محسنِ انسانیت کا پیغام محبت و امن آج سوالیہ نشان کیوں؟

ڈاکٹر علی اکبر قادری

گذشتہ سے پیوستہ

زیرِ نظر بحث میں یہ بات بطور خاص قابل ذکر ہے کہ بعض غیر مسلموں نے بھی اپنے ہم مذہب متعصب لوگوں کے اس غلط رویے اور طریقہ کار پر شدید تنقید کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انسانیت نواز خدمات کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ اُن میں سے آپ تھامس کارلائل، منٹگمری واٹ اور فلپ کے۔ ہٹی کی تحریروں کو گذشتہ شمارہ (ماہِ جولائی08ئ) میں ملاحظہ کرچکے۔ آیئے اس سلسلہ میں مزید غیر مسلم محررین کے نکتہ نظر کو جانتے ہیں۔

4۔ رووی بارت

مستشرقین کا اسلام کے متعلق یہ رویہ لاعلمی کی بنیاد پر تھا یا بددیانتی کی بنیاد پر، اس کو سمجھنے کے لئے ایک اور مستشرق ’’رووی بارت‘‘ کی یہ عبارت ملاحظہ فرمایئے۔

’’حقیقت یہ ہے کہ قرون وسطیٰ میں علمائے مغرب اور کلیسا کے راہنماؤں کی رسائی اسلام کے اصل مصادر تک بڑی وسیع تھی۔ لیکن ان مصادر کامعروضی مطالعہ کرنے کی کوشش اس سابقہ عقیدے کے ساتھ ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتی تھی کہ اسلام عیسائیت کا دشمن ہے اور اس میں کسی خیرکا وجود ممکن نہیں۔ اس لئے لوگ صرف ان معلومات کو اہمیت دیتے تھے جو اس نظریئے کی تقویت کا باعث ہوتی تھیں۔ اس لئے وہ ایسی خبر کی طرف جھپٹتے تھے جس میں دین اسلام یا پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے متعلق برائی کا کوئی پہلو نظر آتا‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف یہ متعصبانہ بلکہ غیر انسانی رویہ اس لئے اپنایا تھا کہ تحریف شدہ یہودیت و نصرانیت کی کھوکھلی تعلیمات اس قابل نہ تھیں کہ وہ اسلام کی واضح اور عقلی تعلیمات کے سامنے ٹھہر سکیں۔ انہیں یقین تھا کہ اگر اسلام کی تعلیمات اپنی اصل شکل میںاور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے پاکیزہ حالات اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ یہود و نصارٰی تک پہنچ گئے تو انہیں اسلام کے دامن میں پناہ لینے سے کوئی چیز روک نہیں سکے گی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اسلام کی تعلیمات کو بگاڑ کر پیش کیا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کردار کشی کی اور اندھیروں میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کو نور ہدایت سے محروم کرنے کے لئے اپنا سارا زور صرف کردیا۔

یہ تو تھے پرانے یورپی اہل علم جنہوں نے اپنے ہم مذہب لوگوں کی کذب بیانیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ حاضرین ابھی دو سال قبل پاپائے روم جو عیسائیوں کا سب سے بڑا مذہبی منصب ہے اس پر فائز پوپ بینی ڈکٹ نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے متعلق اپنے خبثِ باطن کا اظہار کیا جس پر پوری دنیا سے شدید رد عمل سامنے آیا۔

5۔ اری ایونری (Uri Avenry)

اسی پس منظر میں ایک اسرائیلی یہودی سکالر اری ایونری (Uri Avenry) نے ’’محمد کی تلوار‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر مگر جامع مقالہ تحریر کیا جو دنیا بھر کے اخبارات میں چھپا۔ ذیل میں اس کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:

