حکیم الامت علامہ محمد اقبال (رح) پیکرِ اخلاق حسنہ

حافظ شکیل احمد طاہر۔فیصل آباد

حکیم الامت حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ نہ تو ظاہر دار تسبیح بدست ملاؤں کی طرح تھے، جن کی زبان ذاکر، دل غافل اور عمل مخالف ہو اور نہ خشک فلسفیوں اور منطقیوں کی طرح شب و روز عقل میں گم رہتے تھے کہ عمل اور اخلاق کا گذر ہی جن کے پاس سے نہیں ہوتا۔۔۔ نہ ایسے قلم و قرطاس سے وابستہ کہ دفتروں کے دفتر سیاہ کرنے میں صرف کردیں۔۔۔ نہ ہی شعراء غاوین کی طرح ’’فی کل واد یھیمون‘‘ کے مصداق وادی وادی میں داد و تحسین شعری کیلئے مارے مارے پھرتے رہیں۔ حضرت حکیم الامت عمل کے انسان تھے۔۔۔ پیکر اخلاق حسنہ تھے۔۔۔ سوانحی اقبالیاتی ادب کا بنظر غائر مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ پیکر اخلاقِ کریمانہ تھے۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ والدین اقبال اعلیٰ روحانی، اخلاقی، انسانی اقدار کے حامل تھے۔ اخلاقی، تربیتی اور روحانی ماحول میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے پرورش کے مدارج طے کئے۔ یوں اخلاق حسنہ، عاداتِ صالحہ سے قالب صالح، پیکر اخلاق حسنہ حضرت حکیم الامت کا تیار ہوا۔

تعمیرِ اخلاقِ اقبال میں اولین معمار والدین اقبال ہیں۔ بعد ازاں شمس العلماء میر حسن کی صحبت و تربیت نے ان میں اور نکھار پیدا کیا۔ انہوں نے حضرت اقبال کو صرف لفظ شناسی ہی نہ سکھلائی بلکہ اعلیٰ اخلاقی اقدار سے بہرہ ور بھی کیا۔ صرف طلاقت لسانی زبان فہمی، زبان دانی ہی نہ سکھائی بلکہ اخلاق عالیہ کی آبیاری بھی قلبِ اقبال میں فرمائی۔ صرف گفتار کا غازی نہ بنایا بلکہ کردار کا غازی بھی بنایا۔

حیات اقبال کا ورق ورق انہی بلند اخلاقی اقدار کا غماز و عکاس ہے۔ حضرت اقبال والی کونین علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر تھے۔ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جوں جوں مدارج طے کیے توں توں سیرت اقبال میں اخلاق مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھلک دکھائی دینے لگی۔ وہ مظہرِ اخلاقِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن گئے۔ سیرت و کردار اقبال کا عمیق تجزیاتی مطالعہ کریں تو علم ہوتا ہے کہ وہ سنن ھدیٰ یعنی سنن عادیہ کی بھی پیروی فرماتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے اقبالین نہ جانے ان کو کہاں تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں۔ پروفیسر فرمان اپنی کتاب ’’اقبال اور تصوف‘‘ میں رقم طرا زہیں کہ حضرت علامہ نے خود فرمایا کہ ’’لوگ مجھے یونیورسٹی کی سیڑھیوں میں ڈھونڈتے پھریں گے لیکن میں تو میر حسن کے قدموں میں ہوں‘‘۔

حضرت اقبال مغربی جامعات میں اکتسابِ علم کیلئے ضرور گئے لیکن مغربی تہذیب و اخلاق ان پر اثر انداز نہ ہو سکا۔ جن آ۔نکھوں میں مدینہ و نجف کی خاک کا سرمہ ہو ان کو تہذیبی فسوں کاری خیرہ نہیں کر سکتی۔ وہ مصطفوی، مرتضوی تھے۔ وہ دسترخوان علم و اخلاقِ مصطفوی اور مرتضوی کے ریزہ چیں تھے۔ وہ مغرب کے دریوزہ گر نہ تھے، وہ اسی نظام اخلاقیات (Ethical System) کے معلم و پرچارک تھے۔ کلام و فکر اقبال کا معتدبہ حصہ ترویج اخلاق حسنہ پہ مشتمل ہے۔ فکر اقبال کا (Climax) دو تصورات ہیں۔

  1. تصور مرد مومن
  2. تصور خودی

ان دونوں تصورات کا عمیق تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تہوں میں فروغ اخلاق کریمانہ کا تصور مضمر ہے۔ ’’مرد مومن‘‘، اوصاف حمیدہ، اخلاق حسنہ، عاداتِ سلیمہ، اعمال صالحہ اور احوال عالیہ کا مجموعہ ہے۔ ’’تصور خودی‘‘، خود نگری، خود اعتمادی، خودداری، نفس شناسی، معرفت ذات ہی کا دوسرا نام ہے۔ ’’تصور خودی‘‘ سے حضرت اقبال کا مقصود نظر تطہیر فکر اور تعمیر کردار ہے۔ دونوں تصورات کو یکجا کریں تو حضرت اقبال مبلغِ اخلاقِ حسنہ نظر آتے ہیں۔ حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ وہ مبلغ نہ تھے جن کیلئے ’’لِمَا تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ‘‘ کا حکم قرآنی ہے۔ وہ اوروں کو تعلیم و تلقین کر کے خود ’’تَنْسوْنَ اَنْفُسَکُمْ‘‘ کے مصداق ہر گز نہ تھے۔ وہ مبلغ بالقول بھی تھے اور مبلغ بالعمل بھی تھے۔ ان کی زندگی کے شب و روز میں ہزار ہا قرائن و شواہد موجود ہیں۔ ہزارہا مظاہر اخلاقِ حمیدہ موجود ہیں۔ یہ صرف خوش عقیدگی کے دعوے ہی نہیں بلکہ امر واقعہ ہے کہ وہ مظہر اخلاق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ بلکہ انکی حاتم گیر شہرت اور ان کے ذکر کے دوام کی یہی وجہ ہے، گویا اسی کے باعث انہیں شہرت اور قبولیت کا انعام ملا۔

