احیائے امت کے عظیم داعی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

پروفیسر محمد اکرم مدنی

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ہمارے نبی پاک صاحب لولاک سیدالانبیاء والمرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دینِ انبیاء ’’اسلام‘‘ کے آخری داعی کی حیثیت سے اسلام کو احسن و اکمل صورت میں پیش کرکے ایسا غالب کردیا کہ اب قیامت تک باطل اس کے سامنے ٹھہر نہ سکے گا۔ دین اسلام کی تعلیمات کو ایسا آفاقی رنگ دے دیا کہ تا قیامت کسی نئے دین کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ قرآن پاک خالص کلام الہیٰ کی صورت میں انسانیت کی راہنمائی کے لئے حفاظت الہٰی میں ہمیشہ موجود رہے گا۔ حیات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایک لمحہ، جو حقیقت میں قرآن کی تفسیر ہے، کتب سیرو حدیث میں جگمگاتا رہے گا۔ کلامِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھول گلشنِ صحاح ستہ میں ہمیشہ مہکتے رہیں گے۔ اس لئے اب تا قیامت نئے دین کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ البتہ دین کو نیا کرنے اور اس میں تازہ روح پھونکنے کی ضرورت ہر صدی میں پیش آیا کرے گی۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا :

اِنَّ اللّٰهَ عَزّوجَلَّ يَبْعَثُ لِهٰذِهِ الْاُمَّةِ عَلٰی رَاْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُّجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا.

’’بے شک اللہ تعالیٰ اس امت کی خاطر ہر صدی کے آغاز پر کسی ایسی ہستی کو مبعوث کرے گا جو اس کے لئے دین کی تجدید کردے گی‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، 4 : 109)

اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ

  1. ہر صدی کے آغاز پر دین اسلام کو تازہ کرنے کا انتظام خود اللہ تعالیٰ فرمایا کریں گے۔
  2. لفظ راس بتاتا ہے کہ یہ انتظام ہر صدی کے اوائل میں ہوا کرے گا۔
  3. یہ تجدیدی کام امت مسلمہ کی تقویت اور بقا کی خاطر سرانجام دیا جائے گا۔
  4. یہ تجدیدی کام حقیقت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی اور دین اسلام کی عظمت کی خاطر ہوگا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی سرپرستی میں ہوگا۔
  5. مَنْ یُّجَدِّدُ کے الفاظ سے محدثین نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ ایک شخص بھی ہوسکتا ہے اور ایک گروہ بھی جو دین کی تجدید کرے گا۔

مجدّد کی ضرورت کیوں؟

ہر صدی کے آغاز پر ایک مجدد کی ضرورت کیوں پیش آجاتی ہے۔ ۔ ۔ ؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرہ مسلسل ارتقاء پذیر رہتا ہے اور یہ فطری عمل رک نہیں سکتا۔ یہ ارتقاء کثیرالجہتی ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ ایک جہت روبہ ترقی ہو اور دوسری روبہ تنزل۔ بہر صورت زمانے کے تقاضے بدل جاتے ہیں۔ اس لئے دین کو جدید قباء پہنانا پڑتی ہے چنانچہ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ ہر صدی میں ایسی نابغہ روزگار ہستیاں پیدا ہوئیں جنہوں نے اسلام کے روء حقانیت کو نکھارا۔ ان میں حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ احمد سرہندی فاروقی المعروف حضرت مجدد الف ثانی جیسی عظیم المرتبت ہستیاں شامل ہیں۔ ان کے تجدیدی کارناموں کا اعتراف آج تک کیا جاتا ہے۔

ہمہ جہتی بگاڑ۔ ۔ تدارک کا الوہی انتظام

چودہویں صدی ہجری (بیسویں صدی عیسوی) جہاں زبردست مادی اور سائنسی ترقی کی صدی ثابت ہوئی وہاں اس میں بگاڑ بھی بہت پیدا ہوا جس کے نمایاں پہلو درج ذیل ہیں :

