الحدیث : گناہ شرفِ انسانیت کو داغدار کرنے کا موجب

علامہ محمد معراج الاسلام

حصہ اول

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں، سرکار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اجتنبوا السبع الموبقات قالوا : يارسول الله ماالموبقات؟ قال الشرک بالله، والسحر، وقتل النفس التی حرم الله الا بالحق واکل الربا واکل مال اليتيم والتولی يوم الزحف وقذف المحصنات المومنات الغافلات. (متفق عليه)

’’ہلاکت میں ڈالنے والے سات گناہوں سے بچو! لوگوں نے عرض کی : یارسول اللہ! وہ کون کون سے ہیں؟ فرمایا:

  1. اللہ کے ساتھ شرک
  2. جادو
  3. ناحق قتل جس کو اللہ پاک نے حرام قرار دیا ہے
  4. سود خوری
  5. یتیم کا مال کھانا
  6. میدان جنگ سے بھاگنا
  7. بھولی بھالی پاکباز، ایماندار خواتین پر برائی کی تہمت لگانا‘‘۔

شرح و تفصیل

گناہ اپنی تمام اقسام سمیت انسانی زندگی کے لئے بڑے ہی مہلک ہوتے ہیں، جو اس کی شان و عظمت کو داغ دار اور قدر و قیمت کو کم کردیتے ہیں اس لئے دور اندیشی کا تقاضا یہ ہے کہ اہل ایمان ہمیشہ ان سے بچنے کی کوشش کریں چونکہ شعبان و رمضان اپنے تقدس و احترام کے حوالے سے خصوصی طور پر گناہوں اور بیہودہ حرکتوں سے بچنے کے مہینے ہیں اور ان سے تبھی بچا سکتا ہے جب گناہوں کی حقیقت و اصلیت اور اقسام سے آگاہی ہو، اس لئے ہم یہاں گناہوں کی اقسام اور ان کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈال رہے ہیں تاکہ اہل ایمان کے دلوں میں ان کے خلاف مزاحمت کا شوق پیدا ہو اور رمضان کا مہینہ تقویٰ و طہارت اور پرہیزگاری کی ریہرسل کا زمانہ بن جائے۔

گناہوں کی اقسام اور ان کی تعریف و تفصیل

گناہ ان اقوال و افعال اور اعمال و حرکات کو کہتے ہیں جو خلاف شرع ناپسندیدہ اور تہذیب و شائستگی سے گرے ہوئے ہوں۔ یہ اپنے بھیانک اور برے انجام کی وجہ سے اس قابل نہیں ہوتے کہ ذی شان انسان ان کا ارتکاب کرے۔ وہ انسانیت کے لئے کلنک کا ٹیکہ اور اس کے ماتھے کا بد نما داغ ہوتے ہیں جن سے شرف انسانی کو دھچکا اور مقام آدمیت کو بٹہ لگتا ہے اسی لئے اسلامی شریعت نے انہیں حرام قرار دیا ہے اور ان کا ارتکاب کرنے سے روکا ہے۔ اس قسم کے گناہوں کی دو قسمیں ہیں :

  1. صغیرہ
  2. کبیرہ

1۔ کبیرہ گناہ

کبیرہ ان گناہوں کو کہتے ہیں جن کے لئے قانون الہٰی یعنی شریعت خداوندی اور دین مصطفوی میں حد شرعی یعنی باقاعدہ سزا مقرر ہے اور بتادیا گیا ہے کہ جو شخص ان گناہوں میں سے کسی ایک کا ارتکاب کرے گا تو اسے ضابطہ کے مطابق مجرم قرار دے کر کوڑے مارے جائیں گے یا سنگسار کیا جائے گا، ہاتھ کاٹا جائے گا یا اسے قصاص میں قتل کیا جائے گا۔

