اصلاح احوال کا قرآنی ضابطہ

حافظ احمد جمال ناصر

قرآن مجید نے اپنے دامن میں تہذیب انسانی کے عروج و زوال کی کئی داستانوں کو سمیٹ رکھا ہے۔ قرآن مجید نے جہاں اولاد آدم کے عروج و زوال کے واقعات کو بیان کیا ہے وہاں ان واقعات کے بین السطور ان اسباب و علل کی بھی نشاندہی کی ہے جو انسانی کردار میں انفرادی سطح سے شروع ہوکر اجتماعی محرومی کا باعث بنے ہیں۔ قرآن کریم نے انسانیت کے منصب اور مقام کو سامنے رکھتے ہوئے انسان کی سیرت و کردار کی اصلاح پر خصوصی ہدایات فرمائیں اور انفرادی طور پر اصلاح احوال کا قرآنی ضابطہ عنایت کیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَى أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَO

(الحجرات : 11)

’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخُر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔

ظاہری اصلاح کے تین اصول

قرآن مجید کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی تربیت کے ظاہری اعتبار سے تین نکات بیان فرمائے ہیں :

1۔ مذاق اڑانے کی ممانعت

کوئی قوم یا گروہ کسی دوسری قوم یا گروہ کا مذاق نہ اڑائے۔ باری تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ جو قوم دوسری قوم کا مذاق اڑاتی ہے ممکن ہے کہ خدا کے نزدیک وہ قوم ان سے بہتر ہو۔ اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ارشاد فرمایا کہ اگر عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑاتی ہیں تو خدا کے نزدیک دوسری عورتیں ان سے بہتر ہوں۔

لہذا قرآن کریم میں اس بات کی تلقین کی جارہی ہے کہ کسی کی غربت کا مذاق مت اڑاؤ۔ ۔ ۔ کسی کی کمزوری کا مذاق مت اڑاؤ۔ ۔ ۔ کسی کی تنگی، پریشانی، مصیبت۔ ۔ ۔ اس کی ظاہری حالت کا مذاق نہ اڑاؤ۔ ۔ ۔ کیونکہ اس کی حقیقت سے وہ مذاق کرنے والا واقف نہیں ہے شاید خدا کے نزدیک یہ انسان محبوب ہو۔ ضروری نہیں کہ ظاہری اعتبار سے کیا جانے والا مذاق مذاق ہی ہو بلکہ بعض اوقات یہ فساد کا بھی سبب بن جاتا ہے اور آپس کے حقیقی تعلق اور رشتہ داری بھی اپنائیت کی بجائے دوری کی نظر ہوجاتے ہیں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’ کتنے ہی بال بکھرے اور غبار آلود لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس دو چادریں ہوتی ہیں اور (ان کی ظاہری حالت کو دیکھتے ہوئے) ان کو کوئی پناہ نہیں دیتا، لیکن اگر وہ قسم کھالیں کہ فلاں کام ہوجائے تو اللہ وہ کام کرکے ان کو سچا کردیتا ہے۔ (سنن ترمذی، رقم الحدیث : 3845۔ مسند احمد، ج، 3 ص : 145)

2۔ طعنہ زنی اور الزام تراشی کی ممانعت

وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ.

(الحجرات : 11)

’’آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی نہ کیا کرو‘‘۔

یہاں قرآن مجید نے ایمان والوں کو آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ جب ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی پر طعنہ زنی کرے گا تو وہ بھی انتقاماً اس سے بڑھ کر اس پر طعنہ زنی کرے گا۔ اگر کوئی الزام لگائے گا تو دوسرے کی کوشش ہوگی کہ وہ اس سے بڑھ کر اس پر الزام لگائے اور اسے شرمندہ کرے۔

حقیقت میں وہ جو الزام لگاتا ہے وہ دوسرے پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر لگاتا ہے۔ وہ برا بھلا دوسرے کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو کہتا ہے۔ وہ دوسرے کی بدنامی نہیں بلکہ اپنی بدنامی کررہا ہوتا ہے۔ اگر اسی طرح دوسرے کے والدین کو گالیاں دیتا ہے تو وہ حقیقت میں اپنے والدین کو گالیاں دیتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’کبیرہ گناہوں میں سے یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دیتا ہے؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا ہاں! یہ کسی کے باپ کو گالی دے گا تو وہ اس کے باپ کو گالی دے گا یہ کسی کی ماں کو گالی دے گا تو وہ اس کی ماں کو گالی دے گا‘‘۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : 5628۔ صحیح مسلم رقم الحدیث : 259)

اس سے پتہ چلا کہ الزام تراشی اور طعنہ زنی سے انسان گناہ میں آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اس لئے قرآن میں باری تعالیٰ نے اس برائی سے بچنے کے لئے صریحاً منع فرمایا ہے۔

3۔ برے ناموں سے پکارنے کی ممانعت

وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ.

(الحجرات : 11)

’’ آپس میں ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھا کرو‘‘۔

قرآن مجید میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ لوگو اب تم حلقہ کفر میں نہیں ہو بلکہ حلقہ اسلام میں ہو لہذا ایک دوسرے کو اچھے ناموں سے پکارا کرو۔ اس طرح آپ کو وہ بھائی جس کو احسن انداز میں اچھے القابات سے پکارتے ہو وہ اس سے خوشی و فرحت محسوس کرے گا۔ جس سے اسلام کا محبت اور اخوت کو فروغ دینے کا منشا بھی مکمل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

باطنی اصلاح کے تین اصول

قرآن مجید میں باری تعالیٰ نے جہاں پر ظاہری اعتبار سے ایمان والوں کی اصلاح کی ہے وہاں باطنی طور پر پائی جانے والی بیماریوں کا بھی تدارک کیا ہے۔

1۔ کثرتِ گمان سے اجتناب

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ.

