دعوت کی نفسیات اور طریقہ کار

پروفیسر محمد رفیق

داعی کا کام دوسروں کو ان کے ارادوں اور سوچ سے دستبردار کرواکے اپنے خیالات کے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں، ہر کوئی اپنے آپ کو ٹھیک ہی سمجھتا ہے۔ پیدائشی اور وراثتی عقائد و خیالات کو کلیتاً ترک کردینا آسانی کے ساتھ ممکن نہیں ہوتا۔ دوسروں کو بدلنے کی تکنیک سے واقفیت کے بغیر ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس سلسلے میں ہمیں مخاطب کی ذہنی کیفیت، حالات و واقعات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دعوت کے کام کا آغاز نہایت ہی حکمت و بصیرت سے کرنا ہوگا بایں ہمہ ہماری دعوت موثر ہوسکتی ہے۔ ذیل میں ان اہم نکات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے جوہمہ وقت داعی کی فطرتِ ثانیہ کی صورت میں اس کے وجود کا حصہ رہیں، انہی نکات پر عمل کرکے ہم اپنی دعوت کو قابل قبول اور موثر بناسکتے ہیں۔

1۔ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ

اولین کوشش یہ ہونی چاہئے کہ چیزوں کو دوسروں کے نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے اس طرح مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ایک ہی مسئلہ کے بارے میں مختلف لوگوں کا نقطہ نظر مختلف ہوتا ہے اگر داعی بھی صرف اپنے ہی نقطہ نگاہ پر اڑا رہے تو دوسروں تک اپنی بات نہیں پہنچاسکے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ فریقِ ثانی کی بات کو مکمل سنا جائے اور اپنی بات کے آغاز کے ساتھ ہی اس کی بات کا انکار نہ کیا جائے بلکہ اس کے موقف کو سراہتے ہوئے دوسرے زاویہ سے بات کی جائے کیونکہ آغاز گفتگو میں اس کی بات کے جھٹلانے سے وہ دل برداشتہ ہوجائے گا اور اپنی انا (میں) کی وجہ سے آپ کی بات بھی سننے سے انکار کردے گا۔ جملہ نقطہ ہائے نظر کو سامنے رکھ کر ہی درمیانی راہ نکالی جاسکتی ہے جو قابل قبول ہوسکے۔ دوسروں کے نظریات کی تنقیص نہ کیجئے۔ دوسروں کی آراء کا احترام بھی کیا جائے بات توجہ سے سنی جائے پھر دلائل کے ساتھ اپنی بات پہنچائی جائے۔ دوسرے شخص کو کبھی یہ نہ کہا جائے کہ تم غلط کہتے ہو بلکہ گفتگو سن کر اس طرح کہا جائے کہ جو کچھ آپ نے کہا درست ہے لیکن سوچنے کا ایک اور انداز بھی ہے آپ توجہ فرمائیں تو میں کچھ عرض کروں۔ اس طرح دوسرا شخص حق بات قبول کرتے ہوئے آمادہ ہوسکتا ہے ورنہ ہٹ دھرمی پر اتر آئے گا اور آپ کی بات کو غلط کہتا رہے گا۔

2۔ اندازِ گفتگو

یہ دور ڈرامے کا دور ہے۔ ڈرامہ ابلاغ کا موثر ترین ذریعہ ہے جو غیر محسوس طریق سے دل و دماغ میں کئی ایسی چیزیں اتار دیتا ہے جن کا آدمی کو شعور تک نہیں ہوتا۔ اپنے خیالات کو ڈرامائی انداز سے دوسروں تک پہنچایئے پھر دیکھئے غیر محسوس طریق سے وہ کس طرح سنجیدگی کے ساتھ آپ کی دعوت کے بارے میں سوچنے لگ جاتے ہیں۔ کسی تاریخی واقعہ، ذاتی تجربہ و مشاہدہ سے بات کا آغاز یا حالات حاضرہ اور امت کی مجموعی صورت حال سے بات کا آغاز کرنا مخاطبین کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کا بہترین طریقہ ہے۔