2۔ صغیرہ گناہ

صغیرہ ان گناہوں کو کہا جاتا ہے جو کبیرہ گناہوں کی طرح سنگین نہیں اور ان کے لئے حد شرعی بھی مقرر نہیں البتہ معصیت ہونے کے حوالے سے ان کی سخت مذمت کی گئی ہے اور لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان سے بچیں کیونکہ وہ بہر حال نافرمانی کے زمرے میں آتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی کسی طور بھی درست نہیں خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ۔

صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کے بارے میں مختلف نظریات

صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کی جو اوپر وضاحت کی گئی ہے وہ صرف سنگینی کی کمی بیشی کے اعتبار سے ہے یعنی جو شدید سنگین نوعیت کے جرائم ہیں وہ کبیرہ ہیں اور جن میں نسبتاً اتنی شدت و سنگینی نہیں وہ صغیرہ ہیں۔

مگر اہل نظر کے مختلف طبقات ہیں جنہوں نے اپنے اپنے نقطہ نظر اور مکتبہ فکر کے اعتبار سے ان کا جائزہ لیا ہے اور اپنی اپنی صوابدید کے مطابق ان کی تشریح کی ہے۔ اس سے جہاں گناہوں کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں وہاں ان کی سنگینی اور قباحت بھی نمایاں ہوتی ہے اور ان سے نفرت بڑھتی ہے۔ اس لئے ان طبقات کی آراء پیش کرتے ہیں تاکہ پتہ چلے کہ گناہ صغیرہ ہو یا کبیرہ وہ بہر حال گناہ ہے اور گناہ کسی بھی روپ، مقدار اور حیثیت میں ہو وہ زہر ہلاہل ہے اور اپنے ساتھی کو ہلاکت کے کنارے تک پہنچا دیتا ہے۔

1۔ اہل فکر و نظر کا ایک طبقہ کہتا ہے گناہ شرعی نصوص و ہدایات کی خلاف ورزی اور حکم عدولی کا نام ہے اور یہ حکم عدولی کسی معمولی حاکم کی نہیں بلکہ اس احکم الحاکمین کی ہے جو ساری کائنات کا بادشاہ اور جہانوں کا رب ہے جس کی عظمت و کبریائی کے حضور سب سر فگندہ ہیں اور شان جلالت و ربوبیت کا اعتراف کرتے ہیں اس لئے اس کی حکم عدولی اور نافرمانی خواہ کسی بھی درجے میں ہو وہ اس کی عظمت و جلالت کو دیکھتے ہوئے گناہ صغیرہ نہیں رہتی بلکہ گناہ کبیرہ بن جاتی ہے اس لئے وہ کہتے ہیں کل معصیۃ کبیرۃ نظرا الی عظمۃاللہ عظمت خداوندی کو دیکھتے ہوئے ہر معصیت کبیرہ گناہ ہے صغیرہ نہیں۔

2۔ ایک دوسرے طبقے کا خیال ہے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کی حدود متعین نہیں بلکہ دو خارجی عوامل ایسے ہیں جو انہیں صغیرہ یا کبیرہ بناتے ہیں اور وہ عوامل استغفار اور اصرار ہیں۔

(الف) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص چھوٹا سا گناہ بھی تکرار کے ساتھ کرتا ہے یعنی اس پر مواظبت اختیار کرلیتا ہے اور اسے کرتا ہی رہتا ہے تو اس تکرار و اصرار سے وہ گناہ صغیرہ اور چھوٹا نہیں رہتا بلکہ کبیرہ بن جاتا ہے۔

(ب) اس کے برعکس اگر کوئی شخص گناہ کرتا ہے مگر استغفار کا عمل بھی جاری رکھتا ہے اور گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہتا ہے تو وہ گناہ کبیرہ نہیں رہتا بلکہ صغیرہ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اسے معاف فرمادیتے ہیں۔