اہم اخلاقی گوشے

آیئے اخلاق اقبال کا جائزہ آئینہ اخلاق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لیں اور اس محب صادق کے اخلاق و سیرت میں عکس اخلاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھیں۔ حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے درج ذیل گوشے اُن کے پیکرِ اخلاقِ حسنہ ہونے پر دلالت کررہے ہیں۔

  1. رفق و رحمت
  2. معادلت پسندی
  3. اکرام ابوین
  4. سادہ روی
  5. حمیت و تصلب
  6. حفظ اللسان

1۔ رفق و رحمت

رفق و رحمت اخلاق حسنہ کا ذروہ سنام ہے۔ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ردائے رحمت تمام عوالم اور خلائق پر تنی ہوئی ہے۔ فبما رحمۃ من اللہ لنت لہم میں رحمت عمیم ہی کا ذکر ہے، جو جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلقہ رحمت میں آیا اب جانے کا نہیں ہے۔ اسی رحیم آقا علیہ الصلوۃ کی محبت کا قلادہ حضرت حکیم الامت نے زیب گلو فرمایا۔ اسی سے قلب اقبال میں حد درجہ نرمی کا خلق عظیم پیدا ہوا۔ یوں تو ہر ایک کے لئے رحمت و شفقت کا مظہر تھے لیکن بچوں پہ رحمت میں کمال درجے کا اظہار فرماتے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا، کیونکہ ان کے لوح قلب یہ فرمان محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نقش تھا من لم یرحم صغیر ناولم یؤقر کبرینا فلیس منا ’’جو چھوٹوں پہ رحم نہیں کرتا اور بڑوں کی توقیر نہیں کرتا وہ ہم میں نہیں ہے‘‘۔ خالد نذیر صوفی ’’اقبال درون خانہ‘‘ میں لکھتے ہیں حضرت اقبال اس قدر بچوں سے شفقت فرماتے کہ ان کا لمحے بھر کے لئے رونا ان کو مضطرب کردیتا۔ فوراً اٹھ کے کمرے میں چلے جاتے اور فرماتے بچے کیوں روتے ہیں۔ آفتاب، جاوید یا منیزہ میں کوئی رو رہا ہوتا تو قلب اقبال کے لئے ناقابل برداشت ہوجاتا۔

شذرات فکر اقبال (Stray Reflection of thoughts of Iqbal) کے اوراق گواہ ہیں حضرت اقبال خود فرماتے ہیں ’’ایک عورت گھر کے کام کاج کے لئے ہمارے ہاں آتی تھی۔ ایک روز میں صبح صحن میں بیٹھا تھا کہ اس کا بچہ صحن میں کھیل رہا تھا۔ مجھے اس نے فکر و اضطراب، تشویش و التہاب کے بحر عمیق میں گم کردیا۔ ایک فکر مجھے کھا گیا کہ انسان ہونے میں اس میں اور جاوید میں کیا فرق ہے؟ یہ محکومی کی زنجیروں میں جکڑے ہی رہے گا اور جاوید کو عزت و پذیرائی ملے کہ وہ مرا بیٹا ہے۔ یہ حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا پریشانی، فکر اور اضطرابیت کا پہلو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچوں پر حد درجہ رحیم و کریم ہونے ہی کا فیض ہے کہ اقبال فرق و تفاوت طبقاتی میں اشک بار نظر آتے ہیں۔

حضور رحمت عالمیان علیہ الصلوۃ والسلام کی رحمت تمام مخلوقات کو اپنے دامن کرم میں لئے ہوئے ہے۔ جانور بھی اسی کریم آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں عرض کناں ہوتے اور حضور نبی رحمت علیہ الصلوۃ والسلام ان کے بوجھ ہلکے فرما دیتے۔ ان کو غموں کی چکیوں سے نجات دلا دیتے۔ حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ مظہر اخلاق مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ خالد نذیر صوفی ’’اقبال درون خانہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آپ جانوروں کے بڑے شوقین تھے، ان سے رفق و رحمت کا اظہار فرماتے۔ ایک روز ان کے ہمسائے نے مرغی کے بچے کو بے دردی سے مارا۔ اس کی ٹانگیں جسم سے جدا کردیں بس جب یہ خبر اس پیکر رفق و رحمت حضرت اقبال کو پہنچی۔ تلملا اٹھے، آنکھیں سرخ ہوگئیں، آگ بگولا ہوگئے، اتنے سیماب پا ہوئے کہ دن بھر چین نہ آیا۔ بار بار باہر جاتے، فرماتے اس ظالم کو اسی طرح ماروں گا جیسے اس نے اس بے زبان کے ساتھ کیا ہے۔ یہ گداز گوشہ قلب اقبال تھا کیونکہ ان کو نسبتِ محبت اس عظیم ہستی سے تھی جو سراپا رحمت تھے۔ رفق و رحمت بہت بڑی نعمت ہے جبکہ دل کی سختی عذاب الہٰی کی ایک صورت ہے۔

