الحدیث : قلبِ حزیں کو خوشی عطا کرنا

علامہ محمد معراج الاسلام

پریشاں حال لوگوں کے دکھ درد بانٹنا، افضل نیکی اور اعلیٰ انسانی کردار ہے

شہزادۂ والاتبار، سید السادات، گلشنِ رسالت کے مہکتے پھول، حضرت امام حسن پاک رضی اللہ عنہ راوی ہیں :

سرکار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اِنَّ مِنْ مُوْجِباتِ الْمَغْفِرَةِ اِدْ خَالُکَ السُّرُوْرَ عَلٰی اَخِيْک الْمُسْلِمِ.

(طبرانی، معجم کبير، 3 : 84)

’’تیرا اپنے بھائی کے دل ناشاد میں خوشی داخل کرنا ان پسندیدہ ترین اعمال میں سے ہے، جو مغفرت کا مستحق بنانے والے ہیں‘‘۔

شرح و تفصیل

اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق میں، اشرف ترین مخلوق یعنی حضرت انسان، جتنا آج دکھی اور ناشاد ہے، شاید ہی کسی دور میں اتنا بے چین، غم زدہ اور مایوس ہوا ہوگا کیونکہ دل کو اذیت پہنچانے اور دکھ دینے والے اسباب تھوک کے حساب سے ہر طرف موجود ہیں بلکہ دانستہ پیدا کئے گئے ہیں، تاکہ یہ حساس اور شاداں و فرحاں مخلوق اور زیادہ بے چین اور ناشاد ہو اور کوئی سکھ دینے والا منظر اسے نظر نہ آئے۔ ایک ایک کرکے وہ تمام خوبصورت اور دل کو بھانے والے مناظر اس کی نظر سے دور کردیئے جائیں، جو اسے خوشی بخش سکتے اور دلوں میں مسرت کی کلی کھلا سکتے ہیں۔

انسان کو خوشی حاصل کرنے کے لئے لامحدود وسائل و اسباب کی فراوانی کی ضرورت نہیں۔ اللہ پر ایمان و توکل رکھنے والا ایک صابر و شاکر انسان زندگی کی بنیادی ضروریات پاکر ہی اتنا خوش ہوجاتا ہے کہ بہت ساری غیر ضروری فالتو اشیاء کا خواہشمند نہیں رہتا اور ایک حریص دنیا دار کی طرح ہر چیز کی طرف دامنِ طلب نہیں پھیلاتا۔ مگر آج اکثریت کے لئے زندگی کا منظر اتنا خوفناک، موسم اتنا ناسازگار اور ماحول اتنا ناموافق بنادیا گیا ہے کہ اشرف ترین مخلوق کا ہر فرد، حیران پریشان ہے اور اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ کیا کرے، کدھر سے خوشیاں تلاش کرے اور ستم رسیدہ غمگین دل کو کیسے شاد کرے۔ جان بوجھ کر ایسا منظر کیوں تخلیق کیا گیا ہے؟ یہ کسی سے مخفی نہیں، ہم یہاں صرف اسلامی اور روحانی نقطہ نظر سے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کون سے امور و اسباب ہیں جو کسی کو خوشی بخشتے ہیں اور انسانی عزائم کو جواں کردیتے ہیں اور انسان مسرتوں کے پھول اپنی جھولی میں پاکر خود کو دنیا کا کامیاب ترین انسان سمجھنے لگ جاتا ہے۔

خوشی کے اسباب

دنیا میں ہر قسم کے افراد بستے ہیں اور ان کی ضروریات بھی مختلف ہیں، چنانچہ ہر شخص اپنی ضرورت کی چیز پاکر بے انتہا خوش ہوتا ہے اور خود کو بڑا ہی خوش قسمت سمجھتا ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضروریات ہیں۔ بھوکے غریب انسان کی سب سے بڑی طلب یہ ہوتی ہے کہ اس کی دو وقت کی روٹی کا انتظام ہوجائے۔۔۔ ننگا انسان تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا چاہتا ہے۔۔۔ اور جس کے پاس رہائش کی جگہ نہ ہو، وہ سرچھپانے کے لئے ایک مکان کا خواہشمند ہوتا ہے۔۔۔ ان میں سے جب کسی کو اس کی ضرورت کے مطابق یہ اشیاء مل جائیں تو اس کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہتا اور انہیں پاکر سارے غم بھول جاتا ہے۔

اسی طرح قرض دار ذہنی طور پر ایک بھاری بوجھ تلے دبا ہوا ہوتا ہے، قرض خواہ کا غضبناک چہرہ ہر وقت اس کی نگاہوں میں گھومتا رہتا ہے اور وہ یہ سوچ کر کہ قرض خواہ ادائیگی کا تقاضا کرے گا، ہر وقت سولی پہ لٹکا رہتا ہے اور اگر اکیلا بیٹھا ہوا ہو، تو بھی رسوائی کے خوف سے سہما رہتا ہے، ایسے بے چین قرض دار کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اس کا قرض ادا ہوجائے اور اس کی جان کو سکھ نصیب ہو، اور اگر ایسا انتظام ہوجائے تو اسے اتنی خوشی نصیب ہوتی ہے جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔

ذہنی صدمہ پہنچانے والے کچھ ایسے سنگین معاملات بھی ہیں جن کا تعلق عدالت سے ہوتا ہے، لیکن کچھ لوگ اتنے بھولے بھالے اور ناتجربہ کار ہوتے ہیں کہ عدالت کا رخ نہیں کرسکتے اور مجبوری کے باعث غم سے گھلتے رہتے ہیں، ایسے بے یارو مددگار لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہوتی ہے کہ کوئی غمگسار، نیک پارسا وکیل اور عدالتی امور کا ماہر مل جائے جو ان مشکلات سے انہیں نکال دے پھر جب کوئی دست گیر مل جائے اور ان کی مدد کردے، توان کے دل سے اپنے محسن کے لئے جو دعائیں نکلتی ہیں، وہ حقیقی خوشی اور قلبی مسرت کا پرخلوص مظہر ہوتی ہیں۔

اسی طرح کوئی مریض تنہائی کا شکار ہو، تو اس کی تیمارداری کے لئے جانا، اسے بڑی فرحت عطا کرتا ہے۔۔۔ بھوکے کو کھانا کھلانا۔۔۔ پیاسے کو پانی پلانا۔۔۔ ضرورت مند کا کام کردینا۔۔۔ اور اگر ممکن ہو تو کسی بااختیار حاکم کے پاس کسی معذور و مجبور کی سفارش کردینا ان کے دلوں کو وہ خوشی عطا کرتا ہے جس کی بے کرانی کا کوئی غیر اندازہ نہیں لگاسکتا۔

خوشی بخشنے کے انعامات

یہ اللہ تعالیٰ ہی کی سلطنت کی خصوصیت ہے کہ اس نے پرامن سلطنت کے قیام اور کائنات کو مسرتوں سے بھرنے کے لئے دنیا میں بسنے والوں کو ایسا انسان دوست نظام عطا فرمایا ہے کہ اگر انسان ہوس اقتدار، نفسانی خواہش اور مال و دولت کی ناجائز حرص اور شیطانی منصوبہ بندی سے آزاد ہوکر اسے اپنائے اور ملک میں نافذ کردے تو ہر قسم کی محرومیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، ظلم و ستم، قتل و غارت اور بے راہ روی کا نشان تک باقی نہیں رہتا۔

