تحریک منہاج القرآن کا ایک سنہرا باب مخدوم تنویر احمد قریشی شہید

شیخ زاہد فیاض

تنویر احمد قریشی شہید کو ہم سے بچھڑے 23 مارچ کو 2 سال مکمل ہورہے ہیں۔ مگر ہر کارکن یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہم میں ہی ہیں۔ ہر وقت ان کی موجودگی کا احساس رہتا ہے۔ آج ہم نے اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ آخر شہید تنویر قریشی میں کیا بات تھی کہ وہ آج بھی ہمارے دل و دماغ پر دستک دے رہے ہیں۔

دوسالوں میں پاکستان کے کونے کونے میں مجھے جانے کا اتفاق ہوا۔ مختلف اجلاسز/ تربیتی کیمپس Attend کئے۔ متعدد بار ایسا ہوا کہ کارکنان تنویر قریشی شہید کی مثالیں دیتے اور انہیں یاد کرتے ہیں۔ ہم خود بھی جب تربیتی کیمپس منعقد کرنے کے حوالے سے اجلاسز کرتے ہیں اور ان کا Format تیارکرتے ہیں تو اکثر اوقات احباب شہید تنویر احمد قریشی کی مثالیں دیتے ہیں۔ جب کبھی بغداد ٹاؤن جانے کا اتفاق ہو تو قدم خود بخود تنویر قریشی شہید کی قبر کی جانب اٹھتے ہیں۔ کئی احباب کو شہید تنویر قریشی خواب میں بھی ملے اور تحریک و قائد تحریک کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر جو کرم نوازیاں ہوئیں ان کا ذکر کیا۔

ان کے کئے ہوئے عملی کام مثلاً تعلیمی منصوبہ/ ویلفیئر/ تربیتی نظام وغیرہ ہمیشہ ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت رہیں گے۔ قائد محترم کی بیرون ملک مصروفیات کی وجہ سے مرکزی ٹیم کو شہید تنویر احمد قریشی کی کمی اور بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ تحریک و قائد تحریک کے ساتھ محبت/ کارکنان کے ساتھ تعلق/ تحریک کے فروغ اور مستقبل کیلئے ہر وقت سوچ بچار کرتے رہنا ان کے اوصاف میں سے ایک نمایاں وصف تھا۔

ذیل میں ان کی چند خوبیاں پیش خدمت ہیں جو راقم نے ان سے اپنی مختصر ملاقاتوں میں بالمشاہدہ محسوس کیں۔

  • ان کے دل و دماغ پر ہر وقت تحریک کا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا درد غالب رہتا تھا۔
  • وہ ہر وقت تحریک منہاج القرآن کے بہتر مستقبل کیلئے سوچتے رہتے تھے۔
  • قائد محترم اور تحریک سے بے حد محبت کرتے تھے۔
  • ان کے دل میں قائد کے عظیم کارکنان کی سچی محبت و قدرڈیرے جمائے ہوئے تھی جس بناء پر ہر کارکن سے محبت کرتے اور تحریکی مسائل کے حل کیلئے انہیں ہر ممکن تعاون فراہم کرتے۔ اس کا عملی ثبوت ان کی تحریکی زندگی میں ملتا تھاوہ ہر کارکن سے اخلاق سے پیش آتے۔ اس کی پوری بات سنتے اور اچھے طریقے سے انہیں مطمئن کرتے تھے۔
  • وہ کارکنان میں ہمیشہ کارکن بن کر رہتے، کبھی اپنے آپ کو لیڈر کہلوانا پسند نہ کرتے تھے۔
  • اجلاسوں میں اپنا مؤقف واضح طور پر بیان کرتے مگر اکثریتی فیصلے پر کبھی تنقید نہ کرتے تھے۔
  • وہ کبھی بھی حالات و واقعات سے مایوس نہ ہوتے بلکہ اکثر اپنی گفتگو کے اندر تحریک کے روشن مستقبل کی نوید سنایا کرتے تھے۔
  • تحریک کی خاطر جان دینے کا جذبہ ان میں ہر وقت موجود رہتا تھا۔
  • تنویر قریشی شہید کبھی دکھلاوے کی گفتگو نہیں کرتے تھے۔ ان کے الفاظ سے ان کے دل کی سچائی واضح نظر آتی تھی۔
  • وہ تحریک کے جملہ فورمز کے امور کے ساتھ دلچسپی لیتے تھے اور ان کے مسائل حل کروانے میں پوری کوشش کا مظاہرہ کرتے تھے بالخصوص یوتھ اور ویمن لیگ کے ساتھ ان کا منفرد تعلق تھا۔ وہ کہتے تھے انقلاب میں خواتین کا جتنا بڑا کردار ہو گا، یاہو سکتا ہے اسی قدر انہیں اہمیت دی جائے۔ اور اس کا عملی ثبوت ان کی تحریکی زندگی میں نظر آتا تھا۔
  • وہ ہر وقت تحریک کیلئے بہتر پلاننگ میں لگے رہتے تھے، نت نئے تعلیمی، تربیتی اور فکری پروگرامز کی پلاننگ کرتے رہتے اور اس پر عمل درآمد بھی کرتے تھے۔
  • قوت فیصلہ ان کے اندر کمال کی تھی۔
  • جرات کا پیکر تھے۔
  • نظم کے بڑے سخت پابند تھے۔
  • بظاہر سخت نظر آتے تھے مگر دل کے بڑے نرم تھے۔ مجھے انہوں نے ایک بار گرلز کالج میں قائد تحریک سے محبت کے حوالے سے ان کی موجودگی میں بولنے کا موقع ملا۔ موضوع تھا "میں گرفتار محبت کیسے ہوا، میں کیاتھا اور کیا ہو گیا"۔ میں نے جب اپنے مشاہدات، تاثرات اور تجربات سنانا شروع کئے تو شہید تنویر قریشی رونا شروع ہوگئے۔

میں خود پریشان ہو گیا کہ اب میں آگے کیاگفتگو کروں ہزارہا کارکنان کو گفتگو کرنے کے طریقے سکھانے والے آج اکیلے بچیوں میں بیٹھے زار و قطار رو رہے ہیں۔ یہ ان کا اپنے قائد سے والہانہ عشق تھا جو آنسوؤں کی زباں میں جھلک رہا تھا۔

عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بے چارا نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم

الغرض شہید تنویر احمد قریشی دو سال گزرنے کے باوجود ہمارے دلوں میں بستے ہیں اور تا دمِ زیست بستے رہیں گے۔ جب بھی منہاج القرآن کی تاریخ رقم کی جائے گی تو اس کے جانثاروں میں شہید تنویر احمد قریشی کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