ڈاکٹر علی اکبر قادری

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

تاریخی پارلیمنٹ کی’’مثالی‘‘ کارکردگی

وطن عزیز اس وقت تاریخ کے نازک ترین دوراہے پر کھڑا ہے۔ داخلی انتشار اور خارجی دباؤ دن بہ دن بدترین شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ گذشتہ روز جب 5 سال کی مدت پوری کرنے والی پارلیمنٹ تحلیل ہوئی اور اس کی جگہ نئے عبوری حکومتی ڈھانچے کا یکطرفہ اعلان کیا گیا تو خاص طور پر اس تاریخی کریڈٹ کا حوالہ دیا گیا کہ ’’کوئی مانے یا نہ مانے پاکستان میں حقیقی جمہوریت پہلی مرتبہ ہم نے متعارف کروائی، آج پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کی ہے اور پہلی مرتبہ وزیراعظم باعزت طور پر رخصت ہو کر اگلا عبوری وزیراعظم حلف اٹھا رہا ہے‘‘۔ جہاں تک پارلیمنٹ کے پانچ سال مکمل کرنے کی ’’سعادت‘‘ کا تعلق ہے یہ تو واقعی سچی بات ہے سابقہ ادوار میں جو بھی جمہوری حکومت قائم ہوئی اسے اتنا سکون اور اطمینان نصیب ہی نہیں ہوا کہ وہ اپنی مقررہ مدت مکمل کرسکتی کیونکہ اس دور میں وہ طاقتیں ہی اقتدار کی حقیقی حامی رہی ہیں جو پچھلے جمہوری ادوار کے خاتمے کا سبب بنی تھیں۔ چیف آف آرمی سٹاف جب خود ہی صدر مملکت اور ’’جمہوری حکومت‘‘ کا بانی و سرپرست تھا تو پھر 5 سال مکمل کرنے سے کون روکتا؟۔ آیئے ذیل میں قومی ادارے کی اس ’’مثالی کارکردگی‘‘ کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس پانچ سالہ دور میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ یاد رہے کہ حکمران کروڑوں کے اشتہارات کے ذریعے صبح و شام آج کل کامیابیوں کے چرچے پر مشتمل یہی مہم چلا رہے ہیں۔

