الحدیث : حرمتِ کعبہ معظمہ کے تقاضے

علامہ محمد معراج الاسلام

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ راوی ہیں :

لَا تَسْتَقْبلُوا الْقِبْلَةَ وَلَا تَسْتَدْ بِرُوْهَا لِغَائِطٍ اَوْ بَوْلٍ.

(نسائی : 10)

’’بول و براز کے وقت قبلہ کی طرف پیٹھ یا منہ نہ کیا کرو‘‘۔

شرح و تفصیل

اللہ پاک کے حکم سے جس شے کی طرف رخ کرکے اللہ کی عبادت کی جائے، اسے ’’قبلہ‘‘ کہتے ہیں۔ کعبہ کی یہ شان و فضیلت ہے کہ اللہ پاک نے اس کی طرف رخ کرکے اپنی عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے، اس لحاظ سے کعبہ شریف، اللہ کو ماننے والوں کا ’’قبلہ‘‘ ہے اور بڑی فضیلت و اہمیت کا مالک ہے۔

قبلہ عالم ہونے کے حوالے سے اس کی سب سے بڑی اور اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں عبادت کا اجر و ثواب بے حدو حساب عطا کیا جاتا ہے۔

1۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں کہ سرکار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ اَدْرَکَ رَمَضَانَ بِمَکَّةَ فَصَامَه وَقَامَ مِنْهُ مَاتَيَسَّرَلَه، کَتَبَ اللّٰه لَه مِائَةَ اَلْفِ شَهْرِ رَمَضَانَ.

’’جس شخص کو مکہ مکرمہ میں رمضان نصیب ہوا اس نے اس کے روزے رکھے اور جتنا ممکن ہوسکا اس کا قیام کیا، اللہ تعالیٰ اسے ایک مہینے کے بدلے میں ایک لاکھ مہینوں کا ثواب عطا فرماتا ہے‘‘۔

(ابن ماجہ : 225)

2۔ طواف کعبہ کے وقت ہر چکر پورا ہونے پر حجر اسود کو بھی چومنا ہوتا ہے، زبردست ہجوم کے باعث بعض اوقات یہ عمل بہت مشکل ہوجاتا ہے، ایسے میں نادان مگر پہلوان قسم کے لوگ کمزور لوگوں کی پرواہ نہیں کرتے اور دوسرے لوگوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں :

رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے نادانوں کو ہدایت دیتے ہوئے کعبہ کی عظمت کو یوں آشکار کیا ہے :

جس شخص نے شدید گرمی میں، ننگے سر طواف کیا اور کسی کو اذیت دیئے بغیر حجر اسود کو بوسہ دیا، اس دوران وہ ذکر و دعاء میں بھی مصروف رہا، اللہ تعالیٰ اسے ہر قدم پر ستر ہزار نیکیاں عطا فرماتا، اس کے ستر ہزار گناہ مٹاتا اور ستر ہزار درجات بلند کرتا ہے۔

3۔ سر زمین حرم کعبہ ہی کی یہ شان ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ گنا زیادہ دیتا ہے، چنانچہ ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز، ایک روزے کا ثواب ایک لاکھ روزہ، ایک صدقے کا ثواب ایک لاکھ صدقات، ایک تسبیح کا ثواب ایک لاکھ تسبیحات اور ایک ختم قرآن کا ثواب ایک لاکھ ختم قرآن کے برابر عطا فرماتا ہے۔

عام حالات میں اور عام مقامات پر، انسان خواہ کتنا زور لگائے وہ نیکیوں کے اتنے انبار نہیں لگا سکتا اور نہ ہی عبادات کے اتنے ذخائر جمع کرسکتا ہے، جو سر زمین حرم کعبہ میں ایک ایک نیکی سے جمع کرلیتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے تاکہ انسان کو حرمتِ کعبہ سے آگاہی ہو اور وہ دل و جاں سے اس کا احترام کرنے لگ جائے اور اس کے بے مثال مقام و مرتبے کو سمجھے اور ہر موقع پر اس کی حرمت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھے اور کوئی ایسی مذموم حرکت نہ کرے جو اس کی حرمت و عظمت کے منافی ہو۔