چنانچہ اللہ پاک نے وہ اعمال و معاملات جو انسان کے دل کو خوشیوں سے معمور کردیتے ہیں، ان کے اتنے فوائد و ثمرات بیان فرمائے ہیں اور ان کا اتنا اجرو ثواب رکھا ہے، جسکی انسان کو دنیا میں بھی ضرورت ہے اور آخرت میں بھی، وہ کسی بھی دنیا میں ان سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ مثال کے طور پر وہ اعمال و معاملات جو دلوں کو خوشیوں اور مسرتوں سے بھر دیتے ہیں، وہ اعمال کرنے والے لوگ فرشتوں کی آنکھ کا تارا بن جاتے ہیں، جن کے لئے وہ صبح و شام دعائیں کرتے رہتے ہیں، مشکلات کے وقت اور قبر میں ان کی مدد کرتے ہیں۔۔۔ میدان حشر میں اور پل صراط پر ان کی مدد کریں گے اور ڈگمگانے سے بچائیں گے۔۔۔ اس کے علاوہ جنت میں ان کی جس انداز سے پذیرائی ہوگی اور انہیں نعمتیں عطا کی جائیں گی، مادی دنیا میں ان کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا۔

ہم ترتیب وار تفصیل کے ساتھ وہ احادیث ذکر کرتے ہیں، جن میں ان انعامات و فوائد اور فضائل و ثمرات کا ذکر ہے، جو کسی کا دل خوش کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ان سے آگاہ ہوکر، غافل انسان آخرت کا زادِ راہ تیار کرنے اور کسی کا دل خوش کرنے کو معمولی عمل نہ سمجھے، اسی سے خوش حال معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے اور وہ محرومیاں ختم ہوسکتی ہیں جنہوں نے مہنگائی، بے روزگاری، لوٹ مار اور قتل و غارت کی صورت میں دنیا کو جہنم بنایا ہوا ہے۔

بھوکے کو کھانا اور پیاسے کو پانی دینا

٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَيُمَا مُوْمِنٍ اَطْعَمَ مُوْمِنًا عَلٰی جُوْعٍ اَطْعَمَهُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّة. وَاَيُمَا مُوْمِنٍ سَقٰی مُوْمِنًا عَلٰی ظمَاٍ سَقَاهُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ مِنَ الرَّحِيقِ الْمَخْتُوْمِ. (ترمذی)

’’جس نے کسی بھوکے مومن کو کھانا کھلایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے جنت کے پھل کھلائے گا اور جس نے کسی پیاسے ایماندار کو پانی پلایا اللہ اسے قیامت کے دن جنت کی شراب پلائے گا جس پر مہر لگی ہوگی‘‘۔

٭ حضرت جعفر عبدی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اِنَّ اللّٰهَ يباهِيْ ملائِکَتَه بِالَّذِيْنَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ مِنْ عَبيْدِ.

’’بے شک اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے ان بندوں پر فخر فرماتا ہے، جو دوسرے لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں‘‘۔

٭ حضرت علی المرتضیٰ مشکل کشا رضی اللہ عنہ اپنی ترجیح کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :

لَاَنْ اَجْمَعَ نَفَرًا مِنْ اِخْوَانِيْ عَلٰی صَاعٍ اَوْ صَاعَيْنِ مِنْ طَعَامٍ، اَحَبُّ اِلَيَ مِنْ اَنْ اَدْخُلَ سُوْقَکُمْ فَاَشْتَرِيْ رَقَبةً فَاَعْتِقُهَا.

’’میں ایک، دو ٹوپے اناج کے پکوا کر اپنے بھائیوں کے ایک گروہ کو اکٹھا کروں (اور انہیں کھلاؤں) یہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں منڈی جاکر ایک غلام خریدوں اور اسے آزاد کردوں‘‘۔

٭ آپ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے امام حسن پاک رضی اللہ عنہ اپنے والد گرامی کی ترجیح کے مقابلے میں اسی نوعیت کی اپنی ترجیح بیان کرتے ہیں :

لَاَنْ اُطْعِمَ اَخًالِيْ فِی اللّٰهِ لُقْمَةً اَحَبُّ اِلَيَ مِنْ اَنْ اَتَصَدَّقَ عَلٰی مِسْکِيْنٍ بِدِرْهَمِ.

’’میں اپنے دینی بھائی کو ایک لقمہ کھلاؤں، یہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ کسی مسکین کو ایک درہم صدقہ کردوں‘‘۔

٭ حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِيْهِ اَظَلَّهُ اللّٰه عَزَّوَجَلَّ تَحْتَ عَرْشِه يَوْمَ لَاظِلَّ اِلَّا ظِلُّه، اَلْوُضُوْءُ فِی الْمَکَارِهِ وَالْمَشيُ اِلَی الْمَسَاجِدِ فِی الظَّلاَمِ وَاِطْعَامُ الجائِعِ.

’’جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی، اللہ تعالیٰ اسے سایہ عرش تلے جگہ دے گا، جبکہ اس دن صرف اسی کے عرش کا سایہ ہوگا : مشکل وقت میں وضو کرنا، اندھیرے میں مسجدوں کی طرف چل کر جانا اور بھوکے کو کھانا کھلانا‘‘۔

٭ بیہقی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا یہ روایت مذکور ہے کہ

جنگل میں ایک عابد اور ایک گناہ گار اکٹھے سفر کررہے تھے، گناہ گار کے پاس ضرورت کے مطابق پانی موجود تھا، جو سفر کے دوران، عزیز ترین اور قیمتی متاع ہوتا ہے، کیونکہ یہ واحد مادی سہارا ہوتا ہے جس پر زندگی کا دارومدارہوتا ہے، اگر یہ نہ ہو تو طویل و عریض بیابان سے سلامتی کے ساتھ نکلنا محال ہوجاتا ہے۔

عابد کے پاس پانی نہیں تھا، دوپہر کے وقت پیاس نے اسے نڈھال کردیا اور وہ اپنی سواری سے گر پڑا۔ ہمراہی گناہ گار ہی سہی تاہم انسان تھا اور اس کے سینے میں دوسرے کا دکھ درد محسوس کرنے والا دل دھڑک رہا تھا، اس نے سوچا اگر یہ عابد آج پیاس سے مرگیا تو وہ کل قیامت کے دن اپنے رب کو کیا جواب دے گا، یہ سوچ کر اس نے ایثار سے کام لینے اور قربانی دینے کا فیصلہ کرلیا، پانی اس کے اوپر چھڑکا، وہ ہوش میں آگیا تو بقیہ پانی اسے پلادیا، اس طرح دونوں زندہ سلامت اس جنگل سے نکل گئے۔

کل قیامت کے دن، میدان حشر میں فرشتے اس گناہ گار کا حساب لیں گے وہ ناکام ہوجائے گا، دوزخ کے کارکن فرشتے اسے دوزخ کی طرف گھسیٹنا شروع کردیں گے، اچانک اس کی نظر عابد پر پڑ جائے گی، وہ چیخ کر اسے اپنی طرف متوجہ کرے گا اور بتائے گا میں نے آپ کو جنگل میں پانی پلایا تھا اور آپ کی جان بچائی تھی، آج آپ میری جان بچائیں۔ عابد فرشتوں سے کہے گا : یہ شخص سچا ہے، مجھے اللہ کے دربار میں اس کی شفاعت کرنے دو۔ اس مقبول عابد کی شفاعت قبول ہوگی اور محض پانی پلانے کی وجہ سے اس کی نجات ہوجائے گی۔