’’اس تناظر میں دیکھا جائے تو پوپ کے حالیہ بیان کا مقصد موجودہ شہنشاہ جارج بش جونیئر کے انہی سیاسی عزائم کی تکمیل کا سامان فراہم کرنا ہے جو وہ دنیائے عیسائیت کو برائی کے محور کے نام پر مسلمانوں کے خلاف متحد کرنے کے لئے بروئے کار لانا چاہتا ہے۔ مزید برآں ترک اس مرتبہ پرامن انداز میں ایک بار پھر یورپ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ پوپ ان قوتوں کا حامی ہے جو یورپی یونین میں ترکوں کے داخلے کی مزاحمت کرتی ہیں‘‘۔

’’اسلام نے دیگر مذاہب سے کیا سلوک روا رکھا، اس کو ایک سادہ پیمانے سے جانچا جاسکتا ہے۔ ایک ہزار سال بعد تک مسلمان حکمرانوں کا طرز عمل کیا رہا جب ان کے پاس طاقت اور اختیار موجود تھا؟ کیا انہوں نے دین پھیلانے کے لئے تلوار کا استعمال کیا؟ اس کا جواب ہے کہ نہیں انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ صدیوں تک لگاتار مسلمانوں نے یونان پر حکمرانی کی، کیا یونانی مسلمان بن گئے؟ کیا کسی نے یہ کوشش بھی کی کہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں؟ عثمانی دور خلافت میں عیسائی یونانی اعلیٰ ترین انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ بلغارین سرب، رومن، ہنگری اور دیگر یورپی اقوام ایک نہ ایک دور میں عثمانی عہد حکومت کے سایہ تلے اپنے عیسائی عقیدے پر قائم رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے رہے، کسی نے انہیں مسلمان ہونے پر مجبور نہ کیا اور وہ سب کے سب عیسائی تعلیمات پر دلجمعی سے کاربند رہے‘‘۔

1099ء میں صلیبی جنگ بازوں نے یوروشلم فتح کیا اور بلاامتیاز مسلمان اور یہودی باشندوں کا قتل عام کرکے یسوع مسیح (علیہ السلام) کے نام پر اپنے ہاتھ خون سے رنگے۔ جبکہ فلسطین پر چار صدیوں سے مسلمانوں کا قبضہ رہا لیکن اس کے باوجود عیسائی وہاں اکثریت میں تھے۔ اس طویل عرصہ کے دوران ان پر اسلام مسلط کرنے کی کوئی کوشش نہ کی گئی۔ صرف ملک سے صلیبی جنگ بازوں کے انخلاء کے بعد فلسطینیوں کی اکثریت نے عربی زبان اور دین اسلام اپنی رضا و رغبت سے اختیار کیا اور اہل فلسطین کے وہی آباؤ اجداد ٹھہرے‘‘۔

’’ایسی کوئی شہادت کہیں موجود نہیں کہ یہودیوں پر اسلام مسلط کرنے کی کبھی کوئی کاوش ہوئی۔ یہ بات سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلم عہد حکومت میں سپین کے یہودی اتنی مالی آسودگی اور خوشحالی سے ہمکنار تھے جس سے وہ ہمارے زمانے تک کہیں بہرہ مند نہ ہوئے۔ یہودا ہلوے جیسے اہل ادب نے عربی شاعری میں نام پیدا کیا اور اسی طرح نامور میمونیڈز نے عربی میں اپنے جوہر دکھائے‘‘۔

’’مسلم سپین میں یہودی اہل علم وزراء، شعراء اور سائنسدان ملتے ہیں۔ وسطی سپین میں واقع تولیدو شہر میں جو مسلمانوں کا ادبی مرکز رہا، عیسائی، یہودی اور مسلم عالم دانشور باہمی اشتراک سے قدیم یونانی فلسفوں اور سائنسی علوم کو عربی میں ترجمہ کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے۔ یہ حقیقت میں ایک زریں دور تھا۔ اگر پیغمبر (علیہ السلام) نے تلوار کے زور سے اسلام پھیلانے کا حکم دیا ہوتا تو ایسا کب ممکن ہوسکتا تھا‘‘۔