اسی وجہ سے گذشتہ ادوار میں، جن افراد نے اس کی حرمت کو پامال کیا، یا اس کی کوشش کی، قدرت کے نظر نہ آنے والے ہاتھوں نے انہیں مروڑ کر رکھ دیا اور اس طرح شکنجے میں کسا کہ وہ عبرت کا نشان بن کر رہ گئے۔ ابرہہ اور اس کے گرانڈیل ہاتھیوں اور ساتھیوں کا حشر قرآن پاک میں بھی مذکور ہے اور کتب احادیث و تاریخ میں بھی ایسے واقعات ملتے ہیں، جن سے حرمت کعبہ کی پرواہ نہ کرنے والوں کے عبرتناک انجام کا پتہ چلتا ہے۔ ایک ہوش ربا مثال یہ ہے :

1۔حرم کعبہ میں جھوٹی قسم کی سزا

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہیں :

ایک قریشی شخص تجارتی سفر پہ روانہ ہونے لگا تو اس نے قبیلہ بنو ہاشم کے ایک شخص عمرو بن علقمہ کو اپنی خدمت و معاونت کے لئے ساتھ لے لیا تاکہ راستے میں اسے سہولت رہے اور سارے انتظامات اور کام خود ہی نہ کرنا پڑیں۔ اس نے اپنے سارے اونٹ عمر و بن علقمہ ہاشمی کے سپرد کردیئے اور کہا کہ دوران سفر وہی ان کی دیکھ بھال اور نگرانی کرے۔

قافلہ اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ہوگیا، راستے میں عمرو بن علقمہ کو ایک مسافر ملا جو اسی کے خاندان بنو ہاشم سے تعلق رکھتا تھا، اس نے بتایا اس وقت اسے ایک رسی کی سخت ضرورت ہے، اگرچہ یہ ایک معمولی سی چیز ہے مگر سفر کے دوران اس کی ضرورت نے اسے نہایت اہم بنادیا ہے، اس نے بڑی لجاجت سے درخواست کی کہ وہ اس کی یہ ضرورت پوری کردے۔

اپنے ہی قبیلے کا فرد ہونے کی وجہ سے عمرو کو اس پر ترس آگیا لہذا اس نے اپنے ایک اونٹ کی رسی اسے دے دی۔ جب عمرو کے قافلے نے راستے میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا اور اس نے اپنے اونٹوں کو باندھا تو رسی نہ ہونے کی وجہ سے ایک اونٹ کھلا رہا، قریشی مالک نے پوچھا، اس کی رسی کہاں ہے؟ تسلی بخش جواب نہ پاکر اسے غصہ آگیا، اس نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر فوراً ڈنڈا اٹھا کر ہاشمی کے سر پر دے مارا، جس کی ضرب نے اسے خاصا گھائل کردیا، ہاشمی کو یقین ہوگیا کہ اب وہ جان بر نہیں ہوسکے گا چنانچہ وہ اپنے قبیلے کو قریشی تاجر کی اس حرکت سے آگاہ کرنے کی تدبیریں سوچنے لگا، تاکہ اس کا قبیلہ بنو ہاشم اس قریشی سے انتقام لے سکے۔

اتفاقاً ادھر سے ایک یمنی گذرا تو ہاشمی نے اس سے پوچھا کیا تم مکہ مکرمہ جاتے آتے رہتے ہو؟ اس نے جواب دیا : زیادہ تو نہیں البتہ کبھی کبھار جانا ہوجاتا ہے۔ عمرو بن علقمہ ہاشمی نے کہا :

هَلْ اَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّيْ رِسَالة مِنَ الدَّهْرِ.

’’میرا ایک چھوٹا سا پیغام ہے، کیا تم زندگی میں کبھی یہ پیغام وہاں تک پہنچا دو گے‘‘۔

یمنی نے حامی بھرلی اور کہا : جب بھی میرا جانا ہوا تو تمہارا پیغام ضرور پہنچادوں گا۔

عمرو ہاشمی نے کہا : جب مکہ مکرمہ پہنچو تو سب سے پہلے بنو قریش کو آواز دینا، جب وہ آجائیں تو پھر بنو ہاشم کو پکارنا، جب وہ آجائیں تو پوچھنا، ابو طالب کہاں ہیں؟ جب وہ آجائیں تو انہیں بتانا :

اَمَرَنِيْ فُلَانٌ اَنْ اُبَلِّغَکَ رِسَالَةً اَنَّ فُلَانًا قَتَلَهُ فِی عِقَالِ.