زخم کا روحانی علاج

٭ انسانی دکھوں کے روحانی معالج، حضرت عبداللہ بن مبارک کی بارگاہ میں ایک دکھی مریض حاضر ہوا اور بڑی حسرت سے کہا :

سات سال گذر گئے ہیں، میرے گھٹنے پر ایک تکلیف دہ پھوڑا نکلا ہوا ہے، جو ہر وقت رِستا رہتا ہے، اطباء اور حکماء اس کے علاج سے عاجز آگئے ہیں، کوئی دوا کارگر نہیں ہوتی، بڑی آس لے کر آیا ہوں اور نظر کرم کا امیدوار ہوں۔ حضرت عبداللہ بن مبارک طبیب روحانی تھے، مگر ایک مریض جسمانی ان کے پاس بڑی آس لے کر آگیا۔ وہ جو باطنی امراض کا علاج بھی جانتے تھے، مرض کی تہہ تک پہنچ گئے اور وہ علاج تجویز فرمایا، جو دل کی راحت اور خوشی کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔ فرمایا : کوئی ایسا علاقہ تلاش کرو، جہاں پانی کی قلت ہو اور لوگوں کو اس کے حصول میں دشواری پیش آتی ہو، وہاں کنواں کھدوا دو جونہی کنویں میں پانی جاری ہوگا تمہارے گھٹنے کا زخم خشک ہوجائے گا۔ اس مریض نے ایسا ہی کیا، کنواں جاری ہوا لوگوں کے دل خوش ہوگئے، اس کا زخم رِسنا بند ہوگیا۔

ملاقات و عیادت کے لئے جانا

کہتے ہیں انسان معاشرت پسند ہے، یعنی مل جل کر رہنے کو ترجیح دیتا ہے، الگ تھلگ، ایک دوسرے سے کٹ کر زندگی گزارنا اس کی فطرت ہی کے خلاف ہے۔ انسان کی اسی عادت کو اسلام نے عبادت کا درجہ دے دیا ہے، تاکہ وہ اسے دنیا داری کا تقاضا اور تکلف ہی نہ سمجھتا رہے، بلکہ خلوص دل کے ساتھ میل ملاپ رکھے اور خیر خواہی کے جذبے سے معمور ہوکر بھائی سے ملے، تاکہ محبت کے بندھن مضبوط ہوں اور معاشرے میں کوئی دراڑ پیدا نہ ہو، تمام افراد مل کر ایک مضبوط دیوار کی صورت اختیار کرلیں تاکہ ان کی اجتماعی قوت کے سامنے کوئی اجنبی دشمن نہ ٹھہر سکے اور دوسری طرف انہیں یہ اطمینان ہوکہ ان کا باہمی میل ملاپ وقتی فوائد پر مبنی نہیں ہے بلکہ عین دین ہے اور مستقل فوائد وثمرات کا حامل ہے کیونکہ پیار و محبت کے ساتھ مل جل کر رہنے کا حقیقی مالک کی طرف سے حکم ہے اور وہ اس سے خوش ہوتا ہے پھر تعمیل حکم پر نہ صرف اجر و ثواب دیتا ہے بلکہ وہ کچھ عطا فرماتا ہے، جس کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ آپس میں ملاقات و عیادت کرنے، ملنے جلنے اور ایک دوسرے کی مددکرنے سے دلوں کو جو خوشی ہوتی ہے، اس سے انسان کو دنیا و عقبیٰ میں، قبر اور جنت میں، میدان حشر اور پل صراط پر کیا مراعات عطا ہوتی ہیں اور فرشتے کس طرح ان کی راہوں میں آنکھیں بچھاتے اور ان کے لئے دعائیں مانگتے ہیں، احادیث کی روشنی میں اس کی ایک جھلک یہ ہے :

٭ حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ راوی ہیں۔ سرکار نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ زَارَ اَخَاهُ الْمُوْمِنَ خَاضَ فِی الرَّحْمَةِ حَتّٰی يَرْجِعَ وَمَنْ عَادَ اَخَاهُ الْمُوْمِنَ خَاضَ فِی الرَّحْمَةِ حَتّٰی يَرْجِعَ.

’’جو اپنے مومن بھائی کی زیارت کے لئے گیا، وہ واپس آنے تک رحمت کے سمندر میں غوطہ زن رہتا ہے اور جو اپنے بھائی کی تیمار داری کے لئے گیا، وہ بھی واپسی تک رحمت میں غوطے لگاتا رہتا ہے‘‘۔

٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ روای ہیں۔ سرکار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ لَقِيَ اَخَاهُ الْمُسْلِمَ بِمَا يُحِبُّ لِيُسرّه بِذَالِکَ سَرَّهُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

’’جس نے اپنے بھائی کو خوش کرنے کے لئے اس کی خواہش کے مطابق اس سے ملاقات کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے خوشی بخشے گا‘‘۔

غم زائل اور خوشی عطا کرنے کے فوائد

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں۔ سرکار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُوْمِنٍ کُرْبَةً مِنْ کُرَب الدنيا نَفَّسَ اللّٰه عن کربة من کُرَب يوم القيامة.

’’جس نے کسی مسلمان کو دنیاوی تکلیف سے نجات دی، اللہ، اس کو اخروی تکلیف سے نجات دے گا‘‘۔

اور جس نے کسی تنگدست کو دنیا میں سہولت عطا کی اللہ اس کو آخرت میں سہولت عطا کرے گا اور جس نے دنیا میں کسی کی پردہ پوشی کی، اللہ، آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ (مسلم)

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اسی حدیث میں ہے :

وَاللّٰهُ فی عون العبد ماکان العبد فی عون اخيه.

’’جب تک کوئی شخص اپنے بھائی کی مدد میں مصروف ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا رہتا ہے‘‘۔

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی دوسری حدیث میں اس مددکا اجرو ثواب یہ بیان کیا گیا ہے۔

مَنْ اَعَانَ عَبْدًا فِی حَاجَتِه ثَبَّتَ اللّٰهُ لَه مَقَامَه يَوْمَ تَزُوْلُ الْاَقْدَامُ. (طبرانی)

’’جس شخص نے ضرورت کے وقت کسی بندے کی مدد کی، اللہ تعالیٰ اس کو اس مقام پر ثباتِ قدم عطا فرمائے گا، جہاں قدم پھسل رہے ہوں گے‘‘۔

حاصل یہ ہے کہ یہ سب انعام اس خوشی کا ہے، جو بندہ اپنے بھائی کی مدد کرکے اس کے دل کو عطا کرتا ہے۔

٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما راوی ہیں :

ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور پوچھا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کونسے لوگ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں؟ فرمایا : جو سب سے زیادہ نفع پہچانے والے ہیں۔

وَاَحَبُّ الْاَعْمَالِ اِلَی اللّٰه تعالیٰ سرورٌ تُدْخِلُه عَلٰی مُسْلِمٍ.

