تعلیماتِ تصوف و طریقت اور اصلاح احوال

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

امام سُلَمِی کی ’’طبقات الصوفیہ‘‘ سے شہر اعتکاف رمضان2007ء میں
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا علمی، تربیتی اور روحانی خطاب

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

گذشتہ سے پیوستہ

امسال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقدہ شہر اعتکاف 2007ء کے ہزاروں معتکفین کی علمی، تربیتی، فکری، اخلاقی اور نظریاتی اصلاح کے لئے امام ابو عبدالرحمن محمد بن حسین السُّلَمِی (325ھ۔ 412ھ) کی تصوف کے موضوع پر لکھی گئی شہرہ آفاق کتاب ’’طبقات الصوفیہ‘‘ کے دروس ارشاد فرمائے۔ اس سلسلے میں شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہر القادری نے اپنے پہلے خطاب کے ابتدائی حصے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’طبقات الصوفیہ‘‘ کا پہلا باب حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ لوگوں نے حضرت فضیل ابن عیاض کو صرف صوفی جانا حالانکہ آپ امام حدیث بھی ہیں اور آپ کی متصل سند حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتی ہے۔ آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

يَقُوْلُ اللّٰهُ تعالیٰ لِدنيا يَا دُنْيَا مُرِّی عَلٰی اَوْلِيآئِی وَلاَ تَحْلَوْلِی لَهُمْ فَتَفْتَنِيْهِمْ.

’’اللہ تعالیٰ دنیا سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اے دنیا میرے اولیاء پر کڑوی بن کر رہ اور ان کے لئے بہت میٹھی نہ بن کہ ان کے دل تیرے فتنے میں مبتلا ہوجائیں‘‘۔

حامل قرآن کا مقام و منصب

٭ جن دلوں کو اللہ تعالیٰ حامل قرآن بناتا ہے اُن کے متعلق حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں:

لَا ينْبَغِیْ لِحَامِلِ الْقُرْاٰن اَنْ يَّکُوْنَ لَه اِلٰی خَلْقٍ حَاجَة لَا اِلَی الْخُلَفآءِ فَمَنْ دُوْنَهُمْ يَنْبَغِیْ اَنْ تُکُوْنَ حَوَائِجُ الْخَلْقِ کُلِّهِمْ اِلَيْه.

جس کو قرآن کی معرفت، نور، علم اور برکت نصیب ہوجائے اسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ مخلوق، اہل دنیا اور بادشاہوں کی طرف اپنی حاجتیں لے کر جائے، کیونکہ وہ حامل قرآن ہے اور قرآن کی نعمت اس کے دل میں موجود ہے۔ لہذا اس نعمت عظمیٰ کی موجودگی اسے اہل دنیا سے بے نیاز کردے پس یہ چاہیے کہ ساری خلق اپنی حاجتیں لے کر اُن کے دروازے پر آئے نہ کہ یہ مخلوق کے پاس اپنی حاجتیں لے کر جائیں۔

حامل قرآن، قرآن کی خدمت کرنے والے، قرآن کی دعوت دنیا تک پہنچانے والے، خواہ وہ علماء ہیں یا اساتذہ و شیوخ، خواہ وہ اس تحریک کے کارکن ہیں یا رفقاء، جن کے دل کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کے فیض سے معمور کردیا وہ قرآن کے مقام و مرتبہ کو سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک ایسی نعمت عظمیٰ عطا کی ہے جس کے سامنے دنیا کی تمام لذتیں اور راحتیں ہیچ ہیں۔

قرآن کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟

کائنات میں اس وقت کوئی چیز ایسی موجود نہیں جو من و عن، لفظ و حرف اور معانی و کلمات کے اعتبار سے، اپنی کامل ترتیب و ترکیب کے اعتبار سے اس شکل میں ہو جیسی زبانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اداہوئی تھی۔ سوائے دو چیزوں کے اور وہ ہیں۔

  1. قرآن
  2. حدیث

قرآن کی حفاظت خود اللہ تعالیٰ نے کی اور حدیث کی حفاظت کا اہتمام اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے آئمہ کے ذریعے کیا۔ قرآن پاک کی حفاظت کے بارے میں فرمایا:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَه لَحٰافِظُونَ.

(الحجر : 9)

’’بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے‘‘۔

آج ہر شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نہیں کرسکتا۔ ۔ ۔ ان کی آواز کو سن نہیں سکتا۔ ۔ ۔ ظاہراً صحابہ کرام کی طرح اُن کی مجالس میں بیٹھ نہیں سکتا۔ ۔ ۔ سوائے اس خوش نصیب کے جسے خواب میں جلوہ نصیب ہو یا اس خوش نصیب کے جنہیں حالتِ بیداری میں کچہری نصیب ہوجائے۔ لہذا دنیا کے معمولات و معاملات میں غرق رہنے کی بناء پر کوئی ایسی خوش نصیبی دستیاب نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ کو دیکھ سکیں، آواز کو سن سکیں یا کوئی چیز جس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مس کیا تھا، اور وہ اس شکل و ہیت میں موجود ہو اور ہم اس کو چھو سکیں۔ صرف قرآن ہی ایسی نعمت ہے کہ ایک حرف کے بھی فرق کے بغیر اس کے تمام کلمات، آیات، الفاظ حروف، اعراب وہی ہیں جو زبان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکلے تھے اور کتنی خوش نصیب ہے امت محمدی کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پڑھا آج اسی طرح قرآن ہمارے پاس موجود ہے۔ آج ہم قرآن کی کسی بھی آیت کی تلاوت کرتے ہیں تو یہ وہی ترکیب و ترتیب ہے جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادا کئے تھے۔ گویا ہم تلاوت قرآن کرکے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پڑھے ہوئے کی نقل کررہے ہیں۔ ۔ ۔ یہ وہ قرآن ہے جو اللہ کا کلام ہے جسے اس نے لوح محفوظ میں رکھا، پھر بیت العزت پر اتارا اور پھر 23 سال تک جبرئیل کے ذریعے نازل کرتا رہا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر میں محفوظ ہوتا رہا، پھر زبان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ادا ہوتا رہا۔ ۔ ۔ گویا یہ وہ چیز ہے کہ 14 صدیاں گزرنے کے باوجود اسی طرح محفوظ ہے۔ یہ قرآن جس کے سینے، فہم، قلب، زبان پر آگیا پس یہ اسی صورت میں آگیا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادا فرمایا تھا۔

قرآن۔ ۔ ۔ محبوب حقیقی کا خط

عاشقوں کے نزدیک تو قرآن محبوب حقیقی کے خط کی مانند ہے۔ ۔ ۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اللہ کے خطوط ہیں۔ ۔ ۔ اور لکھی ہوئی شکل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں عطا کردیئے۔ پس قرآن، اللہ کے مکتوبات، رسائل کلمات اور پیغامات ہیں۔

امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہونے کا وظیفہ کیا ہے؟ فرمایا: اللہ کا کلام، اس کو جتنا پڑھو گے اتنا اللہ کے قریب ہوجاؤ گے۔

دنیاوی محبوب کی طرف سے آنے والے خطوط کو عاشق لاتعداد مرتبہ پڑھتا چلا جاتا ہے حالانکہ مضمون وہی ہے مگر عاشق کو محبوب کی طرف سے بھیجے جانے والے پیغام کو دیکھنے، پڑھنے، بار بار دہرانے سے لذت ملتی ہے کیونکہ محبوب کا خط ہے۔ پس اگر اس کلام الہی کا معنی و مفہوم نہ بھی آتا ہو تب بھی پڑھنے والے کو اجر و ثواب سے محروم نہیں کیا جاتا اس لئے کہ کلامِ محبوب ہے اور یہ قرآن کی شان ہے، اس لئے کہ اس کی تلاوت کا حکم الگ ہے اور اس کی تعلیم کا حکم الگ ہے۔

يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ.

