مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال : کیا مقتدی کا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے یا کہ توجہ سے خاموش کھڑے رہنا؟ تفصیلاً بیان فرمائیں؟

جواب : مقتدی کا امام کے پیچھے نماز میں فاتحہ یا قرآن کی کوئی سورت پڑھنا ضروری نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے اور صحابہ کرام و ائمہ کبار کا معمول ہے۔ یہ قاعدہ یاد رکھ لیں کہ اللہ کا فرمان سب سے بڑا ہے جو بات قرآن سے ثابت ہو اس پر اعتراض مسلمان کا کام نہیں۔ قرآن کے مقابلے میں نہ کوئی روایت پیش ہوسکتی ہے نہ کسی بزرگ کا قول۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَO

(الاعراف : 204)

’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔

جب امام سورۃ فاتحہ پڑھتا ہے تو یہ قرآن کی سورت ہے۔ امام چونکہ تلاوت کررہا ہے لہذا سب کو غور سے سننے اور چپ رہنے کا حکم ہے۔ ظہر، عصر کی نماز میں قرآت آہستہ ہوتی ہے، جو سنی نہیں جاتی۔ فجر، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں قرآت بلند آواز میں ہوتی ہے جو سنی جاتی ہے۔ گویا قرآن کی دو صورتیں ہوئیں۔

  1. جہری یعنی بلند آواز سے جیسے فجر، مغرب اور عشاء
  2. سِری یعنی آہستہ سے جیسے ظہر اور عصر

لہذا ایک ہی آیت میں دو حکم فرمائے گئے کہ کان لگا کر سنو یعنی جب آواز آئے جیسے جہری نمازوں میں اور چپ رہو یعنی جب آواز نہ آئے جیسے سِری نمازوں میں۔

ایک وضاحت

امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے والے اپنی بات کی دلیل کے طور پر یہ احادیث پیش کرتے ہیں کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لاصلوة لمن لم يقرا بفاتحة الکتاب.

’’جو فاتحہ نہ پڑھے اس کی کوئی نماز نہیں‘‘۔

اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ

من صلی صلوة لم يقرا فيها بام القرآن فهی خداج ثلاثا غير تام.

(مسلم 1 : 149)

’’جس نے ایسی نماز پڑھی جس میں فاتحہ نہ پڑھی وہ نماز ناقص ہے۔ تین بار فرمایا مکمل نہیں‘‘۔

’’فاتحہ کے بغیر نماز نہیں‘‘۔۔۔وضاحت

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ حدیث پاک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان، فعل یا تقریر ہے۔ قرآن میں کمی بیشی جائز نہیں۔ حدیث پاک میں کسی راوی کی غلطی کی وجہ سے کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ اس لئے صحت حدیث کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ قرآن کے خلاف نہ ہو۔ قرآن نے فاتحہ پڑھنے کی قید نہیں لگائی بلکہ فرمایا :

فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ.

(المزمل، 73 : 20)

’’پس قرآن میں سے جتنا تم پر آسان ہو اتنا پڑھو‘‘۔

تو اب فاتحہ کی تخصیص بطور فرض کرنا قرآن کے عموم و اطلاق کے خلاف ہوگا۔ ہاں مطلق پڑھنا قرآن کی رو سے فرض ہے اور فاتحہ پڑھنا بحکم حدیث واجب۔ اگر فاتحہ کے علاوہ قرآن پڑھا تو فرض ادا ہوجائے گا لیکن واجب رہ جائے گا۔ غلطی سے ایسا کیا تو سجدہ سہو کرنے سے نماز درست ہوجائے گی۔ دانستہ کیا تو دوبارہ ادا کرے کہ واجب الاعادہ ہے۔ ’’نماز نہ ہوئی‘‘ کا مفہوم یہی ہے کہ ناقص ہوئی۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم نماز کے لئے آؤ اس وقت ہم سجدے میں ہوں تو

فاسجدوا ولا تعدوه شيا ومن ادرک رکعة فقد ادرک الصلوة.