(الترغيب والترهيب، 1 : 475)

’’اور سب سے محبوب عمل وہ خوشی ہے جو تو کسی مسلمان کے دل میں داخل کرے یعنی اس کے غم کو زائل کرے یا اس کا قرض ادا کرے یا اس کی بھوک مٹائے‘‘۔

المتجرالرالج میں ابن ابی الدنیا کے حوالے سے دمیاطی نے یہ روایت جعفر بن محمد سے نقل کی ہے۔

مَا اَدْخَلَ رَجُلٌ عَلٰی مُوْمِنٍ سُرُوْرًا اِلَّا خَلَقَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ مِنْ ذَالِکَ السُّرُوْرِ مَلَکًا، يَعْبُدُ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ وَيُوَحِّدُه فَاِذَا صَارَا الْعَبْدُ فِی قَبْرِه اَتَاهُ ذَالِکَ السُّرُوْرُ فَيَقُوْلُ مَاتَعْرِفُنِی؟ فَيَقُوْلُ لَه مَنْ اَنْتَ؟ فَيَقُوْلُ : اَنَا السُّرُوْرُ الَّذِيْ اَدْخَلْتَنِيْ عَلٰی فُلَانٍ، اَنَا الْيَوْمَ اُوْنِسُ وَحْشتَکْ وَاُلَقِّتُکَ حُجَّتِکَ وَاُثَبِّتُکَ بِالْقَوْلِ الثَابِتِ وَاُشْهِدُکَ مَشَاهِدِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَاَتَشَفَّعُ لَکَ اِلٰی رَبِّکَ وَاُرِيْکَ مَنْزِلکَ مِنَ الْجَنَّة.

(المتجرالرالج، حديث نمبر : 1541)

’’بندہ مومن کے دل میں جب کوئی سرور داخل کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس سے ایک فرشتہ بناتا ہے جو اللہ کی عبادت و وحدانیت بیان کرتا رہتا ہے۔ جب بندہ قبر میں جائے گا تو وہی فرشتہ آئے گا اور کہے گا : کیا مجھے پہچانتے ہو؟ وہ کہے گا : تو کون ہے؟ وہ جواب دے گا، میں وہ سرور ہوں جو تو نے فلاں بندے کے دل میں داخل کیا تھا، آج میں تیری تنہائی اور اداسی کو دور کروں گا۔ فرشتوں کو جو جواب دینا ہے وہ تیرے دل میں ڈالوں گا اور مضبوط بات یعنی کلمہ طیبہ کے ساتھ تجھے ثبات قدم عطا کروں گا اور قیامت کے تمام مقامات پر تیرے ساتھ رہوں گا اور رب کے پاس تیری شفاعت کروں گا اور جنت میں تجھے تیرا مقام دکھاؤں گا‘‘۔

ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین

گذشتہ سے پیوستہ

امام سلمی کی ’’طبقات الصوفیہ‘‘سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا علمی اور تربیتی خطاب

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام منعقدہ شہر اعتکاف 2007ء کے ہزاروں معتکفین کی فکری، اخلاقی اور نظریاتی تربیت کے لئے امام ابو عبدالرحمن محمد بن حسین السُّلَمِی (325ھ۔ 412ھ) کی تصوف کے موضوع پر لکھی گئی شہرہ آفاق کتاب ’’طبقات الصوفیہ‘‘ کے دروس ارشاد فرمائے۔ اس سلسلے میں نشست اول، دوم اور سوم (I) ماہنامہ منہاج القرآن ماہ نومبر07ء، دسمبر07ء، فروری 08ء اور مئی 08ء میں شائع کی جاچکی ہیں۔ جن میں ڈاکٹر صاحب نے حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے احوال و مقامات کو بیان کیا۔ اس تیسری نشست (II) میں شیخ الاسلام نے حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے ابواب کی تکمیل پر مشتمل خصوصی گفتگو فرمائی جو نذرِ قارئین ہے۔

حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

اِذَا اکْتَابَکَ عَدُوُّ فَهُوَ اَنْفَعُ لَکَ مِنَ الصِّدِيْق فَاِنَّه کلما ماکْتَابَکَ اَعْطَاکَ من حَسَنَاتِه.

’’جب تیرا کوئی دشمن تجھے برا بھلا کہے تو وہ تیرے لئے دوست سے زیادہ فائدہ مند ہے کیونکہ جب دشمن تجھے برا بھلا کہتا ہے تو اپنی نیکیاں تیرے نامہ اعمال میں منتقل کرتا چلا جاتا ہے‘‘۔

برا بھلا کہنے والا دشمن، دوست کے مقابلے میں اس لئے زیادہ نفع بخش ہے کہ دوست کا تعریف کرنا کوئی نیکی نہیں دیتا بلکہ الٹا نقصان کا ڈر ہے اس لئے کہ تعریف کرنے سے نفس خوش ہوتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ شاید میں اسی تعریف کے قابل ہوں اور اسی کا حقدار ہوں۔ پس اسی خیال سے بربادی کا آغاز ہو جاتا ہے۔

اولیاء اللہ میں ہمیں کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ انہوں نے شعوری طور پر تعریف کرنے والوں کے سامنے خود کو برا بنا کر پیش کیا اور نفس کو بگڑنے سے بچالیا۔ صوفیاء و اولیاء کی علامت یہ ہے کہ وہ اخلاق حسنہ کے پیکر ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر سب سے بڑی خیرات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے اہل تصوف، اولیاء اور صلحاء ہی کو ملی ہے نیز یہی ولایت و تصوف ہے۔

اولیاء وہ تھے کہ جن کی زندگی کا کوئی لمحہ سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف نہ تھا، ان کی زندگی کثرت غم میں گزرتی مگر زبان پر حرف شکوہ یا بد دعا نہ لاتے۔

حضرت شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صاحبزادی بیاہی، بیٹی کے سسرال والے اچھے نہ نکلے، وہ ہروقت آپ کی صاحبزادی کو تنگ کرتے، پریشان کرتے جس کی وجہ سے صاحبزادی پریشانی، دکھ اور تکلیف میں رہتی۔ آپ ہر جمعہ والے دن بیٹی کو ملنے کے لئے تشریف لے جاتے تو وہ آپ کے سامنے اپنے دکھوں اور پریشانی کا حال سناتی اور روتی اور کہتیں کہ بہت زیادہ دکھی ہوں۔ حضرت شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ اس مرتبہ ولایت پر فائز تھے کہ اگر آپ ہاتھ اٹھاتے تو کبھی اللہ تعالیٰ ان کے اٹھے ہوئے ہاتھ کو رد نہ فرماتا یعنی وہ اپنی نظر سے ولی بنانے والے تھے، وہ صرف ولی نہ تھے بلکہ ولی گر تھے، اپنے فیض تربیت سے کئی اولیاء بنا دیئے لیکن آپ بیٹی کے دکھ سن کر خاموش ہوگئے، بیٹی کو دکھی دیکھ کر ہاتھ نہیں اٹھائے، بددعا نہیں کی بلکہ کہہ دیا کہ بیٹی اگلے جمعہ تک ایک ہفتہ اور انتظار کر، خیر ہوجائے گی۔ واپس آگئے، اگلے جمعہ کو بیٹی کا وصال ہوگیا۔ گویا نگاہ سے دیکھ رہے تھے کہ بس دکھ کے دن کٹ گئے اب اس کی وفات کا دن مقرر ہے، چلو چار دن تکلیف کے ہیں کٹ جائیں گے۔

اولیاء صاحبان تصرف ہوتے ہیں مگر اَکْثَرَ حَمَّہ وَغَمَّہ کے مصداق زندگی غم میں گزارتے ہیں۔ اپنے لئے تصرف استعمال نہیں کرتے۔

حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا ہے اس واقعہ کو حضرت امام ابو عبدالرحمن السلمی نے حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا ہے۔

