احیائے اسلام کی جدوجہد سے وابستہ کارکنان کی خصوصیات

پروفیسر محمد رفیق

تجدید دین و احیائے اسلام ا ور اصلاح احوال کا عظیم مصطفوی مشن ’’مصطفوی انقلاب‘‘ ہر کارکن کے خون میں سرایت کرچکا ہے مگر ہمیں یہاں انقلاب کے مفہوم سے آشنا ہونا از حد ضروری ہے۔

انقلاب۔ ۔ روحِ زندگی

i۔ انقلاب چند مبہم خواہشات اور آوارہ جذبات کا نام نہیں بلکہ روح زندگی ہے۔ انقلابی شخص کی زندگی میںمایوسی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، اسے کامیابی کا سو فیصد یقین ہوتا ہے۔ وہ ذرے ذرے سے گلستان و خیابان اگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ہے ننگ سینہ دل اگر آتش کدہ نہ ہو
ہے عار دل نفس اگر آذر فشاں نہ ہو

اشتراکی لیڈر لینن اور سٹالن آہنی عزم و ارادے کے مالک اور فکر و عمل کی قوتوں کے اعتبار سے غیر معمولی لوگ تھے۔ انہوں نے انقلابی فلسفہ و فکر کو پوری قوت کے ساتھ ہر سمت پھیلا دیا۔ انقلابی تصور کو دلوں میں راسخ کرنے کے لئے انسانی نفسیات سے پوری طرح باخبر ہونا چاہئے۔ جب تک نظریہ کے ساتھ محبت شدید سے شدید تر نہ ہوجائے مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ جان و مال، صلاحیتوں، اوقات اور مصروفیات کا کچھ حصہ وقف انقلاب ہونا چاہئے۔ انقلابی تصور ہمہ وقت مستحضر رہنا چاہئے۔ دینی اجتماعات میں شرکت صرف حصول برکت کے لئے ہی نہ ہو۔ عبادت محض رسوم بن کر نہ رہ جائیں بلکہ انقلاب کی طرف بڑھنے کا ذریعہ بنیں۔

یا سراپا نالہ بن جا یا نوا پیدا نہ کر

جینا اور مرنا اللہ کے لئے ہوجائے قوت لایموت پر اکتفا کرلیا جائے۔ انقلابیوں کا اصل سرمایہ قوت کردار ہے۔ ہر شخص کردار کا ایسا پہاڑ بن جائے جس کے ساتھ چلنا لوگ فخر محسوس کریں۔ عام سیاسی کارکنوں اور انقلاب کے مدعیان کے مزاج اور کردار میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

انقلاب۔ ۔ توازن کا متقاضی

ii۔ انقلاب پہلے من میں آتا ہے پھر تن اس سے متاثر ہوتا ہے البتہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ انقلابی روح کا ظہور انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں متناسب انداز سے ہو۔ تبدیلی کا عمل اگرچہ ہمہ جہت ہونا چاہئے لیکن اس میں توازن برقرار رکھنا بھی از بس ضروری ہے۔ صرف جوش و جذبہ، باقاعدگی اور نظم و ضبط جیسی صلاحیتیں ہی بیدار نہ ہوں بلکہ عبادات میں کیف و سرور اور معاملات میں دیانت کا عنصر بھی اجاگر ہو۔

انقلاب۔ ۔ خلوص و قربانی کا متقاضی

iii۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا ایبدل الدین واناحی ’’کیا میرے جیتے جی دین میں تبدیلی کردی جائے یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ کاش ہم میں بھی یہ جذبہ بیدار ہوجائے لیکن اس کے لئے پہلے دین میں پورے کا پورا داخل ہونا پڑتا ہے پھر ایسے Committed اور Dedicated لوگوں کی ایک معتبر جماعت فراہم ہوجائے تو چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ تاریخِ انقلاب کے باب قربانیوں سے رقم کئے جاتے ہیں۔

کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

اس راہ میں سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے آزمائشوں کی بھٹیوں سے گزر کر ہی کندن بنایا جاسکتا ہے۔

Where there is a will there is a way

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

عزم صمیم ہو اور قوت ارادی سے کام لیا جائے تو پہاڑ بھی سمٹ کر رائی بن جاتے ہیں۔

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.

