دورہ صحیح مسلم شریف (نشست دوم۔ I)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

اصطلاحاتِ حدیث کا قرآن و حدیث سے استدلال و استنباط
حدیثِ ضعیف بھی حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے۔
جامع مسجد گھمگول شریف (برمنگھم UK)

ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین

منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم کے زیر اہتمام دورہ صحیح البخاری کی عالمی سطح پر بے حد پذیرائی اور کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے اکتوبر 2007ء میں منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم برطانیہ کے زیراہتمام جامع مسجد گھمگول شریف میں دورہ صحیح مسلم (کتاب الایمان تا کتاب الصلاۃ) کے عنوان سے تین روزہ خصوصی علمی، فکری اور تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔ جن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حسب پروگرام پچیس گھنٹوں سے زائد دورانیہ پر مشتمل پانچ نشستوں میں سینکڑوں علماء و مشائخ، طلباء اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب سے اصول الحدیث، علم الحدیث، امام مسلم کے مقام و مرتبے اور صحیح مسلم کے حوالے سے عقائد، فقہ، تصوف اور دیگر موضوعات پر گفتگو فرمائی۔ دورہ کی پہلی نشست (شائع شدہ ماہنامہ منہاج القرآن مئی، جون، جولائی08ء) میں گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے علمی کلچر کے احیاء کی ضرورت، تاریخِ اصولِ حدیث، علم الحدیث و اصول الحدیث میں امام اعظم کا مقام و مرتبہ، ائمہ حدیث کے ہاں احادیث کی قبولیت و عدم قبولیت کا معیار، بدعت کیا ہے؟ اہلِ بدعت کون ہیں؟ گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقیقی بدعتی، علمی روایات اور ائمہ کا طرزِ عمل، علمی اختلاف کی حقیقت اور ائمہ کرام کا طرزِ عمل، حقیقتِ اجماع، شیوۂ علم اور دیگر موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

دورہ صحیح مسلم کی دوسری نشست کا اول حصہ نذرِ قارئین ہے۔ (مرتب)

آج کی نشست کا آغاز اصولِ حدیث پر لکھے گئے اپنے ایک رسالہ کے اجمالی تعارف سے کروں گا اور پھر اسی روشنی میں حدیثِ صحیح، حدیثِ حسن اور حدیثِ ضعیف کا قرآن و حدیث سے استدلال و استنباط کرتے ہوئے اس ضمن وارد کئے جانے والے اعتراضات کا علمی محاکمہ کروں گا۔

میں نے جن بہت سے علوم و فنون اور میادین میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم، عنایت اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توجہات اور فیوضات کی خیرات سے لکھا ہے ان کی تعداد تقریباً 60 ہے۔ ان میں اصول حدیث بھی ہے۔ میں ان اکابر کے کام (جن کا ذکر گذشتہ نشست میں کیا گیا) کے سلسلہ میں، میں اپنے کسی کام کو شریک نہیں کرتا، میرا کام حقیرانہ سا ہے، جو دعا ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوجائے تاکہ اس عظیم میراث کا تسلسل برقرار رہے اور اس کا ارتقاء ہوتا رہے۔

اصول حدیث پر میں نے ’’الخطبۃ السدیدہ فی اصول الحدیث و فروع العقیدہ‘‘ کے نام سے عربی میں ایک رسالہ لکھا ہے۔

اصول حدیث کی تاریخ میں اس رسالہ کی اہمیت کو ذکر کرنے سے پہلے یہ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اصول حدیث پر بہت سارے رسائل اور کتب لکھی گئیں اور اس وقت اصول حدیث کا علم قطعاً کسی میدان میں کسی نئی چیز کے اضافے کا متقاضی نہیں ہے کیونکہ علم کی ایک سٹیج ہوتی ہے جہاں آکر اس کے اندر کسی اضافہ کی گنجائش نہیں رہتی اس لئے کہ کسی بھی علم کے اصول، حتمی ہوجاتے ہیں جبکہ فروع میں تحقیقات اور ارتقاء ہوتا رہتا ہے۔ مسائل، احکام اور موضوعات میں فروغ جاری رہتا ہے مگر بنیادی اصول ایک وقت تک تو تیار ہوتے رہتے ہیں مگر اس کے بعد ایک زمانہ آتا ہے کہ پھر ان اصول میں مزید کسی اضافہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ لہذا اصول پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ پس اب کوئی نئی اصطلاحات وضع نہیں کرسکتا۔ ۔ ۔ نئی شرائط مقرر نہیں ہوسکتیں۔ ۔ ۔ کیونکہ اس طرح کرنے سے علم کی دنیا میں انحراف ہوجاتا ہے۔ اب جتنا کام بھی آگے ہوگا وہ ان وضع کردہ اصولوں پر ہی ہوگا۔

