ناصر رضا گوندل

فکر اور عمل میں سے ایک یا بیک وقت دونوں میں تبدیلی لانا، سوچوں کا صحیح سمت رخ پھیرنا اور عمل کی سمت درست کرنا انقلاب کہلاتاہے۔ اب انقلاب ایک معروف اصطلاح بن چکا ہے۔ یہ اصطلاح آج کل سوشیالوجی، سیاست اور تاریخ کی ملکیت سمجھی جاتی ہے۔ معاشرے کی ہر اس بڑی تبدیلی کو جس میں ایک فرسودہ صورت حال آناً فاناً بالکل برعکس تازہ و توانا صورت حال میں بدل جائے انقلابی تبدیلی کہلاتی ہے۔

فلسفہ کی رو سے کسی شے کی ماہیت کے بدل جانے کو انقلاب کہتے ہیں۔

لغت کی رو سے انقلاب کے معنی یہ ہیں کہ جس طرف پشت تھی اس طرف چہرہ کرلینا اور جس طرف چہرہ تھا ادھر پشت کرلینا۔

قرآن مجید میں انقلاب انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اپنی ایڑیوں سے پھر جانا یا اپنے اصل کی طرف لوٹنا انقلاب ہے۔

توبہ بھی انقلابی کیفیت کا نام ہے کہ سستی، کاہلی، کمزوریوں اور برائیوں کی طرف پیٹھ کرلینا اور اچھائیوں، بھلائیوں اور نیکیوں کی طرف منہ کرلینا، منفی طرز حیات کو نظر انداز کرکے مثبت طرز حیات کو اپنے سامنے رکھنا انقلاب سے عبارت ہے۔

انقلاب کیا ہے؟

انقلاب ایک کیفیت کا نام ہے۔ ۔ ۔ ایک تبدیل شدہ طرز عمل کا نام ہے۔ ۔ ۔ ایک صحت مندانہ رویئے کا نام ہے۔ ۔ ۔ ایک فرد کے من کی تبدیلی کو شخصی انقلاب اور پورے معاشرے کے طرز عمل میں تبدیلی کو معاشرتی انقلاب کہتے ہیں۔ ۔ ۔ توبہ اور عشق بھی شخصی انقلاب کی مثالیں ہیں۔ ۔ ۔ توبہ کا لمحہ پہلے اور عشق کا مرحلہ بعد میں آتا ہے، دونوں ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں۔

انقلاب جب تک اوراق پر رہے فقط لفظ رہتا ہے۔ ۔ اور جب انقلاب عملی زندگی میں وارد ہوتا ہے تو ہر چیز نئے انداز سے نظر آتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ چشم بینا نئے افق کی تلاش کے لئے بے چین رہتی ہے۔ ۔ ۔ خیالات اوج ثریا کے ہم دوش ہونے لگتے ہیں۔ ۔ ۔ قلب ونظر میں نئے جہاں سما جاتے ہیں پھر اپنی دنیا آپ پیدا کی جاتی ہے۔

وہی ہے جہاں تیرا جس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ و خشت نہیں جو تیری نگاہ میں ہے

انقلاب خوشبو کا سفر ہے۔ ۔ ۔ انسان خود باختگی سے خودیابی کی منزل تک پہنچتا ہے۔ ۔ ۔ اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرتا ہے۔ ۔ ۔ خواب گراں سے بیدار ہوکر خواب انقلاب کی تعبیر ڈھونڈتا ہے۔ ۔ ۔ انقلاب چشم بینا کا سفر ہے جو تلاش حق میں سرگرداں ہے۔ ۔ ۔ انقلاب فکروعمل کے پیمانوں کی تبدیلی کا نام ہے۔

انقلاب موسی علیہ السلام و فرعون کی ٹکر کا نام ہے۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام و نمرود کے معرکے کا نام ہے۔ ۔ ۔ چراغ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شرار بولہبی کی کشمکش کا نام ہے۔ ۔ ۔ حسین علیہ السلام و یزید کے تصادم کا نام ہے۔

انقلاب کہاں آتا ہے؟

انقلاب وہاں آتا ہے جہاں کارخانوں کا دھواں تو ملک کے اندر رہ جائے اور دولت باہر کے ملک چلی جائے۔ ۔ ۔ انقلاب وہاں آتا ہے جہاں بدکاروں کو تو زندگی کی ضمانت ملے لیکن نیکو کاروں کو زندگی کا تحفظ میسر نہ ہو۔ ۔ ۔ انقلاب وہاں آتا ہے جہاں غربت کی انتہا کفر کی طرف لے جانے کا سبب بنے۔ ۔ ۔ انقلاب وہاں آتا ہے جہاں ارباب اقتدار سرکش اور عوام بے بس ہوں۔