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ کشتی میں سوار کہیں جارہے تھے ایک مقام پر پہنچے تو نوجوانوں کی ایک جماعت سے ملاقات ہوئی جو گانے بجانے، ناچ کود اور پینے پلانے میں مصروف تھے اور حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے بیہودگی کا مظاہرہ کررہے تھے۔ آپ کے مریدوں سے یہ بات برداشت نہ ہوئی کہ ہمارے شیخ سلطان الاولیاء، امام العارفین کے سامنے اتنی بدتمیزی، بدتہذیبی اور بیہودگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، دکھی ہوکر حضرت ذوالنون سے عرض کیا کہ ان کے بارے میں بددعا کریں کہ یہ ہلاک ہوجائیں، آپ کے سامنے اتنی گستاخی کررہے ہیں ان کو حیاء نہیں ہے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں ہاتھ اٹھاتا ہوں تم سب میرے ساتھ آمین کہنا۔ آپ نے ہاتھ اٹھائے، مرید خوش ہوگئے کہ ابھی ان تمام کا بیڑہ غرق ہوجائے گا، آپ نے ہاتھ اٹھا کر عرض کیا کہ باری تعالیٰ ان جوانوں کو جس طرح اس دنیا میں خوش و خرم رکھا ہے آخرت اور جنت میں بھی اسی طرح خوش اور ہشاش و بشاش رکھنا۔ مریدین نے بعد ازاں عرض کیا کہ حضرت آپ نے یہ کیا دعا کردی؟ یہ بدتمیز و گستاخ لوگ تھے، ہم نے تو چاہا تھا کہ آپ بددعا کریں تاکہ یہ اس دریا میں غرق ہوجائیں، تباہ ہوجائیں، آپ نے بجائے بددعا کے ان کو دعا دے دی، آپ مسکرائے اور فرمایا کہ جس حال میں وہ نوجوانوں کی جماعت اس وقت ہے کیا اس حال کے ساتھ بھی کوئی جنت میں جائے گا؟ کیا اس طرح کے اعمال والا کوئی شخص جنت میں جاسکتا ہے؟ پس جب میں نے جنت میں ان کے لئے خوشی مانگی تو اس کا مطلب ہے کہ اس حال سے توبہ کریں گے تو جنت کی خوشحالی ملے گی۔ پس میں نے تو ان کے لئے حال کے چھوڑنے کی دعا کی ہے۔ مریدین کو بات سمجھ آگئی۔ بعد ازاں وہ 20 جوان تائب ہوگئے اور ان میں سے ہر ایک اپنے وقت کا ولی بنا۔

پس اللہ کے دوست/ اولیاء بددعا نہیں دیتے بلکہ دعا دیتے ہیں۔ طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی کا بیڑہ غرق نہیں کرتے بلکہ خود تکالیف برداشت کرلیتے ہیں۔ اگر وہ ایسے کرنے والے ہوتے تو امام حسین رحمۃ اللہ علیہ ، ساری کائنات کے اولیاء کے امام ہیں اگر وہ ہاتھ بلند کردیتے تو اسی لمحے بنو امیہ کا کام تمام ہوجاتا، روئے زمین سے ان کا نام و نشان مٹ جاتا۔ سیدنا علی اصغر رحمۃ اللہ علیہ کے خون کے ایک قطرہ کے عوض پورے بنو امیہ کا خاتمہ ہو جاتا لیکن سب کچھ ہوگیا، نیزوں پر بھی چڑھ گئے مگر بد دعا نہ دی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کسی کو اتنا حوصلہ نہ دے اسے اپنا دوست نہیں بناتا۔ جو اس کا دوست ہوتا ہے اس کا حوصلہ بڑا ہوتا ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ ’’اونٹ والوں سے دوستی ہو تو دروازے اونچے رکھتے ہیں‘‘۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ سے دوستی ہو تو حوصلے بلند رکھنے پڑتے ہیں۔ کم حوصلہ لوگوں سے اللہ دوستی نہیں کرتا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ نے کسی کو ولایت دے دی، کرامت دے دی تو اس کے بعد وہ ہمیشہ جلال میں رہے کہ جس نے غیبت کی اس کو بھسم کردیا۔ ۔ ۔ جس نے گالی دی اس کو اڑا کر رکھ دیا۔ ۔ ۔ جس نے برا بھلا کہا اس کا ستیا ناس کر دیا۔ ۔ ۔ اس طرح تو نظامِ دنیا ہی درہم برہم ہوجاتا ہے، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ انبیاء کو سر سے پاؤں تک آرے سے چیر دیا گیا مگر زبان سے ایک کلمہ بھی نہ نکالا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

’’اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب لوگ انبیاء ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ بلائیں اور تکالیف انبیاء کو ملیں‘‘۔

(احمد بن حنبل، المسند، ج 6، ص 369، رقم : 27124)

پس حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’جب تمہارے دشمن تمہاری غیبت کریں تو اس کو غنیمت جان اس لئے کہ وہ تم پر احسان کر رہے ہیں کہ ہر غیبت و ہر گالی سے اپنی نیکیاں تمہارے نامہ اعمال میں منتقل کر رہے ہیں اور بغیر کچھ کئے نامہ اعمال بڑھتا جا رہا ہے‘‘۔

ذکرِ اولیاء کو دوام کیوں؟

حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

مَنْ اَحَبَّ اَنْ يذْکَرَ لَمْ يُذْکَرْ.

’’جو یہ پسند کرے کہ اس کا ذکر کیا جائے اس کا ذکر نہ کر‘‘۔

ذاتی واقعہ

بڑے بڑے لوگ اولیاء کے ذکر کو مٹانے کے لئے آئے اور آج بھی اس حوالے سے کمی نہیں ہے، کئی لوگ اس مشن پر زندگیاں گزار کر خود ختم ہوگئے مگر اولیاء کا ذکر بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ آج سے 15، 20 سال قبل چکوال میں ایک بڑے جلسے میں، میں نے ’’وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَO‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔ اس خطاب کے بعد ایک نوجوان جس نے سر پر پگڑی باندھی ہوئی، پوری داڑھی سر پر سجائے، نیک، صالح، باعمل آگے آیا اور مجھے کہنے لگا کہ آپ پر بڑا دکھ ہے کہ آپ نے ساری رات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا مگر اللہ کا ذکر ہی نہیں کیا۔ میں نے اسے اپنے قریب کرلیا اور کہا کہ دو باتیں سمجھ لیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہی خدا کا ذکر ہے۔ اگر کوئی شخص پوری رات کسی عمارت کی خوبصورتی، اعلیٰ انجینئرنگ، عمدہ نقشہ کا ذکر کرتا رہے تو کیا عمارت کی تعریف کرنا اس معمار کی تعریف نہ ہوگی جس نے اس عمارت کو بنایا ہے۔ ۔ ۔ اس عمارت کی تعریف سے معمار خوش ہوگا یا ناراض ہوگا۔ ۔ ۔ کوئی ایسا معمار دیکھا ہے کہ ساری رات عمارت کی تعریف ہو اور اس معمار کا ذکر نہ ہو اور وہ معمار آپ کا گریبان پکڑے اور کہے کہ ساری رات عمارت کی تعریف کرتے رہے اور جس نے بنائی ہے اس کا نام ہی نہیں لیا۔ ۔ ۔ کہنے والا کہے گا کہ عمارت کی اپنی کیا تعریف ہے یہ تو اینٹیں، گارا، بجری ہے، جب عمارت کی تعریف ہوتی ہے تو اصل میں یہ ساری معمار کی تعریف ہی ہے۔ اس لئے اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ’’محمد‘‘ رکھا ہے۔ پس جو جتنی تعریف عمر بھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرتے ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بنانے والے کی تعریف ہے۔