’’اس کے بعد جو ظہور پذیر ہوا وہ محتاج بیان نہیں بالکل واضح ہے۔ جب کیتھولک مسیحیوں نے دوبارہ سپین فتح کرلیا تو انہوں نے مذہبی دہشت گردی کا بازار گرم کردیا۔ یہودیوں اور مسلمانوں کو حکماً مجبور کیا گیا کہ وہ یا تو عیسائی بن جائیں، یا تہ تیغ کردیئے جائیں یا وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں اور ان یہودیوں کے پاس جنہوں نے مذہب ترک کرنے سے انکار کردیا۔ وہ کم و بیش سب نقل مکانی کرکے مسلمان ملکوں میں چلے گئے جہاں ان کا کھلے ہاتھوں استقبال کیا گیا۔ سفاردی (ہسپانوی) یہودی مسلم دنیا میں جاکر آباد ہوگئے۔ مغرب میں مراکش، مشرق میں عراق، شمال میں بلغاریہ (جو اس وقت عثمانی سلطنت کا حصہ تھا) اور جنوب میں سوڈان کو انہوں نے اپنا وطن بنالیا اور کسی جگہ بھی ان کو ظلم و ستم کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ انہیں کہیں بھی Inquisition جیسی تفتیشی عدالتوں کا سامنا نہ کرنا پڑا جہاں ظالمانہ سزاؤں سے جرمنی میں عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا تھا، نہ آٹو ڈافے ( Auto-da-fe) کے اعلان کی طرح آگ میں ڈالے گئے، نہ پوگرومز (Pograms) کے سزا دینے والے مراکز تھے۔ نیز وہ ہر جگہ ہولوکاسٹ (جہاں سولہ بلین یہودی انسانیت سوز مظالم کے بعد ہلاک کردیئے گئے) جیسی زیادتیوں سے محفوظ و مامون رہے۔ ہر یہودی جسے اپنی قوم کی تاریخ معلوم ہے وہ اسلام کا احسان مند اور گہرے جذبہ تشکر کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسلام نے ان کی پچاس نسلوں کو تحفظ فراہم کیا ہے جبکہ عالم عیسائیت نے یہودیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اور بہت سے مواقع پر انہیں تلوار کے زور پر ترکِ مذہب کرنے پر مجبور کیا‘‘۔

’’بزور شمشیر دین پھیلانے کی من گھڑت داستان محض ایک شر انگیز افسانہ ہے۔ ایک ایسا مفروضہ ہے جس نے مسلمانوں کے خلاف یورپ کی طرف سے برپا کردہ عظیم جنگی معرکوں (جیسے عیسائیوں کا سپین پر دوبارہ قبضہ، صلیبی جنگوں اور ترکوں کے خلاف محاذ آرائی جن کے بڑھتے ہوئے فاتحانہ قدم ویانا تک پہنچ چکے تھے) میں پسپائی کے دوران جنم لیا۔ پسپائی کے بعد ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ مجھے شبہ ہے کہ جرمن نژاد پوپ بھی دیانتداری سے ماضی کے ان واقعات پر یقین رکھتا ہے۔ کیا ایسا ہے کہ مسیحی دنیا کا راہنما جو عیسائی مذہب کا عالم بھی ہے اس کے اپنے طور پر تاریخ مذاہب کا مطالعہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی؟ پوپ نے برسر عام ایسے الفاظ کیوں کہے! اور پھر لمحہ حاضر میں ایسا کیوں کہا‘‘؟