3۔ اپنی اہمیت جتلانے سے اجتناب

اپنی اہمیت جتا کر دوسروں پر بات ٹھونسنے سے اجتناب کیا جائے۔ بات اس طرح کی جائے کہ دوسر ا شخص محسوس کرے کہ یہ اس کے اپنے دل کی آواز ہے، جو کچھ اس نے سنا اس کے اپنے نظریات ہیں، ان میں غیریت نہیں بلکہ اپنائیت ہے۔ ان نظریات پر کسی کی اجارہ داری نہیں دوسروں کے نظریات کو اپنانے میں انسانی نفس آڑے آجاتا ہے جبکہ وہی خیالات اپنے سمجھ کر قبول کرلینے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔

4۔ بحث و تکرار سے پرہیز

بحث مباحثہ اور تکرار سے پرہیز کیا جائے۔ کبھی دوسرے شخص کو چیلنج نہ کیا جائے۔ جب آپ کھلم کھلا کسی شخص کو للکارتے ہیں تو وہ لازماً اپنے دفاع پر تل جائے گا پھر کبھی ہار نہیں مانے گا خواہ اس کا موقف غلط ہی کیوں نہ ہو۔ جس معاملہ میں کوئی شخص اپنی تذلیل (Insult) محسوس کرے اسے کبھی قبول نہیں کرسکتا۔

5۔ دوستانہ ماحول

اگر آپ دوسروں کو اپنی سوچ کے مطابق بدلنے کے خواہشمند ہیں تو گفتگو کا آغاز دوستانہ ماحول میں کیجئے۔ طرز عمل سے اپنائیت کا احساس ہو، شیریں کلامی دلوں کو تسخیر کرنے میں اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ دوران گفتگو اس بات کا شدت کے ساتھ خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ مخاطب آپ کی باتوں سے زیادہ سے زیادہ موافقت کرتا رہے ورنہ گفتگو کا رخ اگر بار بار انکار کی سمت چلا جائے تو آپ اپنی کامیابی کے راستے مسدود کردیں گے۔ کوئی ایسی بات نہ کی جائے مخاطب جس کا فوری انکار کرسکے۔ مشترک امور پہلے زیر بحث لائیے تاکہ موافقت کا ماحول قائم رہے۔

6۔ مخاطب کو سننا

کہیں غلطی ہوجائے تو فوراً تسلیم کرکے معذرت کرلی جائے، دوران گفتگو دوسرے کو بات کرنے کا زیادہ موقع دیا جائے۔ اس طرح وہ اپنی اہمیت کو محسوس کرے گا۔ آپ کو ہمہ تن گوش پاکر خوش ہوگا اور آپ کی بات بھی توجہ سے سنے گا۔ اگر داعی ہی بولتا جائے اور مخاطب کو موقع نہ دے تو سننے والا بوریت محسوس کرے گا اس طرح اچھی بات کی قبولیت کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں۔

7۔ ہمدردانہ رویہ

مخاطب کے اچھے جذبات کو بار بار سراہا جائے۔ ذہن کی نسبت دل کے راستے سے تبدیلی جلد آتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا رویہ ہمدردانہ اور خیر خواہی پر مبنی ہو، اسے آپ کے خلوص اور حسن نیت پر اعتماد ہو۔

8۔ غصہ اور ناراضگی سے اجتناب

کامیابی کے امکانات اسی صورت میں روشن ہوسکتے ہیں جبکہ آپ دوسروں کو غصے اور اشتعال میں لائے بغیر اپنی بات منتقل کرسکیں۔ بوریت اورناراضگی سے بچائیں۔ وقت ضائع نہ کریں، سارا کام خوشگوار موڈ میں ہو۔

9۔ مثبت طرزِ سوچ

گفتگو سے کبھی اس طرح کا اشارہ نہ ملے کہ اشیاء اور موجودہ حالات ناقابل اصلاح ہیں۔ بلکہ اس طرح مخاطب کے ذہن کو تبدیلی کی طرف راغب کیا جائے کہ ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی ہوتی رہے تو غلطیوں کو درست کرلینا کوئی زیادہ مشکل نہیں بس ہمت کرنے کی دیر ہے، غلط خیالات پر آسانی کے ساتھ قابو پایا جاسکتا ہے۔ مزید برآں دوسرے لوگوں کی عملی مثالیں دینے سے حوصلہ بڑھتا ہے اور قدم جادہ حق پر رواں دواں ہوجاتے ہیں۔