3۔ ایک گروہ گناہوں کے سلسلے میں گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے مقام و مرتبہ اور ان کی علمی و سماجی حیثیت کو اہم اور فیصلہ کن قرار دیتا ہے اور اس کی روشنی میں گناہوں کا صغیرہ یا کبیرہ ہونا متعین کرتا ہے چنانچہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا اگر باحیثیت، صاحب تقویٰ و سجادہ مقبول عام اور دانا و بینا عالم ہو تو اس سے سر زد ہونے والا چھوٹا گناہ بھی بڑا ہوتا ہے اور حسنات الابرار سیئات المقربین کے قانون کے تحت اسے دھر لیا جاتا ہے جیسے عام شہری جرم کرے تو اسے اتنا قبیح نہیں سمجھا جاتا لیکن اگر وہی جرم کوئی قانون کا محافظ پولیس کا آدمی کرے تو انتہائی سنگین تصور کیا جاتا ہے۔

4۔ گناہوں کی حیثیت متعین کرنے کے سلسلے میں ایک گروہ کی نظر، مجرم پر نہیں بلکہ ان ہستیوں پر جاتی ہے جن پر مجرم کیچڑ اچھالتا ہے مثلاً عوام و جہلاء کے مقابلے میں اگر کوئی شخص سادات و علماء کو مذموم تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور ان کی توہین کرتا ہے تو یہ صغیرہ گناہ نہیں رہتا بلکہ عظمت سادات و علماء کے پیش نظر کبیرہ گناہ بن جاتا ہے۔

5۔ صوفیائے کرام کا ایک گروہ کہتا ہے کہ کمزور دشمن کو کبھی بھی حقیر نہیں سمجھنا چاہئے، گناہ انسان کے جانی دشمن ہیں اس لئے اگر وہ چھوٹے اور حقیر ہوں تو بھی انہیں حقیر تصور نہیں کرنا چاہئے انہیں حقیر اور چھوٹا تصور کرنا تباہی و بربادی، ہلاکت اور خطرات و مصائب کو دعوت دینا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے گناہ آہستہ آہستہ ایک بڑے گناہ کا روپ دھار لیتے ہیں جس طرح چھوٹے چھوٹے سنگریزوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی مگر ایک جگہ جمع ہوتے رہیں تو چھوٹے سے ڈھیر میں تبدیل ہوجاتے ہیں پھر وہی ڈھیر ٹیلا بن جاتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے تو پہاڑ بن جاتا ہے۔ اس لئے معمولی سے معمولی گناہ سے بھی بچنا ضروری ہے۔ ابدی عافیت و سعادت اسی میں ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شمع نبوت کے پروانے اپنے محبوب کے ہمراہ سفر کررہے تھے کہ وقت آنے پر انہوں نے ایک بیاباں میں قیام کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ اردگرد سے لکڑیاں جمع کرکے لاؤ۔ حاضرین نے عرض کی : یارسول اللہ! یہاں تو لکڑیوں کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو تنکا، شاخ، گھاس پھونس، غرض جو چیز بھی ملتی ہے لے آؤ! صحابہ کرام بکھر گئے جب واپس آئے تو ان کے ہاتھوں میں ایسی ہی چیزیں تھیں، دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ان چیزوں کا ڈھیر لگ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نیکیوں اور برائیوں کا بھی یہی حال ہے، چھوٹی چھوٹی نیکیاں ملتی رہیں تو نیکیوں کا انبار لگ جاتا ہے اور اگر برائیاں جمع ہوتی رہیں تو ان کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ اس لئے نیکی اور برائی میں سی کسی کو بھی حقیر، صغیر اور چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے۔

6۔ حکماء اور اہل دانش نے گناہوں کے بارے میں ان تمام اقوال و آراء کو سامنے رکھتے ہوئے یہ حکیمانہ اور دانشمندانہ بات کہی ہے کہ گناہ کی کوئی واضح تعریف نہیں ہے۔ گناہ بس گناہ ہے۔ یہ محتاط انداز اور سہمی سہمی سی تعریف اس لئے ہے تاکہ انسان گناہ کو صغیرہ و کبیرہ کے پیمانے پر ماپنے کی بجائے صرف گناہ سمجھے اور اس سے دامن بچائے تاکہ فرمانبرداروں ہی کے زمرے میں شمار ہوتا رہے۔