(العنکبوت، 29 : 69)

ڈھونڈنے والوں کو ہم دنیا بھی نئی دیتے ہیں

نماز۔ ۔ انقلابیوں کی پہچان

iv۔ کسی کے مرتبہ و مقام کا اندازہ اس کی ذہانت اور علم سے نہیں بلکہ نماز سے ہوتا ہے جو معراج مومن ہے۔ یہی مرتبہ احسان تک پہنچاتی ہے جو اصل غایت عبادت ہے جس قدر نماز کامل ہوگی اسی قدر مرتبہ بھی بلند ہوگا جس دین کے غلبے کے لئے کام کرنا ہے نماز اس کا ستون ہے۔ ستون کے بغیر چھت کیسے قائم رہ سکتی ہے ورنہ معاملہ یہ ہوگا کہ

برگ و خس بیاوردیم و شاخ آستاں گم شد

قوموں کے زوال کا آغاز نمازوں کی ضیاع سے شروع ہوا۔ جلسے جلوسوں، میٹنگ اور اجتماعات میں شرکت کے باعث نمازوں کو کسی صورت میں بھی قضاء نہ کیا جائے۔ ورنہ ساری چلت پھرت اور بھاگ دوڑ رائیگاں چلی جائے گی۔ تجدید دین و احیائے اسلام کا کام کرنے والوں کی شیرازہ بندی نماز سے ہوتی ہے۔ مصطفوی انقلاب کے سپاہیوں کا امتیازی نشان نماز کی پابندی ہونا چاہئے اور نماز باجماعت کے لئے مسجد سے رابطہ رکھا جائے۔

نصب العین کے ساتھ تعلق کی مضبوطی

اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

i۔ جذباتیت سے کبھی کبھی ہی کام لینا چاہئے۔ تحریکی کارکنوں کے لئے عقل سلیم، دین کا گہرا شعور اور اس کی بالا دستی قائم کرنے کی جدوجہد کے جملہ مراحل اور لوازمات کا پورا علم ہونا از بس ضروری ہے ورنہ میدان عمل میں کئی فتنے جنم لے سکتے ہیں جو بالآخر تحریک کی ناکامی پر منتج ہوتے ہیں۔ محض سخن سازی اور انشاء پردازی سے کام نہیں چل سکتا۔ جوش و جذبہ اپنی جگہ لیکن بہر حال ہوش مندی کا تقاضا ہے کہ معاملات کو ٹھنڈے دل سے سوچا جائے اور حکمت عملی سے کام لیا جائے۔ اس ضمن میں بزرگوں کی سرپرستی سے بے اعتنائی اور اس کا انکار انسانی زندگی کی حقیقتوں کے انکار کے مترادف ہے کیونکہ وہ گرم سرد چشیدہ ہوتے ہیں۔

ii۔ جدید تعلیم یافتہ معاشروں میں چونکہ عقل کا دور دورہ ہے اس لئے کسی بات کی حقانیت ظاہر کرنے کے لئے اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہوتا کہ یہ دین کی بات ہے یا فلاں بزرگ نے فرمائی ہے بلکہ دلیل اور حجت سے ثابت کرنا ہوتا ہے البتہ نیم خواندہ اور ان پڑھ طبقات میں عقل کی بجائے جذبات کو اپیل کرنا زیادہ سود مند ہوتا ہے۔ دعوت میں عقلیت اور جذباتیت کا حسین امتزاج ہونا چاہئے۔ انجمنیں، ادارے اور جماعتیں حصول مقصد کا ایک ذریعہ ہوتی ہیں نہ کہ خود ایک مقصد۔ جب یہ خود نصب العین بن جائیں توپھر جماعتی اغراض کی خاطر دین کے مسلمات بھی تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ تاویلوں کا سہارا شروع ہوجاتا ہے، اصل نصب العین نہ صرف نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے بلکہ یہ شعور بھی باقی نہیں رہتا کہ سارا طرز عمل کہیں اپنے ہی نظریات کے خلاف تو نہیں۔

