نزولِ قرآن کا بابرکت مہینہ

مرتبہ: حافظہ سحر عنبرین

ماهِ رمضان کے روزے رکھنا ہر مسلمان، بالغ، عاقل، صحت مند، مقیم، مردوعورت پر فرض ہے، جس کی ادائیگی کے ذریعہ خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے اور وہی تقویٰ کی بنیاد ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:

’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘

(البقرة: 183)

’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ میں اشارہ ہے کہ زندگی میں تقویٰ پیدا کرنے کے لیے روزہ کا بڑا اثر ہے۔ اسی ماهِ مبارک کی ایک بابرکت رات میں قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم سماء دنیا پر نازل ہوئی، جس سے استفادہ کی بنیادی شرط بھی تقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد قرآن کریم میں ہے: ’’ یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے متقیوں یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لیے۔‘‘

غرض رمضان اور روزہ کے بنیادی مقاصد میں تقویٰ مشترک ہے۔

قرآن اور رمضان کی پہلی اہم مشترک خصوصیت تقویٰ ہے، جیساکہ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں ذکر کیا گیا۔ دوسری مشترک خصوصیت شفاعت ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:

’’روزہ اور قرآن کریم دونوں بندہ کے لیے شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ عرض کرتا ہے کہ: یااللہ! میں نے اس کو دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا، میری شفاعت قبول کرلیجئے، اور قرآن کہتا ہے کہ: یا اللہ! میں نے رات کو اس کو سونے سے روکا ، میری شفاعت قبول کرلیجئے، پس دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی۔‘‘

(رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر والحاکم وقال صحیح علی شرط مسلم)

تیسری خصوصیت جو رمضان اور قرآن دونوں میں مشترک طور پر پائی جاتی ہے، وہ قربِ الٰہی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کے وقت اللہ تعالیٰ سے خاص قرب حاصل ہوتا ہے، ایسے ہی روزہ دار کو بھی اللہ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے کہ روزہ کے متعلق حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ’’ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔‘‘ مضمون کی طوالت سے بچنے کے لیے قرآن ورمضان کی صرف تین مشترک خصوصیات کے ذکر پر اکتفاء کیا گیا ہے۔

قرآن کریم کو رمضان المبارک سے خاص تعلق اور گہری خصوصیت حاصل ہے، چنانچہ رمضان المبارک میں اس کا نازل ہونا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کا شغل نسبتاً زیادہ رکھنا، حضرت جبرئیل علیہ السلام کا رمضان المبارک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کا دور کرانا، تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کرنا، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگانِ دین کا رمضان میں تلاوت کا خاص اہتمام کرنا، یہ سب امور اس خصوصیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ لہٰذا اس ماہ میں کثرت سے تلاوتِ قرآن میں مشغول رہنا چاہیے۔ ماهِ رمضان کا قرآن کریم سے خاص تعلق ہونے کی سب سے بڑی دلیل قرآن کریم کا ماهِ رمضان میں نازل ہونا ہے۔ اس مبارک ماہ کی ایک بابرکت رات میں اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ سے سماء دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسبِ ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً 23؍ سال کے عرصہ میں قرآن مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کے علاوہ تمام صحیفے بھی رمضان میں نازل ہوئے، جیساکہ مسند احمد میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: مصحف ابراہیمی اور تورات وانجیل سب کا نزول رمضان میں ہی ہوا ہے۔

سورۃ العلق کی ابتدائی چند آیات ’’اِقْرَأْ بِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ....‘‘ سے قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد آنے والی سورۃ القدر میں بیان کیا کہ: قرآن کریم رمضان کی بابرکت رات میں اتراہے، جیساکہ سورۃ الدخان میں ہے:

إِنَّا اَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبَارَکَةٍ.

(الدخان: 3)

یعنی ’’ہم نے اس کتاب کو ایک مبارک رات میں اتارا ہے۔‘‘ اور سورۃ البقرہ میں ہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْآنُ.

