شیخ الاسلام اور احیائے تصوف

غلام مرتضیٰ علوی

حدیث جبرئیل کی روشنی میں دین اسلام کے تین مدارج ہیں:

  1. ایمان
  2. اسلام
  3. احسان

اگر ہم ان تینوں کی حقیقت کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہوگا کہ ایمان بن دیکھے قول رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سچا ماننے کا نام ہے۔ ۔ ۔ اسلام اعمال و کردار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عنوان ہے۔ گویا دین اسلام ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلوؤں کا نام ہے۔ ۔ ۔ احسان دین اسلام کا وہ معیار کمال ہے جو بندگی کی حقیقی معراج ہے جس کے متعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اَن تَعْبُدَ اللّٰه کَاَنَّکَ تَرَاه.

’’ اللہ کی بندگی یوں کی جائے کہ بندہ اللہ کے دیدار میں گم ہو‘‘۔

اسی احسان کا دوسرا نام تصوف و روحانیت ہے۔ تصوف اور روحانیت کی تعریف اگر صوفیاء سے پوچھی جائے تو ان کے نزدیک تصوف حسن اخلاق کا نام ہے۔ سیدنا علی بن عثمان الہجویری رحمۃ اللہ علیہ کشف المحجوب میں تصوف کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’تصوف حسن اخلاق کا نام ہے‘‘۔ اگر تصوف حسن اخلاق کا نام ہے تو اخلاق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج تصوف و احسان ہے کیونکہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍO

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)o‘‘

(الْقَلَم، 68 : 4)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری کے بعد صوفیاء نے نہ صرف اپنے اخلاق کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق سے روشن کیا بلکہ اسی نور سے زمانے کو بھی منور کیا۔ فاتحین کی فتوحات نے اسلام کو اتنی جغرافیائی وسعت نہیں دی جتنی قلبی وسعت صوفیاء کے کردار نے اسلام کو عطا کی ہے۔ اسلام کی 14 سو سالہ تاریخ صوفیاء کے کردار سے بھری ہے۔

پچھلی دو صدیوں سے امت مسلمہ پر زوال کے سائے گہرے ہوتے چلے گئے اور اس ہمہ گیر زوال میں تمام شعبوں کی طرح تصوف اور روحانیت بھی زوال پذیر ہوگئے۔ مسلم معاشرے سے ایثار، قربانی، سخاوت اور تکریم انسانیت جیسی قدریں مٹتی چلی گئیں۔ تصوف اور روحانیت کے علمبردار (الا ماشاء اللہ) خود قابل اصلاح ہوگئے۔ علمِ تصوف بیان کرامات تک محدود ہوگیا۔ ۔ ۔ جبکہ عملی تصوف تقویٰ، رضاء اور اخلاق کے نور سے عاری ہوگیا۔ ۔ ۔ عملیات، تعویذ، شعبدہ بازی اور جادو ٹونے کے اعمال نے تصوف کی جگہ لے لی۔ ۔ ۔ علم و نور کے مراکز جاہلانہ رسومات کی آماجگاہ بن گئے۔ ۔ ۔ عرسوں نے میلوں اور سرکسوں کی شکل اختیار کرلی۔ ۔ ۔ جبکہ خانقاہیں محلات میں بدلنے لگیں۔

جس دور میں جعلی پیروں کا کردار دیکھ کر کئی مذہبی طبقات نے تصوف کے وجود کا انکار کردیا تھا۔ اس دور میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے تصوف کے علمی و عملی احیاء کا بیڑہ اٹھایا اور اصلاح احوال امت کے لئے تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی، جب دین پر عمل خود ایک مسئلہ بن چکا ہے تحریک منہاج القرآن نے شیخ الاسلام کی سرپرستی میں محض 27 سال کے عرصہ میں تصوف کے علمی اور عملی احیاء میں وہ خدمات سرانجام دیں جنہوں نے تصوف کو موجودہ سائنسی دور میں بھی ایک زندہ حقیقت ثابت کردیا۔

شیخ الاسلام نے تصوف کے علمی اور عملی دونوں پہلوؤں کے احیاء کے لئے جدوجہد کا آغاز فرمایا۔ شادمان سے دروس تصوف کا آغاز فرمایا اور پھر سالہا سال تک تصوف کے مختلف پہلوؤں پر سینکڑوں دروس دے کر تصوف کی علمی حیثیت کو ایسا واضح کیا کہ منکرین تصوف کو اپنا موقف بدلنا پڑا۔ اس کے ساتھ ساتھ تصوف کی عملی اقدار کی بحالی کے لئے منہاج العمل، شب بیداریوں، محافل ذکر، تربیتی کیمپوں، دروس قرآن، روحانی اجتماعات، مسنون اجتماعی اعتکاف، گوشہ درود اور دیگرمظبوط ذرائع سے بالخصوص کارکنان تحریک اور بالعموم امت مسلمہ کے اجتماعی اصلاح احوال کے عمل کو آگے بڑھایا۔

