الحدیث : وہ جن کی محبت جانِ ایمان ہے

علامہ محمد معراج الاسلام

عَنْ اَنَس رَضِیَ اللّٰهُ عَنْه، قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم لَا يُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَيْهِ مِنْ وَالِده وَوَلَدِه وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْن. (متفق عليه)

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ میں اسے، اس کے ماں باپ، آل اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہوجاؤں‘‘۔

شرح و تفصیل

محبت کی دو قسمیں ہیں :

  1. طبعی
  2. عقلی

1۔ طبعی محبت وہ ہے جو کسی کی دلکش ادا، حسین حرکت، گفتار، رفتار یا کسی اور بات سے متاثر ہوکر پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ کسی کے اختیار میں نہیں ہوتی اس لئے طبعی محبت یہاں مراد نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول کسی ایسی چیز کا حکم نہیں دیتے جو انسان کی استطاعت سے باہر ہو۔

لا يکلف اللّٰه نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَهَا.

’’ بے شک اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اسی کام کا حکم دیتا ہے جو اس کی طاقت میں ہو‘‘۔

2۔ عقلی محبت وہ ہے، جو کسی ذات میں موجود اعلیٰ و قابلِ قدر اوصاف اور انسانیت کے لئے اس کی افادیت کے حوالے سے، دل میں پیدا ہوتی ہے۔ چونکہ عقل و فکر کی قوتیں یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ اس مفید و مبارک اور برتر و فائق انسان سے محبت کی جائے اس لئے اسے محبت عقلی کہتے ہیں، یہ انسان کے اختیار و تصرف میں ہوتی ہے۔

حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی ابتدائی زندگی کا یہ واقعہ اس حقیقت کی بہترین مثال ہے، آپ دربار نبوت میں حاضر ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استفسار فرمایا :

ذرا اپنے دل کی کیفیت تو بیان کرو، صرف ہماری ہی محبت اس میں موجود ہے یا کسی اور کی محبت کی بھی گنجائش ہے؟ جناب عمر رضی اللہ عنہ نے بڑی صاف گوئی سے کام لیا اور عرض کی اس دل میں فرزند و زن، مال و متاع اور اپنی ذات کی محبت ہی موجود ہے۔

حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیض رسانی اور تکمیل ایمان کے لئے حضرت عمر کے سینے پر ہاتھ مارا اور پوچھا : اب کیا کیفیت ہے؟ عرض کی : اہل و عیال، مال و متاع اور دنیاوی رشتوں کی محبت تو دل سے نکل گئی ہے البتہ اپنی ذات کی محبت ابھی تک موجود ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید کرم فرمایا ایک مرتبہ پھر سینے پر ہاتھ مارا اور پوچھا : اب کیا حال ہے؟ حضرت عمر نے عرض کی : اپنی ذات کی محبت بھی دل سے نکل گئی ہے اب صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ذات، تمام تر شانِ محبوبی کے ساتھ دل میں باقی رہ گئی ہے اور محسوس کررہا ہوں کہ اپنی جان قربان کردینا بھی میرے لئے کچھ مشکل نہیں ہے اب تو یہ حال ہے کہ جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔

چنانچہ احساس و شعور کے ساتھ نگاہوں سے پردے ہٹتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی : میں حقیقت تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی جان ایمان ہیں اور ہماری جانوں سے بھی زیادہ عزیز و محبوب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اس بات کے حق دار ہیں کہ سب سے زیادہ اور سب سے بڑھ کر چاہے جائیں، مومنین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جان سے بھی زیادہ محبوب بنالیا ہے، اب مجھے اپنی جان نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان عزیز ہے۔

اس پر سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں یہ مژدہ سنایا کہ اب تمہارا ایمان مکمل ہوگیا ہے۔

زبانی جمع خرچ کا نام محبت نہیں ہے کہ انسان زبان سے عشق و محبت کے دعوے کرتا رہے اور اس کا کردار و عمل کچھ اور ہی ہو بلکہ اس کے برعکس محبت کے کچھ ضابطے، آداب اور تقاضے ہیں، جنہیں ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے، وگرنہ دعوے دار جھوٹا اور کاذب قرار پاتا ہے۔

محبت کی علامات

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کی دو علامات ہیں :