انقلاب کب آتا ہے؟

جب خود غرض، مفاد پرست عناصر عوام کی گردن پر سوار ہوں اور نیچے اترنے کا نام نہ لیں اور اس کو جاگیرداری، سرمایہ داری، زمینداری اور سرداری کہتے ہیں۔ ۔ ۔ جب 95 فیصد عوام 5 فیصد مفاد پرست ٹولہ کو اپنی گردن پر سوار رکھنے کی بجائے نیچے پٹخ دیں تو اس عمل کو انقلاب کہتے ہیں۔ انقلاب میں اگر مگر کوئی چیز نہیں وہ یا تو ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ فرد کو بات بات پر ڈر لگتا ہے مگر جلوس ہمیشہ نڈر ہوتا ہے، بہت سے لوگ جب یک ارادہ ہوکر یکجا ہوجائیں تو خوف ان کے نزدیک نہیں آتا۔ کوئی بھی ہمہ گیر انقلاب کسی معاشرے میں اس وقت تک برپا نہیں ہوتا جب تک قوم کے اذہان اس کے لئے پوری طرح تیار نہ ہوں۔

انقلاب کا دائرہ کار

جس طرح ایک محاذ پر لڑائی محض لڑائی ہوتی ہے اور بیک وقت مختلف محاذوں پر جھڑپیں جنگ کہلاتی ہیں۔ بعینہ اوپر والی سطح کی لیپا پوتی جزوی اصلاح ہوتی ہے اورہمہ جہت اور ہر محاذ پر جدوجہد اور ہمہ گیر تبدیلی انقلاب کہلاتی ہے۔ ہمہ جہت خرابیاں وہ جوہڑ بن چکا ہے جس کی ایک ایک بوند متعفن اور غلیظ ہے۔ مسئلہ نل، ٹونٹیاں صاف کرنے سے نہیں بلکہ جوہڑ کو سرے سے بند کرنا ہی اصل خیر خواہی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک دین کو زندہ نہیں کرسکے گا جب تک کہ وہ اس کے تمام جوانب و اطراف کو (بیک وقت) اپنی جدوجہد کے احاطے میں نہ لے لے۔ (ابو نعیم)

انقلاب ایک تنظیم یا ایک مسلک کے بس کی بات نہیں بلکہ پوری امت مل کر انقلاب لائے گی۔ لہذا انقلاب کے لئے پوری امت کو دعوت دی جائے، کسی مسلک کو دعوت سے مستثنٰی قرار نہ دیا جائے بلکہ اپنے آپ کو سمندر کی طرح رکھیں سکیڑ کر دریا نہ بنائیں۔ ۔ ۔ خود کو نمک کی کان بنادیں کہ نمک کی کان میں جو چیز آتی ہے کچھ دیر بعد وہ خود بھی نمک بن جاتی ہے۔

فرمان باری تعالیٰ ہے ’’تم آپس میں نہ جھگڑو کہ پھر بزدلی کرو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی‘‘۔ (انفال : 46)

ایک مسلک اور ایک گروہ کی آواز میں وہ قوت، دبدبہ اور رعب نہیں ہوتا جو پوری امت کی آواز میں ہوتا ہے۔

مسلمانوں کی ملی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو تشویشناک حد تک ہلاکت انگیز بگاڑ کی لپیٹ میں نہ آچکا ہو۔ لہذا ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت انقلاب کی ضرورت ہے جو بیک وقت علمی وفکری جمود کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی و روحانی زندگی کی رو بہ زوال قدروں کو پھر سے بحال کردے۔ امت مسلمہ کی سیاسی و اقتصادی اور سماجی زندگی میں موجود تمام موانعات کا تدارک کرکے ملت اسلامیہ کو اقوام عالم کی صف میں باعزت مقام دے۔ مزید برآں امت مسلمہ کے منتشر وسائل اور متفرق طبقات کو عالمی سطح پر ایک موثر وحدت میں اس طرح پرودے کہ پورا عالم اسلام مسلم کامن ویلتھ (اسلامی دولت مشترکہ) کی صورت میں نقشہ عالم پر ایک عظیم قوت بن کر ابھرے۔

سدِ راہ انقلاب

ناخواندگی کسی بھی ملک میں انقلاب لانے کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے، جب تک عوام جہالت کے اندھیرے میں، ناخواندگی کی تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے انقلاب نام کی کوئی چیز وہاں قدم نہیں رکھ سکتی۔ جب عوام پڑھیں لکھیں گے۔ ۔ ۔ خواندہ ہونگے۔ ۔ ۔ انہیں شعور ملے گا۔ ۔ ۔ انہیں مقصد حیات سے آگہی ہوگی۔ ۔ ۔ وہ تعلیم کے نور سے منور ہونگے۔ ۔ ۔ وہ شعور کے ہتھیار سے لیس ہونگے تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں انقلاب کی طرف بڑھنے سے نہیں روک سکے گی۔ اسی لئے شاعر شکوہ کرتا ہے :

لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے
جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند

دراصل 58 سال سے ہم جسمانی طور پر تو آزاد ہیں لیکن ذہنی طور پر ہمیں غلامی کی زنجیروں سے رہائی نہیں مل سکے گی۔

