسے پاؤں کی مٹی کی دھول سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے اسی ماں کے قدموں کی دھول میں جنت رکھ دی یہاں تک کہ اولاد پر بھی سب سے پہلا حق اس کی ماں کو حاصل ہوا۔ اولاد کا فرض ہے کہ اپنے ماں باپ کی خدمت و اتباع کریں اور جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے جذبات و احساسات کا خاص طور پر خیال رکھا جائے اور جب وہ انتقال کر جائیں تو ان کے لیے مغفرت کی دعاکریں۔ تونگر وہ لوگ ہیں جن کی ماں حیات ہیں۔

ایک فرمانبردار بیوی کا فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کرے، اس پر ان کے ماں باپ کی خدمت کرنا فرض نہیں ہے لیکن اگر وہ ایسا کرے گی تو یہ ان پر احسان ہے۔ ایک ماں ہی ہے جو اپنے بچے کو رہبر بناتی ہے اور ایک ماں ہی ہے کہ جو اپنے بچے کو غلام بناتی ہے، اس کا انحصار صرف اس کی سوچ اور تربیت پر ہے۔

بیٹی کا کردار:

اسلام سے قبل بیٹیوں کو مفلسی کے ڈر سے قتل کردیا جاتا تھا یا انھیں زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ بیٹی کی پیدائش ان کے لیے ایک شرمندگی کا باعث بنتی۔ لوگ کئی کئی مہینے بیٹی کی پیدائش کا سوگ منایا کرتے تھے۔ لوگ بیٹی کو زحمت سمجھا کرتے تھے مگر اسلام نے بیٹی کو رحمت قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

’’جب میں بیٹی کو پیدا کرتا ہوں تو میں اس کے باپ کا بازو بن جاتا ہوں مگر جب میں بیٹے کو پیدا کرتا ہوں تو اس کو باپ کا بازو بناتا ہوں۔‘‘

والدین کے اوپر اولاد کے مندرجہ ذیل حقوق ہیں:

1۔ اچھے طریقے سے زندگی گزارنے کا

2۔ بنیادی ضروریات (مثلاً لباس، خوراک، رہائش)

3۔ حسب مقدور جدید تعلیم و تربیت کا بندوبست کرنے کا

ان تمام فرائض میں سب سے اہم تعلیم و تربیت ہے۔

بحیثیت بیوی:

ایک بیوی ہی ہے کہ جو اپنے گھر کو جنت جیسا خوبصورت و دلکش اور جہنم جیسا بد اور درد ناک بناسکتی ہے۔ ایک بیوی ہی ہے جو گھر اور معاشرے کا نظام بہتر چلاسکتی ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کی پرورش و تربیت کے مطابق اپنے بچے کی تربیت اس سے بہتر طریقے سے کرنے کی کوشش کریں گے اور معاشرہ ان کی چال اور ان کے چلن کو اپنانے کی بہترین کوشش کرکے اسے مزید ترقی دے سکتا ہے۔ نیک شریک حیا ت کا ملنا کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ:

’’پھر جو عورتیں نیک ہیں، سو اطاعت گزار ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے عورت کی نسبت مرد کو ایک درجہ زیادہ مقام دیا ہے۔ ایک بیوی اپنے شوہر کی بہترین راز داں ہوتی ہے اور وہ شوہر کو مزید خوبصورت اس وقت لگتی ہے، جب وہ اپنے شوہر کی باتوں کا ذکر کسی اور سے نہیں کرتی اور انھیں راز رکھتی ہے۔

بحیثیت بہن:

بہن کا رشتہ ایک بھائی کے لیے ایک نہایت خوبصورت احساس ہے۔ ایک بہن ہی ہے جو اپنے بھائیوں کو پلکوں پر بٹھا کر رکھتی ہے۔ چاہے وہ ان سے کتنا ہی جھگڑا کرلیں مگر ان کا پیار کبھی بھی کم نہیں ہوتا کیونکہ بھائی اور بہن دونوں ہی ایک دوسرے کی جان، شان اور آن ہوتے ہیں۔ ایک بہن ہی ہے جو ماں کے بعد بھائی کی فکر کرتی ہے اور اس کی کفالت کرتی ہے۔ ایک بھائی ہی ہے جو ہمیشہ اپنی بہن کا محافظ بن کر اس کے ساتھ رہتا ہے۔ ایک بھائی ہی ہے کہ جو اپنی عزت ووقار بہن کے حوالے کرتا ہے اور بہن اس کی عزت کا ہمیشہ خیال رکھتی ہے تاکہ وہ فخر سے سربلند کرکے چل سکے۔

بحیثیت استاد:

اسلام نے عورت کو مکمل اجازت دی ہے کہ وہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوئے کوئی بھی کام کرسکتی ہے۔ عورتوں کے لیے پڑھانا ایک بہترین اور عمدہ شعبہ ہے اور یہ سنت بھی ہے کیونکہ حضرت عائشہؓ بھی 200 سے زائد صحابہ کرامؓ کو پڑھایا کرتی تھی۔ استاد کی حیثیت ایک درخت کی سی ہے جو طلبہ کو اپنے سائے میں محفوظ رکھتا ہے اور انھیں پروان چڑھتا دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ استاد وہ ہے کہ جو اپنے طلبہ کو اپنے آگے سے بڑھتا دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ استاد ہی ہے جو طلبہ کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے اور حسد نہیں کرتا۔

معلم ہے جس قوم کا پیشہ حاکم بھی وہاں کے ہیں طلبہ

بحیثیت طلباء:

اسلام میں خواتین و حضرات کو ہر دور کی عمر میں تعلیم حاصل کرنے کو کہا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ

’’پنگھوڑے سے لے کر قبر تک علم حاصل کرو۔‘‘

ایک عورت بحیثیت طالب علم خلوص والی ہوتی ہے وہ علم جو انسان کو نفع بخشے وہ علم ہی حقیقی علم ہے۔ علم سے انسان میں عاجزی آتی ہے نہ کہ غرور و تکبر۔

اللهم انی سالک علما نافعا ورزقا طیبا وعملا متقبلا.

’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، نفع دینے والے علم کا، حلال و پاکیزہ روزی اور قبول ہونے والے کام کا۔‘‘

جس طرح دیگر انبیاء کرام کی دعائیں ہیں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی دعا رب زدنی علما ہے الہیٰ میرے علم میں اضافہ فرما۔

المختصر عورت کی معاشرہ میں ہمہ ججہت حیثیت ہے۔ معاشرہ عورت کے بغیر نامکمل ہے، کامل نہیں ہے۔ عورت ایک بے حد خوبصورت اللہ کی تخلیق ہے۔ اسے اپنی حدود میں رہتے ہوئے ہر کام کرنے کی مکمل اجازت دی گئی ہے۔ اسلام ہی ہے کہ جس نے عورت کو ہر دور میں عزت بخشی اور رسوائی سے محفوظ رکھا۔ ایک عورت ہی ہے کہ جو آسانی سے ہر شے پر قابو پاسکتی ہے۔ عورت کو اسلام میں بھی اعلیٰ مقام حاصل ہے عورت کی عزت ہم سب پر فرض ہے۔