مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال : اقامت کے دوران امام اور مقتدیوں کو کب کھڑے ہونا چاہئے؟ (محمد اکرم۔ راولپنڈی)

جواب : فقہائے کرام فرماتے ہیں :

يقوم الامام والقوم اذا قال الموذن حی الفلاح عند علمائنا الثلاثه.

’’امام اور قوم اس وقت کھڑے ہوں جب مؤذن حی علی الفلاح کہے، ہمارے تینوں اماموں کے نزدیک‘‘ یہی ہے۔ یعنی امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ۔ امام حسن بن زیاد اور امام زفر کے نزدیک قد قامت الصلوۃ پر کھڑے ہوں‘‘۔

(الدرالمختار مع ردالمختار شامی، 1 : 479، فتاوی عالمگيری، 1 : 57)

پس تکبیر بیٹھ کر سنیں، حی علی الفلاح پر کھڑے ہوجائیں۔ یہی سنت ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سوال : بعض علماء کہتے ہیں کہ دوران نماز اگر ٹخنے ننگے نہ ہوں تو نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور بعض کہتے ہیں ایسی صورت میں نماز ہوتی ہی نہیں، ٹخنے ہر حال میں ننگے ہونے چاہئیں۔ (فرحان۔ کراچی)

جواب : اصل مسئلہ میں یہ ہے کہ غرور و تکبر کسی مخلوق کی طرف سے بھی ہو معیوب اور شریعت کی نگاہ میں مردود و مغضوب ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا :

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍO

(لقمان : 18)

’’اور لوگوں سے (غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیر، اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بے شک اﷲ ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے‘‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

الا اخبرکم باهل الجنه کل ضعيف متضعف لو اقسم علی الله لايره، الا اخبرکم باهل النار کل عتل جواظ مستکبر.

’’کیا میں تمہیں اہل جنت کی خبر نہ دوں؟ ہر کمزور لوگوں کی نظروں میں گرا ہوا، اگر اللہ کے بھروسہ پر قسم اٹھالے تو اللہ ضرور اس کی قسم پوری فرمائے، کیا میں تمہیں دوزخی نہ بتاؤں؟ ہر درشت رو، سخت مزاج، مغرور و متکبر‘‘۔ (بخاری و مسلم)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کے دل میں ذرہ بھر تکبر ہوا، جنت میں داخل نہ ہوگا۔ ایک شخص نے عرض کیا :

ان الرجل يحب ان يکون ثوبه حسنا ونعله حسنا قال ان الله تعالیٰ جميل يحب الجمال الکبر بطر الحق وغمظ الناس.

’’ہر آدمی اچھا کپڑا اور اچھا جوتا پسند کرتا ہے (تو کیا یہ تکبر ہے؟) فرمایا اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے حسن کو پسند کرتا ہے، تکبر اللہ کے حضور اکڑنا اور اس کے حکم کو رد کرنا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا ہے‘‘۔ (مسلم)

اس لئے اسلام غرور و تکبر اور اس کی علامات سے منع کرتا ہے اور آدمی میں تواضع و انکساری پیدا کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

من تواضع لله رفعه الله فهو فی نفسه صغير و فی اعين الناس عظيم و من تکبر وضعه الله فهو فی اعين الناس صغير و فی نفسه کبير حتی لهو اهون عليهم من کلب او خنزير.

’’جو اللہ کے آگے جھکتا ہے اللہ اس کو بلند کرتا ہے، وہ اپنے خیال میں چھوٹا اور لوگوں کی نظر میں بڑا ہوتا ہے اور جو غرور کرتا ہے اللہ اسے نیچا کردیتا ہے وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا اور اپنی نگاہ میں بڑا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگوں کی نگاہ میں کتے اور خنزیر سے بھی ذلیل ہوتا ہے‘‘۔

(مشکوۃ ص 434 بحوالہ بیہقی)