2۔ معادلت پسندی

معادلت پسندی اخلاقیات اسلام کا ایک عمدہ ترین پہلو ہے اور یہ زندگی کے ہر گوشے کو محیط ہے۔ مومن مقتصد، معتدل، متوازن اور میانہ رو ہوتا ہے۔ لا یجرمنکم سنان قوم علی تعدلوا میں معادلت پسندی کا زریں اخلاقی ضابطہ بیان ہوا ہے۔ غیر معتدل روش، غیر اخلاقی روش ہے۔ تعصب کی پٹی جب آنکھوں پہ بندھ جائے تو محاسن معاتب میں بدل جایا کرتے ہیں۔ یہ اسلامی اخلاقیات کا اخلاقیات عالم کے تقابل میں ایک امتیازی پہلو ہے۔ وگرنہ بڑے بڑے علم برداران اخلاق کے ہاتھوں سے دامن عدل جاتا رہتا ہے۔ مگر اسلامی اخلاق کا مقصود یہ ہے۔ اعدلوا ولو کان ذا قربی ہر گز ترازو عدل میں لرزش نہ آئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معلم اخلاق حسنہ نے معادلت پسندی کے نادر و نایاب مظاہیر پیش فرمائے۔

کتب احادیث و سیر میں منقول ہے کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر کے دوران اشعار سنے۔ امیہ بن الصلت کے اشعار تھے جو عہد جاہلیت کا قد آور شاعر تھا۔ پروانہ شمع مصطفوی سناتے رہے حتی کہ ایک سو اشعار بحضور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کمال درجے کی معادلت پسندی کا عملی مظاہرہ فرمایا۔ ’’صدقت صدقت‘‘ کے کلمات مبارک زبان اقدس سے فرماتے رہے۔۔۔ عہد جاہلیت کے ایک شاعر لبید کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح معادلت پسندانہ انداز اختیار فرمایا۔ امراؤ القیس کے لئے کتنی مبنی برصداقت اور مبنی بر عدل بات ارشاد فرمائی۔ مبصرین اور تجزیہ نگاروں کو ایک عظیم اصول تنقید عطا فرمایا۔ فرمایا الشعرا الشعرا قائد ہم الی التار۔ اس فرمان مقدس کے دو حصے ہیں۔

حصہ اول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امراؤالقیس کی شاعرانہ عظمت (Poetic Status) کو تسلیم فرمایا۔

دوسرے حصہ میں اس کی شاعری کی معنوی حیثیت کا تعین فرمایا۔ ہر چند کے وہ ’’قائد ہم الی النار‘‘ ہے لیکن قربان جایئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فکر اعتدال پسند کے تب بھی اس کے عمدہ گوشے کا ذکر فرمایا اور توجہ کیجئے کہ لائق تحسین گوشہ مقدم رکھا اور لائق مذمت گوشہ موخر رکھا کہ تحسین سے دل مائل ہوتے ہی، وحشی قائل ہوتے ہیں، نہ ماننے والے گھائل ہوتے ہیں۔ لہذا (Critical Style) تنقیدی اسلوب یہ ہی اختیار کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی لفظ گیری، بحر شناسی، قافیہ پیمائی، نکتی رسی اور صفت کاری کے گوشوں کو اولاً لائق تحسین قرار دیا۔ دامن کرم مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھام لیں تو ہدایت اصولی بھی میسر آتی ہے اور ہدایت تفصیلی بھی میسر آتی ہے۔ ہدایت قولی بھی میسر آتی ہے اور ہدایت فعلی و عملی بھی میسر آتی ہے۔

حضرت اقبال اسی خرمن سے وابستہ و پیوستہ تھے۔ آپ نے گوتم بدھ گورو نانک کی تحسین فرمائی۔۔۔ نطشے کے لئے مجذوب فرنگی کی اصطلاح وضع فرمائی۔۔۔ ’’دل مسلم دماغش کافر‘‘ کا کمال تنقیدی جملہ ارشاد فرمایا۔۔۔ غالب کی شعری عظمت کو سلام کیا۔۔۔ حافظ شیرازی سے شدید نظریاتی اختلاف کے باوجود ان کی شعری عظمت کا یہ اعتراف تھا کہ ان کے رنگ میں غزلیں لکھیں۔۔۔ امام مئے کستراں بھی کہا۔۔۔ ہری ہندو شاعر کے لئے کمال عالی ظرفی، وسعت قلبی اور معادلت پسندی کا اظہار فرمایا۔ بال جبریل کے ماتھے اسی کا شعر سجا ہے۔

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پہ کلام نرم ونازک بے اثر

یہ ہے حکیم الامت کی معادلت پسندانہ روش جو دراصل حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی ہے۔ ان کے ہاں یہ اخلاقی روش نجی زندگی سے لے کر بین الاقوامی امور کو محیط ہے۔ ان کی عالم گیر شہرت کی متعدد و وجوہ ہیں ان میں ایک عظیم وجہ معادلت پسندانہ روش ہے۔ الگ بات کہ ہم اپنوں کے محاسن کو چھپانے والے ہیں اور خدا نہ کرے اگر کوئی کمزور گوشہ ہاتھ لگ جائے تب تو ہم اس کی تشہیر کو فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ ہم غیروں کو کیا خاک اپنا بنائیں گے۔ ہم تو اپنوں کو غیر بنانے والے ہیں۔