iii۔ جس طرح فوجی سپاہی سپہ سالار کے ہر حکم کی بلاچون و چرا اطاعت کرتے ہیں اور حکم کی حکمت پر بحث و تکرار کرنے نہیں بیٹھ جاتے اسی طرح مرکز کی جانب سے آمدہ سرکلرز میں مندرج ہدایات کی علتیں اور تفصیلات معلوم کرنا ضروری نہیں ہوتا ورنہ شکوک و شبہات، اعتراضات اورجوابی اعتراضات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ کارکن انہی مقدمات میں الجھ کر رہ جائیں گے اور نصب العین نظروں سے اوجھل ہوجائے گا۔ ان احکامات کو معمولی سمجھ کر نظر انداز بھی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ تربیت کا ایک زبردست ذریعہ ہے۔ نصب العین کے ساتھ تعلق کمزور پڑنے سے نہ صرف اجتماعیت کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ کسی شخص کی اپنی ترقی بھی رک جاتی ہے اگر تعلق کا یہ گراف گر کر صفر پر پہنچ جائے تو پھر وہی شخص ایک کٹی پتنگ کی مانند ہے جسے کوئی بھی لوٹ سکتا ہے۔

تزکیہ نفس

i۔ قلوب بھی زمین کی طرح ہوتے ہیں جن میں نیکی اور بدی کے پودے اگتے ہیں۔ کبھی نیکیوں کی بہار آجاتی ہے اور ہر سمت پھول ہی پھول دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی بدی اور برائی کی جھاڑیاں اگ آتی ہیں انہیں آغاز ہی میں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہئے ورنہ جنگل بن جائے تو صاف کرنا مشکل ہوتا ہے۔ کشتِ دل بدی کی جھاڑیوں سے صاف ہوجائے تو ساری قوت نیکی کے پودے کو پروان چڑھانے پر صرف ہوکر برگ و بار لاتی ہے۔ قلب و نفس کی اسی صفائی کے اہتمام کا نام تزکیہ ہے۔

ii۔ ہم عمر بھر خواہشات کی تتلیوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور وہ ہاتھ نہیں آتیں۔ توجہ مادی اشیاء پر ہی مرکوز ہوجائے تو سوچنے سمجھنے کی ساری قوتیں شل ہوجاتی ہیں اگرچہ یہ دنیا اپنی اندر بلاکی جاذبیت رکھتی ہے لیکن اس کی بھول بھلیوں میں کھوجانا انتہا درجے کی نادانی ہے۔ غوروفکر کی عادت اپنانی چاہئے، انسان کے سامنے تفکر و تدبر کے بہت سے میدان ہیں۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

انقلابی گروہ کی پہچان

بدکردار ار بدقماش لوگوں کو دنیا کی اس چراگاہ میں چرنے چگنے کی مہلت بس اتنی دیر تک ہے جب تک کہ ایک صحیح انقلابی گروہ تیار نہیں ہوجاتا۔ اس گروہ کی پہچان یہ ہے کہ ہر فرد کو اپنا مقصد اور منزل زندگی سے زیادہ عزیز ہوجاتی ہے۔

یہ کیفیت پیدا ہوجائے تو اب بھی جاء الحق وزہق الباطل۔ کا منظر دیکھا جاسکتا ہے۔

ترجیحات کا تعین ضروری ہے

کام معمولی نوعیت کا ہو یا مہتم بالشان، کرنے والا عام آدمی ہو یا کوئی عظیم شخصیت، پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اوقات کار کی تقسیم اور ترجیحات کا تعین از حد ضروری ہے۔ منصوبہ بندی کے بغیر دوران جدوجہد وسائل اور توانائیاں بلامقصد ضائع ہوتے رہتے ہیں۔ آغاز کار ہی سے اگر اس کا اہتمام نہ کرلیا جائے تو معمولی کام بھی سالوں پر محیط ہوسکتا ہے پھر بھی کامیابی کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی ہے۔

ہر کارکن داعی ہے

بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ کَانَ اٰية.

