جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقاصد و اہداف

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

محبت، اطاعت، حسنِ خُلق

تحریر : الشیخ محمد سعید رمضان البوطی ترجمہ : ڈاکٹر علی اکبر الازہری

مضمون نگار الشیخ محمد سعید رمضان البوطی کی شخصیت علمی دنیا میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ نہ صرف عالم عرب بلکہ عالم اسلام کے نہایت متبحر اور چوٹی کے چند علماء میں سے ایک ہیں۔ طویل عرصہ دمشق یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے اور اب دمشق جیسے زرخیز علمی شہر میں سب سے بڑے حلقہ درس کے روح رواں ہیں۔ نہ صرف شام بلکہ مصر، اردن، لبنان اور دیگر عرب و عجم میں اپنے علم و فضل اور درجنوں انتہائی خوبصورت کتب کی وجہ سے عقیدت اور احترام سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کی تحریریں دنیا کے اعلیٰ ترین رسائل و جرائد میں چھپتی ہیں۔ زیرنظر مضمون ترکی سے شائع ہونے والے عربی سہ ماہی ’’حراء‘‘ کے صفحات کی زینت بنا۔ میں نے جب اسے پڑھا تو مجھے اس کا ایک ایک لفظ محبت و شوق میں گندھا ہوا محسوس ہوا۔ استدلال کا تربیتی انداز اس قدر دل آویز اور خوبصورت ہے کہ قاری کے اندر محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حلاوت خودبخود اترتی چلی جاتی ہے۔ میں نے جذبوں میں ڈوبی ہوئی اس مختصر تحریر کو آپ کے لئے اردو میں منتقل کردیا ہے۔ آپ کو کیسی لگتی ہے اس کا اندازہ تو آپ کو پڑھنے کے بعد ہوگا۔ تاہم نفسِ مضمون کو سمجھنے کے لئے آپ کو یقینا ایک منفرد انداز اور لب و لہجہ ضرور ملے گا۔ نیز یہ احساس بھی ہوگا کہ محبت کی زبان اور اس کی دلیل کا انداز ایک ہی ہوتا ہے زبان خواہ اقبال کی ہو یا امام احمد رضا خان کی ہو یا ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہو یا سعید رمضان البوطی کی۔ (مترجم)

احادیث صحیحہ میں وارد ہے صحابہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب ایک مرتبہ پیر کے دن روزے کی حالت میں دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ، ماہ رمضان تو ہے نہیں پھر آپ نے روزہ کیوں رکھا؟ آپ نے جواباً فرمایا :

ذَاکَ يومٌ وُلدتُ فيه.

(صحیح مسلم)

’’یہی وہ دن ہے جس دن میری ولادت ہوئی۔‘‘

گویا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ رکھ کر اپنا یوم میلاد منا رہے تھے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت بروز پیر ہی ہوئی اور آپ کا وصال مبارک بھی اسی روز ہوا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بھی اس دن روزہ رکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کو CELEBRATE کریں؟۔۔۔ نہیں بلکہ یہ دن جشن اور تقریب کی صورت میں منایا جانا چاہیے۔ یہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا عمل مبارک تھا۔ وہ تو اس دن اظہار فخر و مباہات کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور اظہارِ تشکر و امتنان کے لئے روزہ رکھتے تھے کیونکہ اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا محبوب و مکرم رسول بنایا اور پوری کائنات کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا دم بھرنے والے ہم مسلمانوں کو اس امر کو بطور خاص ملحوظ رکھنا چاہیے کہ جب دونوں عالم میں رحمتیں تقسیم کرنے والے رسول محتشم خود اپنا یوم ولادت منا رہے ہیں تو جو لوگ اس رحمت الٰہی سے فیض یاب ہورہے ہیں اور اللہ پاک نے اپنے اس جلیل القدر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ان پر کرم نوازیوں کی بارش کردی ہے لہذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سمیت آپ کے طفیل ملنے والی دنیوی و اُخروی نعمتوں کے شکرانے کے طور پر ان کے لیے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اس یوم کو شایان شان طریقے سے منائیں۔

ہمارا یہ زمانہ جس میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ کُوبہ کُو پھیل رہا ہے بلاشبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانا اس دورِ پرفتن میں پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یوم میلاد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلقِ محبت استوار کرنے اور آپ کی اطاعت و اتباع کے جذبے کو فروغ دینے کا اہم ترین ذریعہ اور موقع ہے۔ علاوہ ازیں اگر ہم اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دینی اہمیت کے نقطہ نظر سے بھی دیکھیں تو ہمارے لیے میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن آپ کے فضائل و مناقب اور امت پر احسان و انعام کا تذکرہ کرکے عوام و خواص کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اور سیرت کے تمام پہلوؤں سے روشناس کرنا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق ایمانی کا یہ بنیادی تقاضا ہے۔

جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے یہ بنیادی نکتہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ مقصود بالذات جشن منانا نہیں بلکہ یہ عمل مسرت تو اصل ہدف تک پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے۔ کونسا ہدف؟ یہی کہ ہم سب اپنے پیارے آقا کے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساتھ اپنے تعلق محبت کی تجدید کرلیں۔

  • لہٰذا پہلا ہدف یہ متعین ہوا کہ ذکر میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق حُبّی میں استحکام مقصود ہوتا ہے اور یہی ایمان کا تقاضائے اولین بھی ہے۔
  • انعقادِ جشن میلاد کا دوسرا بڑا مقصد یہ ہے کہ امت اپنے عظیم و جلیل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس اسوہ پر عمل کرے جس کے متعلق خدائے بزرگ و برتر نے ارشاد فرمایا

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَة حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ يَرْجُو اﷲَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اﷲَ کَثِيْرًاo

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہےo‘‘ (الاحزاب، 33 : 21)

  • جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تیسرا بڑا مقصد یہ ہے کہ دعوتِ دین کے فریضے کی ادائیگی میں ہمیں ان اخلاق حسنہ اور اعمال طیبہ پر عمل پیرا ہونے کی فکر اور توفیق میسر آسکے جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کو متصف کر رکھا تھا۔ محبت و اتباع کے استحکام سے ہی یہ ممکن ہوگا کہ ہمارے اس منہج دعوت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہج دعوت سے مماثلت ہو۔ جیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے بندوں کے ساتھ برتاؤ فرماتے تھے، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوتِ حق کے راستے میں ہر طرح کی مشکلات محض اللہ کی رضا کے لیے برداشت فرمائیں۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے والے برادرانِ اسلام! اگر تو آپ یہ تین مقاصد حاصل کر رہے ہیں تو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر خوشی اور مسرت کے اظہار کے لئے ساری جائز سرگرمیاں جاری رکھو اور اس توفیق کو اپنے لیے غنیمت شمار کرو۔ ذیل میں ان تینوں اہداف پر ہم قدرے تفصیل سے روشنی ڈال رہے ہیں :

1۔ تجدیدِ محبت

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کا پہلا مقصد (جیسا کہ اوپر بیان ہوا) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق ایمانی کو مضبوط کرنے کے لیے محبت کی غذا فراہم کرنا ہے۔ میں یہ بات زور دے کر کہہ رہا ہوں کہ اس عمل کے ذریعے محبت کی تجدید اور استحکام مقصود ہے، محبت پیدا کرنا نہیں۔ اس لئے کہ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص دنیا میں ایسا بھی ہوگا جو اللہ تعالیٰ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت و نبوت پر ایمان رکھتا ہو اور اس مبارک موقع پر اس کے دل کی کلی کھل نہ پائے۔ یہ اس رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا موقع ہے جس کو اللہ پاک نے پوری کائنات کا سردار اور ہمارے لئے سراپا رحمت و سعادت بنایا۔ اللہ تعالیٰ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی شان رحمت و رافت کو بیان فرماتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌo

’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں‘‘o (التوبہ، 9 : 128)

کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان بھی لایا ہو اور اس کے دل میں خدا اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے محبت کا جذبہ نہ ہو؟۔۔۔ نہیں یہ ممکن نہیں ہرگز نہیں۔ اس لئے ہم جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے یہ توقع اور امید رکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات و صفات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل و مناقب پر مبنی تذکارِ رسالت، ان کی ذات گرامی کے ساتھ ہمارے تعلق محبت میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ گویا ہم اس اظہار مسرت کے ذریعے دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ من میں ڈوب کر اس محبت کی تجدید کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم سب کو اس حقیقت سے بھی آگاہ رہنا چاہئے جس کے متعلق خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

لَا يُوْمِنُ اَحَدَکُمْ حَتّی أَکُوْنَ اَحَبَّ اليه مِنْ مالِه وَوَلَدِه والناس رجمعين.

(صحيح بخاری)

’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں بن سکتا جب تک میری ذات سے محبت، اس کی مال سے محبت، اس کی خونی رشتوں سے محبت اور دنیا میں موجود ہر انسان سے محبت کے مقابلے میں زیادہ نہ ہوجائے۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی محبت کو لازم کیوں ٹھہرایا؟

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات سے محبت کرنے کا اعلان کرکے خود پسندی یا اپنی شخصی اہمیت جتانے کی غرض سے اپنے پاس سے یہ بات نہیں فرمائی، معاذ اللہ ایسا ہرگز نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ہمیں ہر اس چیز سے آگاہ فرمایا ہے جس کا حکم انہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ آپ امت مصطفوی کو اپنی ذات سے محبت کی تعلیم دیں۔ اس لئے کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہماری محبت اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا تقاضا اور اس کے ساتھ محبت کی شرائط میں سے ایک اہم شرط ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ اس بنیادی ایمانی ضرورت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کو آگاہ نہ فرماتے۔ (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات سے محبت کی ترغیب و تعلیم، خود پسندی، یا شخصیت پرستی کے لئے نہیں بلکہ ایمان کی مضبوطی اور تعلق باللہ میں استحکام پیدا کرنے کی غرض سے دی اور یہ آپ کے بنیادی فرائض میں سے تھا)۔ لہٰذا ضروری تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا حکم دیتے ورنہ یہ چیز کیسے ثابت ہوسکتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلاکم و کاست ہدایت کا فریضہ ادا فرمایا اور رسالت کی امانت کو اللہ تعالیٰ کے جملہ احکامات پر کما حقہ عمل کرکے ادا فرمایا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَO

’’اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارالوگوں کو) پہنچا دیجئے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، اور اﷲ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔ بے شک اﷲ کافروں کو راہِ ہدایت نہیں دکھاتاo‘‘
(المائدہ، 5، 67)

حضراتِ محترم! اپنے اپنے دلوں کے گوشوں میں جھانک کر دیکھئے اور اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس محبت کے جذبے کو ٹٹولئے نیز یہ جاننے کی کوشش کیجئے کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ان نفسانی اور روحانی امراض کے لئے نسخہ کیمیا ہے جن کا شکار من حیث الکل آج پوری امت مسلمہ ہوچکی ہے۔ ہاں میں پھر کہتا ہوں محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہمارے مسائل کے لئے اکسیر دوا ہے بشرطیکہ ہمارے قلوب اس دولت سرمدی سے سرشار ہوجائیں اور اسی کیف میں دھڑکنا سیکھ لیں۔

بُعد زمانی کو کم کرنے کا واحد نسخہ

ہم وہ لوگ ہیں جو براہ راست دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعادتوں سے محروم ہیں۔ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوے ہماری آنکھیں براہ راست نہیں سمیٹ سکیں۔ کیونکہ ہمارے اور ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان چودہ، پندرہ صدیوں کا زمانی فاصلہ حائل ہے۔ لہٰذا اس بُعد زمانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی دوری کو اسی طرح کم کیا جاسکتا ہے کہ ہم ان کے لئے خاص قسم کی تڑپ، ولولہ اور شوق اپنے اندر پیدا کر لیں جو ہمیں ہر وقت ان کے لئے بے تاب کئے رکھے اور ہمیں کھینچ کر ان کی قربت میں لے جائے۔ اس ذات گرامی کی قربت میں جو ہماری آرزؤں، ہمارے ولولوں اور ہمارے اشتیاق سے پہلے ہی ہماری (روحوں کی) طرف محبت اور اشتیاق سے متوجہ ہوچکے ہیں۔ کیا آپ کو وہ واقعہ یاد نہیں جب وصال مبارک سے تھوڑا پہلے آپ جنت البقیع میں تشریف لے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بقیع (وصال فرماجانے والے صحابہ اور شہداء) کو مخاطب کرکے سلام کیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک مختصر جماعت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

وَدِدتُ انی قد ريت إخواننا.

’’میرا جی چاہ رہا ہے کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھوں‘‘۔

صحابہ نے حیرت اور استعجاب کی حالت میں عرض کیا حضور! ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا ہم آپ کے بھائی بند نہیں؟ آپ نے فرمایا :

بَل أنتم أصحابی و اخوانی الذين لم يأتو بعد و أنا فَرَطهم علی الحوض.

(سنن النسائی)

’’بلکہ آپ میرے صحابی ہیں جبکہ میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو آپ کے بعد والے زمانوں میں آئیں گے اور میں حوضِ کوثر پر ان کا استقبال کروں گا‘‘۔

آپ نے دیکھا ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد میں آنے والے ہم لوگوں کے لئے کس قدر اشتیاق اور محبت کا اظہار فرمایا؟ پھر کیوں نہ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس اشتیاق کے بدلے میں اپنی طرف سے محبت اور اشتیاق کا اظہار کریں اور اسی محبت کے جواب میں حتی المقدور محبت کا مظاہرہ کریں۔ (تاکہ ہم بھی ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہوسکیں جن کا استقبال قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شافع یوم النشور حوض کوثر پر اپنی محبتوں کے جام پلاکر کروائیں گے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان کے ’’اخوان‘‘ کہلانے کی اہلیت پیدا کریں)۔

میری سوچ، فکر اور عقیدہ یہی ہے کہ ہم حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنی محبت کی تجدید کرتے رہا کریں کیونکہ ہم اس تعلقِ خاطر کے سخت محتاج ہیں۔ یہ ہماری ایمانی اور وجدانی ضرورت ہے۔ (بعض لوگ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحیح تصور بھی نہیں سمجھتے اور بلاوجہ اس کی دینی اہمیت کو کم کرنے میں اپنی توانائیاں کھپاتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے) واضح کرتا چلوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہماری یہ محبت در اصل اﷲ تعالیٰ کے ساتھ محبت کا حصہ ہے۔ یا یوں سمجھیں کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، محبت الٰہی کے تنے سے نکلی ہوئی شاخ ہے۔ ایسے لوگوں کی عقل کو متوجہ کرنے کے لئے کھجور کے اس خشک تنے کی مثال بڑی برموقع ہے۔ اس جامد اور بے جان خشک لکڑی کے ٹکڑے کی کہانی بھی کس قدر تعجب انگیز، حیران کن اور حیرت زدہ ہے۔۔۔ نہ اسے وہ شعور حاصل ہے جو شعور ہمارے پاس ہے۔۔۔ نہ اس کے پاس وہ دل ہے جیسا ہمارے پہلو میں ہے جو زندگی کی علامت کے طور پر دھڑکتا رہتا ہے۔ اس عقلی اور وجدانی صلاحیت کے فقدان کے باوجود قدرت نے اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لمس کے سبب وہ صلاحیت عطا کر دی کہ وہ محبوب خدا کے فراق میں تڑپ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوری کے صدمے کو برداشت نہ کر سکا اور زارو قطار روپڑا۔ چہ جائے کہ وہ انسان جو غمگین دل کا مالک بھی ہوتا ہے اور اسے جذبوں کی فراوانی بھی قدرت سے ارزانی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس بے جان لکڑی کے تنے کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کے جذبات سے عاری ہے۔ کیا آپ اس بدنصیبی کا تصور کر سکتے ہیں؟

ہاں یہ بھی یاد رہے کہ یہ واقعہ کوئی عام کہانی نہیں بلکہ امام بخاری کے علاوہ دیگر محدثین نے اسے اپنی کتب حدیث میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ آپ بھی اسے سنیں اور اپنا ایمان تازہ کریں۔ ہوا یوں کہ مسجد نبوی شریف میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹھنے کے لئے آپ کی اجازت کے بعد لکڑی کا منبر رکھا گیا۔ خطبے سے پہلے جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہو کر خطاب فرماتے تھے وہاں کھجور کا خشک تنا تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقفے کے دوران جب جلوس فرماتے تو اس تنے کے ساتھ اپنی پشت مبارک لگا کر تھوڑا آرام فرما لیتے تھے۔ نیا منبر جب تیار ہوگیا تو وہ اس جگہ سے تھوڑا دور رکھا گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اس نئے منبر پر کھڑے ہو کر پہلا خطبہ ارشاد فرمایا اور وقفے میں نیچے قیام فرما ہوئے تو اچانک مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایسی آوازیں آنا شروع ہوگئیں جیسے کسی ہنڈیا کے ابلنے کے وقت آیا کرتی ہیں۔ یہ آوازیں اسی کھجور کے خشک تنے سے نکل رہی تھیں۔ وہ بے جان تنا جو عقل اور تصور کی حس سے (بظاہر) محروم تھا، جس کے پاس ہماری طرح محسوس کرنے والا دل بھی نہیں تھا مگر اس کے باوجود آپ کی قربت اور لمس نے اسے سراپا محبت و شوق بنادیا اور جب اسے منبر سے چند گز دور کر دیا گیا تو اس کا دردِ فراق جو ش میں آگیا۔ اس کے نالہ ہائے آہ و فراق سن کر پورے ماحول پر ایک سکوت آمیز وجد طاری ہوگیا یہاں تک کہ رسول خدا محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے نیچے اتر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے مخاطب فرما کر السلام علیکم فرمایا اور اس وقت تک اپنا دستِ مبارک اس پر رکھے رکھا جب تک وہ بچے کی طرح ہچکیاں لیتے لیتے چپ نہیں ہوگیا۔ میرا خیال یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے اس دوران پوچھ رہے ہوں گے تم کیا چاہتے ہو؟ پھر آپ نے اس سے مخاطب کرکے پوچھا اگر تم چاہتے ہو کہ تم سر سبز رہو اور تمہارے پھل قیامت تک لوگ کھاتے رہیں تو میں تمہیں زمین کے کسی بہترین حصے میں نصب کروادیتا ہوں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ تنے نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس تجویز کا جواب نہیں دیا۔ گویا اسے ایسی زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جو محبوب خدا کے قدموں سے دُوری کے عوض مل رہی تھی۔ بلکہ اس نے جو طلب کیا اس سے بھی اس کی محبت اور اشتیاق ہی ٹپک رہا ہے۔ عرض کیا : لَا : اُرِیْدُ قربکُ۔ ’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے ہری بھری دائمی زندگی قبول نہیں بلکہ (فنا ہوکر) وہ وصال چاہئے جس میں آپ کی قربت میسر رہے‘‘۔