(ابوداؤد، 1 : 136)

’’تو تم بھی سجدہ کرو اور اس کا شمار نہ کرنا اور جس نے رکوع پالیا اس نے نماز (رکعت) پالی‘‘۔

گویا جس نے امام کے پیچھے رکوع پالیا۔ اس نے پوری رکعت پالی۔ اگر فاتحہ پڑھنا فرض ہو تو صرف رکوع کے پانے سے رکعت کیسے مل سکتی ہے۔ حالانکہ بالاتفاق رکوع میں ملنے والا رکعت پالیتا ہے۔ پتہ چلا کہ فاتحہ پڑھنا فرض نہیں بلکہ واجب ہے۔

فاتحہ امام کے پیچھے نہ پڑھنے کے متعلق احادیث مبارکہ

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ صَلَّی خَلْفَ الإِمَامِ فَإِنَّ قِرَاءَ ةَ الإِمَامِ لَهُ قِرَاءَ ةٌ.

(جامع المسانيد، الخوارزمی، 1 / 331)

’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کا پڑھنا ہی اس کا پڑھنا ہے۔‘‘

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : صَلَّی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِالنَّاسِ، فَقَرَأَ رَجُلٌ خَلْفَهُ، فَلَمَّا قَضَی الصَّلَاةَ، قَالَ : أَيُّکُمْ قَرَأَ خَلْفِي؟ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ رَجُلٌ : أَنَا يَا رَسُوْلَ اﷲِ! فَقَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ صَلَّی خَلْفَ الإِمَامِ فَإِنَّ قِرَائَ ةَ الإِمَامِ لَهُ قِرَاءَ ةٌ.

(مسند الامام الاعظم : 61)

’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی، تو ایک شخص نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے قراءت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز سے فارغ ہو کر فرمایا : تم میں سے کس نے میرے پیچھے قراءت کی تھی؟ (لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کے ڈر سے خاموش رہے، یہاں تک کہ) تین بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتکرار یہی استفسار فرمایا۔ آخر ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو امام کے پیچھے ہو تو امام کی قراءت ہی اس کی قراءت ہے۔‘‘

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوْا وَإِذَا رَکَعَ فَارْکَعُوْا وَإِذَا قَالَ : ﴿سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ﴾ فَقُوْلُوْا : ﴿رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ﴾، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوْا، وَاِذَا صَلَّی جَالِسًا، فَصَلُّوْا جُلُوْسًا أَجْمَعُوْنَ.

(صحيح البخاری، 1 / 257)

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو۔ جب رکوع کرے تو تم رکوع کرو، جب ﴿سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ﴾ کہے تو تم ﴿رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ﴾ کہو، جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو۔‘‘

عَنْ عَطَاء بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رضی الله عنه عَنِ الْقِرَاءَ ةِ مَعَ الإِمَامِ، فَقَالَ : لَا قِرَاءَ ةَ مَعَ الإِمَامِ فِي شَيئٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ.

(صحيح مسلم، 1 / 406)

’’عطاء بن یسار روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے ساتھ قراءت کے متعلق سوال کیا تو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : امام کے ساتھ کسی چیز میں قراءت نہیں۔‘‘

عَنْ قَتَادَةَ رضی الله عنه (مِنَ الزِّيَادَةِ) : وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوْا. (وفي حديث) أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوْا.

(صحيح مسلم، 1 / 304)

’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں : جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بھی یہ الفاظ ہیں : اور جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔‘‘

عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ کَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما يَقُوْلُ : مَنْ صَلَّی رَکْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيْهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ اِلَّا أَنْ يَکُوْنَ وَرَاءَ الإِمَامِ.

وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

(سنن الترمذی، 1 / 346)

’’حضرت ابونعیم وہب بن کیسان سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنھما کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس نے کوئی رکعت پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی تو گویا اس نے نماز ہی نہیں پڑھی، سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔‘‘

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم صَلَّی بِهِمُ الظُّهْرَ فَلَمَّا انْفَتَلَ قَالَ : أَيُّکُمْ قَرَأَ : ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی﴾؟ فَقَالَ رَجُلٌ : أَنَا. فَقَالَ : عَلِمْتُ أَنَّ بَعْضَکُمْ خَالَجَنِيهَا.

(سنن ابی داؤد، 1 / 219)

’’حضرت عمران بن حُصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : تم میں سے سورئہ : ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی﴾ کس نے پڑھی؟ ایک آدمی نے عرض کیا : میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں جان گیا تھا کہ تم میں سے کوئی مجھ سے جھگڑ رہا ہے۔‘‘

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيْهَا بِالْقِرَاءَ ةِ، فَقَالَ : هَلْ قَرَأَ مَعِي أَحَدٌ مِنْکُمْ آنِفاً؟ فَقَالَ رَجُلٌ : نَعَمْ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ : إِنِّي أَقُوْلُ مَالِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ. قَالَ : فَانْتَهَی النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَ ةِ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِيْمَا جَهَرَ فِيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ الصَّلَوَاتِ بِالْقِرَاءَ ةِ، حِيْنَ سَمِعُوْا ذَلِکَ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم.