  1. سائنسی ترقی نے عروج پاکر پڑھے لکھے لوگوں کو اتنا مرعوب کردیا کہ وہ سائنس کو مذہب پر فوقیت دینے لگے اور سائنسی تحقیقات کو اسلامی تعلیمات سے زیادہ معتبر سمجھنے لگے۔
  2. اس کے مقابلے میں مذہبی سکالرز جدید علوم سے بے بہرہ ہونے کہ وجہ سے سائنسی عجائبات اور انکشافات کو جھٹلانے لگے اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان سکالرز کو کنویں کا مینڈک قرار دینے لگا۔
  3. انگریزوں اور اسلامی ریاستوں کے نادان حکمرانوں کی منظم سازش کے ذریعے تعلق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کمزور یا ختم کرنے کی ناکام سعی کی جارہی ہے۔
  4. توحید کی آڑ لے کر انبیاء کرام اور اولیاء عظام کی تنقیص شروع ہے اس طرح حب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سینوں سے نکالنے یا کم کرنے کا شیطانی انتظام کیاگیا۔
  5. تعظیم مصطفیٰ، تعظیم انبیاء، تعظیم اولیاء اور تعظیم شعائراللہ کو شرک قرار دیا گیااور اسے توحید کے منافی سمجھا جانے لگا۔
  6. فروعی اختلافات کی بناء پر مسلمانوں کے بعض فرقے ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں، کوئی حبِّ صحابہ کا نعرہ بلند کرکے بغضِ اہلبیت کو ہوا دے رہا ہے۔ ۔ ۔ اور کوئی حبِّ اہل بیت کا نعرہ لگا کر بغضِ صحابہ کا مرتکب ہورہا ہے جس بناء پر تفرقہ بازی بڑھتی جارہی ہے۔
  7. صحیح العقیدہ علماء مطالعہ، دلائل اور کتب کو چھوڑ کر محض التزامی جوابات دینے لگے اور ان تمام امور کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام بالعموم اور نوجوان نسل بالخصوص دین سے گریزاں ہوگئی۔

ایسے حالات میں ضرورت تھی ایسی شخصیت کی جو حب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار ہو۔ ۔ ۔ دین کے مروجہ علوم کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی علوم سے بھی آراستہ ہو۔ ۔ ۔ حکمت، دانش، فہم و فراست اور حسن کردار سے مزین ہو۔ ۔ ۔ جو دین کے معاشرتی، معاشی، سماجی، سیاسی، تعلیمی، دعوتی اور تربیتی نظام پر مکمل دسترس رکھتی ہو۔ ۔ ۔ اور انہیں قابل عمل بناکر نافذ کرنے کی منصوبہ بندی اور مہارت رکھتی ہو۔ ۔ ۔ اور پندرھویں صدی ہجری اکیسویں صدی عیسوی کے لئے دین کی تجدید کا چیلنج قبول کرسکے۔

قدرت نے امت مسلمہ کے اس ہمہ جہتی بگاڑ کی اصلاح کے لئے شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو منتخب فرمایا جنہوں نے احیائے اسلام اور اقامت و تجدید دین پر مبنی اپنے عظیم مشن مصطفوی انقلاب کو برپا کرنے کے لئے 18 اکتوبر 1980ء کو تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی۔ ۔ ۔ اور ہمہ جہتی بگاڑ کی اصلاح کرتے ہوئے قائد انقلاب اور مجدد وقت بن کے ابھرے۔ ان کے تجدیدی اور انقلابی کارناموں کی ایک جھلک پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں جو کہ ایک دعا ہے اور شیخ الاسلام اس کے مدعا۔

نصیبِ خطہ ہو یارب وہ بندۂ درویش
کہ جس کے فقر میں انداز ہوں کلیمانہ!