1۔ پہلی علامت یہ ہے کہ عاشق امتی کے دل میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی خواہش پیداہوجائے وہ ہر کام میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع کا لحاظ کرنے لگے اور اس کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوجائے کہ معلوم کرے کونسا کام سنت ہے، تاکہ اس کی پیروی کرسکے اور کونسا کام خلاف سنت ہے تاکہ اس سے دامن بچا سکے، احیاء سنت کا یہ جذبہ محبت کی پہلی علامت ہے۔

2۔ دوسری علامت یہ ہے کہ امتی کے دل میں یہ شوق پیدا ہوجائے کہ کاش! وہ دور صحابہ میں ہوتا جبکہ محبوب کوچہ و بازار میں، گھر میں اور مسجد میں، سفر میں اور جہاد میں، اپنوں اور بیگانوں میں، آتے جاتے تھے حسن و جمال کے جلوے ارزاں اور عام تھے، عوام و خواص کو یہ سہولت حاصل تھی کہ جب چاہیں آکر دیدار کرلیں اور دل کو تسکین دے لیں، اس طرح میں اگر اس دور میں ہوتا توجمالِ یار کے جلوؤں کو نہاں خانۂ دل میں سمیٹتا اور جی بھر کر رخ پرنور کا دیدار کرتا، لیکن دوسرے ہی لمحے جب اسے یہ احساس ہوکہ یہ نعمتِ عظمیٰ اس سے چھن گئی ہے اور وہ اس نایاب دولت سے محروم ہے تو اس کا دل بے قرار ہوجائے اور اسے ویسا ہی صدمہ پہنچے جیسے ایک عاشق کو اپنے محبوب کی ناگہانی جدائی سے پہنچتا ہے۔

اس حدیث میں ایک نکتہ قابل غورہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں اپنی محبت کا ذکر کیا ہے کہ جب تک یہ سب محبتوں پر غالب نہ آجائے، ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔

ایک خلش کا ازالہ

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ شان تو اللہ کی محبت کی ہونی چاہئے کہ جس کی شدت کے بغیر ایمان مکمل نہ ہو اور جب یہ محبت سب محبتوں پر غالب آجائے تو ایمان مکمل ہوجائے۔ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اگرچہ یہاں اللہ کی محبت کا ذکر نہیں کیا گیا مگر بہر صورت اللہ کی محبت ہی مراد ہے اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور رسول دونوں کی محبت تمام فانی محبتوں اور خونی رشتوں کی محبت پر غالب ہونی چاہئے، تب ایما ن مکمل ہوتا ہے۔

گویا ذکر، محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے اور مراد محبتِ الہٰی ہے، محبتِ رسول کو خصوصیت سے ذکر کرنے اور تکمیلِ ایمان کے لئے ضروری قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ سب کو معلوم ہوجائے کہ آپ غیر محدود اعلیٰ اوصاف و خصائل کے مالک ہیں، قدرت نے آپ کو منبع صفات اور مخزن جمال و کمال بنایا ہے، کوئی قابل قدر خوبی ایسی نہیں جو آپ کی مبارک ذات میں پیدا نہ کی ہو اس لئے آپ بجا طور پر اس اعزاز و توقیر کے مستحق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ٹوٹ کر محبت کی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چاہتوں کے سمندر انڈیل دیئے جائیں۔

جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وجہ سے محبت کے مستحق ہیں کہ آپ میں وہ خوبیاں پائی جاتی ہیں تو خدا تعالیٰ بدرجۂ اولیٰ اس محبت کا مستحق ہے کیونکہ وہ ان بزرگیوں اور خوبیوں کا عطا کرنے والا، معطی اور خالق ہے۔ اس لئے اس حدیث پاک میں اگرچہ محبت الہٰی کا ذکر نہیں، مگر وہ پھر بھی مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ تمام رشتوں سے زیادہ خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرو، تمہارے ایمان میں زیادتی،پختگی اور قوت پیدا ہوگی اور ناقص ایمان کامل بن جائے گا۔