انقلاب کے اثرات

انقلاب کی برکت سے جہاں سستی وکاہلی کی کائی جمی ہوتی ہے وہاں حرکت و عمل کے پھول کھل اٹھتے ہیں۔ ۔ ۔ بے مقصدیت کی پھپھوندی زدہ زندگی پر مقصد حیات غالب آجاتا ہے۔ ۔ ۔ کچھ کرنے کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔ ۔ ۔ مخالفتوں کے سیل رواں کا رخ موڑنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ فکر وعمل کے پیمانے بدل جاتے ہیں۔ ۔ ۔ معاشی تعطل کا خاتمہ ہوتاہے۔ ۔ ۔ جس کا نام سن کر غیر مسلم حکمران کانپ جائیں وہ خلیفہ ثانی اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری لادے غریبوں تک پہنچاتا ہے تاکہ غربت اور امارت کی انتہاؤں کی خلیج وسیع نہ ہونے پائے۔ ۔ ۔ انقلاب دیمک زدہ رواجوں اور کوڑھ زدہ روایتوں کے بند توڑتا ہے۔ ۔ ۔ انقلاب سے بے زبانوں کے منہ میں زبان آجاتی ہے جو نہ صرف سیم و زر کے خلاف شعلے اگلتی ہے بلکہ ان تخت نشینوں کی پگڑیوں کے بل کھولتی اور ان کی قباؤں کے ٹانکے ادھیڑتی ہے۔

یہ انقلاب کا فیض تھا کہ حبش کا بلال رضی اللہ عنہ۔ ۔ ۔ روم کا صہیب رضی اللہ عنہ۔ ۔ ۔ فارس کا سلیمان رضی اللہ عنہ۔ ۔ ۔ مکے کا یاسر رضی اللہ عنہ اب عرب کے کسی قبائلی سردار اور کج کلام کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں تھے بلکہ اب وہ صرف ایک خدا کے سامنے جھکنے والے بن چکے تھے۔

قیادت

کہنے کو تو قیادت فقط ایک لفظ ہے جسے کہنے میں ایک لمحہ اور لکھنے میں ایک پل لگتا ہے لیکن یہ لفظ اپنے اندر معانی کی ایک دنیا سموئے ہوئے ہے جو آفاقی حدود و اربعہ کی حامل ہے۔

قیادت کی ناگزیریت

قیادت کی افادیت اس حدیث سے مترشح ہوتی ہے کہ اگر تم تین ہو تو ایک کو اپنا سردار (قائد) بنالو۔ ۔ ۔ جس طرح پہننے کے لئے کپڑا اور کھانے کو روٹی چاہئے اس طرح کامیاب زندگی گزارنے کے لئے ہر انسان کو ایک قیادت درکار ہے جس کی راہنمائی میں وہ اپنا علمی، فکری، عملی، روحانی اور انقلابی سفر طے کرسکے ورنہ دنیا کا سفر کامیابی سے کاٹنا محال ہے۔ جو لوگ قیادت کو لازم نہیں سمجھتے وہ فکری ابہام میں مبتلا ہیں۔ انسان کو قدم قدم پر راہنمائی درکار ہے کیونکہ فطرت چاہتی ہے کہ شخصیت کی تکمیل ہوتی رہے اور تکمیل کی منزل کسی مرد درویش کی قیادت میں ملتی ہے۔ من مرضی انسان کو اس بند گلی میں دھکیلتی ہے جس سے وہ نکل نہیں سکتا۔ آدمی حالات کو مانیٹر کرنا تو کجا خود کو کمپوز (Compose) بھی نہیں کرسکتا پھر علمیت کا سارا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ ۔ ۔ خواب گہنا جاتے ہیں۔ ۔ ۔ گھروندا منتشر ہوجاتا ہے۔ ۔ ۔ زمانے کے بے رحم تھپیڑوں سے انسان بکھر جاتا ہے کہ پھر زندگی بھر سنبھل نہیں سکتا قیادت کی ناگزیریت علامہ اقبال کے اس شعر سے عیاں ہوتی ہے :

اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے

قیادت کیسے پیدا ہوتی ہے؟

علامہ اقبال نے اپنے مضمون ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ایک قوم جو مخالف قوتوں کے اثرات سے سقیم الحال ہوگئی ہو بعض دفعہ خود بخود ردعمل پیدا کرنے والی قوتوں کو پیدا کرلیا کرتی ہے مثلاً قوم میں کوئی زبردست دل و دماغ کا انسان پیدا ہوجاتا ہے یا کوئی فلاحی اصلاح کی تحریک بروئے کار آتی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ قوم کے قوائے ذہنی و روحانی تمام باغی قوتوں کو اپنا مطیع بنانے اور اس فاسد مواد کو خارج کردینے سے جو قوم کے نظام جسمانی کی صحت کے لئے مضر تھا قوم کو نئے سرے سے زندہ کردیتے ہیں اور اس کی اصل توانائی عود کر آتی ہے‘‘۔

قیادت کیسی ہو؟

علامہ اقبال ہمیں قیادت کے پرکھنے کے لئے ایک کسوٹی دیتے ہیں۔

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے مری طرح صاحب اسرار کرے

ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست
زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے

دے کے احساس زیاں، تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر، تجھے تلوار کرے

فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطین کا پرستار کرے

قائد کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمہ جہت شخصیت ہو کیونکہ وابستگان ہر سوال کے جواب کے لئے۔ ۔ ۔ ہر اشکال کی تشفی کے لئے۔ ۔ ۔ ہر مسئلے کے حل کے لئے۔ ۔ ۔ ہر کڑے وقت میں۔ ۔ ۔ اپنے قائد کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہر مسئلے کا حل جاننا ہمارا حق ہے بایں وجہ وہ ہمہ جہت شخصیت کی طرف لپکتے ہیں۔ قائد ایسا ہو کہ جو دنیا میں بھی راہنمائی کرے اور آخرت میں بھی کارکنان اس کی معیت کے طلبگار رہیں۔ ۔ ۔ ’’المرء مع من احب‘‘ کے مصداق اس کی قیادت قوم کے لئے وجہ عار نہ ہو۔ ۔ ۔ بلکہ باعث افتخار ہو۔ قائد انقلاب شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ یہ فتنوں کا دور ہے ملاوٹ والے، جھوٹ والے، لوگ زیادہ ہیں لہذا کسی ایک کے ہوکر رہو تاکہ کسی فتنے کا لقمہ اور حصہ نہ بن جاؤ‘‘۔

اس عہد بے اماں اور دور ناہنجار میں تو قیادت اور ناگزیر ہوگئی ہے جہاں ہزاروں مگر مچھ منہ کھولے نگلنے کے لئے مورچہ زن ہوں اور حق والے حجروں میں دبکے ہوئے ہوں۔ ۔ ۔ فرقوں میں بٹے ہوئے ہوں یا باہم دست و گریباں ہوں۔ ۔ ۔ لہذا ایسی قیادت جو کچھوے کی طرح سخت جان۔ ۔ ۔ شیر کی طرح بہادر۔ ۔ ۔ عقاب کی طرح بلند پرواز۔ ۔ ۔ چیونٹی کی طرح محنتی ہو۔ ۔ ۔ قیادت ایسی ہو کہ جس کی فکر پر آنکھیں بند کرکے عمل کیا جائے۔ ۔ ۔ جس کے ہاتھوں پر قیادت کی لکیریں ہوں۔ ۔ ۔ جو وقت کا امام ہو۔ ۔ ۔ جو حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والا ہو۔ ۔ ۔ جو زندگیوں کو حرارت آشنا کرے۔ ۔ ۔ جو کسی کا ضمیمہ نہ بنے۔ ۔ ۔ جو دوسروں کے پیچھے چلے وہ قائد نہیں کہلواسکتا۔ ۔ ۔ قائد وہی ہوتا ہے جو ایسا سیاسی نظام دے جس میں آدمیوں کو گنا نہ جائے بلکہ تولا جائے کیونکہ اسلام عدل و انصاف کا مذہب ہے۔ ۔ ۔ وہ ایسا شجر سایہ دار ہو جس کے سائے میں تھکے ہارے کارکن سکون لے سکیں اور اگلی منزلوں کے لئے تازہ دم ہوسکیں۔ ۔ ۔ وہ ایسا انقلاب نما ستارہ ہو کہ انقلاب اور ہمہ جہت تبدیلی کے خواہاں اس سے انقلابی فکر کی راہنمائی لیں۔

سچی قیادت کو کیا صلہ ملتا ہے؟

تمام عمر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

عوام میں سے بعض ناعاقبت اندیشوں کی طرف سے سچی قیادت پر کیچڑ اچھالا گیا۔ ۔ ۔ زبان طعن دراز کی گئی۔ ۔ ۔ انگشت اعتراض اٹھائی گئی۔ ۔ ۔ قائداعظم کو کافر اعظم تک کہا گیا۔ ۔ ۔ علامہ اقبال پر کفر کے فتوے لگے۔ ۔ ۔ لیاقت علیخان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ۔ ۔ ہمارے ہاں جیتے جی سچی اور اچھی قیادت کو ماننے کا رواج نہیں۔ ۔ ۔ ہم یہ کام ان کے واصل باللہ ہونے کے بعد کرتے ہیں۔

قیادت کا فقدان

قائداعظم کے انتقال کے بعد قائد کی تلاش کا سفر جاری ہے۔ اب ایک ایسی قیادت کے ظہور کا وقت آچکا ہے جو ہر سطح پر نمودار ہو۔ ۔ ۔ جو قومی و بین الاقوامی سطح پر نمایاں ہو۔ معاشرے میں اچھے افراد کی کمی نہیں مگر بدقسمتی سے قومی سیاست میں اس خلا کو پر نہ کیا جاسکا۔ جونہی عوام میں سے ایک قیادت ابھری اس نے وقت کے یزیدیوں کو للکارا تو دل پتھرہونے لگے۔ ۔ ۔ رشتے ٹوٹنے لگے۔ ۔ ۔ اپنے بیگانے ہونے لگے۔ ۔ ۔ ہجوم منتشر ہونے لگے، افراد تو بدلے مگر ہجوم قائم رہا۔ ۔ ۔ ذرائع ابلاغ کو چھین لیا گیا مگر طاہرالقادری کو دلوں سے محو نہ کیا جاسکا۔ ۔ ۔ نیزوں کی انیاں سیدھی کی گئیں مگر قائد انقلاب’’ یہ بندہ دو عالم سے خفاہے میرے لئے‘‘ کے مصداق بنے رہے۔ ۔ ۔ وہ مسلسل اپنی فکر رسا سے ذہنوں کو متاثر کرتے رہے۔ ۔ ۔ مخالفتوں کے طوفان میں مصطفوی انقلاب کی شمع روشن کرتے رہے۔ ۔ ۔ ان کا ایک ہاتھ قرآن پر اور دوسرا اسلاف کے فرمودات پر ہے۔ ۔ ۔ ان میں ہر وہ صفت موجود ہے جو ایک بین الاقوامی لیڈر میں ہونی چاہئے۔ ۔ ۔ راتوں کو اٹھ کر مناجات کرتے ہیں۔ ۔ ۔ دن کو مصطفوی انقلاب کے لئے ہمہ جہتی کاوشیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حسن مسعود بھی قیادت کے فقدان کا نوحہ یوں کہتے ہیں۔

