نذرانۂ عقیدت بحضور قائدِ انقلاب

ظلم اور جہل کے تیرہ ماحول میں علم کی روشنی طاہر القادری
بے گمان بالیقیں، رہبر و راہنما، مردِ کامل ولی طاہر القادری

دانش عہدِ موجود و حاضر وہی، داعئی دینِ پاکِ پیمبر (ص) وہی
دینِ مصطفوی (ص) کی ہے ہر حال میں کر رہا چاکری طاہر القادری

اس کا منہاج منہاجِ قرآن ہے اس پہ گنبدِ اخضر کا فیضان ہے
سبز گنبد کی جانب کرے رہبری دیکھئے آج بھی طاہر القادری

اس کی آواز ہی روح کا ساز ہے، ملتِ غم زدہ کا وہ دمساز ہے
چارہ سازی کا ساماں کرے ہے بہم ہر نفس ہر گھڑی طاہر القادری

ہے نویدِ سحر شب زدوں کے لئے مژدہ امید کا بے دلوں کے لیے
بخش دے اہلِ قلب و نظر کو سدا تازگی، سر خوشی طاہر القادری

حق نگر حق نما ہے شناور وہی بحرِ عرفان کا علم و ایقان کا
شرق تا غرب ملت کی ہے چاہتا ہر قدم بہتری طاہر القادری

دے رہا ہے اذاں اب بھی نیر وہی عزم بالجزم سے، سوز و انداز سے
تنِ مردہ میں ملّت کے ہے پھونکتا اک نئی زندگی طاہر القادری

(ضیاء نیر)

سلامِ محبت بحضور شیخ الاسلام

واعظِ شیریں بیاں اور عارفِ ربِّ جلیل
عصرِ حاضر کے مفکر، خیرِ امت کے وکیل

منفرد عالمِ، مفسِّر، نامور سیرت نگار
رحمتِ عالم محمد مصطفی (ص) پر جانثار

عالم اسلام کے اس دور میں بطلِ جلیل
باجمال ہے آپ کی سیرت تو صورت ہے جمیل

خوش کلام و خوش لسان و خوش مزاج و خوش خصال
ماہرِ تعلیم، فاضل اور مردِ باکمال

رہبرِ علمِ شریعت پیشوا اور دستگیر
وارثِ دینِ محمد (ص) شیخِ کامل بے نظیر

کردیا میرے خدا نے سر بلند انِ کا مقام
ہے دعا میری کہ مولا بخش دے ان کو دوام

ساری امت کے لئے فیضان ان کا عام کر
پرچموں میں سب سے اونچا پرچمِ اسلام کر

اور پیدا کر ہمارے واسطے آسانیاں
مومنوں نے دیں بہت اس دور میں قربانیاں

خوش رہے طاہر تیرا اور خوش رہیں ان کے رفیق
التجا کرتا ہے کر منظور یہ تیرا شفیق

( شفیق الرحمن شفیق۔ گوجر خان)

قابل صد ستائش ہے قائد مِرا

بزم اُلفت میں لایا حسیں تازگی
طاہرالقادری، طاہرالقادری

جس کے سینے میں قرآن کا نور ہے
وہ جو عشق محمد (ص) سے بھرپور ہے

ظلمتوں کے کٹھن سے کٹھن دور میں
داعی دینِ حق وہ بدستور ہے

پیکرِ عزم و ہمت ہے جو ہر گھڑی
طاہرالقادری، طاہرالقادری

علم و حکمت کے گوہر لٹاتا ہوا
مثلِ شمس و قمر جگمگاتا ہوا

بانٹتا ہے محبت کے گل، پھول وہ
دہر سے نفرتوں کو مٹاتا ہوا

دل کی تیرہ شبی کو جو دے روشنی
طاہرالقادری، طاہرالقادری

وہ جو دیتا ہے منہاج قرآن کا
خالقِ بزمِ عالم پہ ایمان کا

راستہ جو دکھاتا ہے انسان کو
شاہِ ختم رسولاں کی پہچان کا

گلشن مصطفی (ص) کی مہکتی کلی
طاہرالقادری، طاہرالقادری

چلتا پھرتا محبت کا پیغام وہ
رب کعبہ کا ہم پہ ہے انعام وہ

عشقِ محبوبِ (ص) حق کی عنایات سے
دانشِ عصر وہ، شیخ الاسلام وہ

قابلِ رشک جس کی ہوئی زندگی
طاہرالقادری، طاہرالقادری

قابلِ صدستائش ہوا فروری
جس میں ہے میرے قائد کی جلوہ گری

دل کی گہرائیوں سے مبارک اسے
جس کے حسنِ سخن میں ہے جادو گری

ہم نے دل سے ہے مانا جسے صابری
طاہرالقادری، طاہرالقادری

(محمد علی صابری)