’’ان الفاظ کو بش اور اس کے پر جوش عیسائی حامی مبلغین کے ایماء پر نئے کروسیڈ (صلیبی جنگ) کے پس منظر میں دیکھا جائے تو اس میں نام نہاد اسلامی فسطائیت اور دہشت گردی پر عالمی جنگ کی صدائے باز گشت سنائی دیتی ہے۔ جہاں دہشت گردی کو مسلمانوں کے ہم معنی بنادیا گیا ہے۔ بش کے تجارتی حصہ داروں کے لئے مسلمانوں کے تیل کے ذخائر پر قبضے کو جو از فراہم کرنے کی نک چڑھی کوشش ہے۔ تاریخ میں یہ پہلی بار ایسا نہیں ہوا کہ معاشی مفادات کی عریانی کو مذہبی قبامیں ڈھانپنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پہلی مرتبہ ایسا نہیں کہ ڈاکوؤں کی مہم کو مذہبی صلیبی جنگ کا نام دیا گیا ہے۔ پوپ کی تقریر اسی کوشش کی صورت گری ہے۔ اس کے بھیانک نتائج کیا ہوں گے؟ کون اس کے بارے میں پیش گوئی کرسکتا ہے‘‘۔

مندرجہ بالا اقتباسات سے حقیقت حال اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے اور تاریخ مذاہب میں مسلمانوں کے حقیقی کردار کو غیر مسلم خصوصاً یہودی شخص کی نظر سے سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔

جہاں تک خون ریزی اور قتل و غارت گری کی تاریخ کا تعلق ہے تو یہ بات اہل علم سے پوشیدہ نہیں کہ سفید فام عیسائیوں نے دنیا میں سب سے زیادہ خون بہایا ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اسلام کی 14 سو سالہ تاریخ میں ہونے والی جنگوں میں اتنی خون ریزی نہیں ہوئی جتنی صرف ایک جنگ عظیم اول میں ہوئی۔ اس عالمی ریکارڈ کو دوبارہ جنگ عظیم دوم میں توڑا گیا تو اس میں بھی مسلمانوں کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ کوریا اور ویت نام میں خوں آشامیاں ان کے علاوہ ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں یورپ کے دل میں عیسائی ریاست سربیا نے جس بے دردی سے بوسنیا کے بے گناہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا وہ تو کل کی بات ہے۔ پھر حالیہ امریکی اور برطانوی جارحیت جس میں افغانستان اور عراق کے لاکھوں معصوم پرامن اور بے قصور شہریوں پر بارود کی موسلا دھار بارش برسائی جارہی ہے یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

تاریخ کے صفحات پر یہودی قوم اور فتنہ و فساد، قتل و غارت کا تذکرہ عموماً اکٹھا ہی ملتا ہے حتی کہ اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء بھی ان کے شر سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ان یہودیوں کو دنیا سے چن چن کر ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں قتل کرنے والے بھی عیسائی ہی تھے۔ یروشلم جیسے خطے میں عیسائیوں اور یہودیوں کی باہمی خوں ریزیاں اس وقت بھی جاری تھیں جب پیغمبر اسلام کی بعثت بھی نہیں ہوئی تھی۔ اسلام نے تو انسانیت کو قیصرو کسریٰ کے ظلم وجبر سے نجات دلائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی بدولت مظلوم و مقہور قوموں نے زندہ رہنے کا قدرتی حق حاصل کیا۔

تاریخ کے اوراق آج بھی اس حقیقت پر گواہ ہیں کہ جب صلاح الدین ایوبی نے یروشلم میں فتح حاصل کی تو بے شمار مفتوح عیسائی قبائل فلسطینی علاقوں سے عیسائی ممالک کیطرف کوچ کرنے کو ترجیح دے رہے تھے۔ سلطان نے مروت اور اسلامی رواداری کی مثال قائم کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ یہ لوگ جہاں جانا چاہیں انہیں بحفاظت وہاں پہنچایا جائے۔ چنانچہ خوش فہم عرب عیسائی جب اپنے ہم مذہب بادشاہوں اور انکے کارندوں کے ہاتھوں ستائے جانے لگے، ان کی عورتوں کی عصمت دری ہونے لگی، ان کا مال لوٹ لیا گیا اور ان کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوا تو ایک مرتبہ پھر انہیں اسلامی حکومت میں ہی اپنی اور اپنی نسلوں کی با عزت زندگی کی امید نظر آئی۔ خوشی خوشی جانے والے عیسائی جب روتے پیٹتے واپس آرہے تھے تو رحمت للعالمین نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین نے پھر حکم دیا کہ واپس آنے والوں کو باعزت اور بحفاظت ان کی آبائی جگہوں پر پہنچایا جائے۔ یہ تھا مسلمانوں کا برتاؤ! کیا پوری عیسائی تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی پیش کی جاسکتی ہے؟