خزاں رسیدہ سی ٹہنیوں سے کبھی تو غم کا لباس اترے
کبھی تو وقت نشاط آئے کبھی تو پھولوں میں باس اترے

بہت دنوں سے ہماری آنکھوں میں آس کی ریت اڑ رہی ہے
کوئی تو دریا صفات ٹھہرے کوئی تو بن کر بیاس اترے

قائد انقلاب

بیسویں صدی عیسوی میں پاکستان میں کئی قیادتیں ابھریں ان کا سکوپ ان کے مشن کے حوالے سے ہے۔ جتنا مشن عظیم ہوگا اتنا سکوپ بڑا ہوگا۔ ۔ ۔ جتنا مشن سکڑا ہوا ہو اتنا سکوپ محدود ہوگا۔ ۔ ۔ اس صدی کے دوران کئی قیادتیں اپنے اپنے علاقوں میں ابھریں، اپنے علاقوں کے لوگوں کی جنگ لڑی مگر کوئی قیادت ہمہ جہتی قیادت نہ تھی۔ ۔ ۔ کوئی علاقائیت کے بھنور میں پھنسا۔ ۔ ۔ اور کسی نے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی، نیز کوئی بھی ایسی قیادت ملک پاکستان کو نصیب نہ ہوسکی جو بیک وقت دینی و دنیاوی علوم پر دسترس رکھتی ہو۔ ۔ ۔ جس کے امور سیاست و ریاست کے لئے صرف ہوں اور راتیں بارگاہ الہٰی میں مناجات کرتی گزرتی ہوں۔

اب حالات میں کلی بگاڑ ہے جزوی نہیں۔ ۔ ۔ جزوی اصلاحات مداوا نہیں کرسکتیں۔ ۔ ۔ ہر کونے سے خرابیاں عود کر آئی ہیں۔ ۔ ۔ ہر ہر پہلو سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی ہیں۔ ۔ ۔ ہر گوشہ زخمی ہے۔ ۔ ۔ ہر خوشہ پریشاں ہے۔ ۔ ۔ ہر کشت ویراں ہے۔ ۔ ۔ ہر پھول ماتم کناں ہے۔ ۔ ۔ ہر کلی نوحہ زن ہے۔ ۔ ۔ ہر خواب تعبیر چاہتا ہے۔ ۔ ۔ ہر آرزو اثر آور ہونا چاہتی ہے۔ ۔ ۔ ہر خواہش ادھورے سپنے سجائے بے منزل بھٹک رہی ہے۔ ۔ ۔ ہر امید روشنی کی کرن کی طلبگار ہے۔ ۔ ۔ ہر تمنا بار آور ہونا چاہتی ہے۔ ۔ ۔ ہر دعا مستجاب ہونے کی آرزو مند ہے۔

اب اس کلی بگاڑ کے لئے کلی اصلاح کی ضرورت ہے اور اس ہمہ جہت اورہمہ گیر اصلاح کو انقلاب کہتے ہیں۔ قائد انقلاب سے مراد قائد مصطفوی انقلاب ہے۔ ۔ ۔ وہ فقط ایک ہی ہستی پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہے جوکہ لیڈر آف دی لیڈرز ہے۔ ۔ ۔ جو پوری مسلم دنیا کا امام ہے جو پوری امت مسلمہ کا وکیل ہے۔

پرامن انقلاب کون لائے گا؟

امت مسلمہ پر طویل دورِ گراں کے بعد احیائے اسلام کی موجودہ تحریک کو دیکھ کر اب اس میں شک نہیں رہا کہ اس پاک دھرتی پر انقلاب کا گلرنگ سویرا طلوع ہوکر رہے گا (انشاء اللہ)لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ انقلاب کی جوئے شیر کون لائے گا؟ اسی کا جواب قارئین کی نذر ہے۔

اللہ پاک کے فضل و کرم اور پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے تصدق سے اس سرزمین پر وہ ہستی انقلاب لائے گی جس کے ہاتھوں پر انقلاب کی لکیریں ہوں۔ ۔ ۔ جس کے رگ و ریشے میں انقلابی فکر حلول کرگئی ہو۔ ۔ ۔ جس کی انقلابی روح اسے ہمہ وقت بے چین، بے قرار اور برسر پیکار رکھے۔

وہ ہستی جو سراپا جہاد ہو۔ ۔ ۔ اور انقلاب کے مفہوم، ماہیت، نفسیات، حدود اربعہ، اہمیت، اختتام، ثمرات اور انقلابات کے تقاضوں کا ادراک بھی رکھتی ہو۔ ۔ ۔ اور انقلابیوں کی Requirements اور ان کی تربیت کا سامان رکھتا ہو جو ہر سال سیرت و کردار کے سانچے میں ڈھلے انقلابیوں کی مناسب کھیپ تیار کرے۔