1۔ عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم بردار

آپ نے تحریک منہاج القرآن کے اغراض و مقاصد کو انتہائی جامعیت کے ساتھ صرف ایک جملے میں یوں بیان فرمایا۔ ’’تحریک منہاج القرآن نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بحالی اور مضبوطی کی تحریک ہے‘‘ اور مجدد کا پہلا کام ہی مطلع رسالت سے تشکیک کے بادل اڑانا ہوتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ بالا حدیث کو اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے کہ

’’اللہ تعالیٰ ہر صدی کے آغاز پر لوگوں کے لئے ایک ایسی شخصیت کو بھیجتا ہے جو لوگوں کو سنت کی تعلیم دیتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹ کی نفی کرتی ہے‘‘۔

(المنہاج السوی حدیث نمبر 849 ص 674)

لہذا شیخ الاسلام نے پہلا کام ہی یہ کیا کہ اپنے تمام ابتدائی خطابات کا موضوع عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنایا اور اس پر ایسے مدلل، مسکّت اور روح پرور دلائل دیئے کہ اہل علم کو ششدر کردیا۔ آپ نے ملک کے طول و عرض میں ہزاروں میل کا سفر طے کرکے 5000 سے زائد خطابات ریکارڈ کروائے اور عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم پوری دنیا پر لہرا دیا۔ عظمت رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پھر سے اجاگر کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات، اختیارات، معجزات اور خصائص پر کتابوں کے انبار لگا دیئے۔ میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایسے روح پرور اور عظیم جشن منعقد کئے کہ پوری امت بیدار ہوگئی بلکہ یوں کہیے کہ مجدد وقت شیخ الاسلام نے ’’پریشان اور سرگرداں امت کو در مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹا دیا‘‘ اور یہی اصل انقلاب ہے۔

2۔ سائنسی علوم۔ ۔ قرآن و حدیث کے مرہون منت

آپ نے دینی مطالعہ کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کا بھی بہت وسیع مطالعہ کیا۔ جدید سائنس پر کتابیں لکھیں اور ثابت کیا کہ آج جو سائنسی تحقیقات ہوئی ہیں وہ سب قرآن و حدیث کی مرہون منت ہیں۔ وہ جدید سائنس سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ ان کا موقف یہ ہے کہ سائنس کی صرف وہی تحقیق صداقت پر مبنی ہے جن کی تصدیق قرآن و حدیث کردے اور وہ سائنسی انکشاف ابھی تشنہ تحقیق ہے جو قرآن و حدیث سے ٹکرا جائے۔ قرآن و حدیث کا سائنس کے لئے ایک نیا پیغام علم و عمل و جستجو ہے کہ آگے بڑھ تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

3۔ تعظیم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ۔ عین ایمان و توحید

شیخ الاسلام نے تعظیم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جسے بڑی شدومد سے شرک قرار دیا جارہا تھا عین ایمان قرار دیا۔ آپ نے ’’عقیدہ توحید اور حقیقت شرک‘‘ اور ’’کتاب التوحید‘‘ جیسی کتابیں لکھ کر یہ ثابت کیا کہ اہل اللہ اور شعائراللہ کی تعظیم توحید کے منافی نہیں بلکہ یہ عین توحید ہے اور ایمان کی شرط اولین ہے اور ایسی توحید جو تعظیم مقربین الہٰی سے خالی ہو ابلیسی توحید ہے۔

4۔ خدمت قرآن و حدیث

شیخ الاسلام قرآن پاک کا انتہائی خوبصورت تفسیرانہ ترجمہ ’’عرفان القرآن‘‘ کرکے تعلیم یافتہ طبقے کو قرآن کی دہلیزِ ہدایت پر سوالی بنا کر لے آئے ہیں۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقرہ کی ضخیم تفسیر امت کو دی اور بقیہ تفسیری کام زیر تکمیل ہے۔ ۔ ۔ تدوین حدیث میں نئے ترجمۃ الابواب، نئے انتخاب اور نئی ترتیب سے گروہ محدثین میں جلوہ افروز ہوئے ہیں تو امت کو ’’منہاج السوی‘‘ اور 25 ہزار حدیثوں کے مجموعے ’’جامع السنہ‘‘ (زیر طبع) جیسے گرانقدر تحفے دیئے ہیں جو موجودہ اور گذشتہ سات صدیوں میں ایک منفرد کارنامہ ہوگا۔ علاوہ ازیں دورہ صحیح بخاری و دورہ صحیح مسلم کی کئی کئی گھنٹوں پر محیط نشستوں میں حدیث اور فن حدیث کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے متعدد اشکالات کا ازالہ فرمایا اور ابہامات کو دور کیا۔