پچھلی دو، تین صدیوں میں اور دورِ حاضر میں جتنا بھی کام اصول حدیث پر ہوا وہ اس پچھلے کام کی بنیاد پر نئے انداز، نئی ترتیب، نئی درجہ بندی اور نئے اظہار کے ساتھ پیش کیا گیا کیونکہ ہر دور کی ضرورت کے مطابق مصنف اس کام کو آگے پیش کرتا ہے۔ اندازِ اظہار اللہ کی عطا ہے اور ہر فرد کا اندازِ اظہار جدا ہوتا ہے اور اس اندازِ اظہار سے اس چیز کا ابلاغ کتنا ہوتا ہے یہ بھی اللہ کی عطا ہے۔

اس بات کو سمجھ لینے کے بعد اب میرے تحریر کردہ رسالہ ’’الخطبۃ السدیدہ‘‘ کی اہمیت کی طرف آتے ہیں کہ جب کوئی نئی چیز وضع نہیں ہوسکتی تو اس کے لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اضافہ نہیں ہوسکتا مگر اس کی شرح، تفصیل، نئی ابواب بندی وضاحت کے نئے انداز اور امثال کے ذریعے اس کو بیان کرنے پر کوئی پابندی نہیں اور جملہ ائمہ فن و علماء اس طرح لکھتے رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں۔ پس میں نے بھی یہ حقیر کاوش کی۔

اپنی اس کاوش کے دوران میں نے چاہا کہ میں اصول حدیث پر کام کرتے ہوئے کسی ایسے نئے اسلوب کے مطابق لکھوں کہ وہ کام پہلے سے نہ ہوا ہو۔ تاکہ کم از کم یہ کام اصول حدیث کی تاریخ میں ایک Contribution (تعاون) تصور ہو اور اس فن میں ایک اضافہ ہو، ارتقاء ہو اور جو کام پہلے صدیوں میں نہ ہوا ہو اس کو کیا جائے۔

پس اس کام پر آغاز سے قبل جب میں نے 12 سو سال پر محیط اصول حدیث کے جملہ لٹریچر کا بغور مطالعہ کیا تو ایک بڑی عجیب چیز سامنے آئی اور وہ یہ کہ اصول حدیث کی مصطلحات، تعریفات اور اصولوں کو قرآن مجید سے چند ایک کے علاوہ زیادہ تر کو اخذ نہیں کیا گیا۔ یہ ایک ایسا گوشہ تھا جو اصول حدیث کی 12 سو سال کی تاریخ میں خالی رہا۔ ۔ ۔ لیکن اس پر بھی تعجب کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ نہ جانے ہزارہا کتنے اور علم کے گوشے ہوں گے جن پر کام نہ ہوا اور اب ہورہا ہے اور نہ جانے کتنے گوشے اب بھی نظروں سے اوجھل ہیں اور آنے والے احباب ان پر کام کریں گے اور اس طرح قیامت تک کام ہوتا رہے گا۔ اس لئے کہ علم کبھی بھی اپنی انتہاء کو نہیں پہنچتا چونکہ علم اللہ کی وحی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اشاعت و تفسیر اور شرح کا نام ہے۔ جیسے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کی حد نہیں ہے اس طرح اس کے علم کی شرح کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔ قیامت تک اس کے اندر کام کرنے کی گنجائش رہے گی، بہت سارے میادین علم، ہزارہا موضوعات پر آنے والے لوگوں کو اپنے اپنے ادوار میں حصہ عطا ہوتا رہے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

مَثَلُ اُمَّتِيْ مَثَلُ الْمَطَر.

