ایٹمی پاکستان میں تلخیوں کا موسم

ڈاکٹر علی اکبر قادری

وطنِ عزیز اس وقت اپنی 60 سالہ تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایسے نازک موڑ اور آزمائش کے لمحات ہر قوم کی زندگی میں آتے ہیں اور زندہ قومیں ایسی مشکلات و مصائب کی بھٹی سے کندن بن کر نکلتی ہیں۔ لیکن یہاں ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ پاکستانی قوم اس وقت بے امام ہوچکی ہے۔ اس کے پاس کوئی باکردار زیرک اور وسیع النظر سیاسی قیادت نہیں جو پوری قوم کو یکجا اور متحد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ جو لوگ اس وقت حکومت پر قابض ہیں انہیں قوم کی اکثریت ناپسند کرتی ہے اور جنہیں قوم کی جزوی تائید حاصل ہے وہ حصول اقتدار کے لئے سیاسی بازی گری کے مظاہروں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ الیکشن 2008ء کی آمد آمد ہے لیکن ملک کی سیاسی فضاؤں میں کسی قسم کا ارتعاش نظر نہیں آرہا۔ عوام رابطہ مہم محترمہ بے نظیر بھٹو کے افسوس ناک قتل کے ساتھ ہی جیسے رک سی گئی ہے اور ملک کا گلی کوچہ ابھی تک عملاً انہی کا سوگ منا رہا ہے۔ کراچی سے خیبر اور کوئٹہ سے سوات تک جس طرح پورا ملک شدید سردی کی لپیٹ میں ہے اسی طرح دہشت گردی کا جن بھی اپنی پوری وحشت ناکیوں کے ساتھ پھنکار رہا ہے۔ مہنگائی کو دیکھیں تو وہ اپنی خطرناک انتہا ؤں کو چھو رہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان جیسے زرعی ملک میں پہلی مرتبہ آٹے کا شدید بحران ہے۔ ان تینوں پریشانیوں کو بھی قوم خاطر میں نہ لاتی اگر اسے ملکی سرحدیں محفوظ نظر آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ سردی، بھوک اور اندھیروں سے سہمی ہوئی قوم ایٹمی پاکستان کی سلامتی کے لئے سب سے زیادہ متفکر ہورہی ہے۔

بدقسمتی سے اس افلاس زدہ قوم کو اپنی جان و مال کی اتنی پرواہ نہیں کیونکہ وہ بار بار لٹنے کی عادی ہوچکی ہے لیکن اب کی بار اسے جنونی دہشت گردوں کی ’’مہربانیوں‘‘ کے ساتھ ساتھ عالمی دہشت گردوں کے عزائم کا بھی احساس ہوچکا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے اسے فلسطین، عراق افغانستان لبنان اور کشمیر میں غیر ملکی مسلح فورسز سے نبرد آزما مسلمانوں کی مشکلات کا قریبی مشاہدہ ہوچکا ہے۔ ریاستی دہشت گردی کے خطرے سے اگرچہ ہمارا پڑوسی ملک ایران بھی اسی طرح دوچار ہے مگر وہاں ہماری طرح قومی انتشار نہیں۔ ایران کی عوام اور قیادت کے درمیان اعتماد اور ہمدری کا رشتہ بے حد مضبوط ہے۔ ایرانی صدر نے اپنی ذات کو قوم کی بے لوث خدمت کے لیے وقف کر رکھا ہے تو اس کی قوم بھی اس کے ساتھ جذباتی وابستگی میں تاریخی کردار ادا کر رہی ہے۔ اس کے برعکس ہماری موجودہ قیادت اپنے اقتدار طلب اقدامات کے طفیل قوم کے لیے جملہ بحرانوں کا سبب ثابت ہوئی ہے اور صدر محترم ایوان اقتدار میں خود کو تنہا محسوس کر رہے ہیں۔ ان کی فکر کا تراشیدہ الیکشن شیڈول، آئندہ حکومتی ڈھانچہ اور ملکی و عالمی تیور اب ان کی توقعات سے قطعاً مختلف ہوچکے ہیں۔ پی پی سے ڈیل کی منڈھے چڑھتی بیل محترمہ کی المناک موت کے حادثے نے نہ صرف کاٹ دی ہے بلکہ حالات نے صدر محترم اور ان کے سرکردہ حواریوں کو تحقیقات کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ کئی سیاسی اتحاد خطروں میں ہیں اور کئی قوتیں اتحادِ نو کے دائروں میں منظم ہو رہی ہیں۔ نئی عسکری قیادت جو ان تمام حالات و واقعات کو بنظر غائر دیکھ رہی ہے اس نے اپنے ابتدائی اقدامات کے ذریعے نہایت خوش آئند فیصلے کیے ہیں خصوصاً افواج پاکستان کو سیاسی اکھاڑے سے دور رکھنے کا فیصلہ بروقت بھی ہے اور بہترین بھی۔ ورنہ صدر صاحب نے تو قوم اور فوج کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور یہ لڑائی بدقسمتی سے شمالی علاقوں میں باقاعدہ جاری ہے جو ہماری ملکی تاریخ کا افسوسناک ترین اور خطرناک ترین باب ہے۔ اس خانہ جنگی سے نجات کا راستہ ہی پاکستان کی حفاظت اور بقاء کا راستہ ہے۔ اللہ کرے قوم کو امن کا یہ راستہ تلاش کرنے میں مزید وقت ضائع نہ کرنا پڑے۔