’’جو تم پر ہماری آیات تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے‘‘۔

(البقرہ : 151)

تلاوت میں سمجھ آئے یا نہ آئے تلاوت کا اجرو ثواب ہے اور اس کا علم ہوجائے اور سمجھ کر پڑھا جائے تو مزید ثواب ہے۔ لہذا تمام احباب قرآن پاک کو اس کے ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کو اپنا معمول بنائیں، اگرچہ تھوڑا ہی پڑھیں مگر روزانہ پڑھیں اور یہ تصور لے کر پڑھیں کہ محبوب کے خط پڑھ رہے ہیں جن میں خطاب براہ راست ان سے بھی ہے اور ان خطوط میں لکھا کیا ہے وہ بھی سمجھ رہے ہیں۔

قرآن کی اسی شان کے پیش نظر حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں کہ حامل قرآن کی یہ شان نہیں کہ وہ اپنی حاجت دنیا والوں کے پاس لے کر جائے بلکہ اس کی شان یہ ہے کہ اہل دنیا اس کے دروازے پر اپنی حاجات لے کر آئیں۔ اولیاء اللہ فرمایا کرتے ہیں کہ

’’بدترین عالم وہ ہے جو طالب بن کر امراء کے دروازے پر پایا جائے، اور بہترین حاکم و امیر وہ ہے جو علماء اور اہل اللہ کے دروازے پر پایا جائے‘‘۔

اہل قرآن کی شان یہ نہیں کہ اہل دنیا کے سامنے طالب اور سائل بنیں، بلکہ دنیا کو چاہئے کہ وہ اہل قرآن کے سامنے طالب و سائل بنیں۔ جس کو اللہ نے قرآن کی دولت عطا کردی، اگر اس نے قرآن کی دولت کو سمجھ لیا تو وہ کل دنیا و مافیھا کی حاجت مندی سے بے نیاز ہوگیا۔

قربِ خداوندی کا حصول کیسے؟

حضرت فضیل بن عیاض امت مسلمہ کے قلوب و ارواح کو نورِ الہٰی سے مزین کرنے کے لئے مزید فرماتے ہیں کہ

لَمْ يُدْرِکَ عِنْدَنَا مَنْ اَدْرَک بِکَثْرَةِ صِيَامٍ وَلَا صَلَاةٍ. وَاِنَّمَا اَدْرَکَ بِسَخَاءِ الْاَنْفُسِ وَالسَّلَامَةِ الصَّدْرِ وَالنُّصْحِ لِلْاُمَّةِ.

’’ہمارے ہاں یعنی اہل تصوف اہل سلوک، اہل طریقت، اہل معرفت، اہل ولایت، اہل اللہ کے ہاں جس نے جو مقام و مرتبہ بھی پایا اس نے وہ مقام و مرتبہ بہت زیادہ اعمال نماز روزہ کی کثرت سے نہیں پایا‘‘۔

اگر محض کثرت صیام و صلاۃ کسی کو ولایت، مقربیت اور محبوبیت کے اونچے درجے پر پہنچاتیں خوارج ولایت میں سب سے اعلیٰ درجہ پر ہوتے۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خوارج کے ساتھ آمنا سامنا ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے بعض صحابہ کرام کو خوارج کے ساتھ مذاکرات کے لئے بھیجا، وہ صحابہ بیان کرتے ہیں کہ اگر ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نہ سنا ہوتا کہ آخری زمانے میں خوارج آئیں گے، حروریہ آئیں گے۔

فان له اصحابا يحقر احدکم صلاته مع صلاتهم و صيامه مع صيامهم يقرء ون القرآن لا يجاوز ترقيهم يمرقون من الدين کما يمرق السهم من الرمية.

(صحیح بخاری، کتاب المناقب، 3 / 1321، الرقم : 3341)

وہ اس کثرت کے ساتھ نمازیں پڑھیں گے۔ کہ تم اپنی نمازوں کو ان کی کثرت صلاۃ کے مقابلے میں حقیر جانو گے۔ ۔ ۔ وہ اتنے روزے رکھیں گے کہ تم اپنے روزے ان کے مقابلے میں حقیر جانو گے۔ ۔ ۔ اتنی زیادہ تلاوت قرآن کریں گے کہ تم اپنے اعمال کو ان کے اعمال کے مقابلے میں حقیر جانو گے مگر وہ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے نکلتا ہے۔

اگر ہم نے یہ فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ سنا ہوتا تو ہم ان کا ظاہری حال دیکھ کر متزلزل ہوجاتے یہ خیال پیدا ہوا کہ ان سے لڑائی نہ کی جائے کہ ہم نے ان جیسا قیام لیل کرنے والا، طویل قیام و سجود کرنے والا، تلاوت کرنے والا نہیں دیکھا، ہم نے ان کی ظاہری عبادت گزاری، اعمال، پابندی شریعت کو دیکھا تو ہم متردد ہوگئے دوسری روایت میں الفاظ آئے ہیں کہ ہمیں تو وہ اولیاء لگتے تھے۔ ہم ڈگمگا گئے کہ ہم اتنے عبادت گزار لوگوں سے جنگ کرنے آئے ہیں، اسی لمحے ہمارے ایمان کو تاجدار کائنات کی خبر نے بچالیا۔

نیک اعمال، قربِ خداوندی کیلئے معاون

امام سلمی، قاضی عیاض سے بھی یہی روایت کررہے ہیں کہ کثرت صوم و صلاۃ اور صرف ظاہری اعمال سے اہل اللہ و اہل ولایت کے ہاں کوئی اونچے رتبے تک نہیں پہنچا مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ نیک اعمال نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی کوئی اہمیت و کردار نہیں۔ اس بات سے ہمارے اہل سنت سے تعلق رکھنے والے احباب ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں کہ کثرت اعمال سے جان چھوٹی۔ ۔ ۔ اس سے تو کچھ بھی نہیں ہونا۔ ۔ ۔ پس اس فکر اور سوچ نے ہمیں برباد کردیا۔ ۔ ۔ اس بات کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ احکام ترک ہوجائیں، اعمال صالحہ ترک ہوجائیں۔ اہل اللہ 40 / 40 سال تک عشاء کے وضو سے فجر ادا کرتے رہے۔ ۔ ۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی میں 7000 ختم قرآن کئے۔ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے 40 برس عشاء کے وضو سے فجر ادا کی۔ یہی حال جملہ آئمہ کرام اور اہل ولایت کا رہا ہے۔

عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے بے آہ سحر گاہی

جو بات بیان کی جارہی ہے وہ بات اور ہے۔ ۔ ۔ ہم اپنی طرف سے اس کے معانی غلط بنا کر اپنی زندگی میں تساہل پیدا کرنے کے لئے ان احکام کا غلط استعمال کرتے ہیں اور عمل میں کمزور ہوگئے ہیں۔ ۔ ۔ اولیاء اللہ جیسا اعمال صالحہ میں کمربستہ کوئی نہ تھا۔ ۔ ۔ اولیاء اللہ جیسا قائم اللیل کوئی نہ تھا۔ ۔ ۔ وہ تو صائم الدھر تھے۔ ۔ ۔ ان سے بڑھ کر متمسک باالشریعہ کوئی نہ تھا۔ ۔ ۔ احکام شریعت کی پابندی کرنا ہی عین تصوف ہے۔