’’میری امت کی مثال بارش کی سی ہے‘‘۔

(جامع ترمذی، باب مثل الصلوات الخمس، ج 5، ص 152، رقم 2869)

جیسے بارش اترتی رہتی ہے اور جہاں ہوتی ہے اس زمین کو کچھ نہ کچھ دیتی رہتی ہے۔ پس ہر دورمیں اللہ کی یہ عنایت اترتی رہتی ہے اور ہر دور کی ضرورت کے مطابق جو نصیب جس کا ہے اس کو اس کا نصیب ملتا رہتا ہے۔ اللہ کا خزانہ لوگوں کی طرح کا نہیں ہے کہ بانٹ دیا تو بعد میں آنے والے سائلین کو نہ مل سکے۔ اس بات کے اندر علم کا ایک بڑا راز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

كُلاًّ نُّمِدُّ هَـؤُلاَءِ وَهَـؤُلاَءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًاO

(بنی اسرائيل : 17، 20)

’’ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ان (طالبانِ دنیا) کی بھی اور ان (طالبانِ آخرت) کی بھی (اے حبیبِ مکرّم! یہ سب کچھ) آپ کے رب کی عطا سے ہے، اور آپ کے رب کی عطا (کسی کے لیے) ممنوع اور بند نہیں ہے‘‘۔

’’الخطبۃ السدیدہ‘‘ کی اہمیت و انفرادیت

پس میں نے اصول حدیث پر لکھے گئے رسالہ ’’الخطبۃ السدیدہ‘‘ میں دو نئی چیزیں ایسی رکھی ہیں جس کا 12 سو سال کی اصول حدیث کی تاریخ میں کسی کتاب یا رسالہ میں اہتمام نہیں کیا گیا۔ ان دو نئی چیزوں کے پیش نظر اس متن کو لکھا۔ 1۔ ان میں ایک تو یہ کہ اصول حدیث کی اکثر اصطلاحات و تعریفات کا استنباط میں نے قرآن پاک سے کیا۔ بہت قلیل مصطلحات کو چھوڑ کر یہ کام پہلے والے محدثین نے نہیں کیا تھا۔

علاوہ ازیں ’’الخطبۃ السدیدہ‘‘ میں، میں نے حدیث کے تحمل و اداء کے تمام 8 طرق کا قرآن مجید کی کثیر آیات سے استدلال کیا ہے۔

اس رسالہ میں ’’مکانۃ الحدیث‘‘ حدیث و سنت کی حجیت کو مکانۃ رسالت کے ساتھ ملا کر قرآن مجید سے استنباط کیا ہے۔

اس رسالہ میں، میں نے اقسام حدیث کا قرآن مجید سے استنباط کیا ہے مزید یہ کہ احادیث بھی ان کی تائید میں ذکر کی ہیں۔

2۔ دوسری نئی چیز اور اسلوب جسے میں نے اصول حدیث کے اپنے رسالہ ’’الخطبۃ السدیدہ‘‘ میں اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ میں نے ہر اصطلاح حدیث سے عقیدہ کی ایک ایک فرع کو ثابت کیا ہے۔ ۔ ۔ ایک طرف حدیث کی اصطلاح اور تعریف ہے، اس کو قرآن سے ثابت کیا ہے۔ ۔ ۔ اور دوسری طرف اسی اصطلاح سے عقیدہ کی ایک فرع کو بھی ثابت کیا ہے۔ اصول حدیث کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کبھی بھی اصطلاح حدیث کے ساتھ عقیدہ کو نہیں جوڑا گیا تھا۔ پس یہ اصول حدیث میں اس رسالہ ’’الخطبۃ السدیدہ‘‘ کی ایک نئی Contribution ہے۔ یہ اصول حدیث کا ایسا متن ہے جس کا استدلال و استبناط قرآن سے ہے اور اسی سے احتجاج عقائد کا بھی ہے۔

اب ہم اصول حدیث کے حوالے سے باضابطہ گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔

اس نشست میں ہم حدیث صحیح، حدیث حسن، حدیث ضعیف اور موضوع پر گفتگو کریں گے کہ حدیث صحیح کیا ہے؟ اس کا کس طرح پتہ چلتا ہے۔ ۔ ۔ ؟ حدیث ضعیف کیا ہے۔ ۔ ۔؟ حدیث حسن کیا ہے۔ ۔ ۔؟

حدیثِ ضعیف کے حوالہ سے اعتراض

حدیث ضعیف کے حوالے سے ایک شور برپا ہے، ہنگامہ ہے اور یہ شور و ہنگامہ صرف اس لئے ہے کہ لوگوں کو صرف شور کرنا اور تنقید کرنا آتا ہے اور علم کے اسرار، اصول اور ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے۔

ایک بات بڑی قابل توجہ ہے کہ عام طور پر جب کوئی حدیث آپ صحابہ کرام، اہل بیت اطہار، اولیاء اور اعمال کے فضائل میں پیش کرتے ہیں تو بعض لوگ سوچے سمجھے بغیر فی الفور یہ کہہ دیتے ہیں کہ ’’یہ حدیث ضعیف ہے‘‘ اس لئے ناقابل قبول ہے گویا وہ اس حدیث کو رد کردیتے ہیں۔ ضعیف کا لفظ ان کے ہاں گویا اتنا بڑا عیب کا لفظ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ یہ حدیث ضعیف ہے اس لئے اس میں قبولیت کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ پس عام لوگ جو اصول حدیث پر مہارت نہیں رکھتے وہ ان احباب کے اس جواب سے گھبرا جاتے ہیں۔

حدیث ’’غیر صحیح‘‘ پر اعتراض

اس کے علاوہ ایک اور فتنہ جو علمی دنیا میں پیش کیا جاتا ہے وہ ’’غیر صحیح‘‘ کے الفاظ ہیں یعنی کسی حدیث کے آخر پر لکھے ہوئے الفاظ ’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے‘‘ پڑھ کر وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ تو حدیث ہی صحیح نہیں ہے۔ پس اس پس منظر میں ’’ضعیف‘‘ کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے اور ’’صحیح‘‘ اور ’’غیر صحیح‘‘ کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔

پس یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے‘‘ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ حدیث ’’غلط‘‘ ہے، یا ’’موضوع‘‘ ہے یا ’’باطل‘‘ ہے۔ اردو زبان میں ’’صحیح نہیں ہے‘‘ کا معنی ہے ’’غلط‘‘۔ جبکہ اصول حدیث و مصطلحات حدیث میں ’’غیر صحیح‘‘ (یہ صحیح نہیں ہے) کا معنیٰ ’’غلط‘‘، ’’باطل‘‘، ’’مردود‘‘ اور ’’موضوع‘‘ نہیں ہے۔

حدیثِ ضعیف بھی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے

یہ ذہن نشین کرلیں کہ ’’ضعیف‘‘ بھی حدیث ہی ہوتی ہے لہذا جب ہم اصول حدیث میں بالاتفاق پہلی ٹیکسٹ بک (متن) مقدمہ ابن الصلاح کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ صاحب مقدمہ جب بھی یہ بیان کرتے ہیں کہ حدیث کیا ہے؟ (اور صاف ظاہر ہے کہ حدیث سے مراد حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، عام بات چیت کو اصول حدیث اور مصطلحات حدیث میں، حدیث نہیں کہا جاتا ہے)۔ تو حدیث کی تعریف اور تقسیم کرتے ہوئے جملہ ائمہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ حدیث ہی کی تین اقسام ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب یہ کہا گیا کہ حدیث کی 3 اقسام ہیں تو مراد یہ ہوئی کہ ان میں سے کوئی قسم بھی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خارج نہیں ہے۔ پس مقدمہ ابن الصلاح میں بھی حدیث کی تعریف و تقسیم میں یہی درج ہے کہ

اَنَّ الْحَدِيْثَ عِنْدَ اَهْلِه يَنْقَسِمُ اِلٰی صَحِيْحٍ وَحَسَنٍ وَ ضَعِيْفٍ.