342 ارکان پر مشتمل 2002ء کے الیکشن میں قائم ہونے والی یہ اسمبلی اپنے حجم اور اخراجات کے حوالے سے واقعتاً تاریخی اور مثالی تھی اس لئے کہ اس میں بیک وقت 125 ارکان کا اضافہ کیا گیا تھا۔ اس اضافے میں خواتین اور علماء حضرات کی اچھی خاصی تعداد شامل تھی۔ علاوہ ازیں یہ اسمبلی تاریخ کی پہلی گریجویٹ اسمبلی تھی یہ الگ بات ہے کہ وفاق المدارس کے فاضل اراکین کے سر پر آخر وقت تک حکومت نے نااہلیت کی تلوار لٹکائے رکھی اور اپنی مرضی کے فیصلوں میں اپوزیشن کے ان اراکین کی ’’مثالی خاموشی‘‘ سے ’’تاریخی‘‘ فوائد حاصل کئے۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنی کثیر تعداد میں مذہبی اور دینی شخصیات منتخب ہوکر اس قومی ایوان میں جمع ہوئیں۔ حزب اختلاف کی قیادت بھی متحدہ مذہبی محاذ کے مرکزی عہدیدار کے پاس رہی مگر حیرت ہے کہ اس تاریخی موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے نفاذِ شریعت کا کوئی بل بھی ایوان میں پیش نہیں ہوسکا۔ پہلی بار غریب عوام کی نمائندہ اسمبلی نے کسی قابل ذکر قومی مسئلے پر قانون سازی نہیں کی جبکہ پانچ سال میں تین بار اپنی تنخواہوں اور الاؤنسز میں اضافوں کے بل مکمل اتفاق سے منظور کئے۔ 70 وزراء اور مشیروں کی فوج ظفر موج کا اعزاز بھی اسی اسمبلی کے پاس ہے۔ بیرون ممالک دوروں پر اٹھنے والے اخراجات کا ریکارڈ بھی ’’اسی قومی سیاسی ٹیم‘‘ نے توڑا۔ 5 سال کے 1825 دنوں میں اسمبلی ممبران کے اجلاس 378 دن جاری رہے۔ وقفہ ہائے سوالات میں 45000 سوالات کئے گئے جن میں سے 9600 کے جوابات دیئے گئے جو بیشتر ادھورے اور نامکمل تھے۔ اس عرصہ میں 73 صدارتی آرڈیننس جاری کئے گئے جن پر اس تاریخی اسمبلی نے مہر تصدیق ثبت کی ان میں سر فہرست ’’حقوق نسواں‘‘ ایکٹ تھا جو قرآن و سنت کے واضح احکام سے بغاوت پر مبنی ہے۔ اس پارلیمنٹ کی سب سے دلچسپ حیثیت یہ رہی کے اس پورے عرصے میں اس عظیم ترین قومی ایوان کا کوئی بھی باقاعدہ لیڈر نہیں تھا۔ ابتداً قائد ایوان کا اعزاز میر ظفر اللہ جمالی صاحب کو دیا گیا۔ انہوں نے ’’تحدیث نعمت‘‘ کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کا حلف اٹھاتے ہی مشرف کو اپنا ’’باس‘‘ ڈکلیئر کرکے مکمل تابعداری کی ضمانت فراہم کی لیکن ان کی یہ شرافت اور تابعداری بھی انہیں اپنے منصب پر قائم نہ رکھ سکی اور ایک ایسے شخص کو قائد ایوان بنانے کا فیصلہ کیا گیا جو اسمبلی ممبر ہی نہیں تھا چنانچہ تین ماہ کے لئے ’’اصحابِ قاف‘‘ کے قائد چوہدری شجاعت حسین کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھا کر خوش کیا گیا۔ بعد ازاں شوکت عزیز جو قبل ازیں جنرل صاحب نے نگران سیٹ اپ کے لئے امریکہ سے امپورٹ کئے تھے انہیں ان کی ’’ظاہری اور باطنی خوبیوں‘‘ کے طفیل وزیراعظم بنا دیا گیا۔ یوں ان پانچ سالوں میں تین وزرائے اعظم نے ایک فوجی صدر سے تین بار حلف اٹھا کر ’’حقیقی جمہوریت‘‘ سے اپنی بے دام وفاداری کا ثبوت دیا۔ اس اسمبلی کی سب سے اہم اور مثالی حیثیت اس وقت سامنے آئی جب صدر محترم نے پانچ سالوں میں صرف ایک بار خطاب کی زحمت فرمائی اور موقع ملاحظہ کرنے کے بعد اپنے دست ہنر سے تراشیدہ اس قومی ایوان کو ’’غیر مہذب ہاؤس‘‘ کا تاریخی خطاب دیا جو یقیناً ارکان اسمبلی کے لئے ایک ’’اعزاز‘‘ ہے۔

وطن عزیز کے اس قومی ایوان کا یہ کارنامہ بھی سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے جو اس نے سترہویں ترمیم کے ذریعے جمہوری پارلیمانی آئین کی روح مسخ کرتے ہوئے سرانجام دیا۔ اسی عاقبت نااندیشانہ اور غیر جمہوری روش کے ذریعے 12 اکتوبر 1999ء کے بعد ہونے والے تمام غیر آئینی اقدامات کو قانونی جواز مہیا کیا گیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک اسمبلی نے فوجی سربراہ کو دو بار وردی سمیت مملکت کے سب سے بڑے سیاسی عہدۂ صدارت کے لئے منتخب کیا۔ اس قانون ساز قومی ادارے نے اپنے ہاتھوں سے دستور پاکستان کی تخریب میں جس بے دردی اور بے رحمی کا ثبوت دیا آئندہ شاید ہی کوئی اس نوعیت کی خدمت بجا لاسکے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس ایوان میں الا ماشاء اللہ اکثر و بیشتر حضرات ہارس ٹریڈنگ کے منافع بخش کاروبار سے وابستہ تھے اور اعلیٰ ترین قومی و صوبائی عہدوں پر فائز ان حضرات کی غالب اکثریت ’’نیب گزیدہ‘‘ بھی تھی۔ اس لئے جرائم ثابت ہونے کی صورت میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا بیٹھنے سے کیا بہتر نہیں تھا کہ قومی ایوان کی رونق میں اضافہ کرتے اور پورے پانچ سال وزارتوں اور سٹینڈنگ کمیٹیوں کے سربراہ بن کر قوم کی ’’خوب خدمت‘‘ کرتے یعنی رند کے رند رہے اور ہاتھ میں جنت بھی رہی

