چیف ایڈیٹر

حالیہ انتخابات کے ذریعے پاکستانی عوام نے ملک کا سیاسی منظر نامہ خاصی حد تک تبدیل کردیا ہے۔ ملک بھر سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیاں تشکیل دے دی ہیں۔ اکثریتی عوامی پارٹی کی حیثیت سے پی پی نے اپنی اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے ملتان کے سیاسی اور روحانی خانوادے کے چشم و چراغ سید یوسف رضا گیلانی کو بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب کروالیا ہے۔ اسی طرح چند دنوں میں چاروں صوبائی حکومتیں بھی جمہوری نظام کے تحت اپنا اپنا کام شروع کردیں گی۔ ملکی تاریخ کے یہ 13 ویں قومی انتخابات کئی اعتبارات سے خصوصی اہمیت کے حامل تھے۔ ان انتخابات کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس مرتبہ لوگوں نے ملک کی تقدیر پر مسلط آمریت کے خلاف اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق حکومت میں شامل جملہ وزراء بری طرح ناکام ہوئے اور اب تک کے اقدامات میں پرویز مشرف مسلسل تنہا ہوتے چلے جارہے ہیں۔ جو کل تک ان کے ’’خوانِ نعمت‘‘ پر اُوندھے منہ گرے پڑے تھے اور صبح شام عوامی جذبات کے برعکس صدر کا کلمہ پڑھتے نہیں تھکتے تھے آج وہ بھی حقیقی جمہوریت اور خود مختار پارلیمنٹ کو سراہتے نظر آرہے ہیں۔

ملک میں جاری وکلاء کی تحریک دوسرا بڑا ایشو تھا جس نے 9 مارچ 2007ء سے 18 فروری 2008ء تک ایک دن کے وقفے کے بغیر عوام و خواص کو مشرف حکومت کے خلاف بھڑکادیا تھا۔ یہ تاریخی احتجاج جو اب بھی جاری ہے، چیف جسٹس کے ایک حرفِ انکار کی کوکھ سے پھوٹا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سارے ماحول کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس انقلاب میں وکلاء برادری نے حیرت انگیز طور پر اتفاق و اتحاد اور جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اور یہ تحریک آج بھی اس تعمیری جذبے کے تحت جاری و ساری ہے۔ ان انتخابات کو فیصلہ کن بنانے میں تیسرا بڑا فیکٹر محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہے جس نے پہلے سے بدتر حالات میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ محترمہ کا خون رنگ لایا اور آج ان کی پارٹی ملک کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی بن کر اُبھری ہے۔ ان کے شوہر محترم آصف علی زرداری اس وقت دو شہیدوں کی امانت سنبھالے ہوئے ہیں اور ملکی تاریخ کے اہم فیصلے کررہے ہیں ’’یہ انقلابات ہیں زمانے کے‘‘۔ حالیہ انتخابات میں عوام کو حکومتی انتظامیہ کے مخالف کیمپ میں لاکھڑا کرنے والا چوتھا بڑا سبب مہنگائی اور بنیادی ضروریات زندگی (گیس، بجلی، آٹا وغیرہ) کا بحران تھا جس کی براہ راست ذمہ داری درآمد شدہ وزیراعظم شوکت عزیز اور انکی خوشامد پرست کابینہ تھی۔ علاوہ ازیں اس عرصہ میں بدامنی، عدم تحفظ، لاقانونیت اور ملک گیر کرپشن کی لعنت بھی خاصی عام ہوچکی ہے۔ ان اسباب کی وجہ سے مجموعی طور پر جو ماحول وجود میں آیا اس نے عوامی انتقام کی صورت اختیار کرلی۔ یہی انتقامی عوامی جذبات اب بہتری کی امیدیں لئے آئندہ حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ چنانچہ یہی چار پانچ بنیادی مسائل اس حکومت کے لئے بڑا امتحان بھی ہیں۔ ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے تمام مثبت جمہوری قوتوں کا یکجا ہوجانا وقت کی اہم ضرورت تھی۔ اللہ کرے یہ مختلف الخیال جمہوری قوتیں ملکی بقاء اور عوامی خوشحالی کے ایجنڈے پر متفق رہیں اور ماضی کی طرح ان پر پردۂ غیب سے ان دیکھی قوتیں اثر انداز نہ ہونے پائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک طرف ہمارے نو منتخب سیاسی قائدین کا قومی ایجنڈا ہے جس کے تحت انہیں معیشت، دفاع، تعلیم، صحت، سماجی ترقی، توانائی اور خوراک جیسے بحرانوں سے قوم کو بحفاظت نکالنا ہے تو دوسری طرف ہمارے ’’آقائے نعمت‘‘ امریکہ کا اپنا ایجنڈا ہے جس کی تکمیل وہ ہمارے انہی حکمرانوں کے ذریعے کرنا چاہتا ہے۔ لیکن الیکشن نتائج نے صورت حال یکسر بدل دی ہے جو امریکہ اور یورپی ممالک کے لئے پریشان کن ہے۔ نہ تو وہ جمہوری فیصلوں کی کھل کر مخالفت کرسکتے ہیں اور نہ اپنے آئندہ ’’پروگرام‘‘ سے روگردانی کرسکتے ہیں۔ تاہم پاکستان کی حالیہ عسکری اور سیاسی قیادت نے بڑے واضح اور مناسب الفاظ میں اپنی آئندہ خارجہ پالیسی کا اظہار کیا ہے۔