5۔ امت کا سرمایہ افتخار

آپ نے سینکڑوں کتب سپرد قلم کی ہیں۔ اس طرح آپ تصنیف و تالیف میں صحیح معنوں میں اپنے مشاہیر کے خلیفہ ثابت ہوئے ہیں اور اہل سنت کو اس پر بجا طور پر فخر ہے کہ شیخ الاسلام کی تمام تصانیف فن تحقیق، تخریج، تدوین، مواد اور پیشکش کے لحاظ سے بے مثال ہیں۔

6۔ اتحاد امت

آپ نے کمال حکمت عملی سے حبِّ اہل بیت، حبِّ صحابہ اور اہل بیت و صحابہ رضی اللہ عنہم کے آپس کے تعلقِ محبت و الفت پر تصانیف لکھ کر امت کے اندر جاری جنگ و جدل کی کیفیت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح انہوں نے ایک انقلاب یہاں بھی برپا کردیا ہے کہ امت کے بڑے بڑے گروہ ایک دوسرے کے قریب ہونا شروع ہوگئے ہیں اور اتحاد امت کا خواب انشاء اللہ جلد شرمندہ تعبیر ہوگا۔

7۔ ہمہ جہتی انقلاب

انقلاب کا لفظی مطلب ہی ’’پلٹنا‘‘ اور ’’حالت بدلنا‘‘ ہے۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ

خودی ہے مردِ خود آگاہ کا جمال و جلال
کہ یہ کتاب ہے، باقی تمام تفسیریں

آپ نے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی اس نصیحت و وصیت کو اپنایا اور تحریک کی ایسی عمدہ منصوبہ بندی کی کہ وہ ہر قسم کی سرکاری اور غیر سرکاری مدد کو ٹھکراتے ہوئے اپنے وسائل سے چلنے لگی۔ آپ نے تحریک منہاج القرآن کے ذریعے ایک کثیرالجہتی انقلاب برپا کیا ہے جس کے اہم پہلو مندرجہ ذیل ہیں۔

(i) فکری انقلاب

آپ نے اپنے تمام خطابات ریکارڈ کرواکے انہیں حیات جاوداں بخش دی۔ اس طرح آپ کا فکری انقلاب بذریعہ الیکٹرانک میڈیا پوری دنیا میں پھیل گیا۔ پوری تحریک انٹرنیٹ پر آگئی۔ ماہانہ مجلہ منہاج القرآن، العلماء اور دختران اسلام میں آپ کے خطابات شائع ہونے لگے اس طرح پرنٹ میڈیا بھی داعی انقلاب بن گیا۔ ۔ ۔ آپ نے محراب و منبر سے وہ کام لے لیا جو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو مطلوب تھا۔

گر صاحبِ ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب
دین بندۂ مومن کے لئے موت ہے یا خواب

(ii) اخلاقی و روحانی انقلاب

آپ نے آغاز سے ہی تحریک کے وابستگان کی اخلاقی اور روحانی تربیت شروع کی۔ ان کی زبانوں کو ذکر الہیٰ کی حلاوت سے آشنا کیا۔ ۔ ۔ ان کے دلوں کو خشیت الہیٰ سے لرزا دیا۔ ۔ ۔ اور انہیں اللہ اور اس کے رسول کی محبت سے گرما دیا۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے مومن کی فلاح کا یہی نسخہ تجویز کیا تھا۔

مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں اسے

آپ نے اپنے رفقاء و کارکنان اور وابستگان کو روحانیت کی دنیا کا مسافر بنادیا، صاحبانِ حال بناتے ہوئے روحانیت کا دور چلادیا۔ ۔ ۔ خود بھی آنسو بہائے اور دوسروں کو بھی یاد الہیٰ میں رونے والا بنایا۔ ان کا صرف ایک خطاب سن لینے سے ہی زندگیاں بدلتی دیکھیں۔

(iii) تنظیمی انقلاب

آپ نے پہلے پاکستان کے گوشے گوشے میں اپنی آواز پہنچائی، تحریک کو متعارف کروایا، تنظیم سازی کی اور پھر اس تنظیم کو تقریباً 80 ممالک تک پھیلایا اور ایسا عظیم تنظیمی نیٹ ورک قائم کیا جو آپ سے پہلے کسی کے حصے میں نہیں آیا۔

(iv) تعلیمی انقلاب

آپ سے پہلے دو قسم کے نظام تعلیم چل رہے تھے ایک خالص سیکولر تھا اسے دین کی خبر تک نہ تھی اور دوسرا خالص مذہبی تھا جو جدید سائنسی علوم سے آشنا نہ تھا۔ آپ نے دونوں نظاموں کو ملاکر ایسا نظام تعلیم و تربیت دیا جو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود اسلامی تھا۔ آپ نے منہاج القرآن یونیورسٹی کی صورت میں جو تعلیمی مرکز قائم کیا الحمدللہ وہ آج چارٹرڈ یونیورسٹی ہے اور اس کے گرد اسلامک سنٹرز، ماڈل سکولز اور کالجز کی کہکشاں ہے۔ اس طرح وہ ایک نئے نظام تعلیم کو وضع کرنے والے، اسے کامیابی سے چلانے والے اور اسے حکومت پاکستان سے منوانے والے ’’عظیم قائد انقلاب فی التعلیم‘‘ ثابت ہوئے۔

(v) فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ

آپ خود ایک عظیم ریسرچ سکالر ہیں۔ آپ نے جب اپنا پہلا تحقیقی مقالہ پیش کیا تھا تو مسٹر اے کے بروہی نے آپ سے کہا ’’بیٹے ہاورڈ (امریکی یونیورسٹی) چلے جاؤ تجھے دنیا مان جائے گی۔ اگر تم پاکستان میں رہے تو تجھے اپنا آپ منواتے ہوئے زندگی گزر جائے گی‘‘۔ تو آپ نے فرمایا ’’میں اپنے وطن عزیز میں ہی رہوں گا اور اسی کی خدمت کروں گا‘‘۔

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس میرا شعلہ بار ہوگا

پھر زمانے نے دیکھا کہ انہوں نے پاکستان میں رہ کر اپنے آپ کو پوری دنیا سے منوالیا اور دین میں تحقیق کو فروغ دینے کے لئے فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم کیا۔ جہاں کے ریسرچ سکالرز اہلسنت کا سرمایہ ہیں، جو اپنے عظیم قائد کی زیر نگرانی عالم اسلام کو علمی فکری تحقیقی اور روحانی لٹریچر فراہم کرنے میں تاریخ ساز کردار ادا کر رہے ہیں اور ایک بہترین لائبریری ان کے لئے وقف ہے۔

(vi) اجتماعی اعتکاف

آپ نے دین اسلام کے مزاج اجتماعیت کے پیش نظر ’’اجتماعی اعتکاف‘‘ کا آغاز کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اعتکاف بن گیا اور جس میں مندرجہ ذیل خصائص جمع ہوگئے :

  1. شیخ الاسلام کی صحبت و قربت
  2. شیخ الاسلام کے روحانی، علمی اور تحقیقی خطابات جو علم و دانش کے لئے آفتاب ثابت ہوں۔
  3. پیغمبر اسلام اور اسلام کے بارے میں تحقیقی لٹریچر کی دستیابی
  4. آنسوؤں کی آبشاریں 5۔ عالمگیر اجتماع
  5. تحریک منہاج القرآن کا فروغ 7۔ گوشہ درود
  6. تعلقات عامہ 9۔ انتہائی روح پرور محافل ذکر و نعت
  7. حضرت قدوۃ الاولیاء شیخ طاہر علاؤالدین گیلانی کی روحانی معیت

(vii) گوشہ درود

آپ کا سب سے عظیم اور منفرد کارنامہ ایسے گوشہ درود کا قیام ہے جو گوشہ لطف و سرور ہے۔ ارض وطن میں یہ عظیم منبع روحانیت ہے اور جنت کی ایک کیاری محسوس ہوتا ہے۔ کبھی موقع ملے تو اس گوشہ رحمت میں ضرور جائیے۔ آپ دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ جنتی لباس میں ملبوس۔ ۔ ۔ خوشبوؤں سے معطر۔ ۔ ۔ سراپا ادب و انکسار۔ ۔ ۔ کھڑے یا بیٹھے احباب محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گلہائے درود و سلام نچھاور کرتے ہونگے۔ ان ہی کا ایک ساتھی مخصوص نشست پر بیٹھا قرآن پاک کی تلاوت میں محو ہوگا۔ گہرا سکوت اور سنجیدگی چھائی ہوگی۔ ۔ ۔ دن ہو یا رات آپ کو ہر وقت یہی ملکوتی منظر دیکھنے کو ملے گا۔ ۔ ۔ اس طرح چوبیس گھنٹے یہاں قرآن پاک کی تلاوت اور درود پاک کے نغمے گونجتے رہتے ہیں۔ ۔ ۔ یہ خوش نصیب حضرات دس دن کے لئے اعتکاف کرتے ہیں۔ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات قیام و صلوۃ میں مصروف رہتے ہیں۔ ۔ ۔ ان معتکفین کی سحری، افطاری اور رہائش کے جملہ انتظامات و اخراجات مرکز کے ذمے ہیں۔ پھر اس گوشہ درود کے اردگرد ہزاروں حلقہ ہائے درود کی انجمن ہے جو پورے ملک بلکہ بیرون ملک میں پھیلی ہوئی ہے جو لاکھوں بار درود شریف پڑھ کر اس گوشہ درود میں روحانی طور پر شامل ہورہی ہے۔

(viii) علماء کونسل

آپ نے وارثانِ منبر و محراب کو علمی، فکری، روحانی اور تربیتی طور پر مضبوط کرنے کے لئے منہاج القرآن علماء کونسل کے پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی جس سے وابستہ علماء پورے ملک میں صحیح معنوں میں دین کی تبلیغ میں مصروفِ عمل ہیں۔

(ix) ویمن لیگ

آپ کا ایک شاندار کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے خواتین کو ایک بہترین پلیٹ فارم دیا ہے جہاں سے وہ ہر قسم کی دینی اور تحریکی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں اور مشن کے جملہ امور میں مردوں کے شانہ بشانہ ہیں جو بلاشبہ ایک عظیم انقلاب ہے۔

(x) مصطفوی سٹوڈنٹس اور یوتھ لیگ

انہوں نے نوجوانوں کو عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسیر بنالیا ہے اور انہیں مصطفوی انقلاب کا ہر اول دستہ بنانے کے لئے MSM (مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ) اور MYL (منہاج القرآن یوتھ لیگ) کے دو فورم مہیا کردیئے ہیں۔ نوجوانان ملت کا یہ قافلہ اپنے قائد کی معیت و قیادت میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے اور وہ منزل ’’مصطفوی انقلاب‘‘ ہے۔ اور ان شاء اللہ یہ قافلہ منزل پر پہنچ کر رہے گا۔

آخر پر ان کی شخصی وجاہت اور دلآویز خطابات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے دو اشعار پیش کررہا ہوں۔

حدیثِ بندہ مومن دل آویز
جگر پُر خون، نفس روشن، نگہ تیز

میسر ہو کسے دیدار اس کا
کہ ہے وہ رونق محفل کم آمیز