حضرت فضیل بن عیاض بتانا یہ چاہتے ہیں کہ نیک اعمال کی کثرت ان کی زندگی میں تھی اور وہ اعمال صالحہ کے اعتبار سے سب سے بڑھ کر تھے مگر محض ان چیزوں نے ان اولیاء کو ابدال، قطب اور غوث نہیں بنایا۔ ۔ ۔ محض ان چیزوں کے سبب وہ ان مراتب پر نہیں پہنچے تھے فرمایا کہ درحقیقت یہ اعمال ان مقام و مرتبے پر پہنچنے میں مددگار ہوئے۔ مگر اصل سبب ان کو بلند مراتب تک پہنچانے کا یہ تھا کہ

وَاِنَّمَا اَدْرَکَ بِسَخَاء الْاَنْفُسِ وَالسَّلَامَةِ الصَّدْرِ وَالنُّصْحِ لِلْاُمَّةِ.

یعنی اولیاء اللہ نے قربت و ولایت کے مرتبے نفس کی سخاوت، سلامتی صدر اور امت کے لئے سراپا نصیحت بن جانے سے حاصل کئے۔

اعلیٰ مرتبہ ولایت پر فائز کرنے والی خصوصیات

تین چیزیں اولیاء، غوثوں، قطبوں، نجباء، نقباء، ابدالوں، اولیاء، صالحین اور اہل اللہ میں ایسی تھیں جس نے ان کو ان مراتب تک پہنچایا اور اعمال صالحہ کی کثرت، قیام لیل، عبادت گزاریاں، اطاعات یہ تمام مددگار تھیں۔ رتبے تک پہنچانے والی تین چیزیں تھیں:

  1. نفس کی سخاوت
  2. دلوں کی سلامتی
  3. سراپا نصیحت

1۔ نفس کی سخاوت:

ان کے نفس سخی تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نفوس میں کسی کے لئے کدورت نہ تھی، اگر نہ ملا تب بھی غم نہ کرتے تھے۔ ۔ ۔ بھوک، فقر و فاقہ آگیا تب بھی پریشان نہ ہوتے تھے، صابر و شاکر رہتے۔ ۔ ۔ کسی نے تکلیف پہنچائی تو ردعمل کے طور پر انتقام نہ لیتے تھے۔ ۔ ۔ کسی نے گالی دے دی تو اس کے لئے بغض و عناد نہ رکھتے تھے، دشمن سے بھی انتقام نہ لیتے تھے۔ ۔ ۔ برائی کرنے والے سے اچھائی کرتے تھے۔ اپنے اور پرائے کے ساتھ بھلائی کرتے تھے۔ ۔ ۔ ان کے دل کسی کے لئے تنگ نہ تھے۔ ۔ ۔ غیبت، چغلی، حسد، بغض، عناد، عداوت سے پاک تھے۔ ان کے نفوس میں دریاؤں اور سمندروں سے بھی زیادہ سخاوت تھی۔ نفس کی اس سخاوت نے انہیں اس مرتبے تک پہنچایا کہ اللہ نے انہیں اپنی قربت عطا کی اور اپنے محبوبوں میں شامل کرلیا۔

2۔ دلوں کی سلامتی:

دوسرا سبب سلامۃ الصدر ہے یعنی ان کے دلوں کی سلامتی نے انہیں اس مقام تک پہنچایا۔ ان کے دلوں میں تکبر نہ تھا۔ ۔ ۔ ’’میں‘‘ نہ تھی۔ ۔ ۔ کوئی نیچے بٹھا دیتا تو دل تنگ نہ ہوتا اور اگر کوئی اوپر بٹھا دیتا تو دل خوش نہ ہوتا تھا۔ ۔ ۔ کوئی ادب کرلیتا تو دل پھولتا نہ تھا، کوئی بے ادبی و گستاخی کرلیتا تو دل رنجیدہ نہ ہوتا تھا۔ ۔ ۔ ان کے دل اتنے سلیم تھے کہ وہ کسی کے عمل کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ دنیا کے حالات اور لوگوں کا برتاؤ ان کے دلوں کو متغیر نہ کرتا تھا۔ ۔ ۔ اس لئے کہ ان کی دلوں کی سلامتی اللہ سے تعلق میں تھی، دنیا کے تعلق میں نہ تھی۔

3۔ سراپا نصیحت:

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اُن کی مقبولیت اور محبوبیت کا تیسرا سبب ان کا امت کے لئے سراپا نصیحت ہونا تھا۔ وہ امت کو ہر وقت خیر کی دعوت دیتے۔

تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں! خدمتِ دین کی ذمہ داری جو آپ کے سپرد کی گئی ہے یہ اَلنُّصْحُ لِلْاُمَّہ ’’امت کے لئے سراپا نصیحت ہونا‘‘ ہے۔ اللہ کی عزت کی قسم! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کے فروغ و اشاعت، اقامت، ابلاغ، استحکام اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی بہتری کے لئے تمہارا سفر کرنا، تکلیف اٹھانا۔ ۔ ۔ بھاگ دوڑ کرنا، ہر ایک کے پاس جانا۔ ۔ ۔ لوگوں کی پیشانیوں کے شکن برداشت کرنا، ان کے ناروا رویہ پر مسکرانا۔ ۔ ۔ دین کی خدمت کا جذبہ لے کر مارا مارا پھرنا، انسانوں کی بھلائی کے لئے۔ ۔ ۔ امر خیر کے لئے تگ و دو کرنا 100 / 100 سال تک ساری رات کے نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔ ۔ ۔ عمر بھر کے روزوں سے بہتر ہے۔

امت کے لئے سراپا نصیحت ہوجانا، سنت انبیاء ہے یہ وہ عظیم کام ہے جس کے لئے انبیاء و رسل آئے۔ اس عظیم مقصد کے لئے انبیاء و رسل پر ظلم ہوئے مگر ان کی پیشانیوں پر شکن نہیں آئے۔ ۔ ۔ انہیں چیرا گیا، لیکن انہوں نے النصح للامہ نہیں چھوڑا۔ ۔ ۔ بعض انبیاء کے ہاتھ کاٹے گئے مگر النصح للامہ نہیں چھوڑا۔ ۔ ۔ امام مالک کو ذلت آمیز انداز سے گلیوں میں پھرایا گیا، کوڑے مارے گئے مگر النصح للامہ نہیں چھوڑا۔ ۔ ۔ امام اعظم کو جیل بھیجا گیا مگر النصح للامہ نہیں چھوڑا۔ ۔ ۔ امام احمد بن حنبل کو کوڑے مارے گئے، جیل بھیجا گیا مگر النصح للامہ اور دین کے کام میں استقامت کا مظاہرہ کیا۔ ۔ ۔ گویا تمام اہل اللہ، آئمہ، قیام اللیل بھی کرتے۔ ۔ ۔ نمازیں، روزے، اعمال صالحہ کے پابند بھی تھے۔ ۔ ۔ عبادت کی کثرت بھی تھی۔ یہ حق ہے مگر جو جتنا اونچا پہنچا وہ ان کے سبب سے نہیں بلکہ وہ سخاء نفس، دل کی سلامتی اور امت کے لئے سراپا نصیحت ہونے کے باعث اس مقام و مرتبہ کو پہنچا۔

اہلِ بیت کرام اور سخاءِ نفس:

یاد رکھیں جو سخت بخیل ہے وہ کبھی خدا کا ولی نہیں ہوسکتا، سخاوت نفس یہ ہے کہ کچھ ہو تب بھی راہ خدا میں دو اور نہ ہو تب بھی دو، سخاوت نفس کے حامل لوگ تو قرآن کی اس آیت کے مصداق ہوتے ہیں۔

وَيطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّهِ مِسْکِيْناً وَيَتِيْماً وَأَسِيْراً.

