چیف ایڈیٹر

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سانحہ لال مسجد کے منفی اثرات کاجائزہ

لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا سانحہ جتنا افسوسناک ہے اس سے زیادہ پیچیدہ اور خوفناک بھی ہے۔ افسوسناک اس لئے کہ اس میں خواتین اور بچوں کی اچھی خاصی تعداد جاں بحق ہوئی ہے اور کئی روز گزرنے کے بعد بھی کوئی فریق ان کی صحیح تعداد بتانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس سانحے کو ہم خوفناک اس لئے سمجھتے ہیں کہ یہ نتائج کے اعتبار سے خاصہ دور رس ہوگا اور شاید کئی دھائیاں اس کے اثرات کی گرفت میں رہیں۔ خصوصاً پاکستان میں اس کے شدید رد عمل کا خدشہ ہے جس کی شروعات فوجی قافلوں پر خودکش بم دھماکوں سے ہوچکی ہیں۔ اس بدترین واقعہ کے منفی اثرات چار سطحوں پر ہوئے جن میں سے پہلی سطح اسلام ہے دوسری پاکستان تیسری دینی مدارس اور چوتھی دینی شعائر۔ ذیل میں ان کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔

1۔ لال مسجد آپریشن چونکہ پاکستان کے دارالحکومت میں ہوا اور اس کی تفصیلات براہ راست نشریاتی ادارے کئی روز تک دکھاتے رہے جس کی وجہ سے یہ معاملہ 9/11 کی طرح عالمی پریس کی اہم ترین خبر کے طور پر توجہ کا مرکز بنا رہا۔ پاکستان کو بوجوہ عالم اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کسی دینی ادارے کے خلاف آپریشن گویا مسلمانانِ عالم کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان سمیت ہر اسلامی ملک بجا طور پر دہشت گردی کی کاروائیوں میں براہ راست ملوث ہونے سے انکار کرتا رہا۔ لیکن اس سانحہ سے مسلمانوں کے اس اجتماعی موقف کی صداقت پر حرف آیا ہے۔ کئی مہینوں سے ایک دینی ادارے اور مسجد کے مہتمم حضرات جہادی کاروائیوں کا اعلان کررہے تھے۔ اسلحہ کی نمائش بھی جاری تھی اور خودکش حملوں کی دھمکیاں بھی دی جارہی تھیں۔ یورپ، امریکہ، بھارت، چین، آسٹریلیا اور دیگر سینکڑوں غیر مسلم ممالک میں (جہاں پہلے سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی منظم سازشیں جاری ہیں) اسلام بری طرح بدنام ہوا ہے۔

2۔ اس بدترین تاریخی سانحہ کے منفی اثرات پاکستانی معاشرے پر براہ راست پڑے ہیں یہاں پہلے ہی جدت پسند اور شدت پسند گروہوں کے درمیان خلیج وسیع ہورہی تھی۔ نئی نسل مذہبی طبقات سے دور ہٹ رہی تھی۔ اس واقعہ نے ایسے عناصر کی فکری اور ذہنی طور پر حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس طبقاتی تفریق کے علاوہ وطن عزیز کی دفاعی فورسز کے خلاف بھی نفرت پھیلی ہے۔ عوام الناس اور خصوصاً مذہبی انتہا پسند طبقات نے فوج کو اپنا مدمقابل اور دشمن سمجھنا شروع کردیا ہے۔ اس کی شہادت گذشتہ ماہ میں ہونے والے ان متعدد خود کش حملوں میں موجود ہے جن میں سینکڑوں فوجی جوانوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ فاٹا اور وزیرستان کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں نے علی الاعلان حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھالئے ہیں۔ امن معاہدے ختم کردیئے گئے ہیں۔ یہی وہ ہدف تھا جسے دشمن اسلام ایک عرصہ سے حاصل کرنا چاہ رہا تھا۔ ہم نے اس کی آنکھیں ٹھنڈی کردی ہیں۔ پاکستان میں خانہ جنگی کے حالات جو اب تک محدود علاقوں میں تھے اب چاروں صوبوںمیں اس کی صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ وطن عزیز میں جاری جمہوری جدوجہد کو نقصان پہنچ رہا ہے اور جاری ترقیاتی منصوبہ جات کو دھچکا لگا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور پاکستان کو عالمی برادری میں ’’انتہاء پسند اسلامی ریاست‘‘ کے طور پر دیکھا اور تصدیق کیا جانے لگا ہے۔

