ضیاء نیّر

کٹے حیات کا باقی سفر مدینے میں!
ملے عزیزوں کو میری خبر مدینے میں!

لبِ اظہار سے یہ آرزو ٹپکتی ہے
مرا بھی کاش ہو چھوٹا سا گھر مدینے میں!

کروں گا اس کی پذیرائی جان و دل سے میں
قضا سے ٹاکرا میرا ہو گر مدینے میں

یہ سمجھوں گا کہ مجھے مل گئی مراد مری
بلائیں مجھ کو جو خیرالبشر (ص) مدینے میں

وہاں دوام رہیں گے جو لوٹ بھی آیا
یہ میری جان یہ قلب و نظر مدینے میں

اسی کی سمت میں جاتے ہیں راستے سارے
نکلتی ہے یہاں ہر رہگذر مدینے میں

ہر عارضے سے شفا ان کے در پہ ملتی ہے
مقیم ہے وہ مرا چارہ گر مدینے میں

کہیں بھی جائیں تو رہتی نہیں ہے جان میں جان
وہ اہلِ دل کہ ہے جن کا نگر مدینے میں

اندھیرے چھٹ گئے صدیوں سے جو مسلط تھے
طلوع ہوگئی ایسی سحر مدینے میں

افق سے تابہ افق ہوگیا جہاں روشن
’’اتر کے آگئے شمس و قمر مدینے میں‘‘

عزیز جاں سے مجھے طیبہ کی ہے در بدری
خدا کرے میں پھروں در بدر مدینے میں!

قضا سے پوچھا ملے گی کہاں حیات مجھے؟
ملا جواب کہ تو جا کے مر مدینے میں

عقیدتوں کی جبیں خم یہاں ہوئی نیّر
جھکے ہیں شاہ و گدا سب کے سر مدینے میں