غرور و تکبر کی کئی صورتیں ہیں۔ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کو معاذ اللہ گھٹیا سمجھنا، اپنی باتوں کو قانون سمجھنا اور اللہ و رسول کی شریعت کو رد کر دینا، جیسا ہماری اسمبلیوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدان اور حکمران کرتے ہیں کہ اپنی باتوں کو قانون قرار دیکر ملک میں نافذ کرتے ہیں اور قرآن و سنت کی ہدایات کو مسترد کردیتے ہیں۔ یہ غرور و تکبر کی بدترین صورت ہے یہ خدا کی سیٹ پر بیٹھے خدائی کررہے ہیں۔ خدا کا قانون معطل اور ان کا قانون جاری و ساری اور پھر بھی پکے مسلمان۔

یونہی علم و عرفان کے مدعی، غریبوں سے نفرت امیروں سے عقیدت حالانکہ خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو سب کے لئے رؤف سب کے لئے رحیم ہیں۔ ان کی نظر عنایت کیوں ایک طرف جھکی رہتی ہے؟ غریب سے دو انگلیوں سے مصافحہ اور امیر سے مصافحہ و معانقہ و قیام و اہتمام۔

مغرور و تکبر لوگوں کی بداعمالیوں اور بے اعمالیوں کی یہ ادنیٰ سی مثال ہے ورنہ سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے۔ غرور و تکبر کا اظہار، بیاہ شادی، ولادت، موت، دفتر، دکان، گھر، بازار اورہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

لا يدخل النار احد فی قلبه مثقال حبه من خردل من ايمان ولا يدخل الجنة احد فی قلبه مثقال حب من خردل من کبر. (صحيح مسلم)

’’کوئی ایسا شخص دوزخ میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان ہوا اور جنت میں نہیں جائے گا کوئی ایسا شخص جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی غرور و تکبر ہوا‘‘۔

دوسرے موقع پر فرمایا :

من جرثوبه خيلاء لم ينظر الله اليه يوم القيامه.

’’جو شخص غرور و تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نگاہ کرم نہیں فرمائے گا‘‘۔ (بخاری و مسلم)

نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

ما اسفل من الکعبين من الازار فی النار. (بخاری)

’’غرور و تکبر سے‘‘ چادر (یا شلوار، پینٹ، پاجامہ وغیرہ) کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہیں، جہنم میں ہوگا‘‘۔

وضاحت مسئلہ : ان ارشادات پر بار بار غور کریں جو شخص غرور و تکبر سے کپڑا گھسیٹے اسے عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔ اس کی نمایاں مثال چوہدری، جاگیردار ہیں جو اعلیٰ قیمتی تہ بند (دھوتی) پہن کر زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں تاکہ لوگوں پر اپنا دولت مندی و امارت کا رعب ڈال سکیں۔ اسی چیز سے منع کرنا مقصود ہے کہ اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو گھٹیا سمجھا جائے۔ اللہ کی نعمت کی بے قدری کی جائے اگر یہ وجوہات نہ ہوں تو ٹخنوں سے نیچے شلوار، دھوتی یا پاجامہ، پتلون کا ہو جانا ہرگز گناہ یا منع نہیں اور یہ اعلان خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جیسا کہ خیلاء کے لفظ سے واضح ہے کہ غرور و تکبر سے چادر گھسیٹنا حرام ہے۔ اگر یہ بات نہ ہو تو حرام نہیں، جائز ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

من جرثوبه خيلاء لم ينظر الله اليه يوم القيمه، فقال ابوبکر ان احد شقي ثوبي يسترخي الا ان اتعاهد ذالک منه، فقال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم انک لست تصنع ذلک خيلاء.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو اپنا کپڑا تکبر و غرور سے گھسیٹے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس پر نظر کرم نہیں فرمائے گا اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی، میرے کپڑے کا ایک کونہ، اگر پکڑ نہ رکھوں، نیچے لٹک جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم ایسا غرور و تکبر سے نہیں کرتے‘‘۔

(صحيح بخاری، 1 : 517، طبع کراچی)