7۔ گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ کی پہچان کے سلسلے میں ایک اور بڑی وقیع اور علمی رائے پائی جاتی ہے جو اہل علم نے پیش کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ کسی بھی گناہ کا صغیرہ یا کبیرہ ہونا ایک اضافی چیز ہے، عین ممکن ہے کہ ایک گناہ صغیرہ ہو لیکن وہ کبیرہ گناہوں کے زمرے میں بھی آتا ہو، وہ اس طرح کہ ہر گناہ شدت و سنگینی کے لحاظ سے دوسرے گناہ سے مختلف ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اس گناہ کے اعتبار سے جو خطرناکی اور سنگینی میں اس سے بڑھ کر ہے، گناہ صغیرہ کہلائے گا۔ مگر دوسرے گناہ کے اعتبار سے جو اس سے کم خطرناک ہے اور یہ خود اس سے بڑا گناہ ہے، گناہ کبیرہ کہلائے گا۔ اس لئے گناہ کبیرہ کی کوئی متعین تعریف نہیں ہے۔

تاہم انسان کے مختلف اعضاء مثلا! دل، زبان، پیٹ، ہاتھ، پاؤں اور تمام بدن انسانی سے سرزد ہونے والے بعض گناہوں کو ان کی سنگین نوعیت، تباہ کاری اور خطرناکی کی وجہ سے گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے جن کی تفصیل یہ ہے۔

اعضاء انسانی اور کبیرہ گناہ

1۔ دل : انسانی جسم میں سب سے اشرف و قابل ذکر عضو دل ہے اس کے جو افعال کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتے ہیں وہ یہ ہیں۔

  • شرک
  • رحمت خداوندی سے مایوسی
  • عتاب و سزا اور خدا کی گرفت سے بے خوفی
  1. شرک یہ ہے کہ انسان کے دل میں یہ بات سما جائے کہ کائنات کے بہت سے خدا ہیں اور اپنی جگہ مطلق العنان، خود مختار اور وصف الوہیت میں برابر کے شریک ہیں۔ عقیدے کی یہ کجی اور دل کی یہ حالت بڑی ہی خوفناک اور انتہائی خطرناک ہے۔ دل میں یہ عقیدہ بسانے والا اس کی سزا بھگتنے کے لئے دوزخ میں جن ہوشربا مصائب و آلام میں گرفتار ہوگا اور خطرناک بلاؤں اور اژدہوں سے اس کا واسطہ پڑے گا اور عجیب ہلاکتوں اور اذیتوں سے دوچار ہوگا وہ تو اپنی جگہ پر ہیں، دنیا میں بھی اس بدعقیدگی کی جو نقد سزا ہے وہ یہ ہے کہ وہ شخص شرف انسانیت سے محروم ہوکر حقیر و ذلیل اور بزدل بن جاتا ہے اور بندروں اور بن مانسوں کے آگے سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔
  2. دل میں پیدا ہونے والی ایک اور کیفیت مایوسی ہے وہ یہ کہ انسان سمجھنے لگے کہ اس کے گناہ اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ ان کا معاف ہونا ممکن نہیں، ان گناہوں کی پاداش میں اسے بہر حال ذلیل و رسوا ہونا پڑے گا، گناہوں کی سنگینی اور کثرت نے اسے بخشش و رحمت کا مستحق نہیں رہنے دیا، اس سوچ کے ساتھ اس کے ذہن میں یہ خیال ابھرے کہ مرنے کے بعد تو عذاب جھیلنا ہی ہے کیوں نہ دنیا میں دل کے ارماں پورے کرلوں اور جو حسرتیں ہیں وہ نکال لوں، خواہ اس کے لئے دوسروں کے حقوق غصب کرنا پڑیں، ان کی عزتیں لوٹنا پڑیں، ان کے اموال و املاک پہ ڈاکہ ڈالنا پڑے یہ سوچ کر وہ میدان میں آجائے اور مخلوق خدا کے لئے عذاب بن جائے۔
  3. دل کی ایک اور کیفیت عقبیٰ سے بے خوفی ہے۔ وہ اس طرح کہ آخرت کا خوف دل سے نکل جائے اور یہ خیال ذہن نشین ہوجائے کہ اعمال کا کوئی محاسبہ و مواخذہ نہیں ہوگا، انسان جو کچھ مرضی کرتا رہے مرنے کے بعد کوئی باز پرس یا گرفت نہیں ہوگی۔ یہ سوچ کر وہ بھیڑیا بن جائے اور مخلوق خدا کو ستانے لگے۔

