محمد علی صابری

چلے ہیں سُوئے طیبہ قافلے پھر بڑھے جاتے ہیں میرے فاصلے پھر طلب گارِ نگاہِ شاہِ دیں (ص) ہیں میرے اوراق میرے حاشیے پھر سنا ہے ان (ص) کی تشریف آوری ہے سجائے جارہا ہوں راستے پھر مِرے حالات آقا (ص) جانتے ہو مجھے کہنا نہیں کچھ آپ سے پھر ہے رشکِ لالہ و گُل کی جو آمد معطر ہو رہے ہیں رت جگے پھر طوافِ روضہ اطہر کریں تو چمک پاتے ہیں سارے آئینے پھر متاعِ عشق سینوں میں اگر ہو جنم لیتے نہیں ہیں وسوسے پھر قلم اُتھے تِری (ص) توصیف کو جب اُترتے ہیں ردیف و قافیے پھر بُلاوا چاہئے طیبہ نگر سے بَسے یہ صابری یا چل بسے پھر