خراج عقیدت بحضور شیخ الاسلام

یہ کوئی واہمہ ہے نہ ابہام ہے
اک حقیقت با اندازِ الہام ہے
لوحِ تقدیر پر یہ لکھا نام ہے
طاہرالقادری شیخ الاسلام ہے

ہے یہ عشقِ رسالت (ص) کی جلوہ گری
رونقِ دین پھر ان کے دم سے بڑھی
دستگیری پہ عاشق ہے دست شہی
خود ہی طالب بمطلوبِ اِکرام ہے

ہے جو احساس میں معرفت کی نمی
شاخِ امید پر ہے مہکتی کلی
ختم ہوجائے گی اب یہ تشنہ لبی
ہاتھ میں ان کے وحدت بھرا جام ہے

پھر سے بخشا ہے جس نے یہ رجحانِ دیں
وہ ادارۂ منہاج ہے بالیقیں
جس کا کوئی بدل کوئی ثانی نہیں
جس کا منشور و دستور اسلام ہے

دین اسلام کی شمعیں روشن ہوئیں
جابجا کُوبکُو درسگاہیں کھلیں
اتحاد اور ایماں کی کڑیاں ملیں
صورتِ حال برمنظرِ عام ہے

لب پہ تکبیر ہاتھوں میں قرآن ہے
بچہ بچہ نبی (ص) کا ثنا خوان ہے
طاعتِ دیں ہی مومن کی پہچان ہے
جس پہ قربان شاہینِ ہنگام ہے

’’سیرت النبوی‘‘ ہو کہ ’’منہاج السوی‘‘
ہے جو ’’عرفانِ قرآں‘‘ کی یہ سعی
چار سو سے زیادہ تصانیف بھی
مستند طرزِ تفہیم و افہام ہے

ان کی عظمت پہ اقبال کیا میں لکھوں
ساتھ دیتا نہیں میرا حال زبوں
اس بلاغت سے انصاف کیسے کروں
میری اوقات سے یہ بڑا کام ہے

(محمد اقبال ملتانی۔ کویت)

سلام عقیدت بحضور شیخ الاسلام

(نیاز احمد قادری۔ خوشاب)

باوضو باادب میں تیرا نام لکھوں
عقیدتوں کا تیرے نام سلام لکھوں

کہتے ہیں کیا ہر خاص و عام لکھوں
ہے نازش اہل دانش تیرا نام لکھوں

عالمِ باعمل ہیں عالی مقام لکھوں
عصرِ حاضر کا مجدّد اور امام لکھوں

تیری اِک اِک بات ہے انقلاب آفریں
تیرا ہر ایک عمل ہے نقشِ دوام لکھوں

میرا وجداں تجھے فنا فی الرسول کہے
بے خطر تجھے عاشقِ خیرالانام لکھوں

نکتہ ور، نکتہ داں، نکتہ سنج، نکتہ شناس
منطق و فلسفہ کا تجھے میں امام لکھوں

حقِ نگاہ، حق آگاہ اے رہروِ حق راہ
پیغام حق ہے تیرا ہر صبح و شام لکھوں

گفتار میں، کردار میں، افکار میں، اطوار میں
تیرے کس وصف میں کوئی کلام لکھوں

اپنے کیا اغیار بھی ہیں مدح خواں ترے
کہاں اور کس جگہ تیرا احترام لکھوں

تو امنِ عالم کا داعی اور محبتوں کا سفیر
چرخِ علم و عرفاں کا تجھے ماہِ تمام لکھوں

مانتے ہیں نیاز عرب اہلِ زباں
ایک میں ہی کہاں شیخ الاسلام لکھوں