وہ جو قدیم علوم اور عصر حاضر کے جدید تقاضوں کو ہم آہنگ کرنے کی کماحقہ صلاحیت رکھتا ہو۔ ۔ ۔ اور غیر ملکی یونیورسٹی اس کے جیتے جی اس پر Phd کرنے کی اجازت دے۔

وہ ہستی جس کی ساری انقلابی کاوش، کوشش اور جدوجہد فی سبیل اللہ ہو۔ ۔ ۔ اور وہ ایک پائی کا بھی روادار نہ ہو۔ ۔ ۔ ہزاروں رفقاء و اراکین کے ہوتے ہوئے نذرانہ تو کجا ان سے یک طرفہ تحفے بھی قبول نہ کرے۔ ۔ ۔ وہ ہستی جس کی تمام کتب و کیسٹس وقف ہوں۔ ۔ ۔ وہ ہستی جو نہ ستائش کی تمنا کرے نہ صلے کی پرواہ کرے۔ ۔ ۔ طعن و تشنیع کے تیر سہتا۔ ۔ ۔ متبسم چہرے سے دیوانہ وار سوئے انقلاب چلتا رہے۔

وہ ہستی جو کتابوں میں انقلاب بطور نصاب پڑھائے۔ ۔ ۔ اور وقتاً فوقتاً انقلابیوں کی تربیتی نشستیں منعقد کرکے ان کو انقلاب کی پیاس لگاتا رہے اور آمادہ انقلاب رکھے۔

وہ ہستی جو ذاتی خواہشات، ضروریات اور ترجیحات کو ذبح کرے۔ ۔ ۔ اور سکون کو تج دے کر امت کی بھلائی کو مقدم رکھے۔ ۔ ۔ اور امت کے بگڑے احوال کی خاطر ذاتی شہرت کو قربان کرکے میدان کار زار میں اترے۔

وہ ہستی جس کے والد ماجد مقام ملتزم پر غلاف کعبہ کو تھام کر انقلابی بیٹے کی دعا مانگیں اور اسی لحاظ سے اس کی تربیت کی خاطر روزانہ پچاس میل کا سفر کریں۔

وہ ہستی جو اپنے اندر ایک انجمن۔ ۔ ۔ کارکنوں کے دلوں کی دھڑکن ہو۔ ۔ ۔ جو اسلامی معیشت پر سودی نظام کے ابطال میں پوری دنیا کے معیشت دانوں کو چیلنج دے کر بلا سود بنکاری نظام کا خاکہ پیش کرسکے۔ ۔ ۔ وہ ہستی جس کے سامنے ماہر قانون بھی زانوائے تلمذ تہ کرنے کو سعادت سمجھیں۔ ۔ ۔ وہ ہستی جو مذہبی امور پر سند مانی جاتی ہو۔ ۔ ۔ جو میدان سیاست میں الیکشن کی لڑائی وقتی طور پر تو ہارجائے مگر قوم کو شعور آشنا کرنے کی جنگ جیت جائے۔ ۔ ۔ جو بولے تو ہزاروں کیسٹوں میں آواز انقلاب ریکارڈ کرادے۔ ۔ ۔ جو لکھے تو سینکڑوں معرکۃ الآراء کتابیں منصہ شہود پر آجائیں۔ ۔ ۔ جو قرآن کی تفسیر لکھے تو ہر آیت کا نخبہ اور نچوڑ محبت و ادب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں سامنے لائے۔ ۔ ۔ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قلم اٹھائے تو معرفت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھانے کا حق ادا کردے۔ ۔ ۔ جو معتکف ہو تو ہزاروں خلوت نشیں اس سے اکتساب فیض کریں۔ ۔ ۔ جو تعلیمی حالت زار دیکھے تو قوم کو دس ہزار عوامی تعلیمی مراکز، 1000ماڈل سکول 100ماڈل کالج، چار صوبائی یونیورسٹیاں ایک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، ایک میڈیکل کالج اور ایک انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے قیام کا جامع تعلیمی منصوبہ عطا کردے۔ جہاں سے پڑھنے والے کرم کتابی نہ ہوں بلکہ مردِ انقلابی ہوں۔

وہ ہستی جو فرقہ پرست نہ ہو بلکہ خدا پرست ہو۔ ۔ ۔ جس کی آواز تکفیر مسلسل کی بجائے تکبیر مسلسل ہو۔ ۔ ۔ جو فتوے کی لٹھ سے نہیں بلکہ اپنے شیریں و کومل لہجہ کی مٹھاس اور حلاوت سے تقویٰ کی بات دلوں میں ترازو کردے۔

جو کسی ایک مسلک کا نمائندہ نہ ہو بلکہ پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنے کی نیت و صلاحیت رکھتا ہو۔ ۔ ۔ اور پوری قوم کو قابل قبول ہو۔

وہ ہستی جو وکیلوں کا استاد۔ ۔ ۔ علماء کا سرتاج۔ ۔ ۔ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قسیم۔ ۔ ۔ راتوں کو خدا کے حضور بوریا نشیں۔ ۔ ۔ اور صبح کو طاغوت سے پنجہ آزما۔ ۔ ۔ جو نسبت رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے اتحاد امت کا نقیب۔ ۔ ۔ مصطفوی انقلاب کا داعی۔ ۔ ۔ قرآنی آیات سے خیرات انقلاب لینے والا، امت کا خادم۔ ۔ ۔ اپنے عہد کی پہچان اور عصر حاضر کا مرد قلندر ہو۔