اہل ایمان یہ بات سن کر بے حد خوش ہوں گے کہ مسلمان خواہ کتنا بڑا گناہگار، نافرمان اور معصیت شعار ہو، پھر بھی اس کے دل کے کونے کھدرے میں کہیں نہ کہیں یہ محبت ضرور موجود ہوتی ہے اور اس مسلمان کو بے قرار رکھتی ہے دلیل یہ ہے کہ جب بھی کوئی ایسا موقعہ آتا ہے کہ مسلمان کو ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا مال و دولت، اپنی اولاد اورجائیداد یہیاں تک کہ اپنی جان بھی قربان کرنا پڑے تو وہ پس و پیش کے بغیر سب کچھ پیش کردیتاہے اور اس میں اپنی عزت، بڑائی اور سعادت سمجھتا ہے اور سب کچھ دے کر بھی یہی خیال کرتا ہے کہ سب کچھ پالیا ہے۔ گناہوں کی وجہ سے دل پر جمی ہوئی غفلت کی تہیں اتر جاتی ہیں اور وہ یوں محسوس کرتا ہے گویا ذکر نبی ایک صیقل کرنے والا تیز آلہ ہے جس نے اس کے زنگ آلود دل کو، میل کچیل سے صاف اور گناہوں کی پلیدی سے پاک کردیا ہے کسی بھی حادثے یا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت اچانک اس کیفیت کا پیدا ہوجانا اس حقیقت کا بدیہی ثبوت ہے کہ ہر دلِ مسلم میں محبت رسول موجود ہے، کہیں زیادہ کہیںکم، یہ الگ بات ہے کہ دنیا کی رغبتیں، خواہشیں اور غفلتیں کبھی اس محبت کو دبادیتی ہیں اور اس پر زنگ کی تہیں چڑھا دیتی ہیں، مگر یہ کیفیت عارضی ہوتی ہے اور کسی خاص موقعہ پر اس کی زنجیریں خود بخود ٹوٹ جاتی ہیں۔

محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرض کرنے کی وجہ

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس ارشاد گرامی میں، اپنی امت پر واضح کردیا کہ ایمان کی تکمیل کے لئے سب سے بڑھ کر دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت موجود ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر ایمان و عرفان، قرب و حضور، رحمت و برکت اور اللہ کی طرف سے لطف و عنایت اور مغفرت و بخشش کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن پاک نے بھی مندرجہ ذیل آیت میں اسی حقیقت مبین پر روشنی ڈالی ہے کہ آباؤ اجداد، مال و اولاد، اہل و عیال، عمارات و مساکن کاروبار اور تجارت وغیرہ سے والہانہ محبت کرنے کی اجازت نہیں۔ اس نے وارننگ دے دی ہے کہ اگر خدا و رسول کی محبت پر یہ جھوٹی اور فانی محبتیں غالب آگئیں تو خدا کا ایسا غضب و عذاب نازل ہوگا کہ بچاؤ کی تدبیریں مسدود ہوجائیں گی۔ ارشاد خداوندی ہے :

قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَO

(التوبہ : 24)

’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں : اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم (عذاب) بھیج دے‘‘۔

سوال یہ ہے کہ جب محبت ایسی چیز نہیں جو زبردستی کی جاسکے یا انسان کو اس میں دخل ہو بلکہ یہ تو از خود پیدا ہوتی ہے اور انسان کو بے خود بناتی ہے، پھر اس کو لازم کیوں کیا گیا ہے؟ اور کیوں حکم دیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ایک ایسی محبت ہے جو دیگر محبتوں کی طرح نہیں بلکہ یہ محبت لازم اور فرض ہے اور ضروری ہے کہ وہ نہ صرف محبت کرے بلکہ ٹوٹ کر کرے اور اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جان و جگر اور قلب و نظر وقف کردے گویا ان کو پیدا ہی اس محبت کے لئے کیا گیا ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ انسان طبعی طور پر حسن پسند ہے، اس میں حسن و خوبی کی قدر کرنے کا مادہ فطری طور پر ودیعت کردیا گیا ہے۔ خوبی، خواہ مادی ہویا معنوی، جو انسان کسی ہستی میں وہ خوبی دیکھتا ہے تو بلا ارادہ اس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اور اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔

ہر شخص کی اپنی اپنی نظر اور اپنی اپنی پسند ہوتی ہے کوئی ظاہری حسن و جمال اور کوئی معنوی خوبی کو پسند کرتا ہے۔ کوئی کسی کے شبرنگ دراز بال دیکھ کر دل ہار بیٹھتا ہے تو کوئی زلف و خال پر فریفتہ ہوجاتا ہے، کسی کو خرام یار بھا جاتاہے تو کوئی شمشاد قامت پر مفتون ہوجاتا ہے اور کوئی علم و فضل کا رسیا ہوتا ہے۔