چونکہ شرک، مایوسی اور بے خوفی ایسے گناہ ہیں جو انسان کو مقام انسانیت سے گرادیتے ہیں اس لئے ان کو کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔

2۔ زبان : زبان کے یہ اعمال گناہ کبیرہ ہیں۔

  • جھوٹی گواہی دینا
  • سچی گواہی چھپانا
  • جھوٹی قسم اٹھا کر کسی کا مال غصب کرنا
  • چغلی کرنا
  • کسی بے گناہ پارساپر تہمت لگانا
  • جادو کرنا
  • ضرورت کے وقت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرنا یعنی کسی کو نیکی کی ترغیب نہ دینا اور برائیوں سے نہ روکنا۔

3۔ پیٹ : پیٹ کے یہ افعال گناہ کبیرہ ہیں :

  • شراب اور دیگر نشہ آور اشیاء
  • سود کھانا
  • یتیم کا مال کھانا
  • خنزیر کا گوشت کھانا۔

4۔ ہاتھ : ہاتھ کے جو اعمال گناہ کبیرہ ہیں وہ یہ ہیں :

  • قتل کرنا
  • چوری کرنا
  • رشوت لینا
  • کم تولنا
  • کسی کا مال جائیداد یا کوئی شے غصب کرنا۔

ہاتھوں سے سرزد ہونے والے ان آخری تین اعمال کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ بھی چوری بلکہ سینہ زوری کے قبیل سے ہیں اور ان سب کا خاندان ایک ہی ہے گویا جو رشوت لیتا، کم تولتا، یا غصب کرتا ہے، وہ چوری ہی کرتا ہے اور شریعت کی نظر میں چور ہی متصور ہوتا ہے، اس لئے ان سب کو کبیرہ گناہوں کی ایک ہی لڑی میں پرودیا گیا ہے۔

  1. پاؤں : پاؤں کا کبیرہ گناہ، میدان جہاد سے بھاگنا اور جان بچانے کے خیال سے دشمن کو پیٹھ دکھانا ہے۔ یہ بزدلانہ اور گھٹیا فعل جہاں دشمن کے حوصلے بلند کرتا ہے اور اسے خوشی بخشتا ہے وہاں مسلمان فوج کے لئے بھی انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اس سے نہ صرف فوج کا حوصلہ پست ہوتا اور مورال گرتا ہے بلکہ اہل اسلام کی ساکھ بھی تباہ ہوجاتی ہے۔ اس لئے اسے گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔
  2. مکمل بدن : تمام بدن کے کبیرہ گناہ یہ ہیں :
  • وقت سے پہلے یا وقت نکل جانے کے بعد نماز پڑھنا
  • رمضان المبارک کا روزہ بے وجہ توڑ دینا
  • اپنے رشتہ داروں سے تعلقات توڑنا جبکہ کوئی عذر شرعی نہ ہو
  • علمائے دین، اہل صدق و صفا اور اخلاص و تقویٰ کو پسند کرنے والے حضرات کی توہین کرنا اور ان کے دینی علم و کمال کا مذاق اڑانا۔