3۔ اکرام ابوین

اسلامی نظام اخلاق (Comprehensive Ethical System) ہمہ گیر اخلاقی نظام ہے۔ اس میں تفریق مذہب و معاشرت نہیں ہے۔ تفریق مذہب و معاشرت مغربی فکر کا شاخسانہ ہے۔ اسلام (Unity of Religion and Society) وحدت مذہب و معاشرت کا قائل ہے۔ اکرام ابوین، احترام والدین اسلامی نظام معاشرت، نظام اخلاق کا ایک عمدہ ترین پہلو ہے۔ نظام ہائے عالم یں اسلامی نظام اخلاق کا امتیازی گوشہ ہے۔ لاتقل لہما اف میں والدین کے سامنے کف اللسان کا عظیم اخلاقی ضابطہ بیان ہوا۔ جہاں ہونٹ سل جائیں کیا وہاں حکم عدولی کا گمان کیا جاسکتا ہے۔ سراپا ادب و طاعت بنا دیا۔ سوءِ ادب سوءِ خلق کی جڑ کاٹ دی گئی۔ موجب آزار حرکات کا دروازہ بند کردیا گیا۔ حضور معلم کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حقوق والدین کی تاکیدات ارشاد فرمائیں اور حقوق والدین کے لئے وعیدات سنائیں۔ الجنت تحت اقدام امہاتہم میں والدہ کے بلند ترین احترام کا تصور دیا۔

حیات اقبال میں اکرام والدین، احترام والدین کے عجیب اور بلند ترین مظاہر ملتے ہیں۔ آنکھیں اشک ریز ہوجاتی ہیں۔ وہ اقبال جو دانش عصر، فلفسی عصر، عدیم النظیر مفکر تھے۔ کبھی جو ان کو والدہ کے قدموں میں دیکھیں تو دل بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ علو مراتب اقبال کی اصل وجہ یہ ہی ہے۔

(Stray Reflection of thoughts of Iqbal) ’’شذرات فکر اقبال‘‘ محترم ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے اوراق گواہ ہیں کہ حضرت اقبال خود فرماتے ہیں کہ ’’والدہ کے ہاتھوں کا لمس دنیا کے ہزار غموں کو غلط کرتا ہے۔ وہ اقبال اپنا سر نیاز والدہ کے قدموں میں جھکائے ہوئے ہیں۔ والد محترم کے ساتھ حسن سلوک اور اکرام و احترام کا معاملہ خوب تھا۔ لوگ انکو ان پڑھ فلسفی کہتے تھے۔ یہ وہ ہستی ہے جس نے اقبال جیسا ہیرا تراشا، ان کی حکیمانہ صحبت کا اثر تھا کہ اقبال میں شوقِ علم اور ذوق عمل پیدا ہوا۔ حضرت اقبال زندگی کے ہر مسئلہ پر ان کی رہنمائی کے طالب نظر آتے ہیں۔ حتی کہ ’’مثنوی اسرار و رموز‘‘ انہی کے حکم و ایماء سے لکھنے کا ارادہ فرمایا، اسی سے والد اقبال کے ذوق علم، سطح ادراک کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سو آپ نے تعمیل فرمان میں یہ دونوں مثنویاں لکھیں۔ آج کوئی ایسا عالم گیر شہرت کا حامل مغربی فکر کا دلدادہ، یورپ کا پروردہ ہوتا تو شاید وہ والد محترم کی ہی اصلاح کردیتا۔۔۔ اجی رہنے دیجئے بالائی سطح کی علمی مباحث ہیں مت آیئے۔۔۔ لیکن ہم اقبال اقبال کا ورد کرنے والے زرا رک کے اپنے احوال زبوں کا بھی جائزہ لیں۔ ہماری سوچیں، ہمارے معاملات کیا ہیں؟ ’’اسرار و رموز‘‘ کے دیباچہ میں آپ نے حافظ شیرازی کے ادبیاتی مزاج پہ اصولی تنقید کی ہے۔ وہ مبنی بر حقائق ہے وہ مبنی بر دلائل ہے۔ اس کا ردو قدح ممکن نہیں۔

والد گرامی کی خدمت میں حاضر ہوئے جیسے کوئی شاگرد استاذ محترم کی خدمت اپنا سبق سنانے اور اصلاح کے لئے ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے۔ والد اقبال کی قلبی مسرت کا عالم کیا ہوگا۔ اقبال جیسی نعمت جن کو میسر آئے ان کو خزائن الہٰی سے اور کیا چاہئے۔ وہ اقبال جن کے قلم سے ’’سکھلائے کس نے اسماعیل علیہ السلام کو آداب فرزندی‘‘ کا پرشکوہ اور پر تاثیر جملہ ادا ہوا۔ وہ محض حظ لسانی ہی نہیں لیتے بلکہ خود اس کی عملی تفسیر تھے۔ کلام اقبال اور حیات اقبال کا ایک ساتھ مطالعہ کریں تو یہ امر واضح ہوجاتا ہے۔ والد اقبال نے فرمایا بیٹے اگر آپ حافظ شیرازی کا نام نہ لیتے تو بہتر تھا۔ حافظ شیرازی کا نام لکھنے کی پاداش میں آپ پر تیرانِ ستم چلے وہ سب کو معلوم ہیں۔ خواجہ حسن نظامی جیسے محب دوست کے ماتھے پہ شکنیں آگئیں اور قلم بھی مائل بہ حرکت ہوا۔ طباعت ثانی میں حکم کا احترام کرتے ہوئے حافظ شیرازی کی جگہ ’’در اصلاح ادبیات اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے لکھا۔

قیام یورپ کے دوران والد محترم کو خطوط و مکتوبات لکھتے رہے۔ وہ خود کو والد محترم کی ملک سمجھتے تھے۔ ان کے قلب و نظر میں آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان جاں گزیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انت ومالک لابیک یہ باخبری گویا مِلک ہی کا تصور ہے۔

حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ لاہور میں مستقل مقیم ہوگئے تو آگہی احوال کا واحد ذریعہ خط و کتابت تھی۔ ’’مجموعہ مکاتیب اقبال‘‘ مرتبہ ڈاکٹر وحید قریشی کے صفحات گواہ ہیں فرماتے ہیں۔ ’’تعطیلات میں آپ کی زیارت کے لئے ضرور حاضر ہونگا‘‘۔ یہ محض رسمی جملہ نہیں، یہ محض عبارت آرائی نہیں بلکہ تہہ داری حضرت اقبال کا خاصہ ہے۔ یہ عبارت لفظاً حکم آقائے کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی تعمیل ہے۔ نظر محبت سے چہرہ والدین کو دیکھنا زیارت ہے۔ زیارت والدین کے لفظوں میں محبت و اکرام کی خوشبو ہے۔ مشام بند لوگوں کا کیا علاج ہے جو لفظوں کی اوٹ میں معنوں کی خوشبو سونگھ سکے۔ لفظیات اقبال سے معنوں کا سراغ مشام تیز کے بغیر ممکن نہیں۔

4۔ سادہ روی

تکلف اور تصنع اور سادہ روی اخلاقی حسن ہے۔ سادگی میں اخلاص کا پہلو ہے۔ موتی خواہ تاجِ شہی میں خواہ فرشِ زمیں پہ ہوں وہ موتی ہوتا ہے۔ ’’وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ‘‘ میں ترکِ تکلف کی تعلیم ہے۔ مفہوم مخالف (Voice Service) سادہ روی کا حکم ہے۔ حضور نبی اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا لباس مبارک سادہ، خوراک سادہ، طرزِ گفتگو سادہ، طرزِ نشت سادہ تھا۔ خزائن الارض جن کے دست مبارک میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قاسم خزائن خداوندی ہیں۔ کائنات تحت و فوق میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخ کا صدقہ بٹ رہا ہے۔ مگر سادہ لباس زیبِ تن فرماتے جوکی خشک روٹی تناول فرمانا معمول ہے۔

سیرت و سوانح حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کا مطالعہ کریں تو اقبال نقوشِ قدوم مصطفی علیہ الصلوۃ کے متلاشی ہیں۔ وہ کاملاً متبع اخلاقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ’’ملفوظاتِ اقبال‘‘، ’’سوانحی تذکارِ اقبال‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔۔۔ طرزِ نشست، طرزِ تکلم، طرزِ طعام، طرزِ مقام سادگی کا آئینہ دار ہے۔ ہر چند آپ عقبری عصر تھے۔ علوم و فنون کا بحرِ مواج تھے۔ جس موضوع پہ چل نکلتے بحرِ ناپیدا کنار نظر آتے لیکن گفت و تکلم میں سادگی کا عنصر ظاہر ہوتا۔ ایسے ہی علمی رعب کے لئے ثقیل اصطلاحات، دقیق الفاظ استعمال نہ کرتے۔۔۔ بات رس بھری کرتے۔۔۔ معانی و مطالب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہوتا۔۔۔ نہ کوئی پہلو تشنہ لب رہتا۔۔۔ نہ سامعین مجلس کے لئے بعید از فہم ہوتا۔ حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ

کَلِّمُوْا النَّاسَ عَلَی قَدْرِ عُقُوْلِهِمْ کا مظہر اتم تھے۔

ڈاکٹر رشید صدیقی صاحب جو اردو زبان و ادب کا ایک معتبر حوالہ ہیں سنجیدہ مزاح نگاری اور شخصی خاکہ نگاری میں اولیت کا شرف پایا۔ ’’گنجہائے گراں مایہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’حضرت علامہ کی شہرت عام اور مطبوعہ کلام کے بعد میں آپ کی زیارت کا مشتاق ہو گیا۔ یہ شوقِ ملاقات مجھے لاہور لے آیا۔ جانے ذہن میں کیا کیا خیالات آئے۔ نہ جانے ذہن میں آپ کے لئے کیا نقوش ابھرے۔ جب حاضرِ خدمت ہوا، ان دنوں آپ وکالت کے لئے جایا کرتے تھے۔ جلدی جلدی باہر تشریف لائے میں منتظر زیارت تھا۔ علی بخش جو آپ کے خادم خاص تھے ان سے فرمایا کہ یار علی بخش میرا قَلْمْ اندر رہ گیا ہے۔۔۔ اب کیا تھا کہ اس تلفظ کے سنتے ہی مرے تصورات کو ایک ضرب لگی پھر فرمایا کہ یار علی بخش بھائی رشید صدیقی کے لئے وہ ’’پھلودا‘‘ لاؤ۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں اب تو مرا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا۔ میں نے عرض کی حضرت یہ لفظ قَلْمْ نہیں ہوتا بلکہ قَلَم ہوتا ہے اور ’’پھلودا‘‘ نہیں ’’فالودہ‘‘ ہوتا ہے۔ آپ کی عالی ظرفی وسعت قلبی کہ سنتے رہے اور پھر فرمایا کہ آپ تو علی گڑھ کے پروفیسر ہیں! ہنستے ہنستے مرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا پس کیا تھا کہ حجابات میری نگاہوں سے اٹھا دیئے گئے۔ ملاء اعلیٰ سے انوارِ علم کا ورود آپ کے وجود پہ ہورہا تھا۔ میں دست بستہ کھڑا ہوگیا۔