گویا جس بات سے دوسروں کو اس لئے منع فرمایا کہ اس میں غرور و تکبر ہے اسی کی اجازت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس لئے دی کہ ان میں غرور و تکبر نہیں۔ پس اصل ممانعت غرور و تکبر کی ہے۔ پس اگر غرور و تکبر نہ ہو تو پتلون، شلوار، پاجامہ، چادر کا ٹخنوں سے نیچے ہونا ہر گز مکروہ، حرام یا ممنوع نہیں۔ زیادہ سے زیادہ بعض لوگوں نے ایسی صورت میں مکروہ تنزیہی کا قول کیا ہے جو خلاف اولیٰ ہوتا ہے حرام نہیں۔ (مشکوۃ للشیخ عبدالحق محدث دہلوی و فتاوی عالمگیری)

پس آپ جس طرح نماز پڑھیں، جائز ہے۔ شرعاً قدغن نہیں جو شدت کرے ان حوالہ جات کا جواب اس سے پوچھیں۔ اللہ پاک ہمیں سمجھنے کی توفیق دے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سوال : گھڑی پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے۔ نیز اگر کسی کمرے میں تصویر ہو اس کمرے میں نماز پڑھنا کیسا ہے نیز تصویر کا شرعی حکم کیا ہے؟ (فاروق۔ ڈسکہ)

جواب : ہمارے نزدیک چین والی گھڑی استعمال کرنا اور اسے پہن کر نماز ادا کرنا درست ہے۔ اگر تصویر غیر محرم کی ہے یا عریاں ہے، فحاشی پھیلانے والی ہے، بلیک میلنگ کے لئے بنائی گئی ہے یا کسی بے گناہ کو نقصان پہنچانے کے لئے بنائی گئی ہے یا پوجا پاٹ کے لئے بنائی گئی ہے تو حرام ہے۔

اگر شریفانہ انداز میں اپنی بیوی کی، بچوں کی، والدین یا دیگر محارم کی ہے اور محض یادگار کے طور پر بنائی گئی ہے اور کوئی غلط مقصد پیش نظرنہیں تو جائز ہے۔ تصویر کے لئے بہتر یہ ہے کہ نمازی کے دائیں بائیں یا پس پشت ہو۔ بالکل سامنے نہ رکھیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سوال : سجدہ تلاوت کا طریقہ کار کیا ہے؟

جواب : جب آیت سجدہ پڑھی یا سنی جائے تو پڑھنے اور سننے والے دونوں پر سجدہ واجب ہوجاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں السجدة علی من سمعها وعلی من تلاها آیت سجدہ سننے اور تلاوت کرنے والے دونوں پر سجدہ واجب ہے۔ (ابن ابی شیبہ بحوالہ ہدایہ ص، 1 : 122)

طریقہ : کھڑے ہوکر سجدہ تلاوت کی نیت کرے نیت دل سے ضروری ہے، زبان سے ضروری نہیں۔ نماز کے علاوہ کرے تو زبان سے کہہ لینا بہتر ہے۔ نماز کے دوران، زبانی نیت جائز نہیں۔ ہاتھ اٹھائے بغیر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کرے، کم از کم تین بار سبحان ربی الاعلی کہے پھر اللہ اکبر کہتا ہوا کھڑا ہوجائے۔ پہلے اللہ اکبر کہنا سنت ہے۔ کھڑے ہوکر سجدے میں جانا اور سجدے کے بعد پھر کھڑے ہونا دونوں مستحب ہیں۔ (عالمگیری ص 135 ج 1، الدرالمختار مع ردالمختار شامی ج 2 ص 107)

دوران نماز بھی اگر آیت سجدہ پڑھے تو اللہ اکبر کہہ کر، سر بسجود ہوجائے۔ تین بار تسبیح پڑھ کر کھڑا ہوجائے۔ (ایضاً) نہ تشہد پڑھے نہ سلام پھیرے۔ (ہدایہ ص 125 ج 1)