(سنن الترمذی، 1 / 344)

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جہری نماز سے فارغ ہوکر فرمایا : کیا تم میں سے کسی نے اب میرے ساتھ قراءت کی تھی؟ ایک شخص نے عرض کیا : جی ہاں! یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں بھی کہہ رہا تھا کہ کیا ہوگیا ہے کہ مجھ سے قرآن میں جھگڑا کیا جا رہا ہے راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ سننے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہری نمازوں میں قراءت سے رک گئے تھے۔‘‘

عَنْ نَافِعٍ رضی الله عنه أَنَّ عَبْدَ اﷲِ بْنَ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما کَانَ إِذَا سُئِلَ : هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الإِمَامِ. قَالَ : إِذَا صَلَّی أَحْدُکُمْ خَلْفَ الإِمَامِ فَحَسْبُهُ قِرَاءَ ةُ الإِمَامِ، وَ إِذَا صَلَّی وَحْدَهُ فَلْيَقْرَأْ. قَالَ : وَکَانَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما لَا يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ.

(الموطا، امام مالک، 1،86، الرقم 192)

’’حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے جب مقتدی کی قرات کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا مقتدی بھی امام کے پیچھے قراءت کرے گا؟ تو اُنہوں نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اسے امام کی قراءت کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو خود قراءت کرے۔ نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما خود بھی امام کے پیچھے قراءت نہیں کرتے تھے۔‘‘

عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ قَيْسٍ : أَنَّ عَبْدَ اﷲِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه کَانَ لَا يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ، فِيْمَا يَجْهَرُ فِيْهِ وَ فِيْمَا يُخَافِتُ فِيْهِ.

(الموطاء، امام محمد، 96)

’’حضرت علقمہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جہری (جن میں آواز سے قراءۃ ہوتی ہے) اور سری (جن میں قراءۃ آہستہ ہوتی ہے) دونوں طرح کی نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت نہیں کرتے تھے۔‘‘

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْن أَبِي لَيْلَی أَنَّ عَلِيًّا رضی الله عنه کَانَ يَنْهَی عَنِ الْقِرَاءَ ةِ خَلْفَ الإِمَامِ.

(مصنف عبدالرزاق، 2 / 138)

’’عبداﷲ بن ابی لیلیٰ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ امام کی اقتداء میں قراءت کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔‘‘

شروع اسلام میں نماز میں گفتگو بھی کرلیتے تھے

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

کنانتکلم فی الصلوة يکلم احدنا اخاه فی حاجته حتی نزلت هذه الايه حافظوا علی الصلوات والصلوة والوسطی وقوموا الله قانتين فامرنا بالسکوت.

’’نماز میں بات چیت کرلیتے تھے۔ ہم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے کام اور حاجت سے متعلق پوچھتا۔ یہاں تک کہ یہ آیت کریمہ اتری کہ تمام نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیان والی نماز کی (بھی) اور اللہ کے لئے عاجزی سے کھڑا ہوا کرو۔ پھر ہمیں خاموش رہنے کا حکم ہوا‘‘۔

(صحيح بخاری 2 : 650، جامع ترمذی 1 : 123)

واضح ہوا کہ ابتدائے اسلام میں وہ پابندیاں نہیں تھیں جو بعد میں آئیں نماز میں گفتگو تک ہوتی تھی۔

فامرنا بالسکوت.

’’پھر خاموشی کا حکم ملا‘‘۔

پس پہلے کوئی صاحب حکم واضح نہ ہونے کی وجہ سے فاتحہ خلف الامام بھی پڑھتا تھا تو خاموشی کے حکام سے وہ بھی خاموش ہوگیا قرآن کریم کے حکم۔ فاستمعوا لہ وانصتوا۔ ’’سنو اور چپ رہو‘‘۔

کے ساتھ ساتھ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد خاموشی بھی ہمارے اطمینان کے لئے کافی ہے۔ پس ہم امام کے پیچھے مطلق قرآن پڑھنے کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ قعدے میں جو قرآنی دعائیں پڑھی جاتی ہیں ہم ان کو بطور قرات نہیں بلکہ بطور دعا پڑھتے ہیں، نیز مقام قرات قیام ہے قعدہ نہیں۔