3۔ لال مسجد آپریشن کے منفی اثرات کی تیسری اور اہم ترین سطح دینی اداروں کا تشخص ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں دینی تعلیمی ادارے بکثرت موجود ہیں۔ ان اداروں میں لاکھوں طلباء اور طالبات زیر تعلیم ہیں۔ یہ تعلیم مخیر حضرات کے تعاون سے بلامعاوضہ دی جاتی ہے۔ اس لئے تنگ دست اور غریب لوگوں کے بچے ان مذہبی اداروں سے بھرپور مستفید ہوتے ہیں۔ امریکہ سے لیکر یورپ اور مشرق بعید سے لیکر مشرق وسطیٰ تک سینکڑوں ممالک میں جہاں جہاں پاکستانی آباد ہیں اور انکی قائم کردہ مساجد اور اسلامی مراکز تبلیغ دین اور اشاعت اسلام کا کام کررہے ہیں ان میں پیش پیش لوگ انہی دینی اداروں کے فارغ التحصیل ہیں۔ ملک کے تمام قصبات، چھوٹے بڑے شہروں اور محلوں میں الحمدللہ قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم آزادی کے ساتھ دی جارہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے ان دینی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے لوگوں کی تعداد یہاں کی سرکاری جامعات کے مقابلے میں زیادہ بھی ہے اور موثر بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمن قوتیں پاکستان کے ان تعلیمی اداروں کی کارکردگی سے بری طرح خائف تھیں اور چاہتی تھیں کہ کسی طرح اس نظام کو درہم برہم کیا جائے۔ چنانچہ جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے واقعہ نے ان قوتوں کو ان اداروں کے خلاف وسیع پیمانے پر آپریشن کا موقع فراہم کردیا ہے۔ چند عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں نے ہزاروں مدارس اور ان میں پرامن متعلمین کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ اب ان اداروں کی مالی معاونت کرنے والے بھی سوچ سمجھ کر عطیات دیں گے اور عین ممکن ہے ’’القاعدہ‘‘ کی طرح ان اداروں کو سپورٹ کرنے والوں کا ’’محاسبہ‘‘ بھی شروع ہوجائے۔ شہری بستیوں میں قائم ان اداروں کا وجود بھی ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ لوگوں نے یہ باور کرنا شروع کردیا ہے کہ کیا معلوم کس وقت کس ادارے کے خلاف آپریشن شروع ہوجائے اور پھر اردگرد کی بستیاں کرفیو کی زد میں آکر مفلوج ہوجائیں۔

4۔ ان اثرات کی چوتھی سطح دینی شعائر کی بے توقیری کی صورت میں نکل رہا ہے۔ سیکولر طبقہ پہلے ہی داڑھی اور حجاب کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتا تھا اب تو راہ چلتی باپردہ خاتون پر آوازے کسے جاتے ہیں انہیں ڈنڈا برداری اور دہشت گردی کے طعنے دیئے جارہے ہیں۔ اسی طرح علماء حضرات کا حلیہ، ان کی داڑھی اور دستار بھی تنقید کا نشانہ بن چکی ہے۔ رہی سہی کسر مولانا عبدالعزیز کے برقعے نے پوری کردی۔ لوگوں نے اس واقعے کو بہت منفی طور پر دیکھا ہے۔ دینی شعائر کے ساتھ مذاق اور توہین و تحقیر آمیز رویوں کی داستانیں ہم مغربی ممالک میں تو سنتے تھے مگر پاکستان میں اس طرح کی صورت حال پیدا نہیں ہوئی تھی۔ دینی شعائر کا احترام اسلامی معاشرے کا طرہ امتیاز ہے۔ علماء اس معاشرے کے سب سے قابل احترام لوگ ہیں لیکن یہی علماء اگر قانون کو ہاتھ میں لیکر اپنے چند تلامذہ کے ساتھ مملکت کو چیلنج کرنا شروع کردیں اور پھر چند نادیدہ قوتوں کی شہہ پر عین دارالحکومت کے مرکز میں عسکری سرگرمیوں کا کھلا اظہار بھی شروع کردیا جائے تو انجام وہی ہوتا ہے جو ہوا۔ لاتعداد معصوم خواتین اور بچے اسی جنون کی بھینٹ چڑھے ہیں جن کے چیتھڑے مسجد و مدرسہ کے درودیوار سے باہر فضاؤں میں بکھر گئے۔

قارئین! آپ کو یاد ہوگا ہم نے انہی ادارتی صفحات میں گذارش کی تھی کہ ’’خدارا لال مسجد کو پاکستانی عوام کے سامنے اور عالم کفر کے سامنے تماشا نہ بنائیں‘‘۔

مندرجہ بالا وجوہات ہر ذی شعور شخص کو نوشتہ دیوار کی صورت نظر آرہی تھیں۔ مگر دونوں فریق اپنی اپنی جگہ انا کے حصار میں بند رہے۔ تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے ہزاروں معصوم زندگیوں سے موت کے کھیل کو روا رکھا گیا۔

رہی حکومتی کارستانیوں کی داستان تو حکومت اس وقت کئی سوالوں کے نرغے میں ہے۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ لال مسجد والے اگر خطرناک لوگ تھے، ان کے پاس اسلحہ تھا اور اس کی نہ صرف نمائش ہورہی تھی بلکہ اسے استعمال کرنے کے اعلان بھی منبر سے ہورہے تھے تو کون سی مصلحت تھی جس کے تحت حکومت نے اس ’’فتنے‘‘ کو اپنی ناک کے نیچے پنپنے دیا؟

