محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت۔ ۔ قومی المیہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا اظہار افسوس

مجلہ طباعت کے آخری مراحل میں تھا کہ محترمہ کی شہادت کا المناک حادثہ رونما ہوگیا اس لئے تحریک اور قائد تحریک کی طرف سے درج ذیل تاثرات بعد ازاں اس میں شامل کئے جارہے ہیں۔ لہذا اسے بقیہ ترتیب وار مواد سے علیحدہ کرکے پڑھا جائے کیونکہ مجبوراً ان تاثرات پر بالترتیب صفحات نہیں لگ سکے۔ (ڈاکٹر علی اکبر قادری)


قتل خواہ کسی عام انسان کا ہو یا کسی بڑی شخصیت کا اسلام نے اسے پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔ تاہم اثرات و نتائج کے لحاظ سے جو شخصیت جتنی قومی اور عالمی معاملات کی ذمہ دار ہوتی ہے اسی قدر اس کی موت کے اثرات کا دائرہ پھیل جاتا ہے۔ اس کی حقیقت محترمہ بے نظیر کی شہادت اور اس کے بعد ہونے والے ردعمل سے بہت اچھی طرح سمجھی جاسکتی ہے۔

محترمہ بے نظیر کا قتل نہ صرف پاکستانی تاریخ کا ایک کربناک اور دور رس نتائج کا حامل افسوسناک واقعہ ہے بلکہ اس کے عالمی اثرات بھی بڑے واضح ہیں۔ اقوام عالم بالخصوص یورپ اور امریکہ کی سطح پر جن رہنماؤں نے پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک اور شورش زدہ اسلامی دنیا کی نمائندگی حکمت، تدبر اور مہارت سے کی۔ محترمہ کا نام ان لوگوں میں بلاشبہ نمایاں ہے۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کا قتل بین الاقوامی نقصان بھی ہے اور عالم اسلام کے ایک اہم فرد کا ضیاع بھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح ان کے باپ محترم ذوالفقار علی بھٹو کی آمریت کے ہاتھوں پھانسی عالمی المیہ بھی تھا اور اسلامی ممالک کے کاز کو پہنچنے والا نقصان بھی۔ ایسی شخصیات کی سیاسی مصلحتوں کے ساتھ لوگوں کا اختلاف بھی ہوتا ہے اور یہ فطری سی بات ہے لیکن اس نظریاتی اختلاف کو ذاتی انتقامی رویوں میں تبدیل کرکے ان کے اچھے اور ان مٹ نقوش کو بھی پاؤں تلے روندتے چلے جانا کسی طرح بھی قابل ستائش نہیں ہوتا۔ محترمہ بے نظیر کے حصول اقتدار کے لئے مصلحتوں اور حکمتوں پر مبنی سیاست سے ہمیں بھی کسی قدر اختلاف تھا لیکن اختلاف رکھنے والوں کی اکثریت اس موقع پر بالاتفاق غم و غصے کے گہرے اثر میں ڈوبی ہوئی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ محترمہ خون میں ڈوبے ہوئے، صوبائیت پرستی اور مذہبی فرقہ پرستی سے چور چور پاکستان کے وفاق کی ایک بڑی علامت تھیں۔ ان کے قتل کو اگر پاکستان مخالف قوتوں کی گہری سازش کا شاخسانہ قرار دیا گیا ہے تو یہ بالکل بجا ہے اس لئے کہ ان کا وجود جس طرح صوبہ سندھ کے لئے اہمیت رکھتا تھا بالکل اسی شدت سے وہ بلوچستان، سرحد، پنجاب بلکہ آزاد کشمیر اور گلگت کے دور دراز علاقوں میں بھی مقبول عام عوامی جذبات کی نمائندگی کرتی تھیں۔

ہر بڑے شخص کی طرح ان کی زندگی میں بھی ان کی اس اہمیت کو لوگوں نے شاید محسوس نہیں کیا تھا مگر ان کے قتل کے ایک گھنٹہ بعد جب پورے ملک کا ایک ایک انچ ایک ایک فرد اور ایک ایک گلی کوچہ متاثر ہوا تو ہر اپنا پرایا اس دکھ کی ٹھیس کو اپنے وجود پر لگے ہوئے زخم کی طرح محسوس کرنے لگا۔