تحریک منہاج القرآن کی تصوف کے احیاء کے سلسلہ میں خدمات کو ہم مختلف حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

1۔ اصلاح احوال امت کی عوامی جدوجہد

عوامی سطح پر افرادِ معاشرہ میں نیکی ایمان، حیاء اور اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کے لئے تحریک منہاج القرآن نے ابتداء میں تحریک کے مرکز پر ماہانہ شب بیداری کا آغاز کیا اور پھر دنیا بھر میں اپنی تنظیمات کے ذریعے ہر ہر تحصیل اور شہر میں محافل، شب بیداریوں، تربیتی نشستوں اور دروس قرآن کا جال بچھا دیا۔ ان شب بیداریوں میں بندگان خدا کا اللہ کی ذات سے تعلق مضبوط کیا اور توبہ و استغفار اور گریہ و زاری کے ذریعے ان کے ظاہر و باطن کو پاکیزہ کرنے کی جدوجہد کی۔

اس جدوجہد کے ساتھ ساتھ تحریک منہاج القرآن کے رفقاء دنیا بھر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اخلاقی و روحانی خطابات کو ویڈیو پروگرام کی شکل دے کر افراد معاشرہ کو علم و معرفت اور اخلاق حسنہ کی دولت سے سرفراز کررہے ہیں اور اب خصوصاً QTV کی شکل میں دنیا بھر میں شیخ الاسلام کے خطابات نفرتیں مٹاکر دلوں میں محبتیں پیدا کررہے ہیں۔ ان دروس کے ذریعے دنیا بھر میں امت کے احوال و عقائد کی اصلاح کا کام تیزی سے جاری ہے۔

اصلاح احوال کی اس جدوجہد کے ساتھ ساتھ ایک اور امتیاز جوکہ تحریک منہاج القرآن کو حاصل ہے وہ اس کا عوامی سطح پر لیلۃ القدر کے موقع پر عالمی روحانی اجتماع ہے۔ ملک بھر سے لاکھوں افراد اکٹھے ہوکر جب عشاء سے فجر تک گریہ و زاری کے ساتھ اپنی بخشش کے لئے مولیٰ کو پکارتے ہیں تو لوگوں کو رحمت اترتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جب لاکھوں افراد برستی آنکھوں سے اپنے مولا سے فریاد کررہے ہوتے ہیں تو اس لمحے اس سارے منظر اور ماحول پر اسلاف اور مشاہیر کے انداز و طرزِ تربیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔ اس عالمی روحانی اجتماع میں بیس سال سے لاکھوں افراد گناہوں سے توبہ کرکے اپنی زندگیوں کو بدل چکے ہیں۔ اب اس اجتماع کا عالم یہ ہے کہ صرف ملک بھر میں چند لاکھ افراد ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں کروڑوں افراد اس خطاب کو QTV اور دوسرے چینلز پر براہ راست سنتے ہیں اور رقت آمیز دعا میں شریک ہوکر مغفرت کے آنسوؤں سے اپنے دامن کو تر کرتے ہیں۔

یہ واضح رہے کہ یہ ساری جدوجہد صرف ملک پاکستان کی ہر ہر تحصیل اور یونین کونسل میں ہی جاری نہیں بلکہ پوری دنیا میں تربیتی کیمپوں اور شب بیداریوں کے ذریعے امت مسلمہ کی نئی نسل کو سوئے حرم روانہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کردار عمل کو اسوہ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے روشن کیا جارہا ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے جاری برطانیہ (لندن) میں سالانہ سہ روزہ الہدایہ کیمپ دیار کفر میں امت کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد سحر ہے۔ ان کیمپوں میں دنیا بھر کے نوجوانوں کی علمی و فکری اور اخلاقی و روحانی تربیت کی جاتی ہے۔

2۔ تصوف کے علمی احیاء کے سلسلہ میں خدمات

اس بھرپور عوامی جدوجہد کے ساتھ ساتھ علمی و فکری میدان میں بھی تحریک منہاج القرآن نے تجدیدی خدمات سرانجام دی ہیں۔ جس دور میں تصوف کے وجود ہی کا انکار ہوچکا تھا اس دور میں اسلام کے اس عظیم نظام تربیت کا علمی و فکری دفاع کیا اس کے ساتھ ساتھ شیخ الاسلام نے تصوف اور روحانیت کے موضوع پر 35 سے زائد کتب تحریر کرکے تصوف اور روحانیت کی تجدید و احیاء کے سلسلہ میں ایسا عظیم باب رقم کیا جس کی مثال ماضی قریب میں کہیں نظر نہیں آتی۔