’’کہ اہل علم کے ہاں حدیث کی تین اقسام ہیں 1۔ صحیح، 2۔ حسن، 3۔ ضعیف‘‘۔

اصول حدیث کی کوئی کتاب اٹھالیں ہر ایک نے حدیث کی تعریف و تقسیم میں یہی لکھا ہوا ہوگا کہ حدیث سے مراد حدیث کی تین قسمیں ہیں۔

  1. صحیح
  2. حسن
  3. ضعیف

امام نووی ’’التقریب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ

اَلْحَدِيْثُ صَحِيْحٌ وَ حَسَنٌ وَ ضَعِيْفٌ.

حدیث کی تعریف و تقسیم کے حوالے سے حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ

اَنَّ الْحَدِيْثَ عِنْدَ اَهْلِه يَنْقَسِمُ اِلٰی صَحِيْحٍ وَحَسَنٍ وَ ضَعِيْفٍ.

علامہ ابن کثیر، علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد ہیں اور عرب دنیا میں بڑے معتمد ہیں۔ یہی تقسیم علامہ ابن تیمیہ کے ہاں بھی ہے مگر ان کا اصول حدیث پر الگ سے کوئی جامع ٹھوس کام نہیں ہے۔ ان کی اور علامہ ابن قیم کی کتابوں میں اصول حدیث سے کئی بحثیں آجاتی ہیں مگر الگ سے جامع اور ٹھوس کام نہیں ہے مگر ہر ایک یہی بیان کرتا ہے کہ حدیث کی 3 اقسام ہیں۔

  1. صحیح
  2. حسن
  3. ضعیف

اب آگے جس امر کی شرح بیان کرنے لگا ہوں یہ عطائے ربی ہے اور ہر ایک کا اپنا اپنا نصیب ہے۔ اس کی شرح بیان کرنے سے قبل اس مثال کو ذہن میں رکھیں کہ اگر عدالت میں کوئی کیس چل رہا ہے تو ہر وکیل اس کیس کو اپنے انداز میں پیش کرتا ہے۔ ۔ ۔ اس نے کوئی نئی چیز، نیا قانون تخلیق نہیں کرنا ہوتا۔ ۔ ۔ مگر اس کو پیش کرنے کا اندازہر ایک کا جدا ہوتا ہے۔ پیش کرنے کا انداز اچھا ہو تو لوگوں کے ذہن میں بات جلد آجاتی ہے اور اگر پیش کرنے میں کمی رہ جائے تو کوئی صحیح بات بھی سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ ۔ ۔ اہل سنت کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ مقدمہ صحیح تھا، مگر وکلاء کے دلائل اور پیش کرنے کا انداز صحیح نہ ہونے کی وجہ سے یہ مقدمہ ہارنے کی طرف جارہے ہیں۔ اس کے برعکس آپ نے اکثر یہ بھی دیکھا ہوگا کہ کسی کا موقف غلط ہوتا ہے مگر وکیل اچھا اور قابل کرنے کی وجہ سے مقدمہ جیت جاتے ہیں۔ حتی کہ مقدمہ کی ہار اور جیت بھی اس بات کا ثبوت نہیں ہوتی کہ سچا کون تھا اور جھوٹا کون تھا۔ ۔ ۔ ؟ پس مقدمہ کے فیصلہ سے حقیقت میں کسی کا سچا، جھوٹا ہونا نہ سمجھا کرو۔

اب جو شرح بیان کرنے لگا ہوں، شارحین میں سے کسی نے اس حوالے سے نہیں لکھا سوائے امام جلال الدین سیوطی کے، ان کی توجہ اس نکتہ کی طرف گئی اور انہوں نے ’’التدریب شرح التقریب‘‘ میں اس کو بیان کیا۔

میں جو بات اخذ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود 3 اقسام پر مشتمل ہے تو ان میں سے کسی ایک قسم کو بھی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مطلقاً خارج نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی یہ سن کر یا پڑھ کر یہ حدیث ضعیف ہے کہے ’’میں قبول ہی نہیں کرتا‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رد کردیا ہے اور اس نے فقط ایک جملے ’’یہ حدیث ضعیف ہے‘‘ سے 12 سو سال کی اصول حدیث کی پوری تاریخ کو ہی رد کردیا۔

