تعلیم و تربیت : بچوں کی ذہنی تربیت اور فکری نشوونما

ڈاکٹر صابر حسین خان

باشعور والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت پر اپنی توانائی، وقت اور رقم خرچ کرکے انہیں معاشرے کے عزت دار اور ذمے دار شہری بنائیں۔ ایسی ہی خواہش آپ کی بھی ہوگی۔

لیکن یہ عین ممکن ہے، شعوری یا لاشعوری طور پر آپ سے کوئی ایسا قدم اٹھ جائے جو معصوم ذہنوں کو منتشر اور پراگندہ کردے۔ آج اگر ایک آٹھ سالہ بچہ کمپیوٹر کا مطالبہ کررہا ہے وہ یقیناً اٹھارہ سال کی عمر تک کم از کم سات آٹھ ایسے تجربات و حادثات کا ذائقہ چکھ چکا ہوگا جو نہ صرف مذہبی بلکہ اخلاقی قواعد و ضوابط کے اعتبار سے قابل گرفت ہوں گے۔ اکیسویں صدی ہمارے لئے کئی سوغاتوں کے ساتھ ایک شدید نوعیت کا معاشرتی مسئلہ بھی لائی ہے اور اس کے ذمے دار ہم اور آپ ہیں۔ ۔ ۔ بچوں کا ناپختہ ذہن وہی کچھ سیکھتا اور اپنے اندر محفوظ کرتا ہے جو اسے ملے یا نظر آئے۔ جب اذانوں کی آواز راگ رنگ موسیقی کے شور میں دب جائے۔ ۔ ۔ محفلوں میں علم، دانش اور کتابوں کے بجائے کپڑوں، اداکاروں اور فلموں کے بارے میں گفتگو ہونے لگے۔ ۔ ۔ معاشی دھندوں سے نجات پانے کے بعد لوگ ہمسایوں، رشتے داروں اور اقربا کا حال احوال پوچھنے اور ان سے ملنے کے بجائے کلبوں اور ہوٹلوں کا رخ کریں تو آپ خود ہی بتایئے ہم اپنے بچوں کی ذہنی تربیت اور فکری نشوونما کے لئے کس قسم کا سامان مہیا کررہے ہیں؟

کیا آپ کو اندازہ ہے کہ آپ کے لڑکے یا لڑکی کی سرگرمیاں کیا ہیں۔ ۔ ۔؟ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ان کی مصروفیات اور تفریحات کیسی ہیں۔ ۔ ۔ ؟ کبھی آپ نے سوچا کہ بیٹے کے دوست کیسے ہیں۔ ۔ ۔ یا بیٹی اپنا زیادہ وقت آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر گزارنے لگی ہے۔ ۔ ۔؟ کبھی آپ نے دیکھا کہ نصابی کتابوں کے علاوہ بچے کیسے رسائل و جرائد کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ۔ ۔؟ دفتر یا دکان میں بیٹھے ہوئے کبھی آپ کو خیال آیا کہ گھر میں اس وقت کون سی فلم دیکھی جارہی ہوگی یا کیبل پر کون سا پروگرام آرہا ہے۔ ۔ ۔ ؟

کیا آپ کو علم ہے کہ آپ کے بیٹے کو حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ، طارق بن زیاد رضی اللہ عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بجائے نئی فلموں کی کہانیاں اور تمام نئے ادکاروں کی سوانح عمریاں زبانی یاد ہیں۔ ۔ ۔ ؟ کیا آپ کو پتا ہے کہ بیٹی کے پاس نیل پالش اور لپ اسٹک کے کتنے شیڈ اور نئے گانوں کے کتنے البم موجودہیں۔ ۔ ۔ ؟ کیا کبھی آپ نے ان کی بک ڈائری اٹھاکر دیکھی ہے کہ ان میں ٹیلی فون نمبر اور پتوں کے علاوہ کس نوعیت کے اشعار اور اقوال لکھے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ ؟

کیا کبھی آپ نے اپنے سولہ سالہ بیٹے یا چودہ سالہ بیٹی کو پاس بٹھا کر ان کے تیزی سے وسیع ہوتے ذہن کے مسائل، تضادات اور کشمکش سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ۔ ۔ ؟ کیا آپ کو یاد ہے کہ جب آپ خود بارہ سال کے تھے تو آپ کتنی شدت سے اپنے والدین کی عدم توجہی اور شفقت کی کمی کا شکار رہتے اور کیسے خواب دیکھا کرتے تھے۔ ۔ ۔ ؟ کیا آپ کا بارہ سالہ بچہ بھی عمر کے اس حصے اور تجربے سے گزر رہا ہے جس سے گزرتے ہوئے آپ کے نازک احساسات کو بھی ٹھیس لگی تھی۔ ۔ ۔ ؟

اگر ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے تو یقین کیجئے آپ خسارے میں ہیں اور زمانہ آپ کی شہ رگ پر ہاتھ رکھ چکا ہے۔ ساحل کی ریت کی طرح آپ کے قدموں تلے زمین سرکتی جارہی ہے۔

یہ ہمارا ہی قصور ہے کہ ہمارے بچے کم عمری میں ان خطوط پر سوچنے اور ان راستوں پر چلنے لگے ہیں جن کے بارے میں آج سے چالیس پچاس سال قبل تک بڑے بوڑھے اور بزرگ محض وہم و گمان رکھتے ہوئے بھی شرماتے تھے۔ اخلاقی پستی اور بے راہ روی کے سیلاب نے ہماری نوجوان نسل کو گرفت میں لے رکھا ہے۔ اب ہم اپنے گھروں میں ڈی وی ڈی رکھنا اور کیبل لگوانا باعث فخر اور معیار (Status Symbol) کی علامت سمجھتے ہیں۔

اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے علاوہ گھروں، دفتروں اور بازاروں میں مخلوط محفلیں عام ہیں۔ دس بارہ سال کے لڑکے اور لڑکیاں خود کو مجنوں اور لیلیٰ سمجھنے لگتے اور گھنٹوں ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہیں۔ ایسے ریستوران اور پبلک کال آفس موجود ہیں جہاں آزادانہ ملنے کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔ ایسے کلب اور سوسائٹیاں بن گئی ہیں جو کمسن اور نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو دوستیاں استوار کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

انگریزی اور بھارتی فلموں کی بہتات نے جہاں ایک طرف بچوں اور نوجوانوں میں تشدد، نفرت، مار پیٹ، لچر گفتگو اور گالی گلوچ عام کی ہے وہاں بغاوت، آزاد خیالی، آوارہ گردی، عریانی اور مادہ پسندی کے خیالات کو ہوا دی ہے۔ گلیوں، چوباروں سے لے کر چھتوں اور فلیٹوں کے زینوں تک ہمارے مستقبل کے معمار نازیبا حرکات میں الجھے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ حالات ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں۔ شرط صرف اتنی ہے۔

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی

پھر دیکھئے کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے سے پردے کس طرح ایک ایک کرکے اٹھتے چلے جائیں گے۔

دور کیوں جائیے۔ ۔ ۔ کیا آپ کو علم ہے کہ ہم بچوں اور نوجوانوں کو پڑھنے کے لئے کیا دے رہے ہیں؟ سنجیدہ، فکری مگر عام فہم تحریریں جو نوجوانوں کے بنیادی اور ضروری مسائل کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی فکری رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دے سکیں، آٹے میں نمک کے برابر ہیں، پھر والدین بھی یہ کوشش نہیں کرتے کہ بچے شروع سے نظریاتی اور فکری کتب و رسائل کا مطالعہ کریں۔

یاد رکھئے! بڑوں کی نقل کرنے اور ماحول کا اثر لینے کے علاوہ جو بات بچوں کے ناپختہ ذہنوں پر آہستہ آہستہ نقش ہو، وہ کاغذ پر چھپے حروف ہیں۔ خواہ وہ نصابی کتابوں میں ہوں یا غیر نصابی کتابوں میں! زندگی کے اولین برسوں میں قدرتی ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ یا دکرنے اوریاد رکھنے کی فطری صلاحیت بھی جلا پاتی ہے۔ اس دوران نوجوان ذہن جو خواب بُنے، جس تصویر میں کچے رنگ بھرے، یا جس خیال کی بنیادیں تعمیر کرے، وہ خواب، تصویر یا خیال اس کے عمل کی تفسیر اور سوچ کی تعبیر ہوتاہے۔ ہم سب اپنے بچپن کی پیداوار ہیں پھر بھی یہ احتیاط نہیں رکھتے کہ آج جو کچھ ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں کو دیکھنے، پڑھنے اور برتنے کے لئے دے رہے ہیں، وہ اخلاق، کردار اور ان میں اعلیٰ صفات جنم دینے اور پروان چڑھانے کے لئے قطعاً ناکافی ہے۔

اولاد کی ضرویات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی خواہشات کا احترام ضرور کریں مگر کچھ حدود کے درمیان رہتے ہوئے! انہیں کوئی آسانی یا آسائش مہیا کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ آج آپ بچے کو جو ماحول دیں گے، کل وہ اسے ہی اپنے عمل میں جمع کرکے معاشرے کے سپرد کردے گا۔ بچوں کو وقت دیجئے، انہیں آپ کی توجہ، محبت اور شفقت کی ضرورت ہے۔ ان کو دولت نہیں آپ کی قربت چاہئے اگر آپ ان کی یہ ضرورت پوری نہ کرسکے تو وہ جذبات کی تسکین کے لئے گھر سے باہر دیکھنے پر مجبور ہوں گے۔

گھر سے باہر اگر برگد کا سایہ یا گلاب کی مہک ہے تو ساتھ میں کیکر اور ببول کی کانٹے دار جھاڑیاں بھی ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کے بچے کے نصیب میں خوشبو ہے یا خون کی بوندیں۔ البتہ ہر کوئی یہ ضرور چاہتا ہے کہ اس کا بچہ ہمیشہ خوشیوں کے جھولے میں جھولتا رہے۔ یاد رکھئے حقیقی اور دائمی خوشی سچائی، سادگی اور قناعت میں ہے۔ بچوں کو اپنے عمل سے ان خصوصیات کا درس دیجئے۔ ان کی سوچ کو شروع سے ’’زیست برائے تائید ایزدی‘‘ کا محور دیں۔ اور بے بنیاد اصولوں اور بے معنی روایتوں کے پہرے نہ بٹھائیں۔ ذہن کی زرخیز مٹی میں مثبت سوالوں کے پودے لگایئے اور تسلی بخش جوابات سے ان کی آبیاری کریں۔ بصورت دیگر حالات و تجربات کی بھٹی میں یہ پھول سے چہرے کملا جائیں گے۔

آپ بچوں کی معصومیت، شرم و حیا برقرار رکھیں اور نگاہ کی حفاظت کریں گے تو آپ کے گھر کی دیواریں بھی مضبوط و محفوظ رہیں گی۔ بچوں کے سامنے خود کو صبر و شکر کا مثالی پیکر بناکر پیش کیجئے۔ یوں آپ کے گھر کا سکون کبھی درہم برہم نہیں ہوگا۔ یاد رہے، روز محشر جہاں ہم سے یہ پوچھا جائے گا کہ ماں باپ کے حقوق نبھانے میں ہم نے کوئی پہلو تہی تو نہیں برتی، وہاں یہ سوال بھی اٹھایا جائے گا کہ بحیثیت والدین کیا ہم نے اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دیئے؟ ہمارے سامنے اقوام مغرب کی جیتی جاگتی اور عبرتناک مثال موجود ہے۔ وہاں اسکولوں تک میں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے پڑھائے جاتے ہیں۔ اسی لئے ایسے بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جو یہ نہیں جانتے کہ ان کا باپ کون ہے۔ تہذیبی انحطاط اور اخلاقی تنزل کے شرمناک مظاہرے دیکھ کر شیطان کے ماتھے پر بھی پسینہ آگیا ہوگا۔

کیا آپ کو بھی ایسے معاشرے کا محض تصور کرتے ہوئے کراہت محسوس نہیں ہوتی؟ یقینا ہوتی ہوگی۔ اگر ہوتی ہے تو پھر دیر کس بات کی، آیئے آج اور ابھی سے اپنے بچوں اور نوجوانوں کی پاسبانی کا بیڑہ اٹھا لیں کہ آسمان سکڑ کر ہمارے سروں تک آپہنچا ہے۔ قدموں تلے سے زمین تیزی سے سرک رہی ہے اور زمانہ اپناہاتھ ہماری شہ رگ پر رکھ چکا ہے۔