غازی برادران کی ہٹ دھرمی اور کسی حد تک غلط فہمی نے جب اس معاملے کو طول دیا تو معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرنے کی حتمی اور سنجیدہ کاوش کیوں نہ کی گئی؟ آپریشن پورا ایک ہفتہ جاری رہا اور بار بار اعلان ہوتا رہا کہ علماء اور سیاسی عمائدین صلح صفائی کے لئے کاوشیں کررہے ہیں تاکہ معصوم جانیں بچائی جاسکیں اور پھر 9 جولائی کی آخری کاوش میں فریقین ایک حل کے قریب بھی پہنچ گئے تھے تو معاہدہ کیوں نہ ہوسکا یا نہیں ہونے دیا گیا۔ آخر کونسی قیامت تھی جو اسی صبح ٹوٹ رہی تھی؟ ایک آدھ دن کی مہلت کیوں نہیں دی گئی؟۔ حکومت یہ دعوے کررہی تھی کہ عمارت میں بھاری پیمانے پر بھاری اسلحہ موجود ہے (جسے بعد میں دکھایا بھی گیا) تو محصور عسکریت پسندوں نے اسے استعمال کیوں نہیں کیا؟ سب سے اہم سوال یہ کہ طلباء و طالبات کی کتنی تعداد تھی جو جانبین کی انا پر قربان کی گئی؟ ورثاء آج تک پریشان پھررہے ہیں انہیں اپنے جگر کے ٹکڑے زندہ یا مردہ دونوں حالتوں میں نظر نہیں آرہے۔ آخر انہیں آسمان نگل گیا یا زمین کھاگئی؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جن غیر ملکی دہشت گردوں کا چرچا کیا گیا تھا وہ کہاں گئے؟ ان میں سے کتنے مطلوب تھے۔ اس آپریشن سے حکومتی بدنیتی یوں بھی عیاں ہوتی ہے کہ 12 مئی کو کراچی میں 4 درجن افراد دن دہاڑے دہشت گردی کا شکار ہوئے، ذمہ داران کو گرفتار کرنے یا ان کے سربراہوں کی سرکوبی کے لئے اقدامات کیوں نہیں اٹھائے گئے۔اس کے برعکس اسلام آباد کے معصوم اور محصور طلباء کو بھی متشبہ دہشت گردوں کی وجہ سے معاف نہیں کیا گیا۔ یہ کاروائی کس کو خوش کرنے کے لئے کی گئی؟ مسجد میں موجود عسکریت پسند جب محفوظ راستہ مانگ رہے تھے تو امریکی صدر بش کو کیا حق تھا کہ وہ اس کی مخالفت کرے یہ تو پاکستانی ادارے پر پاکستانی فورسز کا آپریشن تھا، اس کا مطلب تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آپریشن براہ راست امریکہ کی نگرانی میں اس کی خواہشات کے عین مطابق ہورہا تھا۔ الغرض سوالوں کا ایک سلسلہ ہے جو جواب طلب ہے اور حکومت کے پاس ان کا کوئی معقول جواب نہیں۔ لہذا ہم توقع رکھتے ہیں کہ اس سنگین واقعہ کی عدالتی تحقیق کی جائے گی اور اس کے کرداروں کو قوم کے سامنے بے نقاب کیا جائے گا اس کے پیچھے کون کون سے خفیہ ہاتھ تھے۔ اس کی ڈوریاں کہاں کہاں سے کھینچی جارہی تھیں؟ ہم حکومت سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ ایک دو عسکریت پسند مدارس کی آڑ میں پورے ملک میں ہزاروں پُرامن دینی تعلیمی اداروں کو بدنام کرنے کی مہم بند ہوجانی چاہئے۔ حکومت ایسے خطرناک مراکز کی فہرست میڈیا کو دے اور ابھی سے ان پر کنٹرول کرے۔ علماء اور سماجی و سیاسی قائدین ایسے اداروں کی قطعاً حمایت نہیں کرتے۔

ہم ان انتہاء پسند عسکریت پسندوں کی خدمت میں بھی گذارش کریں گے کہ خدا کا خوف کریں، آپ کیسے مسلمان ہیں کہ ملک کی اسلامی فوج کو خودکش کاروائیوں کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ہوٹلوں، گلیوں، محلوں، مسافر اڈوں اور مساجد پر خودکش حملے کہاں کا اسلام ہے؟ پاکستان میں کلمہ گو بھائیوں کے خون سے اپنے ہاتھ کیوں رنگ رہے ہیں؟ یہ اسلام کی کوئی خدمت نہیں، صرف جذبات اور جنون کا انتہائی غلط اور نامناسب غیر شرعی اظہار ہے۔ مسلمانوں اور اسلامی نظریات و تعلیمات کو بدنام کرکے آپ کونسے دین اور مذہب پر عمل پیرا ہورہے ہیں۔

ڈاکٹر علی اکبر قادری