(البقرة: 185)

یعنی ’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔‘‘ ان آیات میں یہ مضمون صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ غرض قرآن وحدیث میں واضح دلائل ہونے کی وجہ سے اُمتِ مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم لوحِ محفوظ سے سماء دنیا پر رمضان کی مبارک رات میں ہی نازل ہوا، اس طرح رمضان اور قرآن کریم کا خاص تعلق روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے۔

رمضان اور رغبت تلاوتِ قرآن

قرآنِ حکیم وہ کتابِ روشن ہے جس کے اندر معانی و معارف کے سمندرپنہاں ہیں۔ اس کا حرف حرف لازوال حکمتوں سے معمور ہے۔ یہ کلام الٰہی ہے اور جس طرح ذات باری تعالیٰ ہر نقص و عیب سے پاک ہے اسی طرح اس کا کلام بھی ہر نقص و عیب سے مبرّا اور شک و شبہ سے بالا تر ہے۔جس طرح اللہ تعالی تمام عالمین کا رب اور جملہ مخلوق کا روزی رساں ہے اسی طرح اس کا کلام بھی تمام عالم انسانیت کے لئے سر چشمۂ ہدایت ہے۔یہ کتاب ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اور اس پر عمل پیرا ہوئے بغیر کوئی مسلمان مسلمان نہیں رہ سکتا۔ یہ اقوامِ عالم کو زندگی گزارنے کا وہ راستہ بتاتی ہے جو بالکل سیدھا ہے۔ دنیا و عقبیٰ کے تمام مرحلے اس کے متعین کئے ہوئے راستے پر گامزن ہونے سے طے ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ.

(بنی اسرآئیل، 17: 9)

’’بے شک یہ قرآن اس (منزل ) کی رہنمائی کرتا ہے جو سب سے درست ہے۔‘‘

جیسا کہ اوپر بیان ہوا قرآن حکیم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے ہی ایک مسلمان حقیقی معنیٰ میں مسلمان بنتا ہے ۔بقول علامہ اقبالؔ:

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار

قرآن حکیم، نوعِ انسانی کے لئے اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے جو پیغمبرِ آخر و اعظم سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا۔اس پیغام کو سمجھنا ہرانسان کی ذمہ داری اور ہر مسلمان کی دینی ضرورت ہے۔ بطور خاص اہلِ اسلام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اس کے اوامر و نواہی اور احکام کو سمجھیں اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دیں۔ یہ سب تعلق بالقرآن کے بغیر ممکن نہیں۔

قرآنِ حکیم کے ساتھ تعلق استوار کرنے کا بہترین ذریعہ اس کتابِ الٰہی کی تلاوت ہے۔اس سے کماحقہ استفادہ کے لئے ضروری ہے کہ اسے غور وفکر کے ساتھ پڑھا جائے اور اس میں تدبر کیا جائے۔تلاوت قرآنِ حکیم کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر حرف کو صحیح مخرج سے ادا کیا جائے جو قواعدِ تجوید جانے بغیر ممکن نہیں لہٰذا علم التجوید کا سیکھنا ہرمسلمان کا دینی فریضہ بھی ہے۔

قرآن حکیم ہی وہ یکتا اور منفرد کتاب ہے جس کا حرف حرف حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہے اور اس کو یاد کرنے اور زبانی پڑھنے والے تمام دنیا میں موجود ہیں۔یہ قرآن کا منفرد اعجاز ہے جس کا دعویٰ اس کے علاوہ دنیا کی کوئی کتاب نہیں کرسکتی۔ کوئی آسمانی صحیفہ اور کتاب ایسی نہیں جس کا پورا متن اتنی کثرت سے پڑھا جاتا ہو۔یہ اعزاز اور فضیلت صرف قرآنِ حکیم کو ہی حاصل ہے کہ اس کا ایک حرف پڑھنے والے کے نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، ملائکہ اس کی تلاوت سننے کے لئے زمین پر اترتے ہیں، قرآنِ حکیم کی تلاوت کرنے والے کی تمام خطائیں معاف کر دی جاتی ہیں، اسے عزت و بزرگی کا لباس پہنایا جاتا ہے، اس پر جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ہر آیت کی تلاوت کے بدلے اس کی نیکیاں بڑھا دی جاتی ہے۔