(الحجرات : 12)

’’اے ایمان والو! کثرت گمان سے بچو۔ بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘۔

ظن اور گمان انسان کی باطنی بیماری ہے۔ ارشاد فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ تم ظن اور گمان کے عادی بن جاؤ اور اس طرح دوسروں کے بارے ایسے خیالات اور نظریات رکھنا شروع کردو جن کے وہ حامل نہیں ہیں۔ اس سے نتیجتاً اپنے لئے گناہوں کو اکٹھا کرو گے کیونکہ ظن شیطان کی طرف سے بھی ہوتا ہے۔ شیطان ایمان والے کے دل میں دوسرے مسلمان کے متعلق بدگمانی کا وسوسہ ڈالتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس وسوسے کو اپنے دل میں جگہ نہ دیں بلکہ اس کی جگہ اپنے مسلمان بھائی کے متعلق نیک گمان رکھنا چاہئے اور اس پر قائم رہنا چاہئے۔ کیونکہ حسن ظن سے متعلق حدیث مبارکہ میں آتا ہے۔

يقُوْلُ اللّٰهُ اَنَا عِنْدَ ظَنّ عَبْدِیْ بِیْ فَلْيَظُنُّ بِیْ مَاشَآءَ.

(مسند احمد، 3 : 491)

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جس کا وہ مجھ سے ظن رکھتا ہے۔ اب بندے کی مرضی ہے جیسا چاہے مجھ سے ظن رکھے‘‘۔

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی (متوفی 668ھ) لکھتے ہیں :

اگر کوئی شخص نیکی میں مشہور ہو تو اس کے متعلق بدگمانی کرنا جائز نہیں ہے اور جو اعلانیہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو اور فسق میں مشہور ہو اس کے متعلق بدگمانی کرنا جائز ہے۔ (الجامع احکام القرآن، جز 16، ص 300)

2۔ جاسوسی کرنے کی ممانعت

وَلَا تَجَسَّسُوا.

’’اور جاسوسی نہ کیا کرو‘‘۔

اسلام میں ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کی جاسوسی کرنا اور اس کی پوشیدہ باتوں کا سراغ لگانے سے منع کیا گیا ہے بلکہ آقا علیہ السلام نے مسلمان کی پردہ پوشی کرنے کاحکم دیا ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا :

مَنْ سَتَرَ مُسْلِماً سَتَرَهُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيَامَة.

’’جو مسلمان اس دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی کرے گا‘‘۔ (بخاری، صحیح، 2، 862 : 2310)

3۔ غیبت کرنے کی ممانعت

وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ.

’’نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو۔ کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ جسے تم ناپسند کرتے ہو‘‘۔ (الحجرات : 12)

غیبت کیا ہے؟ : غیبت سے مراد ایسی برائی یا عیب جو ایک شخص میں پایا جاتا ہو اور اس شخص کو ذلیل کرنے کے لئے وہ عیب یا برائی اس کی عدم موجودگی میں بیان کی جائے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غیبت ایسی برائی یا عیب ہے جو حقیقت میں ایک شخص میں موجود ہے اگر وہ برائی یا عیب موجود نہ ہوتا تو پھر اس کے متعلق ایسی بات کرنا بہتان یا تہمت آتا ہے۔ غیبت انسان کے اعمال کو لکڑی کی طرح راکھ بنا دیتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ صحابہ کرام نے جواب دیا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ذکرک اخاک بمايکره.

(مسلم، الصحيح، 6 - 2001 : 2589)

’’اپنے بھائی کا ایسا ذکر جس کو وہ ناپسند کرے‘‘۔ ۔ ۔ صحابہ کرام نے عرض کی اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ غیبت ہے پھر صحابہ کرام نے عرض کی اگر وہ بات اس میں نہ پائی جاتی ہو تو اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس طرح تم نے اس پر بہتان باندھا۔

غیبت کا کفارہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس کے لئے استغفار کرو جس کی تم نے غیبت کی ہے‘‘۔

(الجامع لشعب الايمان رقم الحديث : 6366)

موجودہ دور میں ہمارا یہ شیوہ بن گیا ہے کہ جہاں پر دو چار آدمی اکھٹے مل بیٹھتے ہیں وہ غیبت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ گھنٹوں تک اس گناہ میں شامل رہنے کے باوجود بھی اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس گناہ سے کتنی تاکید کے ساتھ منع فرمایا ہے اور اس کے عذاب کو بھی بتادیا کہ غیبت کرنا اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف ہے جسے کھانا تم ناپسند کرتے ہو۔

پس درج بالا آیت کریمہ میں اصلاح احوال کا قرآنی ضابطہ بیان ہوا ہے کہ معاشرے میں موجود ان برائیوں سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ یہ ساری باتیں معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے شب و روز کے معاملات پر نظر ثانی کریں کیونکہ آج ہماری نجی محفلوں میں، آپس میں دوستوں کے ہمراہ ان برائیوں میں مشغول رہتے ہیں اور قطرہ قطرہ اپنے نامہ اعمال کو گناہوں سے لبریز کررہے ہیں۔

آج کے دور میں ہمارا وطیرہ بن گیا ہے کہ ہم دوسروں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں یہاں تک کہ دوسروں کی ذاتی زندگی سے متعلق بھی یہی کوشش ہوتی ہے حالانکہ ان کی ذاتی زندگی سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اگر ویسے ہی کسی سے متعلق کسی بات کا پتہ چل جائے تو ممکن حد تک پردہ پوشی کرو تاکہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تمہاری پردہ پوشی کرے۔ پس ان تمام گناہوں سے بچنے کی ضرورت ہے جو ہمارے لئے جہنم کا ایندھن بن رہے ہیں۔