رہی بات اپنے نظریات، عقائد اور مذہب کو زبردستی پھیلانے کی تو کوئی شخص ایک مثال بھی نہیں دے سکتا جہاں کسی مسلمان حکمران نے کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کو دنیا کے کسی کونے میں تلوار کے زور پر کلمہ پڑھنے کے لئے مجبور کیا ہو۔ کسی مفتوحہ علاقے میں اعلان کیا گیا ہو کہ ’’سب اسلام قبول کرلیں ورنہ قتل کردیئے جائیں گے‘‘ اورلوگوں نے مسلمانوں کی تلوار کے ڈر سے اسلام قبول کرلیا ہو۔ ہاں ایسا ہوا اور بار بار ہوا لیکن۔ ۔ ۔ سپین کے مسلمانوں کے ساتھ۔ ۔ ۔ جب ان کا سات سو سالہ شاندار عہدِ حکومت ختم ہوا تو لاکھوں مسلمانوں کو مجبور کیا گیا کہ یا تو وہ ملک چھوڑ دیں یا پھر عیسائی مذہب قبول کرلیں۔ ایسا ہوا اور اب بھی ہورہا ہے لیکن۔ ۔ ۔ بھارت میں مقیم مسلمانوں کے ساتھ۔ ۔ ۔ جہاں ایک ہزار سال تک مسلمان حکمران رہے۔ جب اسلامی حکومت کو انگریز کی ساز باز سے ختم کردیا گیا تو کئی بنیاد پرست ہندو تنظیموں نے مسلمانوں کو ہندوستان یا اسلام میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا بار بار اعلان کیا اور آج بھی یہی صورت حال جاری ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی شرافت اور رواداری دیکھئے کہ جن علاقوں میں صدیوں ان کی حکومتیں قائم رہیں جب ان کا اقتدار ختم ہوا تو سپین میں عیسائی اور بھارت میں ہندو اپنی تمام تر مذہبی آزادیوں کے ساتھ موجود تھے۔ اسلام کی اشاعت میں تلوار کا ذرا سا ہاتھ بھی ہوتا تو ان غیر مسلم قومیتوں کو مسلسل سات سے دس صدیوں تک اپنے دامن میں کیسے پنپنے کی اجازت دیتا؟ مسلمانوں کی تلوار حرکت میں آتی اور وہ سپین کے عیسائیوں اور ہندوستان کے ہندوؤں کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کرتے تو یہاں ایک شخص بھی غیر مسلم باقی نہ بچتا۔ تاریخ اور اسلامی تعلیمات کا علم رکھنے والا ہر شخص اس حقیقت سے واقف ہے کہ اسلام ہی وہ دین ہے جو انسانیت کی بقا کا ضامن ہے۔

مذاہبِ عالم میں عدم برداشت کی مثالیں

بدامنی، شرانگیزی اور قتل و غارت گری کو اسلام کے ساتھ مختص کردینے والے محققین، تجزیہ نگار اور دانشور حضرات شاید اس تلخ حقیقت سے عمداً دور رہنا چاہتے ہیں کہ دنیا میں شر انگیزی پھیلانے والوں میں یہودو نصاریٰ، ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ پیش پیش رہے ہیں۔

تاریخِ عالم عدمِ برداشت کے واقعات سے بھری پڑی ہے مثلاً ایک یہودی حاکم ’’شیخ ذونواس‘‘ نے یمن میں خندق کھدوائی اور تیس ہزار کے قریب ان عیسائیوں کو زندہ جلوادیا جنہوں نے یہودیت اختیار نہ کی۔