گذشتہ ہفتے پاکستان کے ہنگامی دورے پر بن بلائے امریکی مہمانوں کو خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اعلیٰ امریکی عہدیدار جان نیگرو پونٹے اور رچرڈ باؤچر نے خلافِ معمول پاکستان کے جمہوری قائدین سے اصولی موقف سن کر بظاہر ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا اور الٹے پاؤں واپس چلے گئے ہیں۔ البتہ اپنی خواہشات کا اظہار انہوں نے کچھ اس طرح سے کیا کہ ’’پاکستان کی آئندہ حکومت کو سرحدی علاقوں میں مزاحم قوتوں کے ساتھ صلح و صفائی کی کوئی کاوش نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ان میں بعض لوگ مذاکرات کی زبان نہیں سمجھتے اور وہ پاکستان سمیت امریکہ اور دنیا کے لئے حقیقی خطرہ ہیں‘‘۔ امریکی عہدیدار ہمیشہ اسی طرح کے خطرات کو محسوس کرنے میں پہل کرتے ہیں۔ جس طرح عراق میں انہیں صدام کے ’’خطرناک‘‘ ہتھیاروں کی بُو سات سمندر پار پہنچ گئی تھی۔ لیکن اب 5 سال مکمل ہونے کے بعد بھی امریکی افواج اور ان کے کسی تھنک ٹینک کو ان خطرناک ہتھیاروں کا اتہ پتہ نہیں مل سکا تاہم دنیا کا ایک بہترین ملک بارود کے ڈھیر میں ضرور بدل چکا ہے۔ اس لئے مسائل کے حل کا پرامن راستہ ان کے ہاں قابل قبول نہیں۔ کیوں کہ وہ مسلمانوں کو بالعموم اور ایٹمی پاکستان کو بالخصوص عراق اور افغانستان کی طرح خون میں لت پت دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ اپنی سلامتی کی خاطر یہ لڑائی گذشتہ آٹھ سالوں سے ہماری سرزمین پر لڑ رہا ہے جس میں ہماری افواج اورہمارے نوجوان دونوں طرف سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔

امریکہ کو دوسری بڑی بے چینی یہ ہے کہ پاکستانی فوج تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام کی نظروں میں متنازعہ ہورہی تھی اور اس پر ملک کے طول و عرض میں حملے بھی شروع ہوچکے تھے لیکن حالیہ عسکری اور سیاسی قیادت نے صدر پرویز مشرف کے ملک دشمن رویے کے برعکس فوج کو سیاست سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے جس پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔ رہا فاٹا میں خانہ جنگی کا مسئلہ تو اس میں بھی مقامی طالبان کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے آثار نظر آرہے ہیں اور تمام مسائل کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لاکر باہمی مشاورت سے حل کرنے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ یہ رویہ بھی شخصی آمریت کی من مانیوں کے برعکس ہے اس لئے امریکی قوتوں کی پریشانی میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔

مدعائے عرض یہ کہ اس وقت ایک ایجنڈا پاکستان کے خیر خواہوں کا ہے اور ایک ایجنڈا اس کے دشمنوں کا ہے۔ 18 فروری کو عوام نے بڑی ہوشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کی خیر خواہ قوتوں کو زمام کار اپنے ہاتھوں میں لینے اور وطن عزیز کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا سنگ میل بنانے کے لئے مینڈیٹ دیا ہے۔ اب یہ آئندہ کی حکومتی حکمت عملی بتائے گی کہ اجتماعی شعور فتح حاصل کرتا ہے یا ملک دشمن مہرے کامیاب ہوتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم نے دو سال قبل فروری 2006ء کے شمارے میں قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کا وہ تفصیلی مراسلہ شائع کیا تھا، جس میں انہوں نے UNO, OIC اور عالمی برادری کی تمام بااختیار شخصیات کو تاریخی دلائل کے ساتھ باور کروایا تھا کہ مغربی ممالک کا میڈیا غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار ئے ہوئے ہے اور وہ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مسلمہ مذہبی و دینی عقائد، محترم شخصیات اور مقدس شعائر کی توہین پر کمربستہ ہے۔ مغربی میڈیا کا یہ اقدام دنیا کے امن کو خطرناک تہذیبی تصادم میں جھونکنے کا باعث بن رہا ہے۔ لیکن دو سال کی خاموشی کے بعد اب دوبارہ ڈنمارک اور سویڈن کے اخبارات اور کچھ شرپسند افراد نے ایک مرتبہ پھر قرآن حکیم، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر انبیائے کرام کی شان میں گستاخی کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ پوری دنیا ان کی اس نازیبا حرکت پر احتجاج کررہی ہے حتی کہ OIC اور UNO نے بھی سویڈن میں بننے والی رسوائے زمانہ فلم کی مخالفت کی گئی ہے مگر کیا مجال کہ پرامن بقائے باہمی کے نعرے لگانے والا یہ یورپی ملک ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے سے ایک لمحے کے لئے بھی باز آیا ہو۔ معلوم نہیں عالمی سچائیوں اور مقدس ترین ہستیوں کی شان میں گستاخی کرکے ان شیطان صفت لوگوں کو کیا سکون ملتا ہے۔ کونسی انسانی خدمت بجا لانے کے لئے یہ ابلیسی کھیل کھیلا جارہا ہے، یہ کونسی تہذیب اور کون سی آزادی کے علمبردار ہیں؟ اپنی ان حرکتوں پر غور نہیں کرتے مگر جب مسلمانوں کے سخت اور جذباتی ردعمل کا سامنا کرتے ہیں تو پوری دنیا میں مسلمانوں کو جذباتی، بنیاد پرست اور دہشت گرد کا نام دیتے نہیں تھکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اقوام بدتہذیبی کا مظاہرہ کررہی ہیں اور ان نازیبا سرگرمیوں سے دنیا کو خطرناک تہذیبی تصادم کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ ایسے میں اہل فکر و نظر عالمی راہنماؤں کو انسانیت کے ان دشمنوں کا نوٹس لینا چاہئے۔ اسلامی نظریاتی ملک پاکستان کو بجا طور پر قریہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہا جاتا ہے، گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف مناسب کاروائی اس ملک کی نو منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کا اولین فریضہ ہے۔ وزیراعظم نے جن قومی ترجیحات کا اعلان کیا ہے ان میں حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحفظ سرِ فہرست ہونا چاہئے۔ اس لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان عالم اسلام کی رہنمائی کرتے ہوئے اسلامی ممالک کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ متحد ہوکر عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کریں۔ حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے عالمی سطح پر قانون سازی کی جانی چاہئے۔ بصورتِ دیگر کفر دن بہ دن دلیر اور ہٹ دھرم ہوتا جائے گا۔ 57 اسلامی ممالک ملکر بھی اگر چھوٹے چھوٹے دو یورپی ممالک کو شرمناک حرکت سے باز نہیں رکھ سکتے تو دنیا میں کروڑوں مسلمانوں سمیت ان کی حکومتوں کا وجود بے معنی ہوجائے گا۔