ان کی شہادت جہاں پاکستانی سیاستدانوں کے لئے ایک عبرتناک حادثہ ہے وہاں ان کے لئے قابل تقلید مثال بھی ہے۔ عبرتناک اس لئے کہ انسان جتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو اسے ایک دن بے بسی کی حالت میں موت کی آغوش میں پناہ لینا ہوتی ہے اس لئے قومی اور سیاسی معاملات میں مروجہ غبن، کرپشن اور حلال و حرام کی تمیز ختم کرکے ہوس پرستی کی سرپٹ دوڑ میں شامل عمائدین کو یہ دن بھی یاد رکھنا چاہئے۔ ان کی موت قابل تقلید اس لئے ہے کہ جس طرح ان کی جدائی ہر شخص کے لئے کربناک تھی، ہر انسان نے ان کی موت کو روح کی گہرائیوں کے ساتھ محسوس کیا، مخلوق کے ساتھ کسی قیادت کا ایسا تعلق معمولی بات نہیں۔ یہ ان کی ان خوبیوں کے باعث تھا جو اللہ پاک نے انہیں جمہوریت کے لئے، پاکستانی عوام کے لئے اور ملک کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے ودیعت کررکھی تھیں اور انہوں نے مشرقی خاتون ہوکر پوری جرات و ہمت کے ساتھ مردانہ وار اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا اور خطرات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے 18 اکتوبر کے جان لیوا حادثہ کے بعد بھی 27 دسمبر تک ملک کے ہر اہم مقام پر پہنچتی رہیں۔ جان تو اللہ پاک کی امانت ہوتی ہے اسے اپنے وقت مقررہ پر لوٹ جانا ہوتا ہے لیکن جب تک یہ انسان کے ساتھ رہے اسے اعلیٰ مقاصد کے لئے استعمال میں لاتے رہنا ہی اعلیٰ ترین انسانی اعزاز و امتیاز ہے۔

محترمہ کی شہادت جمہوری قوتوں کے لئے یقیناً بہت بڑا نقصان ہے۔ قومی سیاست میں ایک غیر معمولی خلاء پیدا ہوچکا ہے جسے پر کرنا مستقبل قریب میں شاید کسی کے لئے ممکن نہ ہو۔ لیکن ایسے حادثات پر دل گرفتہ ہوکر ملک و ملت کے ساتھ وفاداری کے مشن کو روک دینا یا رد عمل میں آکر قومی املاک کو نقصان پہنچانا حب الوطنی ہے اور نہ دانائی کا تقاضا۔ قوموں کی زندگی میں حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ عظیم اور بہادر قومیں ان حادثات پر ہاتھ چھوڑ کر بیٹھنے کی بجائے ان سے حاصل ہونے والی توانائی کو مثبت طریقے سے استعمال کرتی ہیں اور ان سے سبق حاصل کرتی ہیں۔ ہمارے پڑوس میں ایک مثال ایران کی ہے وہاں جب شاہی حکومت کے خلاف اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو عالمی استعمار نے انقلابی اثرات کو ختم کرنے کی حتی الامکان کاوشیں جاری رکھیں ایرانی قوم کو اندرونی اور بیرونی خطرات کا اسی طرح سامنا تھا جس طرح آج کل پاکستان ہر طرف سے مسائل اور خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب ایران کی پارلیمنٹ کو بم سے اڑا دیا گیا جس میں اس کی چوٹی کی قیادت، سپیکر اور وزیراعظم سمیت لقمہ اجل بن گئی لیکن ایرانی قوم نے اپنا جمہوری سفر خودداری اور خود اعتمادی کے ساتھ جاری رکھا، دوسری مثال دوسرے پڑوسی ملک بھارت کی ہے جہاں بھٹو خاندان کی طرح نہرو خاندان بھارتی سیاست کا محور تھا لیکن مخالفین نے پہلے اندرا گاندھی اور بعد میں ان کے بیٹے راجیو گاندھی کو وزارت عظمیٰ میں موت کے گھاٹ اتار دیا لیکن ایک دن کے التوا یا ایمرجنسی کے بغیر وہاں بھی جمہوری قوتیں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان دو پڑوسی ممالک کی واضح مثالوں کی روشنی میں پاکستانی قوم کو بالعموم اور پاکستان پیپلز پارٹی کو بالخصوص محترمہ کی شہادت پر پورے ہوش و حواس کے ساتھ ملک و ملت اور پاکستان کے غریب عوام کے لئے جاری جدوجہد کو جاری رکھنا چاہئے۔ جس طرح محترمہ خود وفاق کی علامت تھیں اور انہوں نے سندھی علیحدگی پسند قوتوں کے پروپیگنڈے میں آئے بغیر پاکستان کے اجتماعی وجود اور اس کی خوشحالی کا سفر جاری رکھا اسی طرح PPP کے مرکزی رہنماؤں کو عزم کرنا چاہئے کہ ان کے پاس دو شہیدوں کی امانت ہے۔ جمہوریت مخالف قوتیں جنہوں نے بھٹو کو پھانسی کے تختے پر پہنچایا ان کے دو بیٹوں کو باری باری موت کے گھاٹ اتارا اور اب ان کی بیٹی کو سرِعام گولیوں کا نشانہ بنایا وہ مرکزی قیادت اور بھٹو خاندان میں پھوٹ ڈلوانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گی لیکن یہ ان کی حکمت اور بصیرت پر منحصر ہے کہ وہ اس امانت کو متفق ہوکر سنبھالتے ہیں یا ٹکڑوں میں بٹ کر وفاق، پاکستان اور جمہوریت کے مشترکہ دشمن کی آرزوؤں کو پورا کرتے ہیں۔ محترمہ کے سوئم کے موقع پر PPP کے مرکزی رہنماؤں کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والے فیصلوں نے اگرچہ ان قوتوں کو پریشان کردیا ہے لیکن ان فیصلوں اور آئندہ اقدامات میں نہایت زیرک پن کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔

اس حادثے کے ردِ عمل میں جو چیز سب سے زیادہ پریشان کن ثابت ہوئی وہ پورے ملک اور بالخصوص سندھ اور کراچی میں قومی املاک کو پہنچنے والا نقصان ہے جس کا تخمینہ اب تک 40 ارب روپے سے بھی زائد لگایا جارہا ہے۔ صرف کراچی شہر میں 25 ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے جس کی تلافی کے لئے مزید کئی سال لگیں گے۔ مہذب قوموں کے ہاں غم و غصے پر احتجاج کا یہ طریقہ کبھی بھی روا نہیں رکھا جاتا کہ ایک تو قومی شخصیت چلی جائے اور دوسرا ملک کے سرمائے کو اپنے ہاتھوں سے آگ لگادی جائے۔ نجی اور قومی بنکوں، صرافہ بازار میں سونے کی دکانوں اور دیگر تجارتی مراکز میں لوٹ مار کرنے والے اور سڑکوں پر کھڑی گاڑیوں کو آگ لگانے والے اسی طرح مجرم اور قصور وار ہیں جس طرح بے نظیر کو قتل کرنے والے ہاتھ۔ ہم حکومت کو اس غفلت کا ذمہ دار سمجھتے ہیں جس نے اپنی طاقت کا اندھا استعمال کرتے ہوئے وکلاء اور ججز کو تو پابند سلاسل رکھا ہوا ہے اور اس دوران قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیکر دندناتے غنڈوں کو جلاؤ گھیراؤ کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا۔ سندھ اور کراچی کے بعض علاقوں میں چوتھے دن بھی لوٹ مار کا یہ سلسلہ جاری ہے جو نہایت افسوسناک ہے۔

حکومت کی پریشانی اس کی تضاد بیانی سے ظاہر ہورہی ہے۔ حادثے سے حکومتی نمائندوں کے مختلف بیانات قتل کی دیانتدارانہ تحقیق سے فرار کے غماز نظر آتے ہیں۔ قوم حکومتی اقدامات میں برتے جانے والے جانبدارانہ رویے پر مشکوک ہوچکی ہے یہی وجہ ہے کہ ’’القاعدہ‘‘ پر قتل کے حکومتی الزام کا نہ صرف ’’القاعدہ‘‘ کے ترجمان نے انکار کردیا ہے بلکہ PPP کی قیادت نے بھی اسے رد کردیا ہے۔ حکومت کا اس معاملے پر غیر حکیمانہ اور غیر منصفانہ رویہ عالمی سطح پر بے چینی اور اضطراب کا باعث بھی بن رہا ہے۔ کیونکہ سلامتی کونسل کے اجلاس سے معاملے میں عالمی دلچسپی کا اظہار نمایاں ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیلری کلنٹن سمیت متعدد امریکی اور یورپی عہدیداروں نے عالمی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو دوسری مشکل آن پڑی ہے کہ زخم خوردہ جماعت نے الیکشن میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے اس کے جلد انعقاد کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ اب قاف لیگ زبردست دباؤ میں ہے۔ لوگ ان کی املاک اور ان کے الیکشن دفاتر کو مسمار کررہے ہیں۔ پورے ملک کی ہمدردیاں تیزی کے ساتھ PPP کی طرف مڑچکی ہیں۔ رہتی کسر ’’ن‘‘ لیگ نے پوری کردی ہے۔ اب حکومتی پارٹی کی جیت تو درکنار ان کے امیدواروں کا میدان میں جم کر انتخاب لڑنا بھی محال ہوگیا ہے۔ ہم نے تو پہلے ہی اس انتخاب کو پاکستان کے مسائل میں ایک نیا اضافہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ بہر حال پاکستان کے باشعور عوام اس اہم نازک گھڑی میں سوچ سمجھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر جہاں دیگر قومی اور بین الاقوامی رہنماؤں نے اظہار افسوس کیا وہاں تحریک منہاج القرآن کے اندرون و بیرون ملک سات روزہ سوگ منایا گیا، پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے محترمہ کے لئے ’’شہید جمہوریت‘‘ کے خطاب کا اعلان کیا گیا۔ غائبانہ نماز جنازہ، قرآن خوانی سمیت محترمہ کے اہل خانہ اور قائدین کے ساتھ تعزیت بھی کئی گئی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایک پریس کانفرنس بذریعہ ٹیلی فون اس قومی سانحہ پر اظہار افسوس کیا۔

شیخ الاسلام کے خصوصی تاثرات

’’محترمہ بینظیر بھٹو کے سفاکانہ اور بہیمانہ قتل پر میرا دل دکھی، رنجیدہ اور غم کے جذبات سے لبریز ہے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ میں اس بہیمانہ قتل کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ یہ جمہوری اور سیاسی آزادی کا قتل ہے، پاکستان کے ٹکڑے کرنے کیلئے خفیہ ہاتھوں کی گھناؤنی سازش اور خطرناک اقدام ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو جرات مند باپ کی جراتمند بیٹی اور بڑی سیاسی رہنما تھیں، جنہیں نادیدہ قوتوں نے منظر سے ہٹا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی نیوکلیئر پروگرام اور اسلامی جمہوری سربراہی کانفرنس کی پاداش میں خفیہ اور نادیدہ ہاتھوں نے منظر سے ہٹا دیا اور اسی تسلسل میں بینظیر بھٹو کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ یہ حکومت اور امن و امان بحال رکھنے والے اداروں کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ 1998ء میں پاکستان عوامی اتحاد اور جی ڈی اے کے دور میں سیاسی جدوجہد کے دوران محترمہ بینظیر بھٹو ہمارے اتحاد کا حصہ تھیں۔ وہ کئی مرتبہ منہاج القرآن سیکرٹریٹ اور میرے گھر تشریف لائیں۔ وہ سیاسی بصیرت رکھنے والی لیڈر تھیں۔ تحریک منہاج القرآن کے سماجی، فلاحی اور تعلیمی منصوبہ جات سے متاثر ہو کر وہ منہاج القرآن لندن سینٹر (اگست 2003ء) میں تشریف لائیں اور میری موجودگی میں اپنے ہاتھ سے منہاج القرآن کی ممبرشپ کا فارم پُر کیا اور تاحیات رفیق بنیں‘‘۔

پریس کانفرنس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے صحافیوں کے مختلف سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ ’’دہشت گردی کی لہر پچھلے چند سالوں سے اتنی بڑھ گئی ہے کہ میں نے پوری زندگی میں اسے اس انتہا تک نہیں دیکھا۔ اس وقت پاکستان میں تاریخ کی بدترین دہشت گردی ہو رہی ہے۔ میں نے دنیا کے دو تہائی حصے میں سفر کیا ہے اور پوری دنیا میں نائن الیون سے پہلے القاعدہ کا نام نہیں سنا تھا۔ اب پاکستان یا دنیا کے کسی حصے میں دہشت گردی ہو تو اسے القاعدہ کا نام دے دیا جاتا ہے، اس میں کہاں تک صداقت ہے؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے پاکستان استعماری طاقتوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ وہ اس کی نیوکلیئر طاقت کو ختم کر کے کمزور قسم کا ملک بنانا چاہتے ہیں۔ جو ان کی کالونی بن کر گزارہ کرے۔ قبائلی علاقہ جات کے کلچر اور روایات کو نہیں سمجھا گیا، اس کے نتیجے میں ان کی طرف سے ردعمل انتہا کو پہنچ گیا ہے‘‘۔

الیکشن کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’ملک میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں اس لئے میں نے قومی اسمبلی سے تین سال قبل پاکستان کی تاریخ میں 80 صفحات پر مشتمل پہلا استعفیٰ دیا تھا‘‘۔

اس پریس کانفرنس میں بعدازاں تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹررحیق احمد عباسی، نائب ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض اور سیکرٹری جنرل PAT انوار اختر ایڈووکیٹ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پی پی پی محب وطن جماعت ہے اور وفاق کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ ہم پی پی پی کی قیادت اور کارکنان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے مشکل کی اس گھڑی میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ پی پی پی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان پرامن ہیں مگر ان مواقع پر شرپسند عناصر ملک کی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی مذموم کوششیں کرینگے۔ اس لئے پوری قوم متحد ہو کر اس عظیم سانحہ اور اس کے ملک پر پڑنے والے منفی اثرات کا صبر، استقامت اور یکجہتی سے مقابلہ کرے۔