اس کے بعد میں نے اس نوجوان کو کہا کہ میں نے ساری رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا تو رب بھی تو یہی کرتا ہے۔ میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر میں رات گزار دی، خدا نے سارا زمانہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر میں گزار دیا۔ ’’وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَO‘‘ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو بلند کرتے رہتے ہیں۔ پس میں نے اللہ کی سنت پر عمل کیا ہے۔ اس نوجوان کی سمجھ میں یہ بات آگئی۔

اسی طرح اللہ کے محبوب، مقرب ولیوں کا ذکر بھی اللہ کا ذکر ہے۔ اولیاء کے ذکر کو مٹانے کی بڑی کوششیں ہوتی ہیں مگر یہ ذکر کبھی نہیں مٹتا اور کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہمارا بھی ذکر اتنا ہی ہو مگر ان کا ذکر اتنا نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے سلاطین آئے، جنہوں نے دنیا پر حکمرانی کی مگر آج ان کے نام بھی کسی کو یاد نہیں مثلاً امریکہ کے صدور یا وزیراعظم کے نام کسی سے پوچھیں تو سمجھ دار، تعلیم یافتہ آدمی بھی بڑی سوچ و بچار کے بعد بھی ان میں سے کچھ کے نام بتاسکے گا مگر سارے نام اس کو بھی نہیں آئیں گے۔ اس کے برعکس آپ کسی 8/9 سال کے بچے کو حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پوچھیں کہ کون ہیں؟ تو وہ بچہ بھی ان کے بارے میں بتادے گا۔ ۔ ۔ کسی سے بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے بارے پوچھیں تو اس کو بھی معلوم ہوگا۔ ۔ ۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ان اللہ والوں کے نام جانتے ہیں اگر انہی سے بادشاہان وقت کے نام پوچھو تو چند کے سوا کسی کا نام نہ بتا پائیں۔ وہ جو اقتدار پر قابض رہے، جنہوں نے چاہا کہ صرف ہم ہی ہم ہوں اور ہمارے سوا کوئی اور نہ ہو، آج ان کے نام بھی کسی کو یاد نہیں اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو گم کیا کہ ہمیں کوئی یاد نہ کرے، ہمیں کوئی یاد نہ رکھے، ہمارا کوئی ذکر نہ کرے۔ جنہوں نے اپنے آپ کو دکھایا وہ بھول گئے اور جنہوں نے اپنے آپ کو چھپایا وہ ساری دنیا کو یاد رہے۔ ۔ ۔ کیوں؟ اس لئے کہ

فَاذْکُرُوْنِيْ اَذْکُرْکُمْ.

(البقره : 152)

’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا‘‘۔

پس جو بندہ اللہ کا ذاکر ہوتا ہے اللہ اس بندے کا ذاکر ہو جاتا ہے۔ ہم تو اللہ کے ذاکر بھی نہ ہوئے اور ایسے بندے بھی ہیں کہ رب ان کا ذاکر ہوتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

يقول الله تعالیٰ : انا عند ظن عبدی بی وانا معه اذا ذکرنی فان ذکرنی فی نفسه ذکرته فی نفسی، وان ذکرنی فی ملاء ذکرته فی ملاء خير منهم وان تقرب الی شبرا تقربت اليه ذراعا و ان تقرب الی ذراعا تقربت اليه باعا وان اتانی يمشی، اتيته هرولة.

(صحيح بخاری، کتاب التوحيد، 6 / 2694 ، الرقم : 6970)

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (یعنی ذکر خفی) کرے تو میں بھی اپنی (شایان شان) اپنے دل میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (ذکر جلی) کرے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت (یعنی فرشتوں) میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہوجاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازوؤں کے برابر اس کے نزدیک ہوجاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں‘‘۔

اسی طرح ذاکرین کی فضیلت کو ایک حدیث مبارکہ میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرشتے ایسے ہیں جو کراماً کاتبین کے علاوہ زمین میں پھرتے ہیں، جب کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو پکارتے ہیں کہ اپنے مقصود کی طرف آؤ۔ چنانچہ وہ آتے ہیں اور اہل مجلس کو آسمان دنیا تک ڈھانپ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندوں کو کس حالت پر چھوڑ کر آئے ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں : ہم نے آپ کے بندوں کو اس حال میں چھوڑا کہ وہ آپ کی حمد اور پاکیزگی بیان کررہے تھے اور تیرا ذکر کررہے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کیا ان لوگوں نے مجھے دیکھا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں : ’’نہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو ان کی حالت کیا ہوتی؟ فرشتے عرض کرتے ہیں : (یااللہ!) اگر وہ آپ کو دیکھ لیں تو (پہلے سے) کہیں زیادہ آپ کی تعریف اور بزرگی اور کہیں زیادہ آپ کا ذکر کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وہ کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے عرض کرتے ہیں : وہ جنت مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں : نہیں۔ ارشاد ہوتا ہے : اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو ان کی کیفیت کیا ہوتی؟ وہ عرض کرتے ہیں : اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو اس کی شدید طلب اور حرص کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ وہ عرض کرتے ہیں : (جہنم کی) آگ سے پناہ مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : کیا انہوں نے جہنم کو دیکھا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں ’’نہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں : (یا اللہ!) اگر وہ اسے دیکھ لیتے تو اس سے بہت زیادہ بھاگتے، بہت ڈرتے اور پناہ مانگتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فرشتو! گواہ رہو کہ میں نے انہیں بخش دیا۔ وہ عرض کرتے ہیں : (الٰہی!) ان میں فلاں آدمی بہت گناہگار ہے، وہ ذکر سننے کے لئے نہیں بلکہ اپنے کسی کام کے لئے آیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یہ وہ لوگ ہیں جن کا ہمنشین بھی محروم اور بدبخت نہیں رہتا‘‘۔ (الجامع ترمذی، 5 : 579، رقم : 3600)

فرشتے اللہ کے پوچھنے پر اعتراض نہیں کرتے کہ یااللہ خود بھیجا تھا اور خود ہی پوچھ رہا ہے کہ کہاں سے آئے ہو۔ فرشتے اعتراض نہیں کرتے اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اعتراض کرنے والے شیطان ہوجاتے ہیں، اعتراض بے ادبی ہے اور جو اعتراض نہ کرے وہ ملائکہ بن جاتے ہیں۔ اللہ اپنے ذاکروں کا خود ذکر بھی کرتا ہے اور پھر ان کے احوال بھی پوچھتا ہے۔ یہ سب محبت کے طور طریقے ہیں، کوئی کسی کے دنیاوی محبوب سے مل کر آئے تو وہ اس کو اپنے پاس بٹھا کر اپنے محبوب کی باتیں پوچھتا ہے، اس کی طبیعت، لباس الغرض اس سے متعلقہ ہر بات پوچھتا ہے۔