امثال سے حدیثِ ضعیف کی قبولیت کی وضاحت

اگر کوئی حدیث ضعیف ہے تو اس کا مطلقاً انکار نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی رد کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ حدیث ضعیف کے اپنے احکام ہیں؟ اسی طرح حدیث حسن اور حدیث صحیح کے اپنے احکام ہیں۔ ہر ایک کے اپنے مراتب و درجات ہیں۔

1۔ اس کی مثال اس طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ ایک شخص کاملاً صحیح صحت کا ہے اور دوسرے آدمی کو نزلہ زکام، کھانسی، سردرد ہے۔ گویا اس کو چار مرض ہیں۔ اصول حدیث میں علت کو مرض کہا جاسکتا ہے۔ بس جس شخص کو امراض و علل لاحق ہیں وہ اصول حدیث کی اصطلاح کی تمثیل میں ضعیف ہوگیا۔ پہلے فرد کو کوئی بیماری اور علت لاحق نہیں ہے پس وہ شخص صحت کے اعتبار سے صحیح ہے تو کیا جس شخص کو امراض، علل اور ضعف (کمزوری) لاحق ہے تو کیا وہ انسان ہی نہ رہا۔ کیا اسے انسانیت سے خارج سمجھا جائے؟ پس اس مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے صحیح سے ضعیف تک کی ساری بحث سمجھ میں آجاتی ہے۔

2۔ اس بحث کو اس مثال سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص گناہگار ہے۔ ۔ ۔ دوسرا نیک صالح مسلمان ہے۔ ۔ ۔ تیسرا شخص ولی کامل ہے۔ پس جو ولی کامل ہے وہ اصول الحدیث کی اصطلاح کی تمثیل میں درجہ صحیح میں ہے۔ ۔ ۔ دوسرا جو نیک صالح عام شخص ہے وہ درجہ حسن کا ہے۔ ۔ ۔ اور جو گناہگار مسلمان ہے وہ حدیث ضعیف کی مثل ہے۔ ۔ ۔ تو کیا ایمان میں ضعیف ہونے کی بناء پر گناہگار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت سے خارج ہوگئے؟ نہیں۔

حدیثِ مبارکہ سے وضاحت

اس کی وضاحت درج ذیل حدیث مبارکہ سے بھی عیاں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْيُغَيِّرْه بِيَدِه فَاِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِه فَاِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِه وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِيْمَان.

(صحيح مسلم، کتاب الايمان، ج 1، ص 69، رقم 49)

اس حدیث مبارکہ سے حدیث کی تینوں اقسام کی وضاحت کرتا ہوں۔

’’جو شخص کوئی برائی دیکھے تو اسے چاہئے کہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے۔ ۔ ۔ (گویا یہ ایمان کی حالت صحیح ہے)۔ ۔ ۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے۔ ۔ ۔ (یہ حدیث کی مصطلحات میں درجہ حسن ہے)۔ ۔ ۔ (اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیسرے درجے کی بھی گنجائش رکھی اور ہم نے تیسرے درجے کو نکال دیا ہے)۔ ۔ ۔ فرمایا : کہ اگر زبان سے بھی کہنے کی طاقت نہ ہو تو دل سے ہی برا جانے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے‘‘۔

گویا حدیث مبارکہ میں ضعیف کا لفظ استعمال کیا اور کہا کہ یہ ضعیف ترین ایمان ہے۔ گویا ایمان کے ضعیف ترین ہونے کے باوجود اسے ایمان ہی کہا، کفر نہیں کہا۔ ہم ’’ضعیف‘‘ کی الجھن میں اڑے ہوئے ہیں جبکہ حدیث مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’’اَضْعَفْ‘‘ (ضعیف ترین) کا لفظ استعمال کیا۔ یعنی ضعف کا سب سے بڑا درجہ، بہت زیادہ کمزور، ضعیف ترین۔

پس ضعیف ترین ایمان کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کی حالت کو داخل ایمان قرار دیا اور اس کو کافر نہیں کہا، خارج از ایمان قرار نہیں دیا۔