علاوہ ازیں 60 سالہ تاریخ میں پہلی بار اتنی کثرت سے قومی بحرانوں کی قطار لگی رہی جن کے اثرات کا فیض آئندہ کئی عشروں تک جاری رہنے کا امکان ہے۔ ان شدید ترین بحرانوں میں پٹرول کا بحران، چینی کا بحران، آٹے کا بحران، بجلی کا بحران، چاول کا بحران حتی کہ آلو، پیاز اور ٹماٹر کا بھی بحران پیدا ہوا اور غیور پاکستانی قوم نے پہلی بار اپنے دیرینہ دشمن پڑوسی سے یہ بنیادی ضرورت کی اشیاء منگوا کر اپنی ہانڈیوں میں ڈالیں۔

قومی تاریخ میں ریکارڈ خوشحالی کی ضامن گذشتہ حکومت نے 32 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کی رقم بڑھا کر 40 ارب ڈالر کردی جبکہ 17 ارب 35 کروڑ روپے کے قرضے اپنے مخصوص ’’وفادار‘‘ لوگوں کو معاف کر دیئے۔ اس شفقت کا آخری مظاہرہ ’’قومی مفاہمتی آرڈیننس‘‘ کے نام سے کیا گیا جس کا دوسرا فریق محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر نامدار محترم آصف علی زرداری ہیں۔ یہ ڈیل آج کل بری طرح پھنس چکی ہے لیکن امریکی دباؤ کی موجودگی میں کسی خطرے کا امکان نہیں۔ حالات اگرچہ لکھے ہوئے سکرپٹ سے تھوڑے مختلف ہوچکے ہیں لیکن حالات اور سکرپٹ میں مطلوبہ تبدیلی جدید دور میں کونسا مشکل کام ہے۔

ان تمام امتیازات سے بڑھ کر اس حکومت کے دور میں ہی 60 سالہ کشمیر پالیسی پر ہم نے یوٹرن لیا، افغان پالیسی میں سامراج کی خوشنودی کے حصول کی جہد مسلسل کے نتیجے میں افغانستان کے ساتھ 1500 کلومیٹر طویل پرامن، مضبوط اور محفوظ سرحد ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کو ہم نے بھارتی سرحد سے زیادہ پرآشوب اور خطرناک بنا دیا جس پر ہماری ایک لاکھ فوج تعینات ہے اور اب تک ہم وطن کلمہ گو مزاحمت کاروں کے ہاتھوں ہمارے ایک ہزار سے زائد فوجی جوان جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اس مزاحمتی تحریک کے خطرناک اثرات فاٹا اور وزیرستان کے علاقوں سے نکل کر نہ صرف پورے ملک میں پھیل چکے ہیں بلکہ سوات جیسے پرامن سیاحتی علاقے میں آج کل ملکی تاریخ کے بدترین ہلاکت خیز واقعات ہورہے ہیں۔ یہ ایک ایسا ناسور پھوٹ پڑا ہے جس کا علاج اتنا آسان نہیں۔

اس تاریخی اسمبلی کے آخری اجلاس میں یادگار ’’قومی خدمت‘‘ کے طور پر بیٹھے بٹھائے آئین کو توڑ پھوڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکنے والی ایمرجنسی کے نفاذ کی توثیق کی گئی۔ قوم کی تقدیر سے کھیلنے والے ایک شخص نے تمام تر اختیارات آرمی چیف سے دوبارہ صدر کو ’’منتقل‘‘ کر دیئے اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ گذشتہ آٹھ سال سے یہی محترم ملک کے صدر ہیں یہی چیف آف آرمی سٹاف اور یہی چیف ایگزیکٹو۔ یہ تینوں اختیارات انہوں نے اپنی وردی کی مختلف جیبوں میں رکھے ہوئے ہیں جنہیں وہ جب چاہتے ہیں ایک جیب سے نکال کر دوسری میں ڈال لیتے ہیں۔ اس تبدیلی کا نام ’’مرحلہ وار حقیقی جمہوریت کا قیام‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس دوران جو کچھ عدلیہ، وکلاء اور میڈیا کے ساتھ ہوا اس کا تو ہم نے ذکر ہی نہیں کیا کیونکہ اس ذکر کی تفصیلات اس سے بھی زیادہ ’’تاریخی‘‘ اور ’’مثالی‘‘ ہیں جو صفحات کی بجائے کئی کتب میں بھی شائد نہ سما سکیں۔