10۔ مخاطب کی تعریف و توصیف

تعریف جادو کا اثر رکھتی ہے، گفتگو کا آغاز خوبیوں سے کرنا چاہئے۔ تعریف سننے کے بعد ناخوشگوار اور تلخ بات بھی گوارا کی جاسکتی ہے۔ بہتری کے آثار پیدا ہوں تو قدم قدم پر دل کھول کر داد دیجئے۔ تعریف کرنے میں کنجوسی سے کام نہیں لینا چاہئے اس طرح حالات تیزی کے ساتھ سنورنے لگیں گے، رفتار کار میں اضافہ ہوگا۔ ڈانٹ ڈپٹ اور روک ٹوک سے بددلی اور مایوسی جنم لیتی ہے، اٹھے ہوئے قدم بھی رک جاتے ہیں۔ جو کچھ آپ تجویز کررہے ہیں اسے مخاطب کو بخوشی قبول کرنے دیجئے، جبر کا ماحول پیدا نہ ہونے دیں۔

11۔ براہ راست تنقید سے اجتناب

دوسروں پر نکتہ چینی سے پہلے اپنی غلطیوں کی نشاندہی کیجئے۔ کسی کو براہ راست اور سب کے سامنے مت ڈانٹئے، اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خامیوں اور کوتاہیوں کی طرف بالواسطہ طریقے سے متوجہ کرنا چاہئے تاکہ احسان مندی کے جذبات پیدا ہوں ورنہ غصہ اور نفرت پیدا ہوگی۔

12۔ احکامات کی بجائے سوالات

تحکمانہ انداز اختیار نہ کیا جائے۔ احکامات صادر کرنے کی بجائے مختلف سوالات کرکے مخاطب کو اپنے نکتۂ نظر کی طرف لایا جائے تاکہ وہ جوابات کی صورت میں خود اسے تسلیم کرے۔ اس طرح وہ شرمندگی سے بچ جائے گا ورنہ اپنی اہانت اور رسوائی کے احساس کے باعث سچ کو تسلیم کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہوگا۔

13۔ غمی و خوشی میں شرکت

دوسروں میں سچی دلچسپی لیجئے۔ غمی خوشی میں شرکت کیجیے۔ وہ آپ کے قریب آجائیں گے پھر بات سمجھانا آسان ہوجاتا ہے۔

14۔ خوش مزاجی

یاد رکھئے خندہ پیشانی اور مسکراہٹ جادو کا اثر رکھتی ہے۔ ایک خوش مزاج شخص کو کسی محفل میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہر اچھے شخص کے گرد دلکشی کا ایک ہالہ ہوتا ہے، اس میں داخل ہونے سے کوئی شخص بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

15۔ ذاتی روابط

رابطوں کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں لیکن سب سے اہم ذریعہ ذاتی رابطہ ہے۔ سب سے زیادہ غلط فہمیاں دوری کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ شخصی رابطے بُعد کو قُرب میں بدلنے کا بہترین ذریعہ ہیں، اس طرح افہام و تفہیم کی راہیں کھلتی ہیں، بدگمانیاں دور ہوتی ہیں۔ ذہنوں میں لگی ہوئی گرہیں کھلنے لگتی ہیں اور حسن اخلاق سے دل پگھلنے لگتے ہیں۔