پس اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی تمثیلاً حدیث کے تین مراتب کا استنباط ہوتا ہے۔

  1. حدیث مبارکہ کے مطابق برائی کو ہاتھ سے روکنا، پہلا درجہ مثل حدیث صحیح ہے۔
  2. زبان سے روکنا، دوسرا درجہ مثل حدیث حسن ہے۔
  3. دل سے برا جاننا، تیسرا درجہ مثل حدیث ضعیف ہے۔

آیات قرآنی سے استنباط

حدیث مبارکہ کی تقسیم صحیح، حسن اور ضعیف کا تمثیلاً استنباط درج ذیل آیات سے بھی ہوتا ہے۔ 12سو سال کی اصول حدیث کی تاریخ میں ان آیات سے ان اقسام حدیث کا استنباط کسی نے نہیں کیا۔ اللہ رب العزت نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تین درجے بیان کرنے سے پہلے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت بھی قرار دیا۔ ۔ ۔ قرآن کے وارث بھی قرار دیا۔ ۔ ۔ اور مستحقینِ دخول جنت بھی کہا پھر ان کے تین درجے بیان کئے۔

ارشاد فرمایا :

ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُO

(فاطر : 32)

’’پھر ہم نے اس کتاب (قرآن) کا وارث ایسے لوگوں کو بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چُن لیا (یعنی امّتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو)، سو ان میں سے اپنی جان پر ظلم کرنے والے بھی ہیں، اور ان میں سے درمیان میں رہنے والے بھی ہیں، اور ان میں سے اﷲ کے حکم سے نیکیوں میں آگے بڑھ جانے والے بھی ہیں، یہی (آگے نکل کر کامل ہو جانا ہی) بڑا فضل ہے‘‘۔

آیت مبارکہ میں انہیں نہ صرف ’’عِبَادِنَا‘‘ (اپنے بندے) کہا بلکہ ’’چنے ہوئے‘‘ (چنیدہ) بھی کہا۔ پھر فرمایا :

فَمِنْهُمْ۔ ہمارے چنے ہوئے بندوں (جنہیں ہم نے وارثانِ قرآن بھی بنایا) میں سے ایک طبقہ وہ ہے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے یعنی گناہ کئے ہیں مگر اس گناہ اور ظلم کے باوجود اللہ تعالیٰ نہ تو انہیں اپنے بندوں کی صف میں سے نکالتا ہے، نہ اپنے چنے ہوئے بندوں میں سے نکالتا ہے اور نہ قرآن کے وارثان کی فہرست میں سے خارج کرتا ہے۔ یہ عامۃ المسلمین کا طبقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کا Status بھی بیان کرتا ہے کہ ظَالِمٌ لِنَفْسِہ ایمان کی کمزوری کے باعث کبھی کوئی گناہ، کوتاہی یا نافرمانی کر بیٹھتے ہیں اور دوسری طرف سورۃ النسآء میں فرماتا ہے :

وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًاO

(النسآء، 4 : 64)

’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے‘‘۔

جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے، گناہ کر بیٹھے تو گویا وہ ایمان میں ضعیف ہوئے۔ ۔ ۔ اگر ایمان میں ضعیف ہوجانے والوں کو ایمان سے خارج کردینا قرآن و سنت کا قاعدہ ہوتا تو ان گناہ کرنے والوں کو اللہ اپنی بارگاہ سے ہمیشہ کے لئے دور فرمادیتا۔ ۔ ۔ مگر نہیں۔ ۔ ۔ اس طرح نہیں جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے تو اللہ ان کو راستہ سکھاتا ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آجائیں اور جو ظلم وگناہ ان سے ہوئے تھے اس کی Compensationکرلیں۔ ۔ ۔ اور اللہ سے معافی مانگ لیں۔ ۔ ۔ اور پھر ان کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی شفاعت کردیں تو وہ جانوں پر ظلم کر بیٹھنے والے بھی اس Compensatory صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ct کے ساتھ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحمت سے جھولیاں بھردینے والا پائیں گے۔