’’مجھ سے جو کچھ تم سنتے ہو آگے پہنچاؤ خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو‘‘۔

یہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر وقت پیش نظر رہنا چاہئے۔ ہر کارکن بنیادی طور پر داعی ہے۔ اس کا کردار اور گفتار اس کے طرز عمل کا گواہ ہونا چاہئے۔ دعوتی کام کے لئے صرف چند معروف اشخاص پر ہی انحصار نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہر فرد دعوت دین کو اپنا فریضہ سمجھ لے۔ احیائی تحریکوں نے قابل قدر دعوتی مواد فراہم کردیا ہے۔ اب یہ باہمت کارکنوں کا کام ہے کہ انقلابی دعوت کو آگے پھیلائیں تاکہ اجالے نکھر کر سامنے آجائیں۔

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

ہر کارکن ذاتی رابطے بڑھائے

1۔ ہر تحریکی ساتھی لوگوں سے ذاتی ملاقاتوں اور رابطوں کے لئے ایک گھنٹہ روزانہ اپنے اوپر لازم کرلے۔ تعصب کو پس پشت ڈال کر ائمہ اور خطبا سے خصوصی رابطے کرکے انہیں مشن کی طرف راغب کیا جائے۔ پبلک مقامات مثلاً ریلوے اسٹیشن، بس سٹاپ باغات اور کھیل کود کے میدانوں میں بھی رابطوں سے گریز نہ کیا جائے۔ اپنا پیغام پہنچانے کے لئے جدید سے جدید اور معاشرے میں رائج طریقہ استعمال کیا جائے۔ پروقار انداز سے خاموش مظاہرے بھی اپنے اندر بڑی کشش رکھتے ہیں۔

2۔ دوسروں کو تبدیل کرنے کا کام بڑا صبر آزما ہے۔ ہولے ہولے، دھیرے دھیرے، میٹھے میٹھے، پیارے پیارے انداز کی ضرورت ہوتی ہے۔

زعشق تابہ صبوری ہزار فرسنگ است

اس میدان کار زار میں صداقت، امانت اور صبرو تحمل ہی اصل ہتھیار ہیں دل تشدد اور دہشت گردی سے نہیں تصوف اور محبت سے بدلتے ہیں اس کے لئے چیتے کا جگر چاہئے اور شاہین کا تجسس، نتائج پیدا کرنے ہیں تو مشن میں اپنے آپ کو مکمل طور پر Involve کرنا ہوگا۔

افراد کی بجائے نصب العین کو ترجیح دیں

1۔ عہدیدار خواہ کسی بھی سطح کا ہو آخر انسان ہوتا ہے اس سے غلطی کا صدور بھی ممکن ہے اور شیطان کے بہکاوے میں آکر کوئی غلط موقف بھی اختیار کرسکتا ہے، نگاہیں کام پر مرکوز رہنی چاہئیں۔ افراد آتے جاتے رہتے ہیں تو دوسروں کی تنقیص اور تعریف میں غلو نہیں کرنا چاہئے۔ تعلق مشن سے ہونا چاہئے بصورت دیگر شخصیات کے ناپسندیدہ طرز عمل کے باعث بدگمانیاں پیدا ہونے لگیں تو اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اندریں حالات ردعمل بڑا شدید ہوتا ہے حتی کہ مشن سے برگشتہ ہوکر آدمی دین سے بھی پھر جاتا ہے۔ بعض لوگ تحریکی کام کا آغاز تو بڑے زور شور سے کرتے ہیں اور بہت جلد نمایاں مقام بھی حاصل کرلیتے ہیں لیکن جلد ہی شکوک و شبہات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ قیادت سے طریق کار کا اختلاف کرکے مشن سے الگ ہوکر

خوش درخشید ولے شعلہ مستعجل بود

کا مصداق بن جاتے ہیں۔ حالانکہ ایک تحریکی کارکن کا تو یہ کردار ہونا چاہئے کہ وہ ببانگ دہل اعلان کرسکے کہ

ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت

2۔ خوابوں اور سرابوں کی وادی سے نکل کر حقائق کی دنیا کا سامنا کرنے کے لئے تیاری کی جائے۔ نہ تو اپنے آ پ کو Under estimate کیا جائے اور نہ ہی Over estimate۔ جہاں خوش فہمیاں قوت کار کو متاثر کرنے کا سبب بنتی ہیں وہاں مایوسیاں مکمل تباہی کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔ چھوٹی بڑی ہر کامیابی پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے اسے اپنا کمال نہ سمجھا جائے اگر کہیں عارضی طور پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑ جائے تو حسن نیت کے باعث یہ ناکامی بھی دراصل کامیابی ہی ہوتی ہے۔

بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو دے سکا

یہ خیال بھی رہے کہ کہیں معنوی ارتداد واقع نہ ہوجائے۔ ہر وقت شعوری طور پر مراقبہ اور محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہیں مایوسیاں پسپائی کی طرف رخ نہ موڑ دیں۔

3۔ نصب العین کا ہمہ وقت استحضار تحریکی زندگی کے ناگزیر لوازمات میں سے ہے کیونکہ زندگی کی جملہ سرگرمیوں کی قدر و قیمت کا تعین اس امر پر ہوتا ہے کہ وہ مرکزی جدوجہد یعنی نصب العین کے گرد کس قدر گھومتی ہیں۔ تجربات اور مشاہدات اس بات کے گواہ ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ درمیانی نوعیت کے مقاصد ذہنوں پر تسلط حاصل کرلیتے ہیں اور اصل مقصد نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اس دوران بعض اوقات اپنے ہی نصب العین کے خلاف کام کرتے رہنے کا شعور بھی نہیں رہتا یا پھر حصول مقصد کے ذرائع ہی بذات خود نصب العین کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہ ایسی دلدل ہے جس سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

خوشی اور غمی کے موقع پر خدا پرستی کا مظاہرہ

تہواروں میں شرکت معاشرتی اور مذہبی ضرورتوں کے پیش نظر ناگزیر ہوتی ہے لیکن خوشی و غمی کے مواقع پر بھی خدا پرستی ہی کا مظاہرہ ہونا چاہئے۔ اسراف و تبذیر سے جہاں انفرادی طور پر پرہیز لازمی ہے وہاں اجتماعی سطح پر بھی اس کی روک تھام کرنا ضروری ہے کیونکہ تہواروں کے موقع پر اکثر احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ عام لوگوں سے اس کے صدور پر تو کوئی انگلی نہیں اٹھاتا لیکن دین کے علمبرداروں کا یہ عمل انہیں عوام کی نظر سے گرادیتا ہے۔ چند امور جن کا خیال رکھنا ہمہ وقت از بس ضروری ہے قابل توجہ ہیں۔

  1. کتاب انقلاب (قرآن) سے خصوصی شغف ہونا چاہئے۔
  2. بری صحبت اور بری کتابوں سے پرہیز کیا جائے۔
  3. نفس و شیطان کے فریبوں سے آگاہی حاصل کی جائے۔
  4. مادیت اور لادینیت کی طوفانی لہروں سے بچنا اور دوسروں کو بچانا ضروری ہے۔
  5. غرور کی آمیزش سے پاک عاجزی و انکساری کا اظہار ہو۔
  6. ریاکاری سے مکمل اجتناب کیا جائے۔
  7. حلال ذرائع سے حصول رزق کا بندوبست ہونا چاہئے۔
  8. خدمت خلق کو کسی حال میں ترک نہ کیا جائے۔
  9. تعلی اور تحزب (گروہ بندی) سے پرہیز کیا جائے۔
  10. رخصت کی بجائے عزیمت پر عمل کیا جائے۔
  11. مشکوک معاملات سے پرہیز اور واضح احکامات پر عمل درآمد کیا جائے۔
  12. بدگمانیوں اور شکوک و شبہات کا بروقت تدارک کرنا لازمی ہے۔
  13. چالبازیوں اور مغالطہ انگیزیوں سے اجتناب برتا جائے۔
  14. فیصلے واضح اور دو ٹوک ہونے چاہئیں ان میں دھندلا پن اور دو رخی نہ ہو۔

انقلابی تیاری

قبل از وقت تصادم سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہئے ورنہ تحریک کچلی جاتی ہے۔ اس راہ کا مسافر ہمہ وقت کشمکش سے دوچار رہتا ہے۔

جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب

انقلاب اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک عوام کو اس کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ ۔ ۔ ایک پیاس نہ لگ جائے۔ ۔ ۔ اس پیاس کو بھڑکانے کے لئے دن رات کام کرنا ہوگا۔ ۔ ۔ سوچنے کے انداز بدلنا ہوں گے۔ اصل قوت چونکہ نظریہ ہوتا ہے لہذا انقلابی نظریہ کا فروغ اور پرچار از بس ضروری ہے اس کی وسیع پیمانے پر تشہیر کے لئے جملہ ذرائع کو بروئے کار لانا ہوگا۔ آزمائشوں کی بھٹیوں سے گزر کر ہی قوم کندن بنتی ہے انقلاب کے لئے قربانیاں درکار ہیں۔

صرف رو لینے سے قوموں کے نہیں پھرتے دن
خونفشانی بھی ہے لازم اشک فشانی کے ساتھ

ایسی تربیت مطلوب ہے جس سے نظریات، عقائد، افکار، کردار، اخلاق، شب و روز حتی کی حرکات و سکنات سب میں تبدیلی آجائے۔ من میں ایک آگ لگ جائے۔ افراد پھول ہیں اور قوم مانند فصل بہار۔ چند پھول مرجھانے سے موسم میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ افراد کے روحانی اور جسمانی قویٰ اجتماعی انقلابی زندگی کے مقاصد کے لئے وقت ہونے چاہئیں۔ من کی دنیا انقلاب آشنا ہوجائے تو اس کی جھلک کردار میں نمایاں ہوتی ہے۔ اعضاء وجوراح اس کی گواہی دیتے ہیں۔ انقلابی روحوں کی وضع قطع، ایک ایک جنبش اور ایک ایک حرکت ان کی سوچ کی آئینہ دار ہوتی ہے یہی اصلی اور نقلی کی پہچان ہے ورنہ اس دور میں لفظ انقلاب ہر خاص و عام کے ورد زبان ہوچکا ہے۔

ہر بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی

افتراق و انتشار سے پرہیز

اپنے آپ کو صبغۃ اللہ کے ابدی رنگ میں رنگنے کی کوشش کریں۔ کثرت سے وحدت کی طرف سفر جاری رہنا چاہئے۔ زبان، رنگ ونسل اور علاقائی بتوں کو توڑ کر مصطفوی بننے اور مصطفوی انقلاب بپا کیجئے۔ نفرتوں سے پرہیز اور محبتوں کو عام کیجئے۔

تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی

محبت اور نفرت میں پھیلنے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے اس لئے انقلابی نظریئے کو معتدل بنانے کے لئے دوسری اشیاء کا رشتہ اس کے ساتھ جوڑ دیں ان سے بھی محبت ہوجائے گی معاملات میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھا جائے تو انتشار و افتراق کو در آنے کا موقع نہیں ملتا۔ آپس میں جُڑیں اور بنیان مرصوص بن جائیں۔ یہی کامیابی کا راستہ ہے زبان کے غلط استعمال سے کلیتاً پرہیز برتنا لازمی ہے کیونکہ یہ حصائد الالسنہ ہے یعنی وہ کھیتیاں جو آخرت میں کاٹنا ہوں گی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کو بھی یاایھا الذین امنوا کے تحت رکھا کبھی یا ایھا الذین نافقوا کہہ کر مخاطب نہیں کیا تاکہ پردہ فاش نہ ہو اگرچہ ان کا نفاق، انفاقِ مال، جہاد اور نماز کے مواقع پر سستی اور عدم دلچسپی سے ظاہر ہوا کرتا تھا۔ پس معمولی آدمی کو بھی حقیر نہ سمجھا جائے کیونکہ