ہائے افسوس! آج زمانے بدل گئے، مادیت نے بہت سوں کے ایمان غارت کردیئے، آج سے 25 / 30 سال پہلے جب کم وسائل کی وجہ سے بہت کم لوگ حج عمرہ پر جاتے تھے، تو اس وقت لوگ پھولوں کے ہار پہنا کر انہیں بڑے شوق سے رخصت کرنے جاتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وطن جارہا ہے اور جب وہ آتے تھے توان کو لینے کے لئے جاتے تھے اور بعد ازاں کئی کئی دن ان کے گھر جمع ہوکر ان سے مدینہ کی باتیں پوچھتے تھے۔ ہائے افسوس! اب وہ زمانے نہ رہے، آج کون مدینہ کی باتیں پوچھتا ہے۔ اس دور میں ایمان میں محبت موجود تھی، آج مادیت آگئی ہے۔

یہ پوچھنا کیا ہوتا ہے؟ ایک دو سوال تو دریافت احوال، باخبری کے لئے ہوئے ہیں اور بقیہ سوال ’’محبت‘‘ ہوتے ہیں اور جس سے محبت نہ ہو آدمی اس کے بارے میں کچھ پوچھتا ہی نہیں ہے۔ پس اس وجہ سے اولیاء کا ذکر نہیں مٹتا کہ صبح شام ان کا ذکر عرش پر خود رب کریم کرتا ہے، ان کا ذکر کوئی زمین پر کیسے مٹاسکتا ہے۔

کن کا ذکر زندہ رہتا ہے؟

حضرت فضیل ابن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

مَنْ اَحَبَّ اَنْ يُذْکَرَ لَمْ يُذْکَرْ.

’’جو شخص یہ چاہے خواہش کرے کہ اس کا ذکر کیا جائے، اس کی دھوم ہو اس کا چرچا ہو، اس کا ذکر نہیں کیا جاتا، اس کے چرچے نہیں ہوتے جو چاہے کہ میرا چرچا ہو اس کے چرچے نہیں ہوتے۔

وَمَنْ کَرِهَ اَنْ يُذْکَرَ ذُکِرَ.

’’اور جو اس بات کو ناپسند کرے کہ اس کا چرچا ہو اسی کے چرچے ہوتے ہیں‘‘۔

پس یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے۔

گریہ و زاری کن کا مقدر؟

٭ حضرت فضیل ابن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

مَابَکَتْ عَينُ عَبْدٍ قَطُّ حَتّٰی يَدَع رَبُّه سبحناه يَدَهٰ عَلٰی قَلْبِه.

’’کوئی شخص اس وقت تک اللہ کے لئے نہیں روتا جب تک اللہ اپنا دستِ محبت اس کے دل پر نہ رکھے‘‘۔

رویا کرو، اللہ کو رونا پسند ہے۔ اللہ اپنی شفقت و عنایت کا ہاتھ اپنی شان کے لائق اس بندے کے دل پر رکھتا ہے اس کے اثر سے اس کی آنکھ برستی ہے اور اگر اللہ کا دستِ محبت کسی کو نصیب نہ ہو تو فرمایا :

وَلَا بَکَتْ عَيْنٌ اِلَّا مِنْ فَضْلِ رَحْمَةِ اللّٰه.

’’جس کسی کی آنکھ بھی روتی ہے اس پر اللہ کا فضل ہوتا ہے تو وہ برستی ہے‘‘۔

اقوال حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ

علامتِ محبتِ الہٰی

٭ حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

مِنْ عَلَامَاتِ مُحِبِّ لِلّٰهِ مُتَابَعَةُ حَبِيْبِ اللّٰهِ فِی اَخْلَاقِه وَاَفْعَالِه وَاَمْرِه وَسُنَتِه.

’’اللہ سے محبت کرنے والے (محب) کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ کے حبیب کی متابعت کرتا ہے، اتباع کرتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق میں بھی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال میں بھی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہنے میں بھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں میں بھی‘‘۔

گویا جو اللہ سے محبت کرتے ہیں وہ اپنی پوری زندگی کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں۔ پس یہ ان لوگوں کی علامت ہے جو اللہ کے محبت ہوتے ہیں۔

خود پسندی سے اجتناب

٭ اپنے اعمال کو پسند کرنے سے بچو (ریا سے بچو)، خود پسندی سے بچو۔ حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

مَنْ تَزَيَنَ بِعَمَلِه کَانَتْ حَسَنَاتُه سَبِّئٰاتٍ.

’’جس شخص کو اپنا عمل اچھا لگے افسوس کہ اس کی نیکیاں، برائیوں میں بدل دی گئیں‘‘۔

اور جس کو نیک عمل کرکے بھی اپنا نیک عمل، گناہ لگے اس کے چھوٹے گناہ بھی نیکیوں میں بدل دیئے جاتے ہیں۔

ایسے اولیاء بھی گزرے ہیں کہ جب رات کی نماز ختم کرتے تو زمین پر گرکر اللہ کے سامنے دست بستہ رونے لگ جاتے اور عرض کرتے کہ ’’مولیٰ یہ جو گناہ کیا ہے اس پر معاف کرنا‘‘۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ تو ابھی نفل، نماز اور عبادت کرکے فارغ ہوئے ہیں، کونسا گناہ ہے جس کی توبہ کررہے ہیں۔ فرماتے کہ اس سے بھی بڑا کوئی گناہ ہے کہ میرا وجود اس قابل نہ تھا کہ رب کی دہلیز پر کھڑا ہوسکتا اور میں مصلے پر، اس کے دروازے پر کھڑا رہا۔ ۔ ۔ میری زبان اس قابل نہ تھی کہ اس کی حمد کرتا، اس کا نام لیتا، میں اس پلید زبان سے اس کا ذکر کرتا رہا۔ ۔ ۔ میری جبین اس قابل نہ تھی کہ اس کی دہلیز پر سجدہ ریز ہوتی، میں نے سجدہ کیا۔ ۔ ۔ پس میری ساری عبادت بے ادبی ہے کہ میں اس کی شان کے لائق کچھ بھی کرنے کو نہ تھا۔ ۔ ۔ معافی اس لئے مانگتا ہوں کہ مولیٰ اس بے ادبی کو معاف کردے۔

پس اولیاء، صوفیاء کو اپنے اعمال اچھے نہیں لگتے تھے اپنے اعمال کو سیئات سمجھتے۔

ماضی و حال۔ ۔ ۔ ایک موازنہ

٭ حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

کَانَ رَجُلٌ مِنْ اَهْلِ الْعِلْمِ يَزْدَادُ بِعِلْمِه بُغْضًا لِّدُنْيَا وَ تَرْکًا لَهَا.

’’ایک زمانہ تھا کہ اہل علم جتنا زیادہ علم حاصل کرتے چلے جاتے ان کا دل دنیا سے اتنا متنفر ہوتا چلا جاتا حتی کہ جب ان کا علم بڑھ جاتا ان کا دل تارک حب دنیا ہوجاتا‘‘۔

دنیا کی محبت ان کے دلوں سے نکل جاتی اور دنیا ان کی نگاہوں میں مبغوض ہوجاتی اور پھر فرماتے ہیں :

وَالْيَوْمَ يَزْادُ رَجُلُ بِعِلْمِه لِدُنْيَا حُبًا وَلَهَا طَلَبًا.

’’آج وہ زمانہ آگیا ہے کہ جتنا علم زیادہ حاصل کرتے ہیں، علم کی وجہ سے دنیا کی محبت دنیا کی طلب، حرص اور رغبت بڑھتی چلی جاتی ہے‘‘۔

پھر فرمایا :

وَکَانَ رَجُلُ يُنْفِقُ مَالَه عَلٰی عِلْمِه.