  • ہندؤوں کی کتب میں لکھا ہے: ’’اگر کوئی شودر کسی برہمن کو ہاتھ لگائے یا گالی دے تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لی جائے۔‘‘
  • اسی طرح رومی سلطنت کی تاریخ عدم برداشت کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ تاریخ وحشیانہ سزاؤں اور لرزہ خیز مظالم کی داستانوں سے لبریز ہے۔

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں درج شدہ مضمون’’ سپین‘‘ کے مطابق 1492ء میں سپین کی اسلامی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو مذہبی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان میں سے 28,540 کو سزائے موت ملی اور 12,000 کو زندہ جلادیا گیا۔ بقول رابرٹ ہریقو ’’ڈیڑھ لاکھ کے قافلے میں سے ایک لاکھ مسلمانوں کو سپین میں قتل کردیا گیا‘‘۔

٭ مؤرّخین لکھتے ہیں کہ 1610ء میں تمام مسلمانوں کو سپین چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ 1630ء میں ایک مسلمان بھی سپین میں باقی نہ رہا حالانکہ مسلمانوں نے قریباً پونے آٹھ سو سال یہاں حکومت کی تھی۔

٭ عدم برداشت کی چند اور مثالیں ملاحظہ ہوں اور خون انسانی کی ارزانی کا اندازہ لگائیں۔

  1. 710 قبل از مسیح (یروشلم) 40ہزار اشخاص ذبح ہوئے۔
  2. 711 قبل از مسیح (یروشلم) میں ایک لاکھ 20 ہزار اشخاص مارے گئے۔
  3. 957 قبل از مسیح (یروشلم) 5 لاکھ یہودی مارے گئے۔
  4. 70 قبل از مسیح (یروشلم) 11 لاکھ یہودی مارے گئے۔
  5. 135-36 ق۔ م (یروشلم) 5 لاکھ 80 ہزار یہودی ذبح ہوئے۔

جنگ عظیم اول: 73 لاکھ 38ہزار افراد مارے گئے، جبکہ جنگ عظیم دوم: 4کروڑ اشخاص لقمہ اجل بنے۔

اس کے مقابل رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پیکر رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوات میں مسلمان شہداء اور کفار مقتولین کی تعداد سیرت نگاروں کے مطابق 2 ہزار سے زیادہ نہیں بنتی۔ یہ ہے برداشت و حلم کی سنہری مثال!

توسیع پسندی کا رُجحان

اگر ہم انیسویں اور بیسویں صدی کے بین الاقوامی تنازعات اور بین الممالک جنگوں کا تنقیدی جائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ اکثر جنگوں میں بنیادی کردار مغربی طاقتوں کا ہی رہا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل اعداد و شمار پچھلی دو صدیوں کے 160 سالہ عرصہ پر مشتمل ہیں:

Involvements State Involvements State
58 Italy 125 United States
52 China 124 Great Britain
50 Japan 118 Russia
47 Peru 100 France
60 Israel 76 Germany

یاد رہے کہ اسرائیل کا چارٹ صرف 60 برس پر مبنی ہے جو 1948ء سے شروع ہوتا ہے۔

اسی طرح اگراس عرصہ (1815-2008) کی Annual Frequency of Country Conflict Involvement کی اوسط کا تعین کریں تو اسرائیل کا مقام اقوام عالم میں سب سے اوپر ہے۔ اس کی Annual Frequency ’’.70‘‘ ہے جو دنیا کے سب ممالک سے زیادہ ہے اس میں اسلامی ممالک کا کہیں ذکر بھی نہیں آتا اور اگر ترکی، عراق وغیرہ کا آتا بھی ہے تو وہ دنیا میں سب سے کم Average پر ہے۔