’’اور (اپنا) کھانا اﷲ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں‘‘۔

(الدھر : 8)

یہ سب کچھ کرلینے کے بعد پھر کہتے ہیں کہ

إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ.

(الدھر، 76 : 9)

’’(اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لئے تمہیں کھلا رہے ہیں‘‘۔

وَلَا يَجِدُونَ فِیْ صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.

’’اور یہ اپنے سینوں میں اُس (مال) کی نسبت کوئی طلب (یا تنگی) نہیں پاتے جو اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو، اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچالیا گیا پس وہی لوگ ہی با مراد و کامیاب ہیں‘‘۔

حسنینِ کریمین بیمار ہوگئے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے، فرمایا: علی رضی اللہ عنہ ، فاطمہ رضی اللہ عنہ اور فضہ رضی اللہ عنہ (خادمہ) تم سب حسن و حسین رضی اللہ عنہ کی صحت یابی کے لئے نذر مانو اور روزے رکھو۔ ۔ ۔ ان احباب نے نذر مانی اور تین روزے رکھے۔ ۔ ۔ یہودی سے روزے کے افطار کے لئے قرض لیا۔ تینوں دن افطار کے وقت سائل آگیا۔ ۔ ۔ ان احباب نے روٹیاں اس سائل کو دے دیں اور خود پانی سے افطار کرلیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی آنکھوں میں بھی حلقے پڑگئے ہیں، گھر آئے تو دیکھا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آنکھوں میں بھی حلقے پڑگئے ہیں۔ ۔ ۔ پوچھا: فاطمہ کیا ماجرا ہے؟۔ ۔ ۔ انہوں نے واقعہ بیان کردیا کہ سائل کو کھانا دینے کی وجہ سے پانی سے روزے افطار کئے۔ اس بناء پر یہ صورت حال ہے۔

پس

إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ میں لفظ لِوَجْهِ اللَّهِ

’’اللہ کی رضا کیلئے‘‘ سخاوت نفس اور سلامت صدر ہے۔

لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا.

(الدھر : 9)

’’نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکر گزاری کے (خواہشمند) ہیں‘‘۔

یہ سخاوت النفس ہے کہ کِھلا بھی دیا اور کہا کہ بتانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ شکریہ کے لئے نہیں کھلایا بلکہ محبوب کو راضی کرنے کے لئے کھلایا ہے۔ قرآن پاک میں ایک مقام پر نیکی کے تصور کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ.

(البقرہ، 2 : 177)

’’نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے‘‘۔

حقداروں کو مال دینا خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو اگرچہ خود فاقہ کرنا پڑے یہ صرف سخاوت ہے جبکہ بھوک برداشت کرتے ہوئے حقداروں کو دینا اور پھر یہ کہنا کہ ہم نے یہ سب اللہ کی رضا کے لئے کیا گویا شکریہ کی طلب بھی نہ ہو، یہ سخاوتِ نفس ہے۔ ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ ہم دیتے ہیں لیکن شکریہ کی طلب رکھتے ہیں۔ ۔ ۔ ایک بھلائی کسی کے ساتھ کردیں تو یہ چاہتے ہیں کہ یہ ساری زندگی ہمارا غلام بن کر رہے۔

جو بھلائی کرکے بدلے اور اس کی طرف سے شکر گزاری کی توقع کرے تو یہ بخلِ نفس ہے۔ ۔ ۔ اور جو بھلائی کرے اور بھول جائے یہ سخاوت نفس ہے۔ ۔ ۔ اور پھر جو یہ کہے کہ ’’لوجہ اللہ‘‘ کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے کیا ہے تو یہ سلامۃ الصدر ’’سینوں/ قلوب کی سلامتی‘‘ ہے۔

پس اہل بیت کا 3 دن تک سائل کو کھانے دینے کے عوض تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الدھر میں فرمایا کہ انہیں جنت عطا کردی۔ اب اگر اہل بیت کا عمل دیکھیں تو وہ تھا تین دن تک سائل کو روٹیاں دینا اور اس کی جزا یہ ملی کہ رب نے فرمایا کہ جنت عطا کردی گویا اللہ تعالیٰ کی جنت تو 3دن تک روٹیاں دینے کا اجر ہے اور عمر بھر کے اعمال کا صلہ یہ دیا کہ جس کو چاہو آگے جنت بانٹتی رہنا۔

پس یہ درجے سخاوت النفس اور سلامت الصدر کی بناء پر حاصل ہوتے ہیں۔

نصیحت اور صبرکا باہمی تعلق

جب بندہ امت کی نصیحت کی راہ اپناتا ہے تو اُسے صبر کا دامن تھامنا پڑتا ہے۔ یہ ایک مشن ہے۔ علماء کرام دین کے احیاء، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کے فروغ، اشاعت اور اقامت کے مشن پر ہیں اور کارکنان تحریک منہاج القرآن، میرے بھائی، بیٹے، مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ہیں۔ آپ اقامت دین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن پر ہیں۔ ۔ ۔ اشاعت دین مصطفیٰ کے مشن پر ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نوکری پر ہیں۔ ۔ ۔ النصح للامۃ پر ہیں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ

وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِO

(العصر، 103 : 3)

’’اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور (تبلیغ کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام میں) باہم صبر کی تاکید کرتے رہے‘‘۔

جب اس کام میں پڑیں گے تو صبر کرنا پڑے گا، تکالیف آئیں گی، پس ان اعمال سے درجے ملتے ہیں۔ ہزار تکالیف، مصائب، مشکلات اور رکاوٹیں ہوں پھر بھی امت کے نصیحت کے کام کو جاری رکھنا ہے۔ دعوت، فروغ خیر کے کام کو جاری رکھنا ہے۔ کارکنان تحریک منہاج القرآن توجہ سے سنیں، ہم اس کو معمولی کام سمجھتے ہیں، یہ بڑی عبادتوں سے بھی بڑی عبادت ہے۔

امام احمد بن حنبل کو امت کی نصیحت کے کام سرانجام دینے پر کوڑے مارے گئے۔ خیر کے اعلان اور خیر کی دعوت پر ظلم ڈھایا گیا اور اُن کو اِ س کا اجر کیا ملا؟ اس کا اندازہ درج ذیل روایت سے ہوتا ہے جسے امام ذہبی نے سیرالاعلام النبلاء اور امام ابن جوزی نے صفۃ الصفواء میں بیان کیا کہ امام ابن خزیمہ روایت کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوگیا۔ ۔ ۔ بعد ازاں خواب میں ملاقات ہوئی۔ ۔ ۔ آپ سے پوچھا گیا کہ آپ سے اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا؟۔ ۔ ۔ انہوں نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف فرما دیا اور جنت عطا کر دی اور مجھے اپنے قریب بلایا اور مجھ سے پوچھا کہ احمد بن حنبل تو نے میری وجہ سے مار کھائی تھی نا۔ ۔ ۔ احمد بن حنبل نے جواب دیا : ہاں اے اللہ ایسا ہی ہوا تھا۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ احمد بن حنبل اور میرے درمیان پردے ختم کردو اور فرمایا کہ احمد بن حنبل جی بھر کر میرا دیدار کرلے۔ پس میں نے سیر ہوکر اللہ تعالیٰ چہرے کا دیدار کیا۔