یہ تو آپ کی سادہ مزاجی تھی کہ آپ گھر کے ماحول میں ٹھیٹھ پنجابی بولتے۔ تکلف کا شائبہ تک نہیں تھا۔ جب لب کھولتے موتی رلاتے۔

ملبوسات اقبال میں سادگی کا کمال درجے کا اظہار ہوتا۔ ’’روزگارِ فقر‘‘ میں وحیدالدین فقیر نے آپ کے سادہ ملبوسات کا عمدہ نقشہ کھینچا ہے۔ وہ قطعاً تکلفات کے قائل نہ تھے۔ وہ فقیر و درویش تھے۔ وہ گدڑی میں لعل تھے۔ کفالتِ ضروریات ان کا نقطہ نظر تھا۔ وہ چاہتے تو عالی شان محل تعمیر کراسکتے تھے۔۔۔ ٹھاٹ سے زندگی گزارتے۔۔۔ خدام کی ایک قطار ہاتھ باندھے کھڑی ہوتی۔

فقر اختیاری کا منظر ہمیں سیرتِ اقبال میں بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ سید نذیر نیازی۔ ’’اقبال کے حضور‘‘ میں کہتے ہیں کہ آپ جس مکاں میں رہائش پذیر تھے اس کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ 120 روپے کرایہ دیتے۔ بڑا معقول کرایہ تھا۔ آپ کے کسی دوست نے کہا کہ حضرت آپ مکان بدل کیوں نہیں لیتے۔ اتنے کرایہ میں تو عمدہ مکاں مل سکتا ہے لیکن آپ کے دل کی ڈوریاں مکین گنبد حضریٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔ یہ فقر و سادگی آپ کی اختیاری تھی۔ یہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کی اتباع کا مظہر تھی۔ اس قدر عالمگیر شہرت جو ان کو زندگی میں ملی۔ ان کے نہاں خانہ دل میں کبھی اس خو نے انگڑائی نہ لی کہ وہ عظیم رہائش گاہ بناتے۔ اب جو جواب مرہمت فرمایا وہ بھی سنیے اور دلوں میں محبت اقبال کو اور راسخ کیجئے۔ فرمایا ’’یہ گھر دو یتیم بچوں کا ہے جن کا کوئی کفیل نہیں ہے‘‘۔

اقبال محض اخلاقی انداز کے حامل نہ تھے بلکہ کفش بردارئ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو اعزاز سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر منہاج الدین ’’افکار و تصورات اقبال‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب مسجد شہید گنج کا مسئلہ درپیش تھا تو کسی رئیس کے ہاں ٹھہرنا ہوا۔ ہند کے تین بڑے وکلاء اور دانشوروں کو اکٹھا کیا گیا تاکہ کوئی راہِ عمل طے کی جائے۔ علامہ خود فرماتے ہیں کہ ’’پُرتکلف بستر دیکھتے ہی میرے دل میں خیال آیا ’’اقبال تو جس سخی سے محبت کرتا ہے وہ تو گداز بستر استعمال نہ فرماتے تھے۔ محبت اس سخی سے اور بستر گداز، آنکھیں گوہر بار ہو گئیں دوسرے احباب آرام سے نیند کرتے رہے لیکن میں رات بھر نہ سو سکا‘‘۔

یہ حضرت اقبال ہیں یہ ان کے سیرتی محاسن ہیں۔ یہ ان کے سوانحی گوشے ہیں۔ یہ ان کے اخلاقی محاسن ہیں۔ خورد و نوش طعام میں بھی سادگی کا کمال کا عنصر تھا۔ غذاؤں کے معاملہ میں سادگی پسند تھے جو دراصل سادگئ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی تھی۔ ’’مکتوبات اقبال‘‘ مرتبہ شیخ عطا اﷲ بعنوان ’’اقبال نامہ‘‘ کے اوراق گواہ ہیں۔ خود فرماتے ہیں کہ اپنے والد گرامی کو اپنی غذاؤں کے متعلق آگاہ کیا، فرمایا ’’میں غذاؤں میں سرکارِ ابد قرار علیہ الصلوۃ والسلام کی پیروی کرتا ہوں‘‘۔

5۔ حمیّت و تصلّب

اخلاقی اقدار سلبی اور ایجابی دونوں صورتوں میں ہیں۔ سلبی اور منفی اقدار کا نام ہمارے ذہنوں میں تشکیک کے کانٹے پیوست کرتا ہے۔ کلمہ طیبہ میں سلب مقدم ہے نفی معبودان باطلہ مقدم ہے اور اثبات الہ واحد موخرہے۔ ومن یکفر بالطاغوت ویومن باللہ میں کفرِ طاغوت مقدم ہے اور ایمان باللہ موخر ہے۔ تعارف اصحاب مکرم میں اشد علی الکفار مقدم ہے اور رحماء بینہم جو کہ ایجابی ذکر ہے موخر ہے۔ اہل تصوف و سلوک میں ترک معاصی مقدم ہے اور پابندی طاعات موخر ہے۔ حمیت و تصلب ہر چند کے ایک سلبی قدر ہے لیکن اس کے بغیر تکمیل شخصیت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ایک تعصب مذموم ہے جبکہ دوسرا تعصب محمود ہے۔ جن کے عواقب خیر (Good consequences) ہوں وہ خیر ہے اورجس کے اثرات بد ہوں وہ مذموم ہے۔ من دعا الی عصبیتہ فلیس منا۔ میں مذموم حمیت کی مذمت ہے۔

اف لکم ولما تعبدون من دون الله.