’’ایک زمانہ وہ تھا کہ لوگ اپنا مال حصول علم پر خرچ کرتے، علم لینے پر خرچ کرتے، علم بانٹنے پر خرچ کرتے‘‘۔

وَالْيَوْمَ يَکْسَبُ الرَّجُلُ بِعِلْمِه مَالًا.

’’اور آج وہ زمانہ ہے کہ لوگ اپنے علم کے ذریعے مال کماتے ہیں، علم مال کمانے کا ذریعہ بن گیا ہے‘‘۔

پھر فرمایا :

وَکَانَ يُرٰی عَلٰی صَاحِبِ عِلْمٍ زِيَادَةٌ فِی بَاطِنِه وَ ظِاهِرِهِ.

’’ایک زمانہ وہ تھا کہ صاحبان علم کے ظاہر و باطن میں برکت ہی برکت نظر آتی تھی‘‘۔

نور ہی نور نظر آتا تھا، حسنات تھیں، خیرات تھیں، ان کی جبینوں پر سجدوں کا نور تھا، ان کے دلوں میں خشیت الہٰی تھی، ان کی زندگیوں اور روحوں میں اللہ کی محبت کا نشہ اور کیف و سرور تھا، وہ اللہ کے ساتھ تعلق میں مست تھے۔

وَالْيَوْمَ يُرٰی عَلٰی کَثِيْرِ مِّنْ اهْلِ الْعِلْمِ فَسَادُ الْبَاطِنِ وَالظاهِرِ.

’’اور آج وہ زمانہ آگیا ہے کہ اکثر اہل علم کو دیکھتے ہیں کہ جتنا علم بڑھتا ہے ان کے ظاہر و باطن میں فساد بڑھتا چلا جاتا ہے‘‘۔

آدابِ حصولِ معرفت

٭ امام سلمی روایت کرتے ہیں کہ حضرت ذوالنون مصری نے ایک روز اپنے مریدوں سے خطاب کیا کہ

يَا مَعْشَرَ الْمُرِيْدِيْن مَنْ اَرَادَ مِنْکُمُ الطَّرِيْق.

’’اے مریدین! تم میں سے اگر کوئی شخص اللہ کی طرف جانے کا راستہ چاہے (تو کچھ آداب سیکھے)‘‘۔

فَلْيَلْقِلْ عُلَمَآءَ بِالْجَهْل.

’’جب علماء سے ملے تو جاہل بن کر ملے‘‘۔

جانتا ہو تب بھی جاہل بن کر ملے تاکہ جتنا علم ان سے مل سکتا ہے لے سکے۔

وَالزُّهَادَ بِالرَّغْبَة.

’’اور زاہدوں / عبادت گزاروں سے محبت و رغبت سے ملے‘‘۔

اللہ والوں سے ملے تو محبت و رغبت، ادب و احترام، محبت و چاہت سے ملے، ان کو تکنے کی آرزو کرے، ان کے پاس بیٹھنے کی آرزو کرے۔

وَاَهْل الْمَعْرَفَةَ بالصَّمْ.

’’اور عارفوں / معرفت والوں سے گونگا بن کر ملے‘‘۔

وہ جو کہیں ہمہ تن گوش ہوکر سنتا رہے۔ ۔ ۔ کلام نہ کرے۔ ۔ ۔ کچھ پوچھے نہیں۔ ۔ ۔ اہل معرفت چپ رہیں تو ان کی مرضی۔ ۔ ۔ بولیں تو ان کی مرضی۔ ۔ ۔ کچھ کہہ دیں تو سن لے۔ ۔ ۔ نہ کہیں تو دیکھ لے۔

اس وقت کے ائمہ فرماتے ہیں کہ 5 ہزار سے زائد علماء و محدثین، فقہاء و آئمہ امام احمد بن حنبل کی مجلس میں شاگردوں کے طور پر حاضر ہوتے اور ان میں سے 500 کے قریب تلامذہ امام احمد بن حنبل کے بیان کو لکھتے اور بقیہ ہزارہا لوگ لکھتے نہ تھے بلکہ صرف ان کو تکتے تھے۔ ان کے آنے کا مقصد کیا تھا؟ کہتے کہ صرف ادب سیکھنے کے لئے آتے ہیں۔

حضرت عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام مالک کی خدمت میں حصول علم کے لئے 20 برس گزارے اور 20 برس میں سے امام مالک نے 18 برس تک مجھے صرف ادب سکھایا، علم نہیں پڑھایا۔ صرف آخری 2 سال علم پڑھایا اور فرماتے ہیں کہ آج تک پچھتاوا ہے کہ وہ آخری 2 سال جو علم پر لگائے کاش وہ بھی ادب پر لگائے ہوتے۔

یہ اقوال حضرت ذوالنون مصری کے تھے جن کا حال یہ تھا کہ لوگ ان کو زندیق/ ملحد کہتے، فتوے لگاتے، حکام وقت سے کہہ کر ان کو قید کروادیا۔

عمر بھر تکالیف دیں، پہچان نہ سکے کہ یہ شخص کون ہے؟ حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، کشف المحجوب میں روایت کرتے ہیں کہ جس رات حضرت ذوالنون مصری کا انتقال ہوا، کسی کو خبر نہ تھی کہ آج رات ان کا انتقال ہوگیا ہے، اس ایک رات شہر بغداد کے 70 اولیاء کو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی اور ہر ایک نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بغداد تشریف لائے ہیں۔ خواب میں ہر ولی نے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کیسے تشریف لائے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ذوالنون مصری کی وفات ہوئی ہے اس کی روح کے استقبال کے لئے آیا ہوں۔

دنیا دھاڑے مار کر روتی ہوئی صبح اٹھی تو ان کی خبر ہوئی کہ یہ ذوالنون مصری کسی مقام و مرتبے کے حامل تھے۔ مگر وہ دنیا سے جاچکے تھے اور جب لوگ ان کے گھر پہنچے تو نور کے کلمات سے ان کی پیشانی پر لکھا تھا۔

کَانَ حَبِيْبُ اللّٰه وَمَاتَ فی حُبِّ اللّٰه.

’’اللہ کا عاشق تھا اور اسی کے عشق میں وفات پاگیا‘‘۔

اللہ کا محبوب تھا اور اسی کی محبت میں وصال فرماگیا۔ سخت گرمیوں کے دن تھے، ان کا جنازہ اٹھایا گیا، اطراف و اکناف سے ہزاروں لاکھوں پرندے جمع ہوگئے اور انہوں نے پر (Wing) جوڑ کر سائبان بنا کر سایہ کردیا۔ اللہ چاہتا تو بادلوں کے ذریعے ہی سایہ کردیتا، مگر بادلوں سے سایہ کرتا تو کئی نہ ماننے والے کہتے کہ بادل تو آتے ہی رہتے ہیں مگر اللہ نے بادلوں کے ذریعے سایہ نہیں کروایا بلکہ پرندوں کے ذریعے اس طرح سایہ کروایا کہ ان پرندوں نے پروں سے پرملاکر سائبان بنادیا۔ نیچے ذوالنون مصری کا جنازہ جاتا تھا اور اوپر پرندوں کا سائبان چلتا تھا۔

مگر اب پچھتائے کیا جب چڑیاں چگ گئیں کھیت

لوگ پچھتاتے رہ گئے کہ ہم ان کے مقام کو نہ پہچان سکے۔

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

اللہ تعالیٰ ہمیں ان اولیاء کرام کی تعلیمات پر عمل کرنے اور اپنے احوال کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم