معیار خیر و شر اور ہماری زندگی

محمد نسیم نقشبندی۔ ہانگ کانگ

ہر انسان کوئی نہ کوئی عمل ضرور کرتا ہے مگر سب کے اعمال برابر نہیں ہوتے۔ اعمال کی قدروقیمت عمل کرنے والے کے مقام و مرتبے اور حیثیت کے مطابق ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کے اعمال نیک ہوتے ہیں جبکہ کچھ کے بد۔ بعض لوگوں کے اعمال مبنی برخیر ہوتے ہیں اور بعض کے مبنی بر شر۔ سوال یہ ہے کہ وہ کونسا معیار اور پیمانہ ہے جس کے ذریعے یہ معلوم ہوسکے کہ کون سے اعمال مبنی بر خیر ہیں اور کون سے مبنی بر شر؟ جبکہ ہر عمل کرنے والا اپنے عمل کوجائز اور مبنی بر خیر سمجھ کر کرتا ہے۔

اس سوال کا جواب پانے کے لئے اس حقیقت کو جاننا ضروری ہے کہ انسان اور اس کے اعمال کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو یوں واضح کیا ہے۔

وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَO

(الصفت 37 : 96)

’’حالانکہ اللہ نے تمہیں اور تمہارے (سارے) کاموں کو خلق فرمایا ہے‘‘۔

جب یہ معلوم ہوگیا کہ انسان اور اس کے اعمال اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ ہیں تو جو ان اعمال کا خالق ہے اس کو انسان سے زیادہ معلوم ہے کہ کون سا عمل خیر ہے اور کون سا شر۔۔۔ کون سا نیک عمل ہے اور کون سا بُرا عمل۔۔۔ کونسا کام جائز ہے اور کون سا ناجائز۔۔۔ انسان کو اعمال کی حقیقت کا پتہ نہیں ہوتا۔ انسان کسی کام کو اچھا سمجھ کر کررہا ہوتا ہے مگر حقیقت میں وہ اس کے حق میں اچھا نہیں ہوتا اور بعض اوقات کسی عمل کو بندہ ناپسند کرکے چھوڑ دیتا ہے مگر وہی اس کے لئے بہتر اور مبنی برخیر ہوتا ہے۔ قرآن مجید اس حقیقت کویوں بیان کررہا ہے۔

وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّواْ شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَO

(البقره 2 : 216)

’’اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لئے بہتر ہو اور (یہ بھی) ممکن ہے تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لئے بُری ہو اور اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔

معلوم ہوا کہ جائز و ناجائز، اچھے اور بُرے، نیک اور بد اور خیروشر کا دارومدار ہماری پسند و ناپسند پر نہیں بلکہ ہمارے خالق و مالک کی پسند و ناپسند پر ہے۔ اچھے اور بُرے عمل کا انحصار عقل پر نہیں بلکہ فرمان الہٰی پر ہے۔ جسے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اچھا اور مبنی بر خیر کہا وہ اچھا ہے اور جسے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برا یا مبنی بر شر فرمایا وہ برا ہے۔ جسے ہمارے خالق و مالک نے پسند کرلیا وہ عمل خیر ہے اور جس عمل کو ہمارے خالق نے ناپسند فرمایا وہ عمل شر ہے۔

روزمرہ زندگی میں اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ نمونے کے طور پر چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔

٭ جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ دنیا میں ہر روز ہزاروں کی تعداد میں جانور ذبح کئے جاتے ہیں جنہیں انسان کھاتے ہیں۔ مسلمان بھی انہیں ذبح کرتے ہیں اور غیر مسلم بھی۔ ایک حلال جانور کو اگر کافر ذبح کرے تو وہ بجائے حلال کے حرام ہوجاتا ہے جبکہ اسی جانور کو اگر مسلمان ذبح کرے تو وہ حرام نہیں بلکہ حلال ہوگا۔ بظاہر عمل تو ایک جیسا ہوا۔ دونوں نے اسے گلے سے کاٹا مگر ایک کا ذبح کیا ہوا حرام جبکہ دوسرے کا ذبح کردہ حلال ہے۔ عمل ایک جیسا مگر اس کا نتیجہ بالکل مختلف ہے۔ آخر وہ کیا چیز ہے جس نے ایک جانور کو حرام اور دوسرے کو حلال کیا ہے؟ فرق صرف اتنا ہے کہ کافر نے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق اپنے وضع کردہ طریقے سے ذبح کیا جبکہ مسلمان نے محض اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے طریقے اور اس کی رضا کے مطابق ذبح کیا ہے۔ سو جو خالق کے پسندیدہ طریقے پر ذبح کیا گیا وہ جائز و حلال ہوگیا اور جو خالق کے نہیں بلکہ اپنے پسندیدہ طریقے پر ذبح کیا گیا وہ حرام ہوگیا۔

٭ دنیا میں متعدد اقسام کے جانور ہیں۔ گائے، بھینس وغیرہ بھی جانور ہیں اور خنزیر بھی جانور ہے۔ اعضاء بھی مکمل ہیں۔ ہیں سارے جانور مگر خنزیر حرام ہے جبکہ گائے، بھینس اور دیگر جانور حلال ہیں۔ بے شمار لوگ خنزیر کو شوق سے کھاتے بھی ہیں۔ ظاہر ہے وہ اسے اچھا سمجھتے ہیں تو کھاتے ہیں اگر اچھا نہ سمجھیں تو کھائیں کیوں؟ مگر مسلمان اسے نہیں کھاتا۔ تو یہ فرق کیوں ہے۔ فرق صرف یہ ہے ہم کسی شے کو حلال یا حرام خود نہیں سمجھتے بلکہ ہمارے رب نے جس شے کو حرام قرار دیا ہے اسے ہم حرام سمجھتے ہیں اور جسے ہمارے رب نے حرام قرار نہیں دیا وہ حلال ہے۔ جانور کا گوشت بھی غذا ہے تو ہمارے خالق کو ہمارے بارے زیادہ معلوم ہے کہ کون سی غذا ان کے لئے اچھی ہے اور کون سی اچھی نہیں۔ ڈاکٹرز بھی بیمار آدمی کو پرہیز بتاتے ہیں تاکہ آدمی کی صحت ٹھیک رہے۔ اگر ڈاکٹر کو یہ علم ہوگیا ہے کہ کون سی چیز کس آدمی کے لئے مفید یا ضرر رساںہے تو اللہ تعالیٰ جو ہر شے کا خالق و مالک ہے اسے کیوں نہیں علم؟ ڈاکٹر کو طویل محنت کے بعد جو علم حاصل ہو ا وہ دراصل اللہ تعالیٰ کے اس علم ازلی کا ہی ایک ذرہ ہے جو اس کو ازل سے حاصل ہے اور ابد تک رہے گا تو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے جو چیزیں حرام کی ہیں ان میں ہمارے لئے بے شمار نقصانات ہیں جو کہ آج میڈیکل سائنس کے ذریعے ثابت ہوئے ہیں اور مزید ہورہے ہیں۔ مسلمان کو چاہئے کہ وہ صرف یہ دیکھے مولیٰ نے کس چیز کو اچھا کہا ہے وہ اسے اپنائے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے برا یا حرام فرمایا اس سے بچے۔

٭ ایک مرد اگرکسی عورت کے ساتھ بغیر نکاح کے جنسی تعلق قائم کرے تو وہ زنا ہوگاجس پر عذاب کا وعدہ ہے لیکن یہی تعلق اگر نکاح کرکے قائم کیا جائے تو نہ صرف یہ جائز ہے بلکہ اس پر اجر و ثواب کا وعدہ بھی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کس چیز کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے یا ناپسند کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کون سی شے اس کے نزدیک اچھی ہے اور کونسی بری۔ یہ ہمیں معلوم کس طرح ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا محبوب عطا فرمایا ہے اور ان کی شان اس طرح بیان فرمائی۔

وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ.

’’اور وہ (میرے محبوب) ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں‘‘۔

(الاعراف 7 : 157)

تو ہر طیب اور خبیث کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو عطا فرمایا سو جو طیب اشیاء ہیں وہ حضور حلال کرتے ہیں اور جو خبیث اور پلید چیزیں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں حرام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات ہم تک پہنچے ہی حضور علیہ السلام کے ذریعے ہیں۔ اس لئے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :

لَا يوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی يَکُوْنَ هَوٰهُ تَبِعًالما جئت بِه.

’’تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے (دین) کے تابع نہ کردے‘‘۔

یہی حقیقت سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جو چیزیں انسانی طبیعت کے لئے موزوں اور پاکیزہ تھیں اللہ اور رسول نے انہیں حلال قرار دیا ہے اور جو چیزیں ناپاک، خبیث اور پلید تھیں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حرام قرار دیا ہے۔

اس ساری بحث کے بعد یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اچھے کام کا حکم دیتا ہے اور برے کام سے منع کرتا ہے۔ یعنی اچھے کام کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ اچھائی کو فروغ ملے اور برے کاموں سے روکتا ہے تاکہ برائے کی حوصلہ شکنی ہو۔ یہی منصب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو عطا فرمایا ارشاد باری تعالیٰ ہے :

يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ.

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں‘‘۔

(الاعراف 7 : 157)

آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے توسل سے آپ کی امت کو بھی یہ شان عطا فرمائی اور اسی خصوصیت کے ساتھ اس امت کی تعریف فرمائی۔ ارشاد فرمایا :

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ.

’’تم بہترین امت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

(آل عمران 3 : 110)

اللہ پر ایمان تو اسی صورت مکمل ہوگا کہ بندہ اس کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام سمجھے اور اسی کے مطابق زندگی میں عمل کرے۔

اب یہ بات متحقق ہوگئی کہ خیر وشر، نیک و بد، یا اچھے اور برے کا معیار ہم اپنی طرف سے نہیں وضع کرسکتے ہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے وضع کردہ ہے۔ سو اب ہمارا کام ہے کہ جس عمل کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کرنے کا حکم دیا اسے بطور مجبوری نہیں بلکہ بخوشی کریں اور جس عمل سے روکا ہے اس سے رکیں۔

حضور غوث پاک شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب فتوح الغیب میں فرماتے ہیں کہ ہر مومن کے لئے تمام احوال میں تین صفات لازمی ہیں۔

  1. اوامر (احکام خداوندی) کی تعمیل کرے۔
  2. نواہی (محرمات و ممنوعات) سے بچے۔
  3. مشیت الہٰی اور تقدیر پر راضی رہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ مومن کی ادنیٰ حالت یہ ہے کہ وہ کسی وقت بھی ان تینوں چیزوں کی پیروی سے غافل نہ ہو۔

اس کے برعکس ہم آج بالکل الٹ راہ پر چل رہے ہیں۔ ہم خیرو شر کو اپنے معیار کے مطابق پرکھتے ہیں۔ نیکی و بدی کا پیمانہ ہم نے خود وضع کرلیا اور بڑی جرات سے کہہ دیتے ہیں کہ جو دل چاہے وہی کریں حالانکہ اپنے دل اور نفس کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے تابع کرنا ضروری ہے۔