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

محبت کے فروغ کے لئے سلام، مصافحہ اور معانقہ کو عام کیجئے۔ اختلاف برائے اصلاح مذموم نہیں بلکہ محمود ہے بایں معنی کہ اس سے معاملات نکھر کر سامنے آجانے اور درست نتیجے پر پہنچنے میں مدد ملتی ہے لیکن اختلاف کی صورت میں باغیانہ خیالات کے ساتھ مجبورانہ اطاعت سم قاتل کا درجہ رکھتی ہے بس اس بات کا خیال رہے کہ اختلاف مخالفت میں تبدیل نہ ہونے پائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن حسن خلق سے بڑھ کر قابل قدر کوئی چیز نہ ہوگی۔ اسی پر عمل پیرا ہوجائیں تو انتشار کے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے بارے میں اگر کہیں رنجش پیدا ہو بھی جائے (ایسے صحابہ کے درمیان بھی ہوجایا کرتا تھا) تو اسے جلد دور کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ دوسرے ساتھی مل کر صلح صفائی کرادیں۔ بدگمانیاں انتشار کا پیش خیمہ ہوتی ہیں ان سے مکمل پرہیز کرنا چاہئے۔ تعلقات کی بنیاد نیک گمانی پر ہونی چاہئے۔ خواہ مخواہ ٹوہ میں لگے رہنا اور دوسروں کے بارے میں تجسس کرنا ناپسندیدہ خصائل ہیں۔ چالبازیاں اور مغالطہ انگیزیاں نفرتوں کا باعث بنتی ہیں۔ شکوک و شبہات کی فضاء دیمک کی طرح اندر سے اجتماعیت کو کھوکھلا کردیتی ہے۔ قیادت پر بھرپور اعتماد اور جذباتی وابستگی اتحاد کی قوت کا راز ہے۔

وسیع تر دائرے میں انتشار و افتراق کو روکنے اور اتحاد کی فضاء پیدا کرنے کے لئے طعن و تشنیع کی زبان سے پرہیز کرنا چاہئے۔ دین کی خدمت کرنے والے کسی بھی گوشے سے تعلق رکھتے ہوں انہیں اپنا حریف نہ سمجھنا اگرچہ طریق کار کا اختلاف ہو اور اچھے کام کی تعریف کرنا مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ خواہ عملی طور پر کتنا ہی گنہگار کیوں نہ ہو۔ کیونکہ مخالفت سے لوگ ضد میں آجاتے ہیں اور راہ ہدایت کی طرف آنے کے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ خصوصاً اہل اقتدار کے بارے میں اس روش کا رد عمل انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ تنقید مثبت اور خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ ہونی چاہئے۔ ورنہ امت میں مزید بگاڑ پیدا ہوگا اور گروہ در گروہ ہوکر بکھرتی جائے گی۔ جسد ملت سے ناکارہ افراد کو کاٹ پھینکنے کی بجائے ان کے علاج کی فکر کرنی چاہئے۔

سفر انقلاب سے آگاہی

پر جوش راہی رسم و راہ انقلاب اور پیش آمدہ مشکلات سے عدم واقفیت کی بنا پر آغاز میں تو اکثر و بیشتر بڑی تیزی سے آگے بڑھتے ہیں لیکن آبلہ پائی کے باعث ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ سارا جوش و جذبہ پانی کا ایک بلبلہ ثابت ہوتا ہے۔ ایک عام مسلمان اور انقلابی کارکن کی زندگی کے معمولات، فکر ونظر کے زاویے، میل جول کے گوشے اور موضوع گفتگو مختلف ہونا چاہئے تاکہ حالات کی ناسازگاری جذبات کو سرد کرنے کی بجائے مہمیز کا کام دے۔ کارکن پہلے سے زیادہ سرگرم ہوجائیں جیسے جیسے مشکلات بڑھتی جائیں اسی تناسب سے اوقات اور جان و مال کا زیادہ حصہ مشن کے لئے وقف ہوتا چلا جائے۔

یہاں دھونس دھاندلی اور تشدد سے کام نہیں نکالا جاسکتا، بات کو اپیل اور دلیل کے ذریعے منوانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

حرام کی غذا پر پلنے والا جسم انقلاب کی آگ کا ایندھن نہیں بن سکتا۔ رزق حلال کا اہتمام اس دور میں اگرچہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ صبرو استقامت درکار ہے پھر اللہ تعالیٰ اسباب پیدا کردیتا ہے۔ حصول رزق کے ناجائز میدانوں میں منہ مارنے والے نہ صرف اپنی منزل کھوٹی کرتے ہیں بلکہ انقلاب کے راستے میں بھی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ آغاز سفر سے پیشتر مصائب و آلام کا نقشہ پوری طرح آنکھوں کے سامنے ہونا چاہئے۔ اس راہ میں ثابت قدمی اور مستقل مزاجی درکار ہے۔ یہ تھڑ دلوں کے کرنے کا کام نہیں کچھ سر پھروں اور پرعزم لوگوں کا مقام ہے۔