قومی اور بین الاقوامی سطح پر سوچنے، سمجھنے اور بااصول طرز فکر کے حامل لوگ پاکستان کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار کسی ایک شخصیت کو نہیں سمجھتے بلکہ خرابی کے اصل ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو اس حکومت کے اہم عہدوں پر فائز تھے یا اب تک چلے آرہے ہیں۔ مشرف کابینہ کے وزیر اور مشیر ہیں جن کی ’’منافع بخش‘‘ حکمت عملیاں رنگ لارہی ہیں۔ ایسے ہی چاپلوس، خوشامد پسند اور قومی و ملی غیرت سے عاری مفاد پرست اصحابِ حل و عقد ہمیشہ قوموں کے زوال کا سبب بنتے رہے ہیں۔ لاکھوں قربانیوں اور عزت و حرمت کی نیلامیوں کے بعد حاصل ہونے والے پاکستان کو 60 سالوں کے بعد بھی اقوام عالم میں باعزت، باوقار اور مہذب مقام اگر حاصل نہیں ہوسکا تو اس کی ذمہ دار یہی ضمیر فروش مذہبی و سیاسی قیادتیں ہیں۔ آج بھارتی اور مغربی دانشور پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ مقالات اور کتب لکھ رہے ہیں جن میں ہمارے عمائدین قوم کی یہی روش اور کارنامے دلیل کے طور پر پیش کئے جارہے ہیں۔ پاکستان میں انتہا پسندی کا بڑھتا ہوا طوفان اسلام دشمن قوتوں کے لئے نہیں بلکہ اسلام اور پاکستان کے مستقبل کے لئے خطرہ ہے۔ اس سے امریکہ، اسرائیل اور بھارت جیسی مسلم کش قوتوں کو اپنے دیرینہ خوابوں کی تکمیل کے مواقع ملنے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ کل خدانخواستہ اس غیر یقینی اور مایوس کن صورت حال کے نتائج بدترین معاشی حالات اور سیاسی و سماجی انتشار کی صورت میں نکلے اور موجودہ آمریت اپنے منطقی نتائج پر منتج ہوئی تو اس سارے نقصان کا سہرا کس کے سر سجے گا؟ اسی تاریخی قومی اسمبلی اور اس کے لائق فائق وزرائے کرام اس ناسور کی پرورش و حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے جنہوں نے ملکی دستور اور متفقہ آئین کو جان بوجھ کر پسِ پشت ڈال دیا اور اپنی محدود وفاداریوں اور وزارتوں کو یقینی بنانے کے لئے ملک کی تقدیر کے ساتھ کھیلتے رہے۔ انہوں نے ایک ایسے شخص کو مطلق العنان حکمران بنایا جس نے آئین، عدلیہ اور مقننہ کو بازیچہ اطفال بنایا۔ فوج اور عدلیہ جیسے قومی اداروں کا تقدس پامال کیا۔ لال مسجد سمیت فاٹا، وزیرستان، سوات اور ملک کے دیگر علاقوں میں بھائی کو بھائی کے خون بہانے پر مجبور کیا۔ قوم اور ملک کو اس بدترین صورت حال تک پہچانے والے یہ لوگ کون ہیں؟ کیا بحیثیت قوم ہم نے کبھی سوچا؟ ان سے نجات کیسے حاصل ہوسکتی ہے، کیا کبھی اس پر غور کیا؟ اگر نہیں کیا تو خدارا اب بھی وقت ہے۔

موجودہ طریقہ انتخاب میں تبدیلی کی ضرورت

تحریک منہاج القرآن کی قیادت نے آج سے کئی سال پہلے جب سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا، ملک و ملت پر چھائی ہوئی غیر یقینی صورت حال سے نکلنے کے لئے مصطفوی انقلاب کا پرچم بلند کیا اور سامراج پرور نظام اور اس کے محافظ ان مجرم عناصر کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم کیا تو سب سے پہلے موجودہ طریقہ انتخاب میں تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ (بقیہ صفحہ نمبر 44 پر ملاحظہ فرمائیں)