میں اسوہ براہیمی نظر آتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معلم اخلاق حسنہ نے فرمایا کہ اے چچا جان اگر یہ لوگ مرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے میں چاند رکھیں تو تب بھی میں کلمہ حق ترک نہ کروں گا اور ردو ابطال بتان باطلہ ترک نہ کروں گا یہ حمیت محمود ہے جو ننگی تلوار بن جاتا ہے۔ اعداء دین کی زبان نوچ لیتا ہے۔

سیرت و سوانح اقبال کا اگر باریک نظری سے مطالعہ کریں تو حمیت اور تصلب کے متعدد مظاہر اور امثال میسر آتی ہیں۔ ڈاکٹر ایس ایم منہاج الدین اقبال کی حمیت دینی کا خوب ذکر اپنی کتاب ’’افکار و تصورات اقبال‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ایک یورپی یونیورسٹی کی طرف سے لیکچرز کے لئے دعوت نامہ ملا اور بیگم اقبال کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ انہوں نے وضاحتاً لکھ دیا کہ تہذیبی و تمدنی ماحول کا تو آپ کو علم ہے ہی لہذا اس کو ملحوظ رکھا جائے۔ حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کمال درجہ حمیت دینی کا مظاہرہ فرمایا، خط کے پرزے پرزے کردیئے۔۔۔ آگ بھگولا ہوگئے۔۔۔ تن بدن میں آگ لگ گئی۔۔۔ کاغذ قلم منگوایا اور فوراً جواب لکھا۔۔۔ اندازہ لگایئے قلب میں حمیتِ دین کس قدر راسخ ہوچکی تھی جواباً لکھا۔ ’’ہر چند اقبال خطاکار و روسیاہ ہے لیکن اپنے نبی محترم علیہ الصلوۃ والسلام سے روگردانی ہرگز نہیں کرسکتا، مجھے ایسے لیکچرز ہی نہیں دینا‘‘۔

عصر رواں میں کوئی (Modernist) ہوتا تو جانے کیا کیا تاویلات کرتا۔۔۔ کہتا مغربی تہذیب کی بات ان کے ہاں چونکہ پردہ نہیں ہے لہذا انہوں نے بات اپنے تہذیبی و تمدنی ماحول پہ کی ہے۔۔۔ مجھے تو دعوت الی الحق دینا ہے۔۔۔ رہ گئیں اخلاقی اقدار کی پاسداری وہ اپنے ملک میں جاکے کرلیں گے۔۔۔ (Career Making) کریں حمیت دین کو رہنے دیں۔۔۔ لیکن وہ حضرت اقبال پیکر حمیت و تصلب تھے۔ انہوں نے وہ مظاہرہ کیا جو ایک پیکر حمیت کے لئے تقاضا کیا جاتا ہے۔ آج اقبال ہوتے تو ہمارے نام نہاد محققین اسلام ان کو رجعت پسند (Traditionalist) کہتے یا بنیاد پرست (Fundamantlist) کے دیدہ زیب القابات سے بہرہ ور فرماتے۔ حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ سرکار ابد قرار علیہ الصلوۃ والسلام کی زلف پُر پیچ کے اسیر تھے۔ ان کے سر میں سودائے عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا۔ وہ مست چشم ساقی بطحا علیہ الصلوۃ والسلام کے بادہ خوار تھے۔ جب سے ان کی آنکھوں نے چہرہ والضحیٰ کو دیکھا تھا وہ انہی کا نعرہ مستانہ الاپتے تھے۔ یہ حمیت بدولت محبت ہے۔ یہ حمیت مظہر محبت ہے۔

ڈاکٹر طاہر فاروقی ’’اقبال اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ میں لکھتے ہیں آپ کی مجلس میں آمدو رفت کا سلسلہ جاری رہتا تھا، ایک روز کسی نے دوران گفتگو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی بے تکلف لے لیا۔ بس کیا تھا کہ وہ حمیت محبانہ جو حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے رگ و ریشہ میں سرایت کئے ہوئی تھی آتش گیر مادہ کی طرح بھڑک اٹھی۔ دوسرے لمحے اس کو مجلس سے اٹھا دیا۔ آنکھوں سے آنسوؤں کا نہ تھمنے والا سیلاب تھا۔ ہچکی بندھ گئی اور زبانِ حضرت اقبال سے جملہ ادا ہوا ’’یہ کیسے لوگ ہیں جن کو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی لینے کا ادب نہیں آتا‘‘۔ یہ مظاہرہ حمیت محبانہ ہے وہ ذرہ بھر اہانت و استخفاف برداشت نہیں کرتے تھے۔ ’’روزگار فقیر‘‘ میں وحیدالدین فقیر لکھتے ہیں کہ اقبال نے فرمایا ’’اگر کوئی یہ کہے کہ اک روز مرے آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے میلے کپڑے زیب تن فرمارکھے تھے تو میں اس کو مبنی بر اہانت سمجھتا ہوں۔ اس کو واجب القتل، مباح الدم سمجھتا ہوں‘‘ یہ حمیت و تصلب محبت کے بغیر ممکن نہیں، اسی سے شخصیتِ اقبال کی تکمیل ہوتی ہے۔ حمیت دین کو حضرت اقبال غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ غیرت و حمیت درویش کے لئے تاجِ سرِ دار ہے۔ مومن کے استکمالِ ایمان کے لئے جزو لازمی ہے۔