تصویر کا دوسرا رخ

قارئین و سامعین! یہ تو تھا آج کے سیمینار میں زیر غور موضوع کا ایک رخ۔ اب آیئے دوسرے پہلو پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں جو ہمارے داخلی مسائل سے متعلق ہے۔ یہ بات تو ہم تفصیلاً ذکر کرچکے ہیں کہ عالم کفر اسلام کو دہشت گردی کا مذہب ثابت کرنے کے لئے تاریخ کے روشن چہرے پر سیاہی پھینک رہا ہے۔ ہمیں ان کے اس جھوٹ اورفریب کاری کا مناسب اورمنطقی جواب ضرور دینا چاہئے مگر ہم اس وقت شرمندہ ہو جاتے ہیں جب ہمارے اپنے مسلمان معاشروں میں ایک دوسرے پر بارود کی بارش ہوتی ہے۔

٭ ہماری عبادت گاہیں ہمارے ہی نادان لوگوں کے ہاتھوں خون میں نہا جاتی ہیں۔ ہم کس طرح پیغمبر امن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام محبت دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں جب اسلام کے نام پر منصہ شہود پر آنے والی ریاست پاکستان کے دارالحکومت میں لال مسجد جیسے شرمناک واقعات رونما ہوتے ہیں۔ مسجدوں اور دینی درسگاہوں کو اسلحہ خانے بنانا کب روا سمجھا گیا ہے، مسجدوں کے محراب اورمینار تو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے مختص تھے انہیں ہم دفاعی مورچے بنالیں گے تواپنے پرائے ہم پر کیوں نہیں ہنسیں گے۔ 10 جولائی 2007ء کو اسلام آباد میں جو شرمناک کھیل کھیلا گیا اس میں بلا شبہ امریکہ نے براہ راست پاکستان کی قیادت کے ذریعے مداخلت کی تھی اور پوری دنیا میں ایٹمی پاکستان کو ایک وحشی، جنونی اور خونخوار مذہبی لوگوں کا ملک ثابت کرنے کے لئے سٹیج سجایا گیا۔ مگر یہ موقع دنیائے کفرکو کس نے دیا؟قرآن و حدیث پڑھنے والی بچیوں کے ہاتھوں میں کتابوں کی جگہ ڈنڈے اورلڑکوں کے ہاتھوںمیں کلاشنکوفیں کون تھما رہا تھا؟ دکانوں، گھروں اور سرکاری کتب خانے پر قبضے کرکے ماحول کو کس نے حساس بنایا؟ کس نے مسجد کی چار دیواری کے ساتھ دفاعی مورچے بنارکھے تھے؟

٭ اس میں شک نہیں کہ افغان وار روس اور امریکہ جیسی دو بڑی عالمی استعماری قوتوں کے درمیان لڑی جانے والی جنگ تھی جس میں افغانوں کے جذبے اوردنیا بھر کے مسلمان مجاہدین کا خون رنگ لایا اور سرخ سامراج اپنی موت مرگیا۔ ۔ ۔ امریکہ کا عالمی حریف مسلمانوں کے ہاتھوں ختم ہوگیا لیکن اس نے روس کے خلاف لڑی جانے والی سرد و گرم جنگ کا رخ اب اسلام کی طرف کرلیا ہے مگر طالبان کو کس نے دعوت دی تھی کہ وہ بامیان میں صدیوں پرانے پہاڑی نقوش کے خلاف ’’اعلانِ جہاد‘‘کریں اور پوری دنیا کی رائے عامہ کو اپنے خلاف کرکے 15 لاکھ مسلمانوں کے خون کی قیمت پر حاصل ہونے والی اسلامی حکومت کو محض نادانیوں کے ذریعے ضائع کردیں۔