16۔ تدریجی دعوت

دعوت کے ضمن میں تدریج کا خیال رکھنا بہت اہم ہے، ایک دم ساری باتیں نہ بتائی جائیں۔ آسان سے مشکل کی طرف سفر کیا جائے۔ غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے کی دعوت اس طرح حسین پیرائی میں دی جائے کہ وہ اس میں انفرادی اور اجتماعی مسائل کا حل محسوس کرے، تشنہ روح کی سیرابی اور ضروری کامیابی کی ضمانت کا احساس ہو۔ دعوت اسلام اسے اپنے دل کی پکار محسوس ہو۔ اسلام قبول کرلینے والوں کو اللہ کی بندگی کی دعوت اس طرح دی جائے کہ ان کی زندگی کا ایک ایک پہلو اللہ اور اس کے رسولA کی اطاعت کے ضمن میں آتا جائے۔ جو لوگ اپنی انفرادی زندگی میں اصلاح قبول کرلیں انہیں ظالمانہ اور استحصالی نظام کو بدلنے کی دعوت دی جائے تاکہ وہ طاغوت کے ساتھ ٹکرانے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوجائیں اور جب وقت آئے تو اپنا تن، من، دھن سب کچھ غلبہ اسلام کے لئے لٹادینے سے بھی دریغ نہ کریں اس لئے کسی کو اس کی قوتِ ہضم سے بڑھ کر خوراک نہ دی جائے۔

17۔ جدید ذرائع کا استعمال

دعوت کے میدان میں جدید ترین ذرائع استعمال کرنے چاہئیں اس طرح ایک تو پیغام تیزی کے ساتھ وسیع ترین حلقوں تک پہنچایا جاسکتا ہے، دوسرے قبولیت کے اعتبار سے مفید ثابت ہوتا ہے۔ نظریہ ضرورت اور وقتی مصلحتوں کے تحت بعض مکروہات اگر مباحات کے درجے میں بھی آجائیں تو حرج واقع نہیں ہوتا۔ اصل چیز نیک نیتی، خدا ترسی اور خلوص ہے، اطاعت اور فرمانبرداری کا رویہ ہو تو چھوٹی موٹی غلطیاں ہوسکتی ہیں۔

18۔ تواضع، سادگی، منصوبہ سازی

کام خاموشی، آہستگی اور سادگی سے کیا جائے۔ نمود و نمائش، تکبر و غرور کا شائبہ تک نہ ہو۔ ذاتی پراپیگنڈے سے پرہیز کیا جائے، صرف رضائے الٰہی مقصود ہو۔ اس کام میں شہرت بھی ہے اور بزرگوں نے شہرت کو آفت قرار دیا ہے کیونکہ اس راستے سے نفس و شیطان کا حملہ بہت شدید ہوتا ہے۔ نفس کی تربیت کا سامان بھی ضروری ہے ورنہ ذرا ذرا سی بات پر مشتعل ہوکر انسان اپنا وقار کھوبیٹھتا ہے، عجلت اور تیز رفتاری بھی نقصان دہ ہوتی ہے۔ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوتا ہے ورنہ بعض اوقات ذرا سی غلطی کئے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ پلاننگ بہت سوچ سمجھ کر کی جائے۔ سطحیت بینی ایک بہت بڑی کمزوری ہے، نظر دور رس نتائج پر ہونی چاہئے۔ دیر پا نتائج بڑی محنت سے حاصل ہوتے ہیں۔ صرف بیج پھینکنے پر اکتفا کرکے نگرانی کے بغیر مرادوں کی فصل نہیں کاٹی جاسکتی۔ داعی اور دعوت کا رشتہ کھیت اور کسان کا ہوتا ہے۔

19۔ اسلام کی عالمگیریت و جامعیت کا تصور

غیر مسلموں کو یہ بات خاص طور پر بتانے اور ذہن نشیں کرانے کے قابل ہے کہ اسلام صرف مسلمانوں کی میراث نہیں بلکہ پوری انسانیت کی متاع گراں مایہ ہے۔ اسلام دین فطرت ہے اور فطرت کے اصول کسی انسان کے بنائے ہوئے نہیں، علوم کے ماہرین اور سائنسدان فطری اصول وضع نہیں کرتے بلکہ انہیں صرف دریافت کرتے ہیں۔ پوری کائنات کانظام خدا کے بنائے ہوئے انہی فطری اصولوں پر چل رہا ہے لہذا جب کائنات کی ہر چیز لاشعوری طور پر خالق کائنات کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہو تو انسان کو تو بدرجہ اولیٰ شعوری طور پر اس کے سامنے جھک جانا چاہئے۔ اپنے ارادہ اختیار سے دستبردار ہونے کا نام ہی اسلام ہے اور یہی امن و آشتی کا واحد ذریعہ ہے۔ طبعی قوانین کی طرح اللہ نے اخلاقی و سماجی اور اجتماعی زندگی کے بھی کچھ ضابطے دیئے ہیں۔ جنہیں اللہ کے رسول ہم تک پہنچاتے ہیں، ان کی پابندی بھی اسی طرح ناگزیر ہے ورنہ دنیا کا نظام اسی طرح بگڑا رہے گا اور اس کی اصلاح نہیں ہوسکے گی۔ مسلمانوں کی صف میں آکر حق کو قبول نہ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ حکمت و دانائی اور راہنمائی جہاں سے میسر آئے لے لینی چاہئے۔ یہ نہ دیکھا جائے کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ توجہ اس امر کی جانب ہونی چاہئے کہ کیا کہہ رہا ہے۔