6۔ حفظ اللسان

زبان مظہر شخصیت ہے قولوا للناس حسنًا میں حسنِ استعمالِ زبان کی تعلیم ہے۔۔۔ اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِه وَيَدِه میں لسانہ کو مقدم رکھا گیا۔۔۔ اس میں حفظ اللسان کا پہلو ہے۔ فلیقل خیر و لیصمت میں تراغیب قول خیر یا صمت و سکوت یعنی محافظت زبان کا پہلو ہے۔۔۔ قَوْلٌ مَعْرُوْفٌ خَيْرٌ مِنْ صدقه میں عمدہ بات کہنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ انبیاء مرسلین علیہم الصلوۃ والتسلیم حفظ اللسان کی عمدہ ترین عملی تفسیر تھے ہر چند کہ لسانی ایذاء سب سے زیادہ انہیں ہوا ہے لیکن یہ ظرف پیغمبرانہ تھا کہ گالیاں سنتے رہے اور دعائیں دیتے رہے۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاحب لواء الحمد کے ہونٹوں پہ ہمیشہ دعا کے مبارک کلمات سجے۔ پتھر برسانے والوں اور لسانی ایذائیں دینے والوں کے لئے فرمایا اَللّٰهُمَّ اِهْدِ قَوْمِیْ فَاَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ. سیرت و سوانح اقبال میں حفظ اللسان کا پہلو ایک بلند ترین اخلاقی قدر کے طور پر موجود ہے۔ اقبالیاتی ادب میں سیرت و سوانح کا جتنا ذخیرہ موجود ہے ورق ورق چھانٹ لیجئے۔ ایک حوالہ بھی نہ ملے گا مستزاد یہ ہے کہ ایک جملہ بھی نہیں ملے گا ہر چند ان کو تاریخ ساز اور عبرت ناک ایذائیں دی گئیں۔۔۔ حسد و منافرت نے کیا کیا گل کھلائے۔۔۔ کن کن طریقوں سے کردار کشی کی گئی۔۔۔ ان کی شخصیت کو مجروح کرنے کے لئے کتنا زور قلم صرف ہوا اور یہی امر حق ہے جو محبوب تر ہوتا ہے۔ وہ محسود تر ہوتا ہے لیکن آپ نہ کبیدہ خاطر ہوتے اور نہ ہی گراں محسوس کرتے۔۔۔ نہ ہی ضیق قلبی کا مظاہرہ فرماتے۔۔۔ پھل دار درختوں کو دنیا پتھر ہی تو مارا کرتی ہے۔ پیغمبرانہ اتباع میں جو دعوت حق دی جائے گی لا محالہ ایذاؤں کا سامنا کرنا ہو گا۔

حضرت علامہ اقبال تنقید کے پیالے کو مسکراتے ہوئے پی گئے۔ تحریر اور تقریر میں ایک جملہ بھی جوابی نہیں فرمایا۔ کم گوئی، صمت اور سکوت کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ ’’اقبال کے حضور‘‘، ’’روزگار فقیر‘‘، ’’حیاتِ اقبال‘‘، ’’سیرتِ اقبال‘‘ کا مطالعہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ یہ آپ کا طبعی خاصہ تھا۔ آپ اکثر خاموش رہتے۔ پہروں کے پہر زبان پہ سکوت کا پہرہ رہتا۔ سوچوں کے گہرے سمندروں میں ڈوبے رہتے۔ بسیار گوئی شخصیت کو مجروح کر دیتی ہے۔ کم گفتن اہل تصوف کا مشرب ہے۔ جب بولتے مختصر، جامع، مطابق واقعہ بولتے۔ رکیک اور متبذل گفتگو کا گزربھی آپ کے پاس سے نہ ہوا۔ گفتگوئے اقبال کے ادبی فکری، علمی، لسانی محاسن کے ساتھ ساتھ اخلاقی محاسن کا گوشہ از خود توجہ کا طالب ہے۔ یہ ان کی پاکیزہ شخصیت کا عکس ہے۔ کم گوئی اور خوب گوئی کا حسین امتزاج ہے۔ حکیم الامت کی مجلس میں بیٹھنے والے گویا سمندر کنارے بیٹھتے تھے جس کے ہر مد و جزر میں جواہر کا انبار ہوتا تھا۔ حسبِ استعداد ہر ایک اپنا دامن گوہروں سے بھرتا۔ حضرت اقبال خوش گو بھی تھے۔ مصنوعی رعب و جلال ان کے پاس سے نہ گزرا تھا۔ ان کی شگفتہ کلامی میں دل آزاری کا پہلو نہ تھا۔ ہمیشہ زیر لب تبسم فرماتے۔ مرغی کے بچوں کے لئے فرماتے: ’’بھائی فوج کو میرے کمرے سے نکال دو‘‘۔

’’گفتار اقبال‘‘ میں افضل حق کہتے ہیں کہ ایک علمی مذاکرہ میں اقوام متحدہ کے کردار پہ روشنی ڈال رہے تھے۔ فرمایا: ’’اقوام متحدہ نہیں بلکہ اقوام مُفسِدہ ہے‘‘۔ فرماتے ہیں: ’’ایک روز ابلیس آرام دہ کرسی پر بیٹھا تھا۔ اس کے چیلوں نے پوچھا: آپ آرام فرما رہے ہیں کیا کام مکمل ہو گیا۔ ابلیس نے کہا: جب سے اقوام متحدہ بنی ہے ہمیں تکلیف کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔

آپ خشک طبیعت کے مالک نہ تھے۔ بزلہ سنج، شگفتہ گو اور بے ضرر شخصیت کے مالک تھے۔ پس اقبال کے لئے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ وہ مظہرِ اخلاقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور اُن کی گفتگو و اعمال سے محبت و سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض جھلکتا دکھائی دیتا تھا۔