٭ آج پاکستان کی محفوظ ترین سرحد ڈیورنڈ لائن پر ایک لاکھ فوج اپنے ہم وطن بہادروں کے ساتھ جنگ میں جھونک دی گئی ہے۔ ہم اس لڑائی کو امریکہ کے مفادات کی خاطر لڑی جانے والی جنگ اور ملکی سلامتی کے خلاف کھیلا جانے والا خونی کھیل سمجھتے ہیں جس کے ذمہ دار پرویز مشرف اور ان کے سابق حواری ہیں۔ ۔ ۔ لیکن مورخ اس حقیقت کو کیسے جھٹلائے گاکہ یہاں کے نوجوانوں کو ’’پاکستانی طالبان‘‘ بناکر مقامی مذہبی رہنماؤںنے پاکستانی فوج اور انتظامیہ کے خلاف برسرپیکارکردیا۔ ۔ ۔ سوات جیسے پرامن سیاحتی مقام پر کس نے فتح کے جھنڈے لہراکر قومی اداروں پر حملے کئے، کروڑوں روپے مالیت کی املاک کو نذرِ آتش کیا اور افواج پاکستان کو مزاحمت پر مجبور کیا تھا۔ ۔ ۔ ؟ غیروں کے اکسانے پر کون سے ہاتھ ہیں جو آج بھی پاکستانی سفیر سمیت سینکڑوں فوجیوں کو قید کرکے بھاری قیمت وصول کرنے کے بعد انہیں چھوڑ دیتے ہیں یا قتل کردیتے ہیں۔ ۔ ۔ کیا یہاں یہودی، عیسائی یا ہندو اقوام آبادہیں! نہیں، مرنے اور مارنے والے سب کے سب کلمہ گو مسلمان ہیں۔ ایک اللہ، ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ایک قرآن پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ مسئلہ صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ رواداری جو ہمارے رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں اور عیسائیوں سے روا رکھی ہمارا دامن اپنے بھائیوں کے لئے بھی اس سے خالی ہوگیا ہے۔ ہمارے اندر تحمل، برداشت اور ایثار کے جذبات تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

٭ آج ہماری طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں تو اس کا سبب خود ہم بھی ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں اور کس نبی کی شریعت کو ڈنڈے کے زور پر پھیلارہے ہیں؟کیا نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے روکنے کا یہی طریقہ قرآن و سنت نے ہمیں سکھایا ہے؟ سرحد کے کئی مقامات پر حجاموں کی دکانوں کو اس لئے مسمار کیا جاتا ہے کہ یہاں کوئی ’’شیو نہ کروائے۔ بازاروں میں گارمنٹس کی دکانوں کو اس لئے بند کروادیا جاتا ہے کہ عورتیں خریداری کے لئے باہر نہ نکلیں اور انکے بقول ’’غیر شرعی‘‘ لباس نہ خرید سکیں۔ تعلیمی ادارے اس لئے ختم کروادیئے گئے ہیں کہ وہاں سے علم حاصل کرکے لوگ ’’روشن خیال‘‘ اور بچیاں تعلیم حاصل کرکے ماڈرن نہ بن جائیں۔ انہیں یہ کون بتائے کہ اسلام کو تعلیم اور جدت سے کوئی خطرہ نہیں، جہالت سے خطرہ ہے۔ ہٹ دھرمی، ضدی پن اور سفاکیت کا اسلام یا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے کوئی تعلق نہیں۔

سامعین ذ ی وقار! اسلام کو باہر سے اتنا نقصان نہیں ہواجتنا اسے بادشاہت اور جہالت کے ذریعے اندرسے نقصان پہنچاہے جمہوریت، شورائیت، تعلیم و تفکر اور عدل و انصاف اسلامی ریاست کی اساس ہیں مگر مسلمان بادشاہوں نے آمریت جہالت اور ظلم کے ذریعے اسلام کا چہرہ داغدار کئے رکھا۔ یہ تو بھلا ہو ان بے لوث علماء و مشائخ کاجنہوں نے ہر دورمیں علم، معرفت اور عدل و انصاف اور مذہبی رواداری کا علم بلند کئے رکھا۔ لیکن افسوسناک حقیقت تویہ ہے کہ آج اِلا ما شاء اللہ ہمارے دور زوال میں بیشتر مفتی، علماء اور مشائخ ہی آمریت کو سپورٹ کرتے ہیں کیونکہ ان کے مزمومہ مفادات کا تحفظ اسی نظام میں ممکن ہے۔

چوں کفر اَز کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی؟