پس یہ درجے نماز روزے کی کثرت کے ساتھ نہیں ملتے کہ وہ قریب بلاکر پوچھے کہ میری وجہ سے مار کھائی تھی نا۔ ۔ یہ درجے قربانیوں کے صلے میں ملتے ہیں اگر جاری رکھیں۔ ۔ ۔ اسی طرح یہ درجے سخاوت النفس، سلامۃ صدور/ قلوب اور النصح للامۃ کے نتیجے میں ملتے ہیں۔

خواب میں تین بزرگوں کے مراتب کا مشاہدہ

اس خواب کو علامہ ذہبی نے سیرالاعلام النبلاء میں روایت کیا جو کہ فن حدیث میں اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کے امام ہیں اور امام ابن جوزی نے صفۃ الصفوہ میں روایت کیا۔ میں یہ خواب کسی تذکرۃ الاولیاء جیسی کتابوں میں سے صوفیاء کے حوالے سے بیان نہیں کر رہا بلکہ آئمہ حدیث کے حوالے دے رہا ہوں۔ ۔ ۔ خوابوں کا انکار کرنے والے جن آئمہ اور ان کی کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں ان کے حوالے دے رہا ہوں۔ ان آئمہ حدیث کے عقائد بھی ملاحظہ کریں کہ انہوں نے خواب کو بھی اعتماد اور یقین کے ساتھ آگے روایت کیا۔ اگر وہ اس کی کوئی حیثیت نہ مانتے تو اپنی کتب میں روایت نہ کرتے بلکہ رد کر دیتے، انہی کتب میں ان خوابوں کو ذکر کرکے ان احباب نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ مطابقِ عقیدۂ صحیحہ ہیں۔

٭ ایک اور خواب جسے علامہ ذہبی اور امام ابن جوزی نے روایت کیا کہ امام احمد بن حنبل کے ایک شاگرد محدث نے خواب دیکھا کہ میں جنت میں ہوں اور کیا دیکھتا ہوں کہ۔ ۔ ۔ تین آدمی ہیں۔ ۔ ۔ ان میں سے ایک جنت کے دروازے پر کھڑا ہے اور اس کو یہ اذن و اختیار دیا گیا ہے کہ ہر آنے والے کو دیکھے، پہچانے، جس کو چاہے جنت میں داخل ہونے دے جس کو چاہے واپس کردے۔ ۔ ۔ دوسرا شخص اس حال میں ہے کہ جنت میں دستر خوان لگا ہے جس میں جنت کی نعمتیں موجود ہیں اور ملائکہ عزت و تکریم کے ساتھ اس دستر خوان سے اس شخص کو کِھلا اور پلا رہے ہیں۔ ۔ ۔ تیسرے شخص کو دیکھا کہ وہ وسط جنت میں کھڑا ہے، عرش کی جانت متوجہ ہوکر اللہ کا چہرہ بلا حجاب مسلسل تکتا جارہا ہے۔ اس محدث نے خواب میں کسی فرشتے سے پوچھا کہ یہ تینوں اشخاص کون ہیں؟

فرشتے نے جواب دیا کہ وہ جو دروازے پر کھڑا ہے، جس کو چاہتا ہے جنت میں داخل کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے واپس کر دیتا ہے یہ احمد بن حنبل ہیں۔ ۔ ۔ یہ درجہ ان کو کیوں ملا؟۔ ۔ ۔ اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کے فروغ اور النصح اللامۃ کے لئے کوڑے کھائے تھے۔

لوگو! جو لذت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی راہوں کی تکلیف میں ہے وہ کسی اور شے میں نہیں ہے۔ ۔ ۔ یہ کام کیا کرو۔ ۔ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کے لئے تکالیف اٹھایا کرو۔ ۔ ۔ جو درجے اس طور پر ملیں گے وہ کسی اور عبادت سے نہیں ملتے۔ ۔ ۔ گویا رب نے دکھا دیا کہ اس وقت احمد بن حنبل کے خلاف کثرت سے لوگ اکٹھے ہوگئے تھے۔ ۔ ۔ حکام وقت سے کوڑے لگوائے۔ ۔ ۔ جیل بھجوایا۔ ۔ ۔ آج جنت کے دروازے پر اس لئے کھڑا کیا ہے کہ احمد بن حنبل جس کو تو سمجھے کہ صحیح العقیدہ ہے اس کو جانے دے اور جس کو نامناسب جانے اس کو واپس کر دے۔

فرشتے نے کہا: کہ دوسرا شخص جس کے لئے دستر خوان بچھا ہے اور فرشتے اس کو کھلا پلا رہے ہیں اور وہ شخص اپنے ہاتھ سے کھاتا پیتا ہی نہیں، وہ بشر الحافی ہے جو بغداد کی گلیوں میں ننگے پاؤں پھرا کرتے تھے۔ ۔ ۔ یہ بشر حافی کون تھے؟ ان کی ریاضت، تقویٰ اور پرہیزگاری کا اندازہ لگانے کے لئے ان کی ہمشیرہ کا حال سنیے۔ ان کے اس مقام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک روز امام احمد بن حنبل کی خدمت میں ایک پردہ دار خاتون آئیں اور اس نے پوچھا کہ اے امام! میں اپنے گھر کی چھت پر چراغ کی روشنی میں سوت کاتتی ہوں اور پھر اسے بیچ کر گزر بسر کرتی ہوں۔ ۔ ۔ کبھی کبھی میرے گھر کے قریب سے بادشاہوں کی سواریاں گزرتی ہیں اور اس میں بڑی بڑی قندیلیں روشن ہوتی ہیں جس سے اردگرد کا پورا ماحول روشن ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔ اور یہ سواریاں دیر تک گزرتی رہتی ہیں، یہ روشنی میرے گھر کی چھت پر بھی آتی ہے اس دوران بھی میں سوت کاتتی رہتی ہوں۔ ۔ ۔ اور ان کی روشنیوں کی وجہ سے اس وقت سے سوت زیادہ کاتا جاتا ہے۔ ۔ ۔ پوچھنا یہ چاہتی ہوں کہ اس وقت جو سوت کاتتی ہوں کیا اس کے پیسے میرے لئے حلال ہیں یا نہیں؟

جب امام احمد بن حنبل نے یہ مسئلہ سنا تو کانپ کر رہ گئے اور کہنے لگے کہ مسئلہ کا جواب تو بعد میں دوں گا پہلے یہ بتا کہ تو کون ہے؟ جس کے تقویٰ اور ورع کا یہ عالم ہے؟۔ ۔ ۔ اس خاتون نے کہا کہ میں بشر الحافی کی بہن ہوں۔ ۔ ۔ امام احمد بن حنبل رو پڑے اور فرمانے لگے کہ بشرالحافی کی بہن ہی کا یہ حق ہے کہ وہ یہ سوال کرے اور کوئی نہیں کرسکتا اور نہ کوئی پوچھتا ہے نہ کوئی ایسا پوچھ سکتا ہے۔