کیا ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے انسان اور مومن ہو کر بھی اس بے جان تنے جیسی آرزو اپنے سینے میں نہیں پال سکتے؟ افسوس صد افسوس ہمارے زمانے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک کے درمیان طویل زمانے حائل ہیں۔ ہماری آنکھیں ان کے جلوؤں سے مستفیض ہو سکیں اور نہ ہمیں آپ کا قربِ زمانی یا مکانی حاصل ہو سکا ہے تو کیا محرومی کے اس احساس کے بعد محبت کے دعوے دار ہونے کی بناء پر اس بے جان تنے سے بڑھ کر ہم حسن آرزو کا استحقاق نہیں رکھتے؟ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چشم تصور میں لا کر خشک کھجور کی طرح یہ عرض کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ’’یا رسول اﷲ ہمیں آپ کی قربت چاہئے۔‘‘

لوگو! محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے قلب و باطن میں محسوس کیا کرو۔ اسے اپنے روح میں اتر کر تلاش کیا کرو۔ اگر آپ اپنے من میں جھانک کر دیکھیں تو آپ محسوس کریں گے کہ ہمارے نفوس پر دنیا کے مال و دولت، اہل و عیال اور دیگر دنیوی رشتوں کی محبتیں اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پر غالب آچکی ہیں۔ مجازی محبتوں کا حقیقی محبت پر یہی غلبہ دنیا میں ہمارے جملہ مسائل اور مشکلات کے اضافے کا سبب ہے۔ یاد رکھیں! آج اسلامی معاشرے اور اہل اسلام کی زندگیاں جن مسائل کا شکار ہیں (اس دوا کے علاوہ) ان کا کوئی حل نہیں۔ اگرچہ عقل و خرد اور فکرو علم ان مسائل کا حل پیش کرنے کی کاوش کرتے رہتے ہیں لیکن عقل اور منطق ان مشکلات کے حل کا کوئی قابل عمل فارمولا ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہاں یہ صلاحیت اور قوت حضرت دل کے پاس ہے وہ ان امراضِ امت کا حل پیش کرسکتا ہے اور ہمیشہ کرتا بھی رہا ہے۔ عقل تو زیادہ سے زیادہ رہنمائی ہی کرسکتی ہے۔ صرف اتنی رہنمائی جتنی ایک سپاہی (جو ڈیوٹی پر مامور ہوتا ہے) راستہ بھولے ہوئے شخص کو درست راستے کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کرتا ہے۔ عقل کی دوڑ صرف اتنی ہے اس سے آگے نہیں لیکن کامیابی اور ہدایت کی منزل تک پہنچنے کے لیے اتنی رہنمائی کافی نہیں۔ کامل ہادی اور مخلص رہنما تو وہ ہوتا ہے جو اشارے سے راہنمائی پر اکتفا نہ کرے بلکہ انسان کی انگلی پکڑ کر حفاظت کے ساتھ اسے منزلِ مقصود تک پہنچا دے اور یہ ھادی محبت ہے۔۔۔ اور صرف محبت۔

محبت ہی وہ طاقت ہے جو مومن کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ پاؤں کی ٹھوکر کے ساتھ دنیا اور اس کی تمام آلائشوں کو خانۂ دل سے نکال باہر کرتا ہے۔ محبت ہی مومن کو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت بخشتی ہے اور وہ اﷲ کی توفیق سے ان علائق اور مفاسد کو ٹھوکر مار کر دور کردیتا ہے جو اﷲ کے دین اور اس کی شریعت میں کسی قسم کے فساد اور تخریب کا باعث ہوسکتی ہو۔ ہاں دوستو! ہمارے نزدیک یہی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقاریب منعقد کرنے کا مقصد اولین ہے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ عالی میں ہم دعا گو ہیں کہ وہ ذات ہمارے قلوب کو سب سے پہلے اپنی محبت اور پھر اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت کے صاف ستھرے خزانے بنا دے۔ (جاری ہے)