تحریک منہاج القرآن کے نظام تربیت کا دوسرا گوشہ وابستگان رفقاء اور عہدیداران کی خصوصی تربیت کے لئے سالانہ مسنون اجتماعی اعتکاف ہے۔ گذشتہ 17 سالوں سے تحریک منہاج القرآن کے مرکز پر حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی اعتکاف 10 روزہ ایسا تربیتی کیمپ ہوتا ہے جس کی مثال کہیں بھی میسر نہیں آتی۔ ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں وابستگان تحریک 10 دنوں کے لئے ذکر الہٰی کی لذتیں اور شیخ الاسلام کی صحبت سے فیض لینے کے لئے ان کے ہمراہ اعتکاف کرتے ہیں۔ ان دس دنوں میں 24 گھنٹے عبادت، بندگی، قیام اللیل، روزہ، نوافل، تلاوت قرآن اور اوراد و وظائف کے ذریعے قلب و روح کو پاکیزگی اور کردار و عمل کو طہارت دی جاتی ہے۔ یہ اسی تربیت کا ثمر ہے کہ آج ہر ایک تحریک منہاج القرآن کے کارکن کے صبر و برداشت، تحمل اور خوش اخلاقی کا معترف ہے۔

تحریک منہاج القرآن کے نظام تربیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ شیخ الاسلام نے جہاں عوام الناس اور کارکنوں کی عملی تربیت کا اہتمام کیا ہے وہاں انہی تربیت یافتہ افراد کی ایک جماعت بھی تیار کی ہے۔ آپ نے امت مسلمہ کو اعلیٰ اخلاقی و روحانی کردار کی حامل جماعت دینے کے لئے منہاج القرآن یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ اس عظیم درسگاہ سے تقریباً 1000 طلبہ علمی و عملی تربیت لیکر پوری دنیا میں اصلاح احوال کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ یہ شیخ الاسلام کی تربیت کا اثر ہے کہ ان کی تیار کردہ جماعت ’’منہاجینز‘‘ مادیت کے اس دور میں رضائے الہٰی کی خاطر تبلیغ دین کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کی خوبصورت مثال مرکزی نظامت دعوت کے ملک بھر میں جاری دروسِ عرفان القرآن ہیں۔

تحریک منہاج القرآن کے نظام تربیت کا سب سے خوبصورت پہلو بانی تحریک شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ذاتی کردار و عمل ہے۔ کسی نے سوال کیا کہ 23 سال کی مختصر مدت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیسے دنیا کو انسانیت کے اعلیٰ ترین معاشرے میں بدل دیا۔ جواب دیا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف فکر اور فلسفہ نہیں دیا بلکہ اپنے کردار و عمل سے نمونہ بھی فراہم کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے تبلیغ سے بڑھ کر اپنے کردار و عمل کا نمونہ پیش کیا۔ آپ کی کرامات سے پتھروں سے چشمے نہیں نکلے لیکن خشک آنکھوں سے اللہ کی خشیت کے آنسو ضرور نکلے ہیں۔ آپ کی کرامتوں سے مردے تو زندہ نہیں ہوئے لیکن دنیا بھر میں لاکھوں مردہ دل حیات آشنا ہوچکے ہیں۔ سالانہ روحانی اجتماع کے موقع پر آپ کی رقت آمیز دعاؤں سے لاکھوں لوگ گندگی اور گناہ کی دلدل سے نکل کر ایمان کی راہ پر آ چکے ہیں۔ شیخ بیعت نہیں فرماتے مگر 20, 25 ہزار افراد کو اپنے ہمراہ اعتکاف میں جملہ تربیتی عمل سے گزارتے ہیں۔

یہ عظیم 27 سالہ تربیتی جدوجہد کا ہی ثمر ہے کہ دنیا بھر میں 80 سے زائد ممالک میں اس تنظیم کا نیٹ ورک رکھنے، ملک بھر میں ہر ہر تحصیل اور یونین کونسل سطح پر انتظامی ڈھانچہ قائم ہونے اور دنیا بھر میں لاکھوں وابستگان رکھنے کے ساتھ ساتھ دنیا کی سب سے پرامن اور موثر جماعت کی حیثیت رکھتی ہے۔