پھر سورۃ فاطر میں ارشاد فرمایا فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ کہ ان میں سے کچھ وہ ہیں جو درمیانے درجے والے ہیں جنہوں نے ظلم تو نہیں کیا مگر بڑے کمال کے درجے پر بھی نہیں پہنچے، اوسط درجے کے ایمان کے مقام پر آگئے۔ یہ مومنین صالحین ہیں۔ پھر ارشاد فرمایا :

وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ۔ بڑا طبقہ وہ ہے جو نیکیوں میں سب سے آگے بڑھ گیا، یہ اولیاء کاملین ہیں۔

سورۃ فاطر کی اس آیت میں قرآن پاک نے تین اصطلاحات استعمال کی ہیں۔

  1. الظالم
  2. المقتصد
  3. السابق بالخیرات

میں نے انہی اصطلاحات کا اطلاق صحیح، حسن اور ضعیف پر کیا ہے۔

اگر قرآن پاک کی بیان کردہ ان تین اصطلاحات کی مصطلاحات حدیث میں بات کروں تو

  1. عامۃ المسلمین جو ظالم لنفسہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے یہ درجہ ضعیف میں ہیں۔
  2. مومنین و صالحین۔ ۔ مُقْتَصِدٌ ۔ ۔ ۔ یہ درجہ حسن میں ہیں۔
  3. اولیاء کاملین۔ ۔ ۔ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ ۔ ۔ ۔ یہ درجہ صحیح میں ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے تینوں کو فَمِنْهُمْ (ان میں سے) سے بیان کیا ہے کہ گناہگار بھی میرے چنے ہوئے بندوں میں سے ہیں۔ ۔ ۔ مومنین صالحین بھی انہی میں سے ہیں جن کو میں نے چن کر وارثان قرآن بنالیا۔ ۔ ۔ اولیاء کاملین بھی انہی میں سے ہیں جن کو منتخب کرلیا ہے۔

گویا قرآن پاک نے عامۃ المسلمین کو ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ کہہ کر بھی انہیں ’’منیت‘‘ کی شان دی ہے کہ انہی میں سے ہیں۔ انہیں امت سے خارج نہیں کیا بلکہ وارثان قرآن کا تحفہ بھی دیا اور پھر فرمایا :

ذٰلِکَ هُوَالْفَضْلُ الْکَبِيْر.

’’یہ اللہ کا بہت بڑا فضل ہے‘‘۔

وہ (اللہ) چونکہ فضل والا ہے اس لئے اپنے قوانین بھی فضل والے بناتا ہے اور ہم چونکہ چھوٹے ظرف والے ہیں، ہماری فہم اور ہمارے دل بھی تنگ اور چھوٹے ظرف والے ہیں۔ ان تینوں طبقات کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اگلی آیات میں نتائج دیتا ہے ارشاد فرمایا :

جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌO

(فاطر : 33)

’’(دائمی اِقامت کے لیے) عدن کی جنّتیں ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے، ان میں انہیں سونے اور موتیوں کے کنگنوں سے آراستہ کیا جائے گا اور وہاں ان کی پوشاک ریشمی ہو گی‘‘۔

امام ابن حاتم، امام ابن جریر طبری، امام عبدالرزاق، امام جلال الدین سیوطی، علامہ شوکانی، امام قرطبی، امام رازی، امام بغوی، الغرض کسی بھی طبقہ کے مفسر کی تفسیر اٹھا کر دیکھ لیں ہر ایک نے سورۃ فاطر کی آیت 32 میں بیان کردہ تینوں طبقات کے افراد کے لئے بلا تفریق اگلی آنے والی آیات 33 تا 35 میں درج نعمتوں کا ذکر کیا ہے کہ ان خوشخبریوں اور نعمتوں میں تینوں طبقات شامل ہیں، کوئی کمی پوری کرکے، کوئی براہ راست اور کوئی بغیر حساب کتاب کے ان نعمتوں کو پالے گا۔

گویا اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے بھی امت سے خارج قرار دیئے گئے اور نہ ہی شفاعت و انعام سے محروم رکھا۔ پس حدیث ضعیف بھی اپنی سند میں موجود کمزوریوں اور علل کے باوجود حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائرہ کار میں داخل ہے، خارج ہرگز نہیں۔

(جاری ہے)