20۔ نظم و ضبط و باہمی تعاون

اس میدان میں باہمی تعاون اور داد بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ سب لوگ ایک جیسی صلاحیت اور قابلیت کے حامل نہیں ہوتے، کام اجتماعی سطح پر اور منظم طریق سے کیا جائے تو نتائج بہتر ہوتے ہیں۔ تعاون سے ساتھیوں کی کمزوریاں دور کی جاسکتی ہیں۔ دوسروں کی مضبوطی اور ثابت قدمی دیکھ کر حوصلہ بڑھتا ہے اس سے جدوجہد میں سرگرمی اور تیزی پیدا ہوتی ہے۔ اجتماعی ماحول میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے جس سے علم و عمل کی کمی اور کوتاہی دور ہوتی ہے اور کم ہمتی سے نجات حاصل کرکے آدمی جرات مندی سے کام کرتا ہے۔ لہذا تنہا کام کرنے کی بجائے دوسروںکے ساتھ مل کر تنظیم کی صورت میں کام کیا جائے۔

21۔ دین کے وقار کا لحاظ

دین کے وقار کا لحاظ رکھنا بھی بہت ضروری ہے دعوت کے ضمن میں ایسا انداز نہ اپنایا جائے جس سے اسلام کی توہین اور دعوت کی بے قدری ہو۔ اسلام کو بے توقیری سے بچائیں اور مخالفت اور بے رخی کی صورت میں بھی کلمہ بد دعا منہ سے نہ نکالیں بلکہ ہمیشہ ہدایت کی دعا کریں۔

22۔ موقع کی مناسبت

بے جا اور بے موقع بات نہ صرف اپنا اثر کھودیتی ہے بلکہ الٹا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، ایسی کیفیت پیدا نہ کی جائے کہ مخاطب اپنے آ پ کو گھیراؤ میں محسوس کرکے بغاوت یا فرار پر تل جائے۔ ناراضگی اور غصہ کا عنصر پیدا ہوجائے تو نازیبا کلمات سننے پڑیں گے۔ اندریں حالات بھی صبر کا دامن نہ چھوٹنے پائے اور مایوسی قریب نہ پھٹکے۔

23۔ ماحول کی تبدیلی

طے شدہ پروگرام کے بغیر اگر کہیں اچانک دعوت دینے کا ماحول اور موقع میسر آجائے تو جس شخص کو متوجہ کرنا مقصود ہو اسے ظاہری اعتبار سے سابقہ حالت پر نہ رہنے دیں۔ بات کے آغاز سے پہلے اگر بیٹھا ہو تو پیار سے اٹھالیا جائے۔ کھڑا ہو تو ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ چند قدم چلا لیا جائے، اس طرح بات سننے اور سمجھنے پر آمادگی پیدا ہوتی ہے۔

24۔ نفرت کی بجائے محبت

گنہگار سے گنہگار شخص کے ساتھ بھی نفرت نہ کی جائے۔ نفرت مرض سے ہوتی ہے مریض سے نہیں لہذا چاہت اور محبت کا مظاہرہ ہو۔ ہمدری، درد مندی اور خیر خواہی کے جذبات کا اظہار کیا جائے کسی صورت میں بھی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچنے دی جائے۔