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر ایک مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں

جادۂ حق کے مسافر عزیمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے پر خطر وادیوں کو عبور کرتے چلے جاتے ہیں، مشکل پسند طبیعت کے مالک ہوتے ہیں، صحرا نوردی کرتے ہوئے خار مغیلاں کو خاطر میں نہیں لاتے، رخصتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے، عیش و عشرت کے قریب نہیں پھٹکتے کیونکہ انہیں فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرنا ہوتی ہے۔

تپتی راہیں مجھے پکاریں
پاؤں پکڑے چھاؤں گھنیری

گھنی چھاؤں کی طرف قدم نہیں اٹھتے بلکہ تپتی راہوں پر دیوانہ وار دوڑتے جاتے ہیں وہ پرخار وادیوں میں سوئے منزل رواں دواں رہتے ہیں۔

انقلاب کا تصور ذہنوں سے اتر کر دلوں میں جاں گزیں نہ ہو تو طبیعت جمود و تعطل کا شکار ہوجاتی ہے۔ جملہ تقاضے پورے کئے بغیر من پسند نتائج حاصل نہیں ہوتے، لہذا مایوسیاں (Depression) جنم لیتی ہیں۔ انقلابی تقاضے پورے کرنے کے لئے جان جوکھوں میںڈالنا پڑتی ہے، کبھی اہل و عیال پاؤں کی زنجیر بن جاتے ہیں اس لئے اپنے متعلقین کو آغاز ہی میں ہم سفر بنالینا چاہئے ورنہ قدم قدم پر رکاوٹیں محسوس ہوں گی۔ راہ وفا میں جان بھی چلی جائے تو سودا مہنگا نہیں بفحوائے قرآنی ذالک الفوز الکبیر۔ (البروج، 85 : 11) یہ تو بہت بڑی کامیابی ہے۔ غزوہ تبوک کے تفصیلی حالات کا مطالعہ کرنے سے ایک انقلابی جماعت کا پورا لائحہ عمل اور اس راہ کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ مدینہ کی قیمتی فصل کھجوریں پک کر تیار ہوچکی ہیں، ایسے موقع پر چھوڑ کر چلے جانا گویا اپنے آپ کو سال بھر کی کمائی سے محروم کردینے کے مترادف ہے۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ جہاد میں شرکت بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور معذوروں کو چھوڑ کر سب پر لازمی کردی گئی تھی۔ گرمی کا موسم اپنی پوری شدت پر تھا اور ایک ماہ کا پیدل سفر، چندہ کی اپیل ہوئی تو ایثار و قربانی کے نئے باب رقم ہوگئے۔ یہی وہ موقع تھا جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کا سارا سامان لاکر پیش کردیا۔ بایں ہمہ سارے لشکر کے لئے زاد سفر تیار نہ ہوسکا، راستے میں خوراک کا ذخیرہ ختم ہوگیا حتی کہ سواری کے جانور بھی ذبح کرکے کھالئے گئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مجاہدین کو روزانہ ایک ایک کھجور پر گزارہ کرنا پڑا، واپسی پر ساتھ نہ جانے والوں کی جواب طلبی کی گئی، منافقین نے بہانے بنائے تو ان سے تعرض نہ کیا گیا جبکہ غفلت برتنے پر تین مخلص صحابیوں کی گرفت ہوگئی۔ ۔ ۔ سوشل بائیکاٹ کردیا گیا۔ ۔ ۔ اس دوران صحابہ کرام نے جس طرح نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا وہ بھی اپنی مثال آپ تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان تین مخلص صحابیوں کی توبہ قبول کرنے کا اعلان کردیا۔

امید کا چراغ جلتا رہے تو مایوسیاں قریب نہیں پھٹکتیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ اندھیری رات سے سپیدہ سحر نمودار کردیتا ہے، اس کے لئے کچھ بعید نہیں وہ چشم زدن میں انقلاب کے لئے فضاء سازگار بنادے۔ ہمارا کام جدوجہد جاری رکھنا اور اس کی نصرت کے بھروسے پر آگے بڑھتے رہنا ہے۔

اے آندھیوں سنبھل کے چلو اس دیار میں
امید کے چراغ جلائے ہوئے ہیں ہم