جب وہ کسی متبحر عالم اور نکتہ ور محقق کو دیکھتا ہے تو اس کے جذبات محبت میں تموج پیدا ہوجاتاہے اور وہ دل و جاں سے اس دانشور ہستی کو چاہنے لگ جاتا ہے، کوئی سخاوت اور جودو عطا کو جوہرِ انسانیت سمجھتا ہے چنانچہ جب اسی کی نظر کسی ’’کان سخا‘‘ اور بحر کرم شخصیت پر پڑتی ہے تو وہ دل و جاں سے اس پر فدا ہوجاتا ہے کوئی شجاعت کا دلدادہ ہوتا ہے، کسی کو زہد و ریاضت اور تقویٰ وپرہیزگاری کی ادا پسند آتی ہے، کوئی سادگی اور تواضع سے متاثر ہوتا ہے تو کوئی خلق و حسن سلوک سے گھائل ہوجاتا ہے اور نقد جاں ہار بیٹھتا ہے۔

غرض اس دنیا میں قدر دان انسانوں کی مختلف قسمیں ہیں، ہر انسان اپنے ذوق نظر کے مطابق کسی سے محبت کرتا ہے اسی وجہ سے محبوب بھی مختلف ہوتے ہیں کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ایک محبوب کی ادا اگر کسی کو پسند ہو تو وہ دوسرے کو بھی پسند ہو اس لئے اس دنیا میں ایک محبوب سب کا محبوب نہیں بن سکتا، کیونکہ اس میں سب خوبیاں، سب شانیں اور سب رفعتیں جمع نہیں ہوسکتیں، وہ تمام اوصاف و کمالات کا جامع نہیں ہوسکتا، اگر ایسی جامع کمالات، جامع الصفات اور والا شان ہستی کوئی موجود ہے تو وہ صرف محبوب رب العالمین اکرم الاولین والاخرین سید عرب و عجم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے جو کسی خوبی سے بھی خالی نہیں، علم و فضل، سخاوت و شجاعت، تقویٰ و ریاضت، شفقت و مروت، عدل و انصاف، ایثار و احسان، دستگیری و مشکل کشائی، جمال و رعنائی، شان دلبری و زیبائی، دلنواز تبسم، نورانی رنگت، سرمگین آنکھیں، نیچی نظریں، خرام ناز، قامت زیبا، غرضیکہ حسن ظاہری و معنوی اور حسن صورت و حسن سیرت کے جو لوازمات ہیں، وہ سب ان میں موجود ہیں ایک انسان جس خوبی و ادا کا قدر دان اور متلاشی ہو، ممکن ہی نہیں کہ وہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی میں موجود نہ ہو۔

چونکہ وہ مرقع حسن خوبی اور پیکر جمال و زیبائی ہیں جن میں ہر عاشق و قدر دان کے لئے مطلوبہ ادا اور خوبی موجود ہے اس لئے ہر امتی پر لازم کردیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرے، اگر کوئی علم والا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان علمیت دیکھ کر محبت کرے، اگر سخاوت پسند ہے تو جودو عطا کے نظارے کرے اور محبت کرے، اگر بہادر و شجاع ہے تو ان کے جوش جہاد، قوت بازو اور بے خوف دل کو دیکھے۔ زاہد و صوفی ہے تو ان کی سادگی اور دنیا سے بے رغبتی کا مشاہدہ کرے، عدل و انصاف کا دلدادہ ہے تو ان کی عادلانہ شان کے قصے سنے، خلق و سیرت اور ایثار و مروت کو اہمیت دینے والا ہے تو ان کی تیغ خلق کے کشتوں کو دیکھے، غرض جو شخص جو حسن دیکھنا چاہتا ہے، وہ بے جھجھک آئے اور اسے کامل ترین شکل میں دیکھ کر، دل کی تسلی کرے اسے مایوسی نہیں ہوگی، ہر کمال یہاں جلوہ گر نظر آئے گا، جب یقین آجائے تو محبت کرنے لگ جائے اس محبت کو لازم کرنے کی وجہ ہی یہ ہے کہ محبت کے تمام اسباب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس میں جمع کردیئے گئے ہیں۔

اللہ کی سرتا بقدم شان ہیں یہ
ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ

قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے میری جان ہیں یہ