ہوس پرست رویوں کے سبب مسلمانوں کو ہمیشہ اپنے ہی حکمرانوں سے نقصان اٹھانا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے مشاورت کو آمریت پر ترجیح دی ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت سوائے چند ممالک کے اکثر اسلامی ممالک میں آمریت ہی حکمرانی کررہی ہے اور یہی آمریت عالمی استعمار کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ پورے عرب ممالک میں یہی نظام قائم ہے کیونکہ شخصی حکومتوں سے استعماری قوتیں اپنے مطالبات آسانی سے منوالیتی ہیں۔ اس وقت ایران اور ملائشیا میں کامیاب جمہوری نظام حکومت قائم ہے لیکن امریکہ نے ہر دو جگہوں پر براہ راست مداخلت کی کوششیں کبھی ترک نہیں کیں۔ پاکستان نیم جمہوری اسلامی ممالک میں واحد ایٹمی قوت ہے جس کے عوام سختیاں جھیل جھیل کر اب اچھے خاصے ہوشیار ہوچکے ہیں۔ اب یہاں حقیقی جمہوریت کے علاوہ کوئی فوجی حکومت شاید ہی آسانی سے قائم ہوسکے۔ امریکہ اور یورپی یونین کو پاکستانی عوام کے اس فیصلہ کن موڈ کا اندازہ ہورہا ہے اسی لئے وہ اخباری بیانات کی حد تک جمہوریت بحال کرنے اور شفاف الیکشن کروانے کے لئے صدر مشرف پر زور دے رہے ہیں لیکن اندر سے انہیں بھی اس عوامی بیداری اور امریکہ سے بیزاری کا احساس ہے۔ اس لئے وہ آج کل مشرف کا متبادل تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ جنرل کیانی نے اب تک جو اقدامات کئے ان سے امریکی امیدوں پر بھی پانی پھرا ہے اور مشرف کی مایوسیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ لہذا امید کی جانی چاہئے کہ پاکستان آرمی اب حکومت اور سیاست کا پیچھا چھوڑ کر اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں تک ہی محدود رہے گی، بصورت دیگر اس کے خلاف عوامی بغاوت کا ماحول زور پکڑسکتا ہے۔ امریکہ میں صدارتی امیدواروں، کانگرنس کے بعض اراکین اور بیشتر تھنک ٹینک کی طرف سے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہاتھوں میں جانے کے خدشات کا واویلا اور القاعدہ کی سرگرمیاں ختم کرنے کے لئے پاکستانی سرحدوں کے اندر آ کر فوجی کاروائیاں کرنے کی خواہشات آج کی نہیں اس پر انہوں نے ایک عرصہ سے کام شروع کررکھا ہے۔ عالمی سامراج کو موجودہ اسلامی ممالک میں سے سعودی عرب، ایران اور پاکستان کے ساتھ زیادہ ’’ہمدردیاں‘‘ پیدا ہوچکی ہیں اور ان تینوں ممالک پر ان کی توجہات بہت زیادہ مشفقانہ ہیں۔ ان کے ماہرین نے جس نئے ’’عالم اسلام‘‘ کا نقشہ پیش کیا ہے اس میں بھی مرکزی توجہ انہی تین ممالک پر مرتکز کی گئی ہے اور تینوں کی موجودہ سرحدیں تبدیل کرکے انہیں مزید چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کا پلان تیار کیا گیا ہے۔نسلی اور مذہبی بنیادوں پر اس تقسیم سے خطے کو مزید کمزور کرنا مقصود ہے جس کی راہ میں ایران اور پاکستان کی طرف سے متوقع فوجی مزاحمت حائل ہے۔ خصوصی طور پر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت تو پورے عالم کفر کو کاٹنے کی طرح کھٹکتی ہے۔ لہذا ان کا میڈیا، ان کے سیاستدان اور ان کے دانشور اس ایک نقطے پر متفق نظر آتے ہیں کہ پاکستان کی محافظ ایٹمی قوت کسی طرح اس سے چھین لی جائے لیکن ہم اللہ پاک کی رحمت اور اس کے فضل سے مایوس نہیں۔ جس ذات نے ہمیں ایٹمی قوت بننے کے ذرائع اور وسائل فراہم کئے وہ اس منتشر اور بے جہت قوم کو متحد اور یکسو بھی کردے گی۔ ’’کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی‘‘ امریکہ اور اس کے ہمنوا یہود و ہنود یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ پاکستان عراق اور افغانستان سے خاصا مختلف ہے۔ اس کی چھ لاکھ فوج جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے۔ قوم نے پیٹ پر پتھر باندھ کر اگر ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے تو اس لئے نہیں کہ انہیں صرف سنبھال کر ہی رکھنا ہے بلکہ قومی سلامتی پر جب بھی خطرات منڈلائیں گے، دشمن کو منہ کی کھانا پڑے گی۔ پاکستانی قوم زیرک اور جرات مند قیادت سے بھی محروم نہیں فرق صرف پہچان اور عملی اقدامات کا ہے انشاء اللہ وقت آنے پر یہ قیادت بھی ابھر کر خودبخود سامنے آجائے گی۔ بشرطیکہ اچھے برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔

جہاں تک آٹے اور اشیائے خوردنی کی موجودہ ریکارڈ توڑ اور انسان کش ارزانی کے سیلاب کا تعلق ہے یہ حیران کن بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ اس لئے کہ گذشتہ کئی سالوں سے گندم کی پیداوار ملکی ضرورتوں سے بھی بڑھ کر ہوتی رہی ہے۔ گذشتہ حکومت جب خالی خزانے بھر دینے کی خوشخبریاں سنایا کرتی تھی اور اس کے درآمد شدہ وزیراعظم جناب شوکت عزیز بڑے پراعتماد لب و لہجے میں قوم کو خوشحالی کی شاہراہ پر دوڑتا ہوا دکھاتے تھے تو کئی بار انہوں نے معاشی خود کفالت کے نعرے لگائے۔ یہ بھی فرمایا کہ اب ہم گندم درآمد نہیں بلکہ برآمد کرنے لگے ہیں۔ اس دعوے کو سچا ثابت کرنے کے لئے انہوں نے گذشتہ سال 4 لاکھ ٹن گندم برآمد بھی کی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس برآمدی قیمت سے کہیں زیادہ قیمت میں اب حکومت نے 10لاکھ ٹن گندم درآمد کی ہے۔ ماہرین خوراک کے مطابق پاکستان کو ہر سال ملکی ضرورتوں کے لیے اکیس ملین ٹن گندم کافی ہوتی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مشرف انتظامیہ کی طرف سے گذشتہ سالوں میں کسانوں کو 300 روپے کی بجائے 425 روپے فی چالیس کلوگرام قیمت ادا کی گئی جس کی وجہ سے کسانوں نے دل لگا کر محنت کی اور پاکستان اس میدان میں خود کفالت کی منزل کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ لیکن اب نتائج اس کے برعکس نکل رہے ہیں۔ یا تو یہ حکومتی دعوے اور اعداد و شمار جھوٹ پر مبنی تھے یا پھر اس کافی پیداوار کو بے دریغ سمگل کیا گیا اور تیسری صورت یہ ہے کہ بااختیار سرمایہ داروں نے گندم مارکیٹ سے خرید کر قوم کو دانے دانے کا محتاج کردیا ہے اور وہ بھوکے پیاسے غریب لوگوں سے منہ مانگے دام وصول کر کے اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ ان تینوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت ہو غلطی اور نااہلی حکومت کی ہے۔ افسوسناک چیز تو یہ ہے کہ آٹے کا بحران بعض علاقوں میں اب بھی جاری ہے، غریب لوگ جو سادہ روٹی سے ہی پیٹ بھرتے تھے اب اس روٹی کا لقمہ بھی ان کی پہنچ سے دور ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں قومی توانائی کے ادارے بھی مفلوج ہو رہے ہیں، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بھی دن بہ دن بڑھ رہی ہیں اور اس کی مطلوبہ مقدار بھی میسر نہیں۔ نئے آبے ذخائر کی تعمیر سیاسی مصلحتوں کے باعث گذشتہ 20 سال سے رکی ہوئی ہے اور پرانے ذخائر میں پانی کی سطح بھی کم ہو رہی ہے یہ وہ بنیادی اسباب ہیں جن کی وجہ سے برقی توانائی کا بحران بھی عروج پر ہے اور اس بحران نے بازاروں اور کارخانوں کی چہل پہل بھی ختم کر کے رکھ دی ہے۔ پورے کاروباری ماحول پر پژمردگی چھائی ہوئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی رفتار روکنے کے لیے کوئی حکومتی اقدام کار گر نہیں ہورہا یا حکومت ہی ختم ہوچکی ہے۔ لوٹ مار اور کرپشن کا موجودہ ماحول بھی اسی غیر فطری معاشی تضاد کا نتیجہ ہے۔ حالات یونہی رہے تو خدشہ ہے کہ عوام زندگی سے تنگ آکر ان بالاتر طبقات سے ہاتھا پائی پر مجبور ہوجائے گی۔