’’مجھے فلاں شخص نے کہا تھا کہ آپ تک پیغام پہنچادوں کہ فلاں شخص نے محض ایک رسی کی وجہ سے اسے قتل کردیا ہے‘‘۔

یمنی کو یہ پیغام دے کر وہ شخص (ہاشمی) فوت ہوگیا۔ قریشی تاجر نے واپس آکر ابو طالب کو بتایا کہ تمہارا وہ آدمی بیمار ہوگیا تھا، میں نے اس کی بے حد خدمت کی مگر اسے موت کے منہ سے نہ بچاسکا۔ قریشی تاجر نے اس انداز سے سب کچھ بیان کیا کہ ابو طالب کو یقین آگیا، چنانچہ کچھ کہنے کی بجائے الٹا اس کا شکریہ ادا کیا کہ تو نے پردیس میں ہمارے آدمی کی خدمت اور خیر گیری کی اور اس کے آرام کا خیال رکھا۔

اتفاقاً عرصہ دراز کے بعد وہی یمنی شخص حج کے موقعہ پر مکہ مکرمہ آیا، اسے پیغام یاد تھا، اس نے بنو قریش، بنی ہاشم اور ابو طالب کو پکارا، جب تمام لوگ وہاں پہنچ گئے، تو اس نے ابو طالب کو تمام صورت حال سے آگاہ کردیا، سربراہ قبیلہ کی حیثیت سے ابوطالب کو بے حد صدمہ پہنچا، وہ فوراً اس قریشی کے پاس گئے اور کہا : ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ تو نے ہمارے آدمی کو قتل کیا ہے اب تین ہی صورتیں ہیں :

پہلی یہ کہ خون بہا ادا کرو، یعنی ہمیں دیت کے سو اونٹ دو۔

دوسری یہ کہ تیرے خاندان کے پچاس آدمی حلفیہ بیان دیں کہ تو نے قتل نہیں کیا۔

اگر تجھے یہ دونوں صورتیں منظور نہیں تو پھر تیسری ایک ہی صورت ہے اور یہ کہ قصاص میں ہم تجھے قتل کردیں گے۔

اس قریشی نے دوسری صورت قبول کرلی اور کہا کہ میرے قبیلے کے پچاس آدمی حلفیہ بیان دے دیں گے۔

ایک ہاشمی عورت ابو طالب کے پاس آئی، اس کی شادی بنی قریش میں ہوچکی تھی اور اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔ اس عورت نے ابو طالب سے کہا حلف اٹھانے والوں میں میرے بیٹے کا نام بھی شامل ہے، آپ مہربانی کریں اور حلف والے دن اس سے حلف نہ لیں، ابو طالب نے وعدہ کرلیا کہ اس سے حلف نہیں لیں گے۔

ایک اور شخص حاضر ہوا اور کہا : آپ نے سو اونٹ نہ دینے کی صورت میں پچاس آدمیوں کے حلف کا مطالبہ کیا ہے، ایک آدمی کے حصے میں دو اونٹ آتے ہیں، قسم اٹھانے والوں کی فہرستوں میں میرا نام بھی ہے لہذا آپ میرے حصے کے دو اونٹ لے لیں اور اس روز مجھ سے حلف نہ لیں، ابو طالب نے اس سے دو اونٹ لے لئے اور فہرست سے اس کا نام خارج کردیا۔

باقی اڑتالیس افراد نے کعبہ معظمہ کے قریب جھوٹی قسمیں اٹھالیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِه مَاحَالَ الْحَوْلُ وَمِنَ الثَّمَانِيَةِ وَاَرْبَعِيْنَ عَيْنٌ تَطْرُفُ.