تلاوتِ قرآن خود قرآن کے آئینے میں

یہ اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے مسلمانوں کو قرآنِ حکیم جیسی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا، اس کی قدر کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے والے کو دنیا و آخرت میں طرح طرح کے انعامات و کرامات کا مستحق ٹھہرایا۔ قرآن حکیم کے الفاظ اور معانی دونوں وحی ہیں۔قرأت الفاظ کی کی جاتی ہے جبکہ معانی کو متن قرآن کے حوالے سے سمجھا جاتا ہے۔ لفظ قرآن قرء سے اسم مبالغہ ہے جس کا معنی ہے وہ کتاب جسے بہت زیادہ پڑھا جائے یا بار بار پڑھا جائے۔ تلاوتِ قرآن وہ عظیم سعادت ہے جس کی فضیلت خود قرآن میں جا بجا بیان ہوئی ہے۔متعدد آیات میں قرآن پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے:

1. اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo

(العلق، 96: 1)

’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے ) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو )پیدا فرمایا۔‘‘

2. اِقرَاْ وَرَبُّکَ الأکْرَمُo

(العلق، 96: 3)

’’پڑھئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔‘‘

3. وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاًo

(المزّمّل، 73: 4)

’’اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریں۔‘‘

4. اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ.

(العنکبوت، 29: 45)

’’(اے حبیب مکرم!) آپ وہ کتاب پڑھ کر سنائیے جو آپ کی طرف (بذریعہ) وحی بھیجی گئی ہے۔‘‘

تلاوتِ قرآن چہارگانہ فرائضِ نبوت میں سے ایک ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ دل پر اثر انداز ہو کر انسان کی دل کی دنیا میں انقلاب بپا کر دیتی ہے۔اگر قرآن حکیم کی تلاوت تفکر و تدبر کے ساتھ کی جائے تو انسان اس کے مفاہیم و مطالب تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔

تلاوتِ قرآن کی فضیلت و اہمیت کا بیان چند آیاتِ کریمہ کی روشنی میں درج ذیل پہلوؤں پر مشتمل ہے:

1۔ تلاوتِ قرآن فریضۂ نبوت ہے

قرآن حکیم حضور رحمت عالم ﷺ پرتمام بنی نوع انسان کی طرف الوہی پیغامِ ہدایت کے طور پر اتارا گیا۔ آپ ﷺکے فرائضِ نبوت میں یہ شامل کر دیا گیا کہ آپ ﷺعالم انسانی کو تلاوتِ آیات کے ذریعے اس پیغامِ خداوندی سے آگاہ کریں۔ آپ ﷺکے فریضۂ تلاوتِ آیات کو دیگر فرائضِ نبوت کے ساتھ درج ذیل آیاتِ کریمہ میں بیان کیا گیا:

1. رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلاً مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیـٰتِکَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیْهِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.

(البقرة، 2: 129)

’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (ﷺ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘

2. کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلاً مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.

(البقرة، 2: 151)

’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تم ہی میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفساً و قلباً) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔‘‘

3. لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیـٰتِہٖ وَیُزَکِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَج وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَـلٰلٍ مُّبِیْنٍ.

(آل عمران، 3: 164)

’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ﷺ بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo‘‘

2۔ حقِ تلاوت ادا کرنے والوں کو اُلوہی عنایات کی نوید

قرآن حکیم ان بندوں کا ذکر بطور خاص فرماتا ہے جو کتاب اللہ کو اس کے تمام تر آداب اور حقوق کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

1. اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلاَوَتِہٖ.

(البقرة، 2: 121)

’’وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسے پڑھنے کا حق ہے۔‘‘

تلاوت قرآن کا حق کماحقہ ادا کرنے والے بندوں پر اللہ تعالیٰ کی بے پناہ نوازشات و عنایات ہوتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

2. اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللهِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَ. لِیُوَفِّیَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَیَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِہٖط اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ.

(فاطر، 35: 29، 30)

’’بے شک جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں، پوشیدہ بھی اور ظاہر بھی، اور ایسی (اُخروی) تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارے میں نہیں ہوگی۔ تاکہ اللہ ان کا اجر انہیں پورا پورا عطا فرمائے اور اپنے فضل سے انہیں مزید نوازے، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا ہی شکر قبول فرمانے والا ہے۔‘‘

3۔ تلاوتِ قرآن کا اثر

قرآن حکیم نے تلاوت قرآن سے مستفیض ہونے والے لوگوں پر جو کیفیات طاری ہوتی ہیں ان کو بیان کرتے ہوئے حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ تلاوت قرآن کو غور سے سنتے، سمجھتے اور پھر اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں،انہیں یہ خوشخبری سنائی جائے:

1. فَبَشِّرْ عِبَادِالَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ ط اُولٰـئِکَ الَّذِیْنَ هَدٰهُمُ اللهُ وَاُولٰـئِکَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ.

(الزمر، 39: 17، 18)

’’پس آپ میرے بندوں کو بشارت دے دیجئےo جو لوگ بات کو غور سے سنتے ہیں، پھر اس کے بہتر پہلو کی اتباع کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت فرمائی ہے اور یہی لوگ عقل مند ہیں۔‘‘

2. وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ.

(المائدة، 5: 83)

’’اور (یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بعض سچے عیسائی) جب اس (قرآن) کو سنتے ہیں جو رسول (ﷺ) کی طرف اتارا گیا ہے تو آپ ان کی آنکھوں کو اشک ریز دیکھتے ہیں۔‘‘

حضرت وہیب بن ورد علیہ الرحمۃ نے فرمایا: ’’ہم نے ان احادیث اور مواعظ میں غور کیا تو قرآن حکیم کی قراء ت اس کی سمجھ اور تدبر سے بڑھ کر کسی چیز کو دلوں کو نرم کرنے والا اور غم کو لانے والا نہیں پایا۔ اس طرح قرآن حکیم سے متاثر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اس کی صفت سے موصوف ہو جائے۔‘‘

(غزالی، إحیاء علوم الدین، 1: 714)

3. وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ کَاَنَّهٗ ظُلَّةٌ وَّظَنُّوْٓا اَنَّهٗ وَاقِعٌ م بِهِمْ ج خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰـکُمْ بِقُوَّةٍ وَّاذْکُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.

(الاعراف، 7: 171)

’’اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب ہم نے ان کے اوپر پہاڑ کو (یوں) بلند کردیا جیسا کہ وہ (ایک) سائبان ہو اور وہ (یہ) گمان کرنے لگے کہ ان پر گرنے والا ہے۔ (سو ہم نے ان سے فرمایا، ڈرو نہیں بلکہ) تم وہ (کتاب) مضبوطی سے (عملاً) تھامے رکھو جو ہم نے تمہیں عطا کی ہے اور ان (احکام) کو (خوب) یاد رکھو جو اس میں (مذکور) ہیں تاکہ تم (عذاب سے) بچ جاؤo‘‘

4. وَیُبَیِّنُ اٰیٰـتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ.

(البقرۃ، 2: 221)

’’اور اپنی آیتیں لوگوں کے لئے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‘‘

اَحادیثِ نبوی ﷺ میں تلاوتِ قرآن کی فضیلت

تلاوتِ قرآن کی اہمیت و فضیلت اورافادیت کا بیان بہت سی احادیث میں وارد ہوا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا حضور نبی اکرم ﷺ صاحب قرآن ہیں۔اور تلاوت قرآن آپ ﷺ کے فرائض نبوت کا اہم حصہ تھا۔ جبریل امین ہر رمضان المبارک میں آپ ﷺ کے ساتھ قرآن کریم کا دور فرماتے تھے۔آقائے کائنات ﷺ صحابہ کرام کو قرآن پڑھنے کی ترغیب کے ساتھ اس میں غور و فکر کی تلقین فرماتے۔آپ ﷺ اپنی زبان حق ترجمان سے قرآن کی جو تفسیر بیان فرماتے صحابہ کرام اپنے سینوں میں محفوظ کر لیتے۔وہ اسی نبوی تفسیر کی روشنی میں قرآن کا مطالعہ کرتے اور آیات ربانی میں غور و فکر کرتے۔ان کی تلاوت قرآن اور محبت قرآن کا یہ عالم تھا کہ ہزارہا صحابہ کرام حفاظِ قرآن بن گئے۔ اس تاریخی پس منظرسے حدیث نبوی ﷺ ﷺ میں قراء ت و تلاوت قرآن کی اہمیت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔فضائل قرآن پر بہت سی احادیث مبارکہ موجو د ہیں، ان میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں

1۔ تلاوتِ قرآن افضل ترین عبادت ہے

انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے، عبادت کی مختلف صورتیں ہیں۔ہر صورت کا اپنا رنگ اور ذوق ہے۔ہر ایک کی اپنی فضیلت ہے۔ تلاوتِ قرآن افضل ترین عبادت میں سے ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر ص بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

اَفْضَلُ عِبَادَةِ أمَّتِيْ قرائةُ الْقُرْآنِ.

( بیهقی، شعب الإیمان، 2: 354، رقم: 2022)

’’میری امت کی سب سے افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے۔‘‘

2۔ ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں

تلاوتِ قرآن کے اجر و ثواب کا یہ عالم ہے کہ ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ کِتَابِ اللهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِھَا، لَا أَقُوْلُ الٓمٓ حَرْفٌ، وَلَکِنْ ألِفٌ، حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیْمٌ حَرْفٌ۔

(ترمذی، الجامع الصحیح، أبواب فضائل القرآن، باب ما جاء فیمن قرأ حَرفًا من القرآن، 5: 33، رقم: 2910)

’’جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے اس کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے۔میں نہیں کہتا الم ایک حرف ہے،بلکہ الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔‘‘

3۔ تلاوتِ قرآن سے سکینہ کا نزول

تلاوتِ قرآن کی برکت سے سکینہ نازل ہوتی ہے۔ حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ روایت بیان کرتے ہیںکہ ایک شخص سورۂ کہف پڑھ رہا تھا اور اس کے قریب ہی ایک گھوڑا دو رسیوں سے بندھا ہوا تھا، اتنے میں ایک بادل اس پر سایہ فگن ہو گیا،وہ بادل قریب ہوتا گیا اور اس کا گھوڑا بدکنے لگا۔جب صبح ہوئی وہ حضور نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپﷺنے فرمایا: وہ سکینہ تھی جو تلاوتِ قرآن کے باعث اتری تھی۔‘‘

سکینہ سے مراد اللہ کی عطا کردہ وہ رحمت و طمانیت ہے جو قرآنِ حکیم کی تلاوت کرنے والے کے دل پر نازل ہوتی ہے اور وہ سکون محسوس کرتاہے۔

(بخاری، الصحیح، کتاب فضائل القرآن، باب فضل سورۃ الکهف، 4: 1914، رقم: 4724)

4۔ تلاوتِ قرآن سے فرشتوں کا نزول

فرشتے تلاوتِ قرآن سننے کے لئے زمین پر اترتے ہیں۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اسید بن حضیررضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ وہ رات کے وقت سورۃ البقرۃ پڑھ رہے تھے اور نزدیک ہی ان کا گھوڑا بندھا ہوا تھا۔ اسی اثناء میں گھوڑا بدکنے لگا۔ وہ خاموش ہو گئے تو وہ بھی رک گیا، وہ دوبارہ پڑھنے لگے تو گھوڑا پھر بدکنے لگا۔ وہ پھر خاموش ہو گئے تو گھوڑا بھی ٹھہر گیا۔ جب تیسری بار پڑھنے پر بھی گھوڑا بدکا تو وہ رک گئے کیونکہ ان کا صاحبزادہ یحییٰ گھوڑے کے قریب (سویا ہوا) تھا اور انہیں ڈر ہوا کہ گھوڑا اپنے سموں سے اسے کچل نہ دے۔ جب وہ لڑکے کو ہٹا چکے تو آسمان کی جانب دیکھا لیکن انہیں کچھ نظر نہ آیا۔ صبح کے وقت حضور نبی اکرمﷺ سے یہ واقعہ عرض کیا گیا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ابن حضیر! پڑھو۔ اے ابن حضیر! پڑھو۔ وہ عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! مجھے خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں وہ یحییٰ کو نہ کچل دے جو قریب ہی سویا ہوا تھا۔ لہٰذا میں نے سر اٹھا کر دیکھا اور اس کے پاس جاکر اسے ہٹایا۔ پھر میں نے آسمان کی جانب نگاہ اٹھائی تو ایک چھتری جیسی چیز دیکھی جس میں چراغ کی مانند کوئی چیز روشن تھی ۔جب میں باہر نکلا تو کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی۔ فرمایا تم جانتے ہو وہ کیا چیز تھی؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ آپﷺ نے فرمایا: وہ فرشتے تھے۔ اگرتم تلاوت جاری رکھتے تو وہ بھی صبح تک اس طرح رہتے اور لوگ بھی واضح طور پر ان کا مشاہدہ کرتے۔‘‘

(بخاری، الصحیح، کتاب فضائل القرآن، باب نزول السَّکِینَةِ وَالملائکِة عِنْدَ قِرَائَةِ القرآن، 4: 1916، رقم: 4730)

5۔ قرآن پڑھنے والے کاجنت میں اِعزاز و اِکرام

روزِ قیامت قرآنِ حکیم کی کثرت سے تلاوت کرنے اور اس کے معانی سمجھنے والوں کو عزت و شرف کے تاج اور لباس سے آراستہ کیا جائے گا اور حکم دیا جائے گا کہ جنت کے بلند درجوں میں چڑھتے چلے جائیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺنے فرمایا:

یُقَالُ یَعْنِي لِصَاحِبِ القُرْآنِ: اِقْرَأ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْیَا، فَإِنَّ مَنْزِلَتَکَ عِنْدَ آخِرِ آیَةٍ تَقْرَأُ بِهَا.

(ترمذی، الجامع الصحیح، أبواب فضائل القرآن، باب ماجاء فیمن قرأ حرفًا من القرآن ماله من الأجر، 5: 36، رقم: 2914)

’’قرآن پڑھنے والے سے (جنت میں) کہا جائے گا: قرآن پڑھتا جا اور جنت میں منزل بہ منزل اوپر چڑھتا جا اور یوں ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسے دنیا میں پڑھتا تھا، تیرا ٹھکانہ جنت میں وہاں پر ہو گا جہاں تو آخری آیت کی تلاوت ختم کرے گا۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

’’روزِ قیامت صاحبِ قرآن (قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والا) آئے گا تو قرآن کہے گا: اے رب! اسے زیور پہنا، تو حاملِ قرآن کو عزت کا تاج پہنایا جائے گا۔ قرآن پھر کہے گا: اے میرے رب! اسے اور بھی پہنا، تو اسے عزت و بزرگی کا لباس پہنایا جائے گا۔ پھر قرآن کہے گا: اے میرے مولا! اب تو اس سے راضی ہو جا (اس کی تمام خطائیں معاف فرمادے) تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے گا اور اس سے کہا جائے گا: قرآن پڑھتا جا اور (جنت کے زینے) چڑھتا جا ،اور ہر آیت کے بدلے میں اس کی نیکی بڑھتی جائے گی۔‘‘

( ترمذي، الجامع الصحیح، أبواب فضائل القرآن عن رسول اللہ ﷺ، باب ما جاء فیمن قرأ حرفًا من القرآن ماله من الأجر، 5: 36، رقم: 2915)

حضرت سہل بن معاذؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’جس نے قرآن پاک پڑھا اور اس پر عمل بھی کیا اس کے ماں باپ کو قیامت کے دن ایک ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی اس دنیا میں لوگوں کے گھروں میں چمکنے والے سورج کی روشنی سے زیادہ تابناک اور حسین ہو گی۔ تو اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جس نے خود اس پر عمل کیا؟ (یعنی اس کے ماں باپ کو تو تاج پہنایا جائے گا اور اس کا اپنا مقام کیا ہوگا وہ اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے)۔‘‘

(أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب: في ثواب قرأة القرآن، 1: 540، رقم: 1453)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺنے فرمایا:

’’جنت کے درجات قرآن کی آیات کی تعداد کے برابر ہیں۔ پس جنت میں داخل ہونے والوں میں سے کوئی ایک بھی درجہ میں قرآن پڑھنے والے سے اوپروالے درجہ میں نہیں ہوگا۔‘‘

(ابن أبي شیبة، المصنف، 6: 120، رقم: 29952)

اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ محب قرآن کو جنت میں انبیاء کے درجہ میں ان کی سنگت نصیب ہوگی۔