محمد علی ظہوری قصوری / ریاض حسین چودھری

حمد باری تعالیٰ جل جلالہ

لائق حمد بھی ثنا بھی تو میرا معبود بھی خدا بھی تو تیرے اسرار کون جان سکے سب میں موجود اور جدا بھی تو بے نواؤں کی آخری امید بے سہاروں کا آسرا بھی تو التجا سب تیرے حضور کریں سب کی سنتا رہے دعا بھی تو تو ہی سب سے بڑا مسیحا ہے سب مریضوں کو دے شفا بھی تو جو نہ کوئی بھی جانے تو جانے آرزو تو ہے اور رضا بھی تو تیرے در کے سبھی سوالی ہیں اور ظہوری کی ہی صدا بھی تو (محمد علی ظہوری قصوری)

نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

مقفل ہو نہیں سکتا کبھی در قَصرِ رحمت کا کھلا ہے حشر تک بابِ کرم شہرِ رسالت کا ثنائے مرسلِ آخر (ص) رقم کرتے نہیں تھکتی مقدر کیا مقدر ہے مری کلکِ مودت کا خزانے خلعتِ انوار میں ملبوس فرمایا سرِ اقدس پہ رکھا تاج امت کی شفاعت کا رسولوں کے رسولِ محتشم (ص) کا ایک شاعر ہوں کوئی اندازہ ہوگا تاجروں کو میری قیمت کا کتابِ عشق کا پہلا ورق الٹا نہیں جاتا کہ اس پر نام ہے لکھا ہوا سالارِ امت (ص) کا چرا کوئی نہ لے زنجیر شہرِ زر کی گلیوں میں مجھے دھڑکا لگا رہتا ہے دیوانے کی دولت کا کسی کی رہنمائی کی ضرورت اب نہیں باقی فقط سکّہ چلے گا حشر تک اُن (ص) کی قیادت کا ندامت آگ بن کر جب بدن میں پھیل جاتی ہے خنک سایہ اتر آتا ہے اُن (ص) کے دستِ شفقت کا ابد کے نشئی رحمت کی پڑھ تحریر تو غافل سرِ تسلیم خم روزِ ازل سے ہے عقیدت کا پلٹ کر میں مدینے میں نہ آؤں تو کہاں جاؤں نہیں طے مرحلہ ہوتا، مرے آقا (ص)، اذیت کا حضور (ص) اپنے تشخص کی علامت ایک مجھے ملتی ابھی تک سامنا ہے آئینہ خانے میں حیرت کا مری ہر شاخ پر صلِ علی کے پھول کھلتے ہیں مجھے اعزاز حاصل خلدِ طیبہ کی ہے نسبت کا قلم روزِ ازل سے مفتخر اُن (ص) کی ثنا پر ہے ہوا کب اور کہاں یہ مرتکب کفرانِ نعمت کا یہ میری بدنصیبی میں رہا ہوں حلقہ شب میں کبھی خورشید ڈوبا ہی نہیں اُن (ص) کی شریعت کا مجھے ابلیس زادوں کی ہے سنگت جان سے پیاری اندھیرا اس لئے ہے ہر طرف قصرِ مذلت کا کرے ارض و سما کا ذرہ ذرہ بھی ثنا اُن (ص) کی ازل سے یہ تقاضا ہے ریاض اُس کی مشیت کا (ریاض حسین چودھری)