اول سے آخر تک یہ تمام اعمال جنہیں گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے اگر ان کا سرسری سا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سب تباہ کاری کا زینہ ہیں اور جس برادری، خاندان یا قوم میں یہ فروغ پارہے ہوں وہ کبھی سکون و ا طمینان سے زندگی نہیں گزار سکتی اس لئے یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ اس نے برائیوں کا جڑ سے خاتمہ کرنے کے لئے ان تمام اعمال و حرکات کو کبیرہ گناہ قرار دے کر سب مسلمانوں پر ان کا ارتکاب حرام کردیا ہے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری، نہ یہ اعمال معاشرے میں پنپ سکیں نہ اس میں کسی قسم کی اخلاقی گراوٹ اور بدمزگی پیدا ہو۔

یہ یاد رہے کہ اس باب کی احادیث میں تمام کبیرہ گناہ ذکر نہیں کئے گئے بلکہ وقت ماحول اور مسائل کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے ان میں سے بعض کا ذکر کیا گیا ہے۔ تمام گناہوں کا یکجا ذکر کہیں بھی نہیں ملتا۔ مختلف کتب اور مقامات پر بکھری احادیث میں انفرادی صورت میں ان کا تذکرہ ملتا ہے جہاں سے اہل علم نے کبیرہ گناہوں کی یہ فہرست مرتب کی۔

کبیرہ گناہوں سے بچنے کا انعام

گناہ میں وقتی لذت آسانی اور عارضی اور ناپائیدار خوشی ہوتی ہے جو چند لمحوں بعد ختم ہوجاتی ہے۔ مگر اس کی نحوست ہمیشہ قائم رہتی اور گناہ گار کے گلے کا طوق بن جاتی ہے۔ اسے پتہ بھی نہیں چلتا اور گناہوں کے نتائج اور برے اثرات اس کے اردگرد مضبوط حصار قائم کرلیتے ہیں اور اپنی آہنی زنجیروں میں بری طرح جکڑ لیتے ہیں لیکن وہ بے خبر یہ سمجھتا رہتا ہے کہ آزاد پھر رہا ہے۔ جتنا بڑا گناہ ہو اس میں ظاہری کشش، خوشی اور لذت بھی اسی تناسب سے زیادہ ہوتی ہے مگر اس کا منطقی انجام انتہائی خطرناک اور ہوشربا ہوتا ہے جو تباہی و بربادی کے تند و تیز جھکڑ اپنے جلو میں لے کر آتا ہے۔ اس لئے معاشرے کو اس نوعیت کی تباہ کاری سے محفوظ رکھنے کے لئے اہل ملت کو انعام اور قانون کی شکل میں یہ حسیں و پرکشش وعدہ دیا گیا ہے کہ جو لوگ اچھی قدروں کو پروان چڑھانے اور نیکی کی بنیاد پر معاشرہ قائم کرنے میں مدد دینے کے لئے کبیرہ گناہوں سے اجتناب برتیں گے اور بڑی بڑی گھناؤنی حرکتیں نہیں کریں گے تو جوان کے چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں وہ انعام کے طور پر ویسے ہی معاف کردیئے جائیں گے۔ ارشاد باری ہوتا ہے۔

إِن تَجْتَنِبُواْ كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلاً كَرِيمًاO

(النسآء 4 : 31)

’’جن کبیرہ گناہوں سے تمہیں روکا جاتا ہے اگر تم ان سے بچو گے تو ہم تمہارے صغیرہ گناہوں کو مٹادیں گے اور عزت و کرامت والی جگہ میں تمہیں داخل کریں گے‘‘۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ کبیرہ گناہوں سے بچنا ہی انعام ربانی اور بہت بڑا اعزاز ہے جو اسے نہ صرف صغیرہ گناہوں سے پاک کردیتا ہے بلکہ اس کے لئے قرب و حضور کی راہیں بھی کھول دیتا ہے اور اس طرح ایک گناہ گار باطنی آلائشوں اور روحانی بیماریوں سے پاک ہو کر باطنی صحت مندی اور پاکیزگی کے مزے لوٹنے لگ جاتا ہے۔ (جاری ہے)