25۔ غیر متزلزل یقین

دعوت کی کامیابی کا دارومدار اپنے پیغام کی حقانیت پر غیر متزلزل یقین سے ہوتا ہے لہذا اس ضمن میں کسی دنیا دار کی وجاہت اورمرتبہ سے مرعوبیت پیدا نہ ہو اور کسی بھی صورت میں اپنی وضع قطع اور تشخص کو دوسروں کی خاطر نہ چھوڑا جائے۔ اسلامی آداب کا پورا خیال رکھا جائے، یقین اتنا پختہ ہو کہ آدمی کسی صورت میں بھی اصولوں پر سمجھوتہ (Compromise) کرنے کے لئے تیار نہ ہو ورنہ دعوت ایک بے جان ڈھانچہ بن کر رہ جائے گی ہاں موقع کی مناسبت سے انداز میں جدت کشش اور رغبت پیدا کی جاسکتی ہے۔

26۔ صبر و برداشت

امت مسلمہ کی خصوصیات میں اس کی داعیانہ حیثیت بہت نمایاں ہے۔ دعوت کے ذریعے بے یقینوں کو یقین دلانا۔۔۔ سوئے ہوئے کو جگانا۔۔۔ غافلوں کو خبردار کرنا۔۔۔ سستی کے مارے ہوؤں کو متحرک کرنا۔۔۔ بگڑے ہوؤں کو راہ راست پر لانا۔۔۔ اور بے خوفوں کو ڈرانا ہے۔ یہ کام بڑا صبر آزما ہے اکتاہٹ، تھکاوٹ، بیزاری اور پریشانی کو قریب نہ پھٹکنے دیا جائے۔ کبھی جارحانہ انداز اختیار نہ کیا جائے۔ مظلومیت میں بڑی قوت ہوتی ہے۔ ابتدائی دور میں اس سے بڑھ کر کوئی اور حربہ کار گر نہیں ہوسکتا۔ حق کی خاطر ہر طرح کے ظلم و جور کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے دیکھ کر انصاف پسند لوگوں کی ہمدردیاں حاصل ہوتی ہیں۔

27۔ لگن، شوق، ولولہ اور دُعا

یہ امر قابل توجہ ہے کہ لگن اور دھن کے بغیر کوئی معرکہ سر نہیں کیا جاسکتا۔ دعوت دین کا کام توفیق ایزدی کے بغیر ممکن نہیں لہذا قدم قدم پر دعا کا سہارا لیا جائے۔ دعا اور دعوت میں دردو سوز، تڑپ اور خیر خواہی کا عنصر غالب ہونا چاہئے۔ جان و مال اور آرام و وقت کا ایثار درکار ہوتا ہے اس لئے دل جیتنے کے لئے حسب موقع تحائف بھی دینے چاہئیں۔ دعوت بار بار دی جائے لیکن لگن کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوسکتا کہ دوسروں کو تنگ کیا جائے، ان کے آرام اور مصروفیات کا خیال نہ رکھا جائے اور لٹھ لے کر پیچھے ہی پڑ جائیں حتی کہ تنگ آکر کوئی چڑ جائے یا ضد پر اتر آئے۔ داعی کی غیر حکیمانہ حرکات کے باعث ایسی صورت حال میں مخاطب کے افکار و طغیان کا وبال پڑنے کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے لہذا بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

28۔ پاکیزہ ماحول میں دعوت

اگر آپ اپنے مخاطب کو اس کے ماحول سے نکال کر اپنے ماحول میں لے آئیں تو سمجھ لیں آدھا میدان مار لیا کیونکہ پاکیزہ ماحول کے اپنے خوشگوار اثرات ہوتے ہیں، فرشتوں کی موجودگی بھی اثر آفرینی میں اضافہ کرتی ہے۔ اس طرح سابقہ منفی اثرات زائل ہونے لگتے ہیں اور نیا رنگ چڑھنے لگتا ہے۔ اگر داعی (دعوت دینے والا) اپنے اندر درج بالا اوصاف پیدا کرلے۔۔۔ معاشرہ میں ایک آئیڈیل بن جائے۔۔۔ دعوت دیتے وقت حکمت و بصیرت کے دامن کو پکڑے رکھے۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ گفتار کی بجائے کردار کا غازی بن جائے تو اس کی زبان میں تاثیر پیدا ہوتی ہے اور اس کی دعوت کو بھی مقبولیت و قبولیت کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