(بخاری شريف، 1 : 542)

’’اس ذات پاک کی قسم، جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، ابھی ایک سال بھی نہیں گذرا تھا کہ ان اڑتالیس میں سے ایک شخص بھی آنکھ جھپکنے والا نہ رہا، یعنی ایک بھی نہ بچا، سب ایک سال کے اندر اندر مرگئے۔

2۔ دو بدکاروں کا عبرتناک حشر

ابتداء میں کعبہ شریف کے اردگرد قبیلہ ’’جرہم‘‘ آباد تھا، اسے کعبہ کا انتہائی قرب حاصل تھا۔ اگر عقل سلیم کی کمی ہو تو بعض اوقات زیادہ قرب بھی کسی چیز کی عظمت کو نگاہوں سے اوجھل کردیتا ہے اور انسان ایک عظیم و جلیل شے کو عام سی شے سمجھنے لگ جاتا ہے اور اس کے آداب کی پرواہ نہیں کرتا۔ اساف و نائلہ ایسے ہی کم عقل اور نادان نکلے، کعبہ کے قریب رہتے رہتے کعبہ شریف کی حرمت کا تصور ہی ان کے ذہنوں سے اوجھل ہوگیا۔ انہیں یاد ہی نہ رہا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں جرم و گناہ کے ارادے پر بھی گرفت ہوتی ہے اور مجرم ذرا سی بے ادبی اور بے احتیاطی پر دھر لیا جاتا ہے اور عملی طور پر کیا گیا گناہ بہت بڑا گناہ بن جاتا ہے اور اس کی سزا بھی بڑی ہوش ربا اور عبرتناک دی جاتی ہے، تاکہ آئندہ کسی کو ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ ہو۔ اساف و نائلہ مرد و عورت تھے۔ حرم کعبہ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے انہوں نے اسی مقدس جگہ پر فسق و فجور کا ارتکاب کرلیا۔ سزا یہ ملی کہ انہیں پتھر بنادیا گیا، جسم مسخ ہوگئے اور گوشت پوست کے انسان بے حس و حرکت اور بے جان بت بن کر رہ گئے۔

ان بتوں کو عبرت کے نشان کے طور پر صفا اور مروہ دونوں پہاڑیوں پر رکھ دیا گیا تاکہ آنے جانے والے انہیں دیکھیں اور ان سے عبرت پکڑیں اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں جو کعبہ شریف کے تقدس کے منافی ہو۔ مگر انسان بھی بڑی عجیب مخلوق ہے، صحیح رہے تو اشرف و اعلیٰ ہے، کوئی اس جیسی مخلوق نہیں لیکن اگر اپنے مقام سے گر جائے اور بگڑ جائے تو اس سے زیادہ کوئی رذیل نہیں، جانور سے بھی بدتر ہوجاتا ہے اور اپنی برائی کے جواز کے لئے ایسی ایسی بدتر دلیلیں ڈھونڈ لیتا ہے جس میں دانش نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہوتی۔

اساف و نائلہ کی صورتیں مسخ کردی گئیں اور انہیں پتھر بنادیا گیا تاکہ لوگ ان سے عبرت حاصل کریں مگر عبرت پذیر ہونے کی بجائے دور جاھلیت کی پیداوار، جاہلوں نے ان ہی مسخ شدہ مورتیوں کو پوجنا شروع کردیا اور دلیل یہ دی کہ انہیں اسی لئے بتوں میں تبدیل کیا گیا ہے تاکہ لوگ انہیں پوجیں، اگر خدا کو یہ منظور نہ ہوتا تو وہ انہیں بت نہ بناتا۔

یہ بھونڈی دلیل انتہائی نامعقول اور خلاف عقل تھی اس لئے ان کے بارے میں بتایا گیا۔

وَيَقُوْلُوْنَ عَلَی اﷲِ الْکَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ.

(آل عمران : 75)

’’اور اﷲ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور انہیں خود (بھی) معلوم ہے‘‘۔

وہ اس بھدی دلیل کی آڑ میں دانستہ بہتان طرازی کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف ایک غلط بات منسوب کررہے ہیں۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں پوجنے کا ہرگز حکم نہیں دیا یہ سب ان لوگوں کی من گھڑت باتیں ہیں۔

(الجامع اللطیف : 38)