گویا اللہ پاک فرما رہا ہے کہ بشرالحافی میری وجہ سے تم بھوکے پیاسے رہے، آج میں چاہتا ہوں کہ اپنے دستر خوان پر فرشتوں کے ہاتھوں سے تمہیں کھلاؤں پلاؤں۔

جو ایسی زندگی گزار گئے ان کے تو یہ حالات ہوئے۔ ہائے افسوس! وہ زمانے بیت گئے وہ لوگ گزر گئے۔ ۔ ۔ وہ باتیں بھولی بسری داستانیں بن گئیں۔ ۔ ۔ وہ سوداگر نہ رہے، نہ بیچنے والے رہے اور نہ خریدار رہے۔ ۔ ۔ ہم تو دنیا کے کتے ہیں۔ معلوم نہیں ہمارا کیا حشر ہوگا؟۔ ۔ ۔ کس طرح گھسیٹے جائیں گے اور کس دوزخ میں پھینکے جائیں گے، دوزخ بھی قبول کرے گی یا نہیں۔

فرشتے نے کہا: وہ تیسرا شخص جس کی نگاہ عرش پر ہے اور پردے ہٹا دیئے گئے ہیں اور رب ذوالجلال کا چہرہ مسلسل تکتا جارہا ہے اور اسے جنت کی حور و قصور اور کسی شے کی پرواہ نہیں وہ معروف کرخی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ان کو یہ صلا کیسے ملا؟۔ ۔ ۔ اس لئے کہ انہوں نے ساری زندگی میں جو عمل کیا، کسی عمل کا کوئی بدلہ اور اجر نہیں چاہا سوائے اللہ کے دیدار کے، اللہ نے فرمایا: کہ معروف کرخی تو میرے دیدار کے سوا کچھ نہیں چاہتا تھا پس آج جی بھر کے دیدار کرلو۔

اس کے اندر تین چیزوں کی طرف اشارہ ہے۔

  1. جو اس کے لئے بھوک و پیاس برداشت کرلے اسے وہ اپنے نرم و نازک، پیارے قدرت کے ہاتھوں سے کھلائے اور پلائے گا۔
  2. جو پوری زندگی اللہ کی رضا کی خاطر تمام اعمال سرانجام دے گا اُسے قیامت کے دن دیدار سے سیراب کیا جائے گا۔
  3. جو اس کے لئے تکالیف اٹھالے اسے قریب بلا کر پوچھے گا کہ میرے لئے تکلیف اٹھائی تھی۔

ذرا غور کریں کہ امام احمد بن حنبل نے کوڑے کھائے اور رب قریب بلاکر پوچھے گا کہ میری خاطر مار کھائی تھی۔ ۔ ۔ ان کا عالم کیا ہوگا جنہوں نے میدان کربلا میں 72 نفوس شہید کروا دیئے۔ ۔ ۔ پس جس نے اللہ اور اس کے دین کے لئے قربانی دی ہے اس کے اجر و رتبے ہیں۔ ۔ ۔ امام احمد بن حنبل سے جب لوگ پوچھتے تھے کہ آپ کو ملحد، زندیق کہلوایا گیا، سزائیں دلوائی گئیں، حق و باطل کا پتہ کب اور کیسے چلے گا؟

امام احمد بن حنبل فرمایا کرتے تھے کہ

’’جس دن سب کے جنازے اٹھیں گے حق و باطل کی بات واضح ہوجائے گی‘‘۔

جب امام احمد بن حنبل کا جنازہ اٹھا، 13 لاکھ افراد آپ کے جنازے میں شریک تھے۔ سیرالاعلام النبلاء، امام مزی کی تہذیب الکمال، خطیب بغدادی، علامہ ذہبی کی کتب دیکھیں سب میں اس واقعہ کا ذکر ہے کہ جس دن بشر الحافی کا جنازہ اٹھا، نماز فجر کی ادائیگی کے بعد جنازہ روانہ ہوا، عشاء کے بعد قبرستان پہنچے حالانکہ اس زمانے میں قبرستان آبادی سے زیادہ دور بھی نہ ہوتے تھے۔ ۔ ۔ امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام ابن عیینہ، کل آئمہ حدیث جن کے ناموں سے بخاری، مسلم اور دیگر کتب صحاح ستہ بھری پڑی ہیں، وہ کل امام سارا دن بشر الحافی کے جنازے کو کندھے دینے کے لئے دیوانہ وار بھاگتے ہوئے نظر آئے۔ اس سے آئمہ حدیث کی امام ولایت بشر الحافی رحمۃ اللہ علیہ سے اور دیگر آئمہ تصوف و ولایت سے عقیدت کی جھلک نظر آتی ہے۔

پس سخاوت نفس، دلوں کی سلامتی اور امت کے لئے نصیحت پر کار بند رہیں۔

سخاوت نفس و سلامۃ القلب کی پہچان

نفس کی سخاوت کی پہچان کے حوالے سے حضرت فضیل بن عیاض روایت بیان کرتے ہیں کہ

اِنِّیْ لَا اَعْتَقِدُ اِخَآء الرَّجُلِ فِی الرضاء وَلٰکِنِّیْ اَعْتَقِدُ اِخَآءَ ه فِی الْغَضَبِ اِذَا اَغْضَبْتُه.

نفس کی سخاوت، دلوں کی سلامتی کا لوگوں اور دوستوں کے ساتھ سلوک سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا سلوک لوگوں کے ساتھ کیا ہے؟۔ ۔ ۔ آپ عمر بھر نمازیں پڑھیں، تقریریں کریں، وعظ کریں، منہاج القرآن کے عہدیدار بنیں، رکن بنیں، تنظیمات بنائیں، جو چاہیں کریں مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت سے، انسانوں سے، بھائیوں، رشتہ داروں، اقارب، اللہ کے بندوں اور مخلوق سے آپ کا سلوک، محبت و عزت و تکریم پر مبنی نہیں تو کوئی عمل کام نہ آئے گا۔

پس حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں کہ ’’کسی کی اخوت کو پہچاننا ہو تو اس وقت نہ پہچانو جب آپ اس سے راضی ہیں یا وہ آپ سے راضی ہے اور آپ سے بھلائی کررہا ہے، آپ پر احسان کررہا ہے، آپ سے اچھائی کررہا ہے۔ ۔ ۔ کیونکہ اس وقت تو وہ آپ کو اچھا ہی لگے گا۔ ۔ ۔ سخاوت نفس کی یہ پہچان نہیں ہے۔ ۔ ۔ سخاوت نفس اور اخوت کی پہچان اس وقت ہوتی ہے کہ جب وہ آپ پر غضب کرے، ناراض ہو، زیادتی کرے۔ ۔ ۔ اس وقت دل کی حالت جانو کہ اب وہ دل کو کیسا لگتا ہے؟۔ ۔ ۔ اگر اس وقت دل میں اس کی نفرت نہ ہو، دل میں اس کے لئے پھر بھی خیر خواہی ہو تو فرمایا یہ اخوت ہے اور یہ حقیقی تصوف ہے۔

دلوں کی سلامتی کا معنی یہ ہے کہ دل کے اندر کسی کا بغض و کینہ نہ ہو۔ ۔ ۔ نہ تکبر ہو، نہ شہرت کی غرض ہو۔ ۔ ۔ اور نہ اعتراض کی غرض ہو۔ ۔ ۔ کوئی اعتراض کرے، کوئی تعظیم کرے۔ ۔ ۔ کوئی تکریم کرے، کوئی ہاتھ چومے۔ ۔ ۔ کوئی مانے، کوئی نہ مانے مگر دل بے نیاز ہو۔

٭ حضرت بشرالحافی روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت فضیل ابن عیاض سے سنا، ان سے پوچھا گیا کہ

آپ کی کوئی خواہش ہے؟ فرمایا: ہاں ایک خواہش ہے کہ اَشْتَہِیْ مَرَضًا بِلَا عُوَّادٍ۔ ’’میں چاہتا ہوں کہ میں کبھی مریض ہوں، بیمار ہوں اور کوئی عیادت کرنے والا نہ آئے‘‘ گویا شہرت سے اس طرح بھاگتے۔

ظاہر و باطن میں یکسانیت

٭ حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ ظاہرو باطن کے ایک ہونے کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

مَنْ اَظْهَرَ لِاَخِيْهِ الْوُدَّ وَالصَّفَآءَ بِلِسَانِه وَاَضْمَرَ لَه الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَآءَ.