وہ ہستی جو فقط زاہد خشک نہ ہو بلکہ تصوف سے بھی گہرا شغف رکھتا ہو۔ ۔ ۔ وہ ہستی جس کے انداز خطابت میں صرف سبک ندی کا بہاؤ ہی نہ ہو بلکہ دلوں میں بات اتار دینے کا ملکہ بھی ہو۔ ۔ ۔ اور اپنے رب کے فضل اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے تصدق سے دلوں کو مائل کرنے، پھیرنے اور ان پر حکمرانی کرنے کی استعداد بھی رکھتی ہو۔ ۔ ۔ جو سامعین کے دل توڑنے کی نہیں بلکہ دل جوڑنے کی بات کرے۔

وہ ہستی جو مشکلات کو سینے سے لگانے کا ہنر جانتی ہو۔ ۔ ۔ اور مصائب میں انقلابیوں کی ڈھارس بندھانا بھی جانتی ہو۔

وہ ہستی جو جرات و بہادری کا ایسا دلکش سماں باندھے کہ وقت کے بڑے بڑے جابر یزیدوں کے تابڑ توڑ حملے روک کر ان کے تخت طاؤس کی چولیں ہلاکر رکھ دے۔

انقلاب کا سہرا اسی کے سر سجتا ہے جسے خدا نے ہمہ جہت خصوصیات عطا کرکے کمالات کا مرقع بنادیا ہو اور جو قوم کی اکثریت کے راستے پر چل رہا ہو بشرطیکہ وہ اکثریت بھی راہ حق پر ہو۔ کسی ایک فرقے کی قیادت ہمہ جہت انقلاب کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ اگر کسی ایک جتھے، گروہ، فرقہ یا لشکر نے بزور شمشیر ایسی کوشش کی تو اس کا انجام خون خرابے پر منتج ہوگا لہذا وہ اسلامی انقلاب کہلوا ہی نہیں سکتا اسلامی انقلاب کا تقاضا ہے کہ قیادت سواد اعظم کی صحیح نمائندہ ہو۔

وہ فقط خود ہی قائدنہ ہو بلکہ قائدانہ بصیرت سے قائد پیدا بھی کرسکتا ہو۔ ۔ ۔ وہ فقط خود ہی مصور انقلاب نہ ہو بلکہ انقلاب کے واضح خدوخال پیش کرے۔ ۔ ۔ وہ فقط خود ہی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باوفا نہ ہو بلکہ ادب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو ہر سو بکھیرتا چلا جائے۔ ۔ ۔ وہ فقط خود ہی مقرر نہ ہو بلکہ جو اسے سنے وہ بھی مقرربن جائے۔ ۔ ۔ وہ فقط خود ہی ادیب نہ ہو بلکہ جو اسے پڑھے وہ بھی ادیب بن جائے۔

وہ جس کی روح میں انقلاب کی تڑپ ہو۔ ۔ ۔ جس نے آنکھوں میں انقلاب کے سہانے خواب پال رکھے ہوں۔ ۔ ۔ جس کے دماغ میں انقلاب کی کرنیں پھوٹیں جس کی سانسوں میں انقلاب کی خوشبو رچی بسی ہو۔ ۔ ۔ جس کے لبوں پر انقلاب کے ترانے ہوں۔ ۔ ۔ جس کے دل میں انقلاب کی دھڑکن ہو۔ ۔ ۔ جس کے اٹھتے قدم سوئے انقلاب (سوئے کربلا) ہوں۔ ۔ ۔ جس کے بول میں انقلاب کی لے ہو۔ ۔ ۔ نغم اللہ، جس کے رگ وپے میں ہو۔ ۔ ۔ آرام کا لفظ جس کی ڈکشنری سے خارج ہو اور وہ سختی منزل کو سامان سفر سمجھے۔

وہ ایسی اکائی ہو جو صفروں کو اپنے دائیں جانب لگا کر ایک سپاہ انقلاب تیار کرے۔ ۔ ۔ اور پھر جب دور ماقبل انقلاب میں اس پر جنگ مسلط کی جائے تو وہ سازشوں سے چشم پوشی کرکے اپنے سپاہیوں کو ہر نازک موڑ سے بچا بچا کر انہیں دور ناہنجار سے نکالے۔ ۔ ۔ وہ ایسا پارس ہو (روحانی اعتبار سے) کہ جو بھی پتھر اس سے لگے وہ سونا بن جائے۔

جسے کوئی فرعون وقت جبر سے نہ جھکا سکے اور قارون زمانہ، دولت کی جھنکار سے نہ خرید سکے۔ ۔ ۔ جو بلا سودبینکاری کا نظام پیش کرے۔ ۔ ۔ اور عالمی منکرین ختم نبوت کو مباہلہ کا چیلنج دے۔

وہ جو امام انقلاب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قدموں کے نقوش چومتے ہوئے اپنے گھر والوں کو تپتے ریگزاروں میں قربان کرنے کا عزم اور حوصلہ رکھتا ہو اور وقت کے یزید سے نبٹنا بھی جانتا ہو۔ ۔ ۔ اور جس نے بیعت انقلاب کررکھی ہو۔ ۔ ۔ جس کا ہوم ورک حالات کو انقلاب کی دہلیز پر جھکادے۔ ۔ ۔ اہل قانون اسے عالم اسلام کا وکیل سمجھیں۔ ۔ ۔ اہل بصیرت اسے اپنے عہد کی دانش۔ ۔ ۔ اہل نظر اسے نابغہ عصر۔ ۔ ۔ اور دور بین اسے مستقبل کی تاریخ کا عنوان کہیں۔ ۔ ۔ ایک عالم اس کے نام کی تعظیم کرے۔ ۔ ۔ اس کی قوم اسے قائد انقلاب کہے۔ ۔ ۔ اور وہ خود کو قائد انقلاب منوائے۔ بفضلہ تعالیٰ وہی انقلاب برپا کرے گا۔

جو اس دنیا میں اللہ کے دین کی کوشش اور محنت کے لئے بغیر کسی ٹارگٹ، ہدف اور نشان منزل کے راہ نوردِ شوق نہ رہے اور اس دنیا میں دین کے لئے بے ثمر محنت نہ کرتا پھرے صرف آخرت میں ثواب وجزا اور اثرات کا طالب نہ ہو بلکہ اسی دنیا میں جزا، اثرات، نتیجہ خیزی اور انقلاب چاہتا ہو۔ ۔ ۔ جو فقط طالب ثواب نہ ہو بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر طالب انقلاب ہو۔

جو ڈائریکٹ ہی اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کی نامراد، نامعقول کوشش نہ کرے بلکہ تعلق بااللہ کے لئے ربط رسالت کو ناگزیر سمجھے۔ ۔ ۔ وہ جس کی فکر میں Clarity۔ ۔ ۔ عمل میں Maturity۔ ۔ ۔ قلم میں روانی۔ ۔ ۔ خطابت میں سیف زبانی۔ ۔ ۔ اور عقیدے میں عشق رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو۔

وہ جو ایسی جماعت تیار کرے جو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ ۔ ۔ اور ایسا یگانہ عالمگیر ادارہ بنائے اور بغیر کسی سرکاری گرانٹ کے صرف خدا کے فضل، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کرم اور کارکنوں کی اعانت اور ان کی خدمت سے چلے۔ ۔ ۔ وہ جو کبھی اپنے لئے نہیں بلکہ پیغمبر انقلاب کی بارگہ میں نذرونیاز کے طور پر پیش کرنے کے لئے حج کرے۔

وہ جس میں اقبال کی فکر۔ ۔ ۔ قائداعظم جیسا عزم۔ ۔ ۔ عبدالماجد بدایوانی جیسی خطابت۔ ۔ ۔ نواب بہادر یار جنگ جیسا ولولہ۔ ۔ ۔ مولانا روم جیسا عشق۔ ۔ ۔ مولانا جامی جیسا ادب۔ ۔ ۔ شاہ ولی اللہ جیسی بصیرت۔ ۔ ۔ امام غزالی جیسا علمی تبحر۔ ۔ ۔ اعلیٰ حضرت جیسی فقاہت ہو وہی ہستی انقلاب لائے گی۔ (ان شاء اللہ)

وہ جو امت میں فتوؤں، مناظروں، مجادلوں، تکرار اور تقلید کی دلدل سے صرف بیزار ہی نہ ہو۔ ۔ ۔ بلکہ عظمت و احیائے اسلام کی کہکشاؤں میں اپنا بسیرا رکھے۔ ۔ ۔ اور عالم اسلام کی تاریخ کو گنبد خضریٰ کی چھاؤں میں رقم کرنے کے خواب دیکھے۔ ۔ ۔ وہ جو وقت کا مجدد ہو مگر خود کو مقلد سمجھے۔ ۔ ۔ علماء کا سرتاج ہو مگر خود کو علماء کی صف نعال میں کھڑا کردے۔ ۔ ۔ جس میں مرشد کے مطلوبہ تمام اوصاف بھی ہوں مگر وہ خود کو تمام عمر مرید ہی رکھے۔ ۔ ۔ قائد ہوکر بھی خود کو جماعت کا کارکن سمجھے۔

پاکستان میں انقلابی قیادت پیدا ہوچکی ہے مگر اب یہ آپ کی تلاش کا سفر ہے۔ ۔ ۔ آپ کی فکر کی اپروچ ہے ڈھونڈنے والے تو رب کو بھی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ۔ ۔ مذکورہ بالا نشانیوں سے آپ خود ہی ایسی قیادت تلاش کریں۔ بقول شاعر

خضر کیوں کر بتائے؟ کیا بتائے؟
اگر ماہی کہے دریا کہاں ہے؟

آیئے اسے ڈھونڈیں۔ ۔ ۔ جانیں۔ ۔ ۔ پہچانیں۔ ۔ ۔ اور مانیں۔ ۔ ۔ پھر اس کے دست و بازو بنیں۔ ۔ ۔ اس کا ہاتھ بٹائیں۔ ۔ ۔ اس کے سنگ چلیں۔ ۔ ۔ اس کے درد کو سمجھیں۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین ثم آمین