57 واں یوم قائد مبارک

اس بار تحریک منہاج القرآن کے وابستگان اور کارکنان اپنے محبوب قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کا 57 واں یوم پیدائش منارہے ہیں۔ دنیا بھر کے مصطفوی کارکنان اس پرمسرت موقع پر خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ 19 فروری کا یوم قائد اس مرتبہ الیکشن 2008ء کے معاً بعد آرہا ہے اس وقت تک 18 فروری کے انتخابات کا نتیجہ خاصی حد تک آچکا ہوگا۔ جیسا کہ تحریکی دوستوں کے علم میں ہے ہم نے اس بار انتخابات کو جانبدارانہ حکومتی اقدامات اور نظام انتخاب میں خرابی بسیار کے باعث مسترد کردیا ہے۔ تحریک منہاج القرآن پاکستان کے محفوظ اور باعزت مستقبل کے لئے حقیقی جمہوریت اور صالح قیادت پر یقین رکھتی ہے۔ جمہوریت اس وقت تک حقیقی نہیں ہوسکتی جب تک انتخابات کے مہنگے اور کرپٹ نظام کو تبدیل نہیں کردیا جاتا۔ اسی طرح دولت، اسلحہ اور برادری ازم کے زور پر لڑے جانے والے الیکشن کبھی بھی ملک میں مثبت تبدیلیوں کا پیش خیمہ نہیں بن سکتے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اس ملک کا اصل مسئلہ صالح، باکردار اور بیدار مغز قومی قیادت کا فقدان ہے۔ اسی غلط اور کرپٹ نظام انتخابات کے سبب یہاں اگر کوئی مخلصانہ سیاسی کاوش کی بھی گئی تو لوگوں نے اس کی قدر کی اور نہ وڈیروں اور رسہ گیروں نے ایسے لوگوں کو آگے آنے دیا۔ پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے تحریک کے مخلص اور بے لوث کارکنان نے 13 سالہ سیاسی جدوجہد میں اپنے عظیم قائد کی زیرسرپرستی تبدیلی نظام کے لئے بھرپور کوشش کی لیکن معروضی حالات کی عدم موافقت کے سبب انہوں نے موجودہ انتخابی سیاست سے فی الحال علیحدگی اختیار کررکھی ہے۔

تاہم پاکستان چونکہ لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کا صلہ اور شہداء کی امانت ہے اس لئے اس کی تعمیر و ترقی اور اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت تحریک کے ہر چھوٹے بڑے کارکن کی اولین ذمہ داری ہے۔ چنانچہ فرقہ پرستی، دہشت گردی اور نفسا نفسی کے اس ماحول میں تحریک منہاج القرآن کے سپاہی ملک کے طول و عرض میں تعلیم، صحت اور بیداریٔ شعور کے پیغمبرانہ مشن پر کاربند ہیں۔ موجودہ عالمی دباؤ میں پرامن بقائے باہمی کے اصول پر کاربند تحریک منہاج القرآن اور اس سے وابستہ علماء، دانشور، داعیین، محققین اور مبلغین قرآن و حدیث کی حقیقی ترجمانی کررہے ہیں۔ اندرون اور بیرون ملک اس عظیم مصطفوی مشن سے وابستہ کارکنان اس مرتبہ اسلام اور پاکستان کی سربلندی کا عزم کرتے ہوئے اپنے قائد سے عہد تجدید کریں گے۔ یہ عزم اس احساس اور شعور کے ساتھ دہرایا جائے گا کہ اس وقت تحریک، اسلام کی حقیقی تعلیمات کو پھیلانے میں مصروف کار ہے اور اس کے بانی سرپرست، عالم اسلام کی باصلاحیت قیادت اور نجات دہندہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ خواتین و حضرات اور نوجوانان ملت کے لئے اس مرتبہ بھی قائد ملت اسلامیہ حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا یہی پیغام ہے۔

وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونیں منظر سے
اس دور میں جینا لازم ہے جس دور میں جینا مشکل ہو