’’جو شخص اپنے بھائیوں (دوستوں، ہم پیشہ، رفقاء، احباب، اعزاء و اقارب، رشتہ داروں) کے لئے زبان سے محبت ظاہر کرے، صفائے قلب ظاہر کرے مگر دل میں اس کے لئے عداوت، بغض اور عناد پال رکھا ہو‘‘۔

لَعَنَه اللّٰه فَاَصَمَّه وَاَعْمٰی بَصِيْرَة قَلْبِه.

’’اللہ اس پر لعنت بھیجتا ہے، اسے بہرہ، اندھا کر دیتا ہے اور دل کی آنکھیں بند کردیتا ہے، بصیرت چھین لیتا ہے‘‘۔

سلامۃ الصدر، دلوں کی سلامتی یہ ہے کہ ظاہرو باطن بھی ایک ہو۔ ۔ ۔ جو ظاہر میں ہے وہی باطن میں ہو، ظاہرو باطن کا تضاد نہ ہو۔ ۔ ۔ ہم ظاہر میں متقی بنتے ہیں، اللہ والے بنتے ہیں، ظاہر میں دین کے خادم بنتے ہیں اور اہل آخرت بنتے ہیں اور باطن میں طالب دنیا ہوتے ہیں، باطن میں حریص دنیا ہوتے ہیں۔

گھر۔ ۔ خیرو شر کا مرکز

٭ حضرت فضیل بن عیاض مزید فرماتے ہیں کہ

جُعِلَ الشَّرُّ کُلُّه فِیْ بَيْتٍ وَجُعِلَ الْخَيْرُ کُلَّه فِیْ بَيْتٍ.

’’سارا شر گھر کے اندر رکھا گیا ہے اور ساری خیر گھر کے اندر رکھی گئی ہے‘‘۔

جُعِلَ مِفْتَاحُ الشَّر مِفْتَاحُه اَلرَّغبَةَ فِیْ الدُّنْيَا.

’’شر کی چابی دنیا کی رغبت کا نام ہے‘‘۔

سارے شر کی چابی دنیا کا حرص ہے اور یہ گھر میں رکھا گیا ہے۔ گھر سے طلب اٹھتی ہے۔ ۔ ۔ تمام خواتین و حضرات، بچے، بچیاں توجہ کریں۔ ۔ ۔ گھر سے مطالبے پیدا ہوتے ہیں، کسی رشتہ دار کو دیکھا، اس کے رہن سہن کو دیکھا، فساد ڈالا کہ ہمارا رہن سہن بھی ایسا ہو۔ ۔ ۔ کسی کی فراوانی دیکھی، گھر میں فساد ہوا کہ ہمارے ہاں بھی فراوانی ہو۔ ۔ ۔ ہمارے ہاں بھی وسائل، خوشحالی ہو، ایسا فرنیچر ہو، ایسی گاڑی اور ایسا گھر ہو۔

وَجُعِلَ مِفْتَاحُ الْخَيرِ اَلزُّهْدَ فِیْ الدُّنْيَا.

پوچھا گیا کہ خیر کی چابی کیا ہے؟ فرمایا کہ خیر کی چابی دنیا سے بے نیازی ہے۔ خیر کی چابی دنیا کا زہد ہے اور شر کی چابی دنیا کی رغبت اور حرص ہے۔

لوگو! اگر ہم اس دنیا میں حرص و ہوس کے بت پالتے رہیں، حرص، رغبت اور طلب دنیا، حرص دنیا، شہوت دنیا کے بتوں کے پجاری رہیں۔ ۔ ۔ اوپر سے جو مرضی لباس اوڑھ لیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہمارے اندر منبع شر ہے۔ ۔ ۔ کوئی عبادت نور نہیں پیدا کرے گی۔ ۔ ۔ اپنے احوال کو بدل لو تاکہ اعمال کام آسکیں۔ ۔ ۔ اندر کا حال بدل لو تاکہ عمل اور قال کام آسکیں، باطن کو بدل لو تاکہ ظاہر اچھا ہوسکے، قبول ہوسکے۔ ۔ ۔ جس کا باطن اچھا نہیں ہے اس کا ظاہر مقبول نہ ہوگا۔

دل کی سختی و محرومی کے اسباب

٭ حضرت فضیل بن عیاض نے تصوف کا خلاصہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

ثَلاَثُ خِصَالٍ تُقَسِّی الْقَلْبَ.

تین خصلتیں، عادات ایسی ہیں جو دل کو سخت کردیتی ہیں اور اس سے دل تاریک ہوجاتا ہے۔ ۔ ۔ ایمان کا نور سلب ہوجاتا ہے، معرفت ختم ہوجاتی ہے۔ ۔ ۔ دل اندھا ہوجاتا ہے۔ ۔ ۔ اس پر نصیحت، اللہ کا ذکر اثر نہیں کرتا، اللہ کی محبت داخل نہیں ہوتی، وہ تین چیزیں ہیں۔

کَثْرَة الْاَکل وَکَثْرَةُ النَّوْمِ وَکَثْرَةُ الْکَلَامِ.

’’زیادہ کھانا، زیادہ سونا اور زیادہ بولنا‘‘۔

ہائے افسوس! ہمارا جینا کھانا ہی کھانا ہے اور کھاتے کھاتے مرجانا ہے۔ ۔ ۔ جس کا پیٹ جتنا بھر جائے اس کے پیٹ میں نور نہیں جاتا، پیٹ میں جتنی جگہ خالی رہ جائے اتنا نور بھر جاتا ہے۔ ۔ ۔ کثرت نوم اور کثرت کلام بھی یعنی فضول و لغو گفتگو دل کی سختی کا باعث بنتے ہیں، اس کثرت کلام میں دین، نصیحت، وعظ، قرآن و سنت، تربیتی گفتگو شامل نہیں ہے۔ تعلیم عبادت ہے۔ ۔ یہ جو ہم گپ شپ مارتے ہیں، اکٹھے بیٹھتے ہیں نماز و تسبیح سے فارغ ہوکر بیٹھتے ہیں اور پھر اس مجلس میں غیبت ہی ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اگر فیملی کی مجلس ہے تو کسی کے گھر پر گفتگو شروع ہوگئی، کسی رشتہ دار کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ ۔ ۔ کسی کی شکل، عقل، عادات پر گفتگو ہے۔ ۔ ۔ الغرض طعن، تشنیع، غیبت، چغلی، برائی، حرص دنیا، لباس، زیور، سٹائل، فیشن ہمارے موضوعات ہیں گویا جن سے آخرت میں کچھ حاصل نہیں ہے وہ ہمارا کلام ہے۔