(بقیہ: اداریہ) چنانچہ متناسب نمائندگی کا شورائی نظام متعارف کروایا گیا مگر چونکہ اس میں چند مفاد پرست عناصر کی بجائے عوام کے حقوق کے تحفظ کا خیال رکھا گیا تھا اس لئے باطل پرست طبقوں نے اس پر غور ہی نہیں کیا۔ آج ہم نے پھر دیکھ لیا ہے کہ اس نظام پر بننے والی حکومت مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ اس قومی اسمبلی کی تشکیل کے ایک سال بعد جب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا تھا تو آپ نے اس وقت بھی ان مفاسد اور متوقع خطرات کی نشاندہی کی تھی۔ لیکن مفاد پرست حکومتی اور اپوزیشن سے وابستہ عناصر دنیوی منفعتوں کے لئے بوگس نظام کا حصہ بنے رہے اور اب جب ان کی مدت بھی ختم ہوچکی ہے اور وہ غلط فیصلوں کی توثیق بھی کرتے رہے ہیں تو اس پچھتاوے کا کیا فائدہ؟ آج عدلیہ مفلوج ہے، میڈیا کے ہاتھ پاؤں اور آنکھیں نکال دی گئی ہیں۔ فوج کو عوام کے ساتھ متحارب قومی ادارہ بنادیا گیا ہے۔ اس کا احترام اور عزت لوگوں کے دل و دماغ سے نکل رہی ہے اور اس کی جگہ شدید نفرت بھری جارہی ہے۔ عوام مجموعی طور پر سرد مہری کا شکار ہیں۔ اس پورے منظر میں ان کی کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ اسے موجودہ مذہبی و سیاسی قیادت پر اعتماد اور یقین ختم ہوچکا ہے۔ وہ موجودہ نظام سے قطعی طور پر ناامید ہوچکی ہے۔ اسی لئے تحریک منہاج القرآن کے سیاسی ونگ پاکستان عوامی تحریک نے اس نظام کے تحت ہونے والے آئندہ الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ ہماری ساری جدوجہد اس باطل پرور اور عوام دشمن نظام کے خاتمے کے لئے ہے جو ہمیشہ جاری رہے گی۔ جب تک یہ نظام نہیں بدلتا اس وقت تک اس ملک میں منافع بخش تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔

آئین، عدلیہ اور میڈیا کے حق میں تحریک کا موقف

گذشتہ روز تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کی مرکزی ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس میں متفقہ قرار داد منظور کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ایمرجنسی کا نفاذ ملکی مفاد میں نہیں اسے فوری طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا جائے۔ آئین اور بنیادی حقوق کی معطلی سے عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ آئین اور بنیادی حقوق کو بحال کرکے ملکی امیج کو بہتر بنایا جائے۔ الیکٹرانک میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں کو غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے ہاؤس نے مطالبہ کیا کہ انہیں فوری طور پر ختم کرکے میڈیا کو آزاد کیا جائے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حساس معاملات میں میڈیا بھی حکمت و ذمہ داری سے کام لے۔ سیاسی قائدین، کارکنان، صحافیوں اور وکلاء پر تشدد، بدسلوکی اور گرفتاریوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور انہیں فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ موجودہ صورتحال میں بعض اپوزیشن جماعتوں نے موثر اور مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ اپوزیشن جماعتیں اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور ذاتی مفادات سے بالا ہوکر ملکی مفاد کو ترجیح دیں۔ ظالمانہ، استحصالی، منافقانہ اور عوام دشمن نظام انتخاب کو ختم کرکے آئندہ انتخابات متناسب نمائندگی کے تحت کرانے کا اعلان کیا جائے تاکہ عوام کے حقیقی نمائندے اسمبلی میں پہنچ کر ملک اور عوام کے مفاد میں قانون سازی کا عمل شروع کرسکیں۔ خارجہ پالیسی کا آزاد اور خودمختار بناکر فیصلے خود کرنے کی مثبت اور جرات مندانہ روایت کا آغاز کیا جائے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ تنگ نظری، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے حقیقی پالیسی بنائی جائے اور سطحی اور غیر نتیجہ خیز اقدامات اٹھانے کی بجائے اس ناسور کے اسباب کا تدارک کرکے ان کے خاتمے پر سنجیدہ کوشش کی جائے بے روزگاری اور مہنگائی کے خاتمے کے لئے حکومت سنجیدہ اقدامات اٹھائے تاکہ غریب عوام کو ریلیف مل سکے۔