لوگو! زبان سے کچھ کہنے سے قبل سوچا کرو کہ یہ کلام اور عمل قبر اور آخرت میں بھی کام آئے گا یا نہیں۔ ۔ ۔

دوستی کا معیار اور سنگت کا لحاظ

امام حسن بصری فرمایا کرتے تھے کہ جس سے دوستی کرو اور جس سے سنگت اختیار کرو، جس کی رفاقت لو، جس کی معیت لو، جس کے دوست بنو، اس دوستی، رفاقت اور سنگت سے پہلے یہ سوچا کرو کہ یہ سنگت آخرت میں قیامت کے دن کام آئیں گی یا نہیں۔ ۔ ۔ اگر اس کی دوستی قیامت کے دن کام آنے والی ہے تو سنگت لے لو اور جس نے قیامت کے دن کام نہیں آنا تو اس دنیا میں اس سے کیا لینا۔ ۔ ۔ کسی ایسے سے دوستی کرو جو آگے بھی کام آئے۔ ۔ ۔ دوستی ہو تو ایسی جسے اکابر علماء دیوبند کے پیرومرشد حاجی امداداللہ مہاجر مکی نے بیان کیا اور ان کے ملفوظات کو اشرف علی تھانوی صاحب نے شمائل امدادیہ اور امداد المشتاق کے نام سے مرتب کیا۔

’’ان سے کسی نے پوچھا کہ حضرت یہ واقعہ کہ ایک شخص فوت ہوگیا، قبر میں فرشتے اس سے سوالات پوچھنے آئے تو وہ ہر سوال کے جواب میں کہتا میں غوث پاک کا دھوبی ہوں۔ ۔ ۔ وہ پوچھیں من ربک تیرا رب کون ہے؟ وہ کہے: غوث پاک کا دھوبی ہوں۔ ۔ ۔ وہ پوچھیں تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہے کہ میں غوث پاک کا دھوبی ہوں۔ ۔ ۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ اب اس سے کیا سلوک کریں؟ فرمایا بخش دو۔

حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ اس کی حکمت کیا ہے؟ یعنی یہ واقعہ کہ اسے معاف کردیا گیا، بخشش ہوگئی، اس کی حکمت کیا ہے؟ فرمایا کہ تمہاری سمجھ میں نہیں آیا ہر سوال کے جواب میں اس کا کہنا کہ میں غوث پاک کا دھوبی ہوں دراصل توحید مطلب کی طرف اشارہ تھا۔ ۔ ۔ وہ جواب یہ دینا چاہتا تھا کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو۔ ۔ ۔ میں غوث پاک کے کپڑے دھونے والا ہوں، کیا میں بھی کبھی یہ بھول سکتا ہوں کہ رب کون ہے اور دین کیا ہے؟۔ ۔ ۔ ساری زندگی غوث پاک کی خدمت کی ہے، کیا خیال ہے کہ مجھے خدا کی معرفت نہیں ہوگی۔ ۔ ۔ وہ ہر سوال کے جواب میں بتاتا کہ غوث پاک کی سنگت والا ہوں۔ ۔ ۔ گویا فرشتوں کو یہ بتانا چاہا کہ جو ان کا رب ہے وہ میرا رب ہے۔ ۔ ۔ جو ان کا دین ہے وہ میرا دین ہے۔ ۔ ۔ گویا سنگت کی پختگی ان کے ایمان کے متعلق آگاہ کررہی تھی۔

سنگت کے حوالے سے ہی ایک اور بات حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے ہی بیان کی کہ

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ جہاں بیٹھتے، بغداد کے کتوں میں سے ایک کتا جسے آپ سے محبت ہوگئی آپ کی مجلس میں آ کر بیٹھ جاتا اور دور سے ان کو تکتا رہتا۔ ۔ ۔ ایک دن حضرت جنید بغدادی کی نگاہ اس کتے پر پڑگئی کہ میں جہاں بھی بیٹھتا ہوں، یہ کتا تلاش کرکے وہیں پہنچتا ہے اور مجھے تکتا رہتا ہے۔ ۔ ۔ آپ نے اس کی طرف توجہ کی تو اس کتے کا حال بدل گیا۔ ۔ ۔ اس دن کے بعد وہ کتا بغداد شہر کی جس گلی میں بیٹھتا، دس بیس کتے اس کے اردگرد بیٹھ جاتے اور اس کتے کو تکتے رہتے۔ ۔ ۔ جس کتے پر جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر پڑگئی وہ اپنی نسل والوں یعنی کتوں کا محبوب بن گیا۔

اس سے بھی کسی کے دل میں سنگت کی اہمیت نہ اترے تو وہ قرآن میں اصحاب کہف کے کتے کا واقعہ پڑھ لے جو 309 سال تک ولیوں کی غار کی دہلیز پر بیٹھا رہا اور توجہ کی بناء پر حال یہ ہوا کہ جب اصحاب کہف دائیں بائیں کروٹ بدلتے تھے، کتا بھی کروٹ بدلتا۔ ۔ ۔ اور 309 سال تک جہاں اصحاب کہف کے جسم زندہ و سلامت رہے، ان کی توجہ اور فیض سے کتا بھی بغیر کھائے پئے زندہ و سلامت رہا۔ ۔ ۔ وہ ایک کتا تھا، پلید جانور تھا مگر ولیوں کی سنگت کی وجہ سے اصحاب کہف کے ساتھ اللہ نے قرآن میں اپنے کلام میں اس کتے کا بھی ذکر کیا۔ ۔ ۔ اور آج ہم اصحاب کہف کے واقعہ کے ساتھ اس کتے کے واقعہ کی بھی تلاوت کرتے ہیں۔ ۔ ۔ اس کتے کے آداب نشست کا بھی ذکر ہے۔ ۔ ۔ اور جب اصحاب کہف کا عدد بیان کیا کہ کئی کہتے ہیں کہ وہ پانچ تھے تو قرآن کہتا ہے کہ اگر وہ پانچ تھے تو چھٹا ان کا کتا تھا۔ ۔ ۔ کئی کہتے ہیں کہ وہ چھ تھے، قرآن کہتا ہے کہ اگر چھ وہ تھے اور ساتواں ان کا کتا تھا۔ ۔ ۔ کئی کہتے ہیں کہ اصحاب کہف سات تھے، قرآن کہتا ہے کہ اگر وہ سات تھے تو آٹھواں ان کا کتا تھا۔

اب کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کسی کے ہاں دعوت پر جائیں اور آپ سے کوئی پوچھے کہ کتنے لوگ آئے؟ تو کیا آپ یہ کہتے ہیں۔ پانچ ہم ہیں اور چھٹا ہمارا کتا ہے۔ ۔ ۔ نہیں، لیکن قرآن پڑھ کر دیکھیں تو قرآن میں تو اس کا ذکر ہے۔ پس کتے کو جو سنگت ملی، تو رب نے اس کتے کی سنگت کو بھی رائیگاں جانے نہ دیا جہاں اصحاب کہف کا ذکر ہے وہاں کتے کا ذکر ہے۔

پس سنگت اور رفاقت بڑی شے ہے۔ ۔ ۔ کسی کے ساتھ رہنا اور اس کے اسوہ، طریقہ پر چلنے میں بڑی خیر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور اپنی بندگی میں ہر لمحہ، ہر زمان مرتے دم تک قائم رکھے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم