علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور روحانیت

سید محمد یوسف عرفان

9 نومبر اقبال ڈے کی مناسبت سے علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی مقام پر ایک خوبصورت تحریر

محققینِ اقبال اور علماء و صوفیاء کا یہ یقین ہے کہ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شعری و نثری تعلیمات بزرگان دین اور صوفیائے صالحین کے فیضان کی مرہون منت ہیں۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ عالمی علم و ادب کی شاید واحد شخصیت ہیں جن کے کلام نے کروڑوں مسلمانان ہند بلکہ امت مسلمہ کو غلامی، غفلت اور قعر مذلت سے نکال کر جرات، ہمت، غیرت، حریت اور عمل پیہم کا پیغام دیا جو بعد ازاں ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا باعث بنا۔

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 23 مارچ 1940ء کو مینار پاکستان کے مقام پر قرار داد پاکستان منظور ہونے کے بعد عالمگیری مسجد لاہور سے متصل مصور پاکستان علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پُر انوار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا :

’’اگر آج اقبال زندہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے کہ ہم نے مسلمانان ہند کے لئے وہی کچھ کیا جو وہ چاہتے تھے کہ ہم کریں۔ حضرت قائداعظم نے مزید فرمایا کہ ’’اقبال میرے دوست، راہنما اور روحانی مرشد تھے‘‘۔

(مطلوب الحسن، سید، پاکستان ناگزیر تھا)

مشرقی پاکستان کے چیف جسٹس جناب غلام مرشد (مرحوم) نے استاد گرامی پروفیسر مرزا محمد منور کے استفسار کے جواب میں کہا تھا کہ حضرت قائداعظم کا جسم ناتواں اور دھان پان تھا مگر ان کے وجود میں کم از کم سات ولیوں کی قوت تھی۔ یہ حضرت قائداعظم ہی تھے جنہوں نے مسلمانان ہند کو حاکم وقت صلیبی انگریز اور اسلام دشمن مکار ہندو کی دائمی اکثریت کی غلامی سے نکال کر آزادی کے تخت پر براجمان کیا۔ اسلامی تعلیمات میں ایک غلام (خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو) کو آزاد کرنے کا بے حد اجر ہے تو کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کروڑوں غلام، مسلمانوں کو آزادی دلانے والا، فیضان الہٰی اور محبوب الہٰی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر کرم سے محروم تھا؟

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے احباب اور محققین اس امر پر متفق ہیں کہ آپ کو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جذبہ صادق اپنے والد گرامی نور محمد سے وراثت میں ودیعت ہوا ہے اور ان کے علم و فن کے باعث یہ جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی لامحدود وسعتوں، پہنائیوں اور بلندیوں کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی وہ جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا جس کو حضرت علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا ہے اور اسی وصف یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رسول خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت، امامت اور صداقت کی بلا حجت تصدیق اور جانثاری نے انہیں ’’امام الاصفیاء‘‘ کا مقام عطا کیا ہے۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

بمصطفٰی برساں خویش راکہ دین ہمہ اوست
اگر باو نرسیدی تمام بو لہبی است

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ’’دل بیدار‘‘ اپنے والدین بالخصوص اپنے صاحب دل صوفی باپ نور محمد سے وراثت اور تربیت سے پایا تھا۔ ڈاکٹر ابو سعید نورالدین رقم طراز ہیں کہ ’’ان (علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ ) کی بیعت ان کے والد کے وسیلہ سے تھی۔ ان کے والد کے پاس ایک مجذوب صفت درویش آیا کرتے تھے، جن کا سلسلہ قادریہ تھا وہ انہی سے بیعت تھے‘‘۔ (نورالدین، ابوسعید، ڈاکٹر، اسلامی تصوف اور اقبال، ص 234)

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ رسمی طور پر تو سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے جیسا کہ وہ خود 12 نومبر 1916ء کو سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے نام مکتوب میں بھی لکھتے ہیں کہ :

’’یہی حال سلسلہ قادریہ کا ہے، جس میں خود بیعت ہوں‘‘۔

مگر روحانی طور پر وہ عالم اسلام کے بہت بڑے صوفی شاعر مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنے کلام میں جابجا مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا مرشد تسلیم کرتے ہیں اور اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ سے ان کو روحانی فیضان پہنچا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تمام زندگی دین اسلام کی حیات بخش تعلیمات اور امت مسلمہ و مرحومہ کی بیداری اور احیاء کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ ہندوستان میں حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ، اکبر الہ آبادی کو اپنے مکتوب محررہ 6 اکتوبر 1911ء میں اپنا مرشد لکھتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’میں آپ کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس نگاہ سے کوئی مرید اپنے پیر کو دیکھے اور وہی محبت و عقیدت اپنے دل میں رکھتا ہوں‘‘۔

فی الحقیقت حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے عالم اسلام کے ہر اس صوفی، شاعر، ولی اللہ کی عزت کی اور اس سے عقیدت و محبت کا اظہار کیا جس نے امت مسلمہ کے مجموعی مفاد اور مسلمانوں کی انفرادی حیات بخش تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اولیاء اللہ کے مزارات کی نہ صرف زیارت کی ہے بلکہ جابجا ان کی مدح و ثناء بھی کی ہے۔ آپ کے مدحیہ اشعار آپ کی صوفیا اور اولیاء سے محبت و عقیدت کا اظہار ہیں۔ گو آپ سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے مگر آپ نے باقی تین سلاسل کے اولیاء صوفیاء اور مجذوبوں سے بھی قلبی رشتہ و رابطہ کا بار ہا اظہار کیا ہے۔ آپ کے قلبی ’’تار برقی‘‘ مراقبات کی شکل میں حضرت داتا گنج بخش علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، پیر سنجر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت نظام الدین اولیاء، حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی، حضرت سید محمد میاں میر، بوعلی شاہ قلندر رحمہم اللہ اور کئی نامور اور غیر معروف اولیاء اللہ سے رہا ہے۔

سحر خیزی کے حوالے سے حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ :

’’بندۂ روسیا کبھی کبھی تہجد کے لئے اٹھتا ہے اور بعض دفعہ تمام رات بیداری میں گذر جاتی ہے۔ سو خدا کے فضل و کرم سے تہجد سے پہلے بھی اور بعد میں بھی دعا کروں گا کہ اس وقت عبادت الہٰی میں بہت لذت حاصل ہوتی ہے کیا عجب کہ دعا قبول ہوجائے‘‘۔ (اقبال بنام شاد، ص 198)

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی مقامات، احوال، سوز و گداز، سرور و مستی، جذب اور وجدان و سلوک کے سلسلے میں کئی واقعات مختلف کتابوں میں مرقوم ہیں۔ فقیر سید وحیدالدین اپنی کتاب ’’روزگار فقیر‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ

’’میرے والد فقیر نجم الدین ایک دن اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں پہنچے تو اقبال رحمۃ اللہ علیہ بولے کہ آج کل حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ میں کوئی بہت روشن ضمیر بزرگ آئے ہوئے ہیں ان سے ملنے چلیں، میں ان سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب مسلمانوں سے خدا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اقوام عالم میں سرفراز ہوں گے تو آج کل اتنے ذلیل و خوار کیوں ہیں؟ اقبال کے تساہل کے باعث یہ ہوا کہ یہ دونوں نہ صبح کو وہاں پہنچ سکے نہ شام کو، آخر بات دوسری صبح کے لئے قرار پائی کہ کل چلیں گے۔ دوسرے دن فقیر نجم الدین اقبال کے یہاں ذرا دیر سے پہنچے، اس خیال سے کہ ان کے جلدی چلنے کی کوئی امید نہیں تھی لیکن یہ دیکھ کر انہیں سخت حیرت اور پریشانی ہوئی کہ اقبال کا رنگ زرد ہے اور چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں اور وہ شدید تفکر اور اضطراب میں مبتلا ہیں۔ نجم الدین نے پوچھا کہ خیر تو ہے تو اقبال بولے کہ :

’’آج صبح میں یہیں بیٹھا تھا کہ علی بخش نے آ کے اطلاع دی کہ کوئی درویش صفت آدمی ملنا چاہتا ہے میں نے کہا، بلالو۔ ایک درویش صورت اجنبی میرے سامنے آکھڑا ہوا۔ کچھ وقفے کے بعد میں نے کہا، فرمایئے آپ کو مجھ سے کچھ کہنا ہے؟ اجنبی بولا : ہاں تم مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتے تھے، میں تمہارے سوال کا جواب دینے آیا ہوں اور اس کے بعد مثنوی کا مشہور شعر پڑھا :

گفت رومی ہر بنائے کہنہ کہ باداں کنند
توندانی اول آں بنیاد را ویراں کنند

(رومی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ جس پرانی عمارت کو آباد کرتے ہیں تو نہیں جانتا کہ پہلے اس بنیاد کو ویران کردیتے ہیں)۔

کچھ پوچھئے نہیں کہ مجھ پر کیا گذر گئی، چند لمحوں کے لئے مجھے قطعی اپنے گرد و پیش کا احساس جاتا رہا۔ ذرا حواس ٹھکانے ہوئے تو بزرگ سے مخاطب ہونے کے لئے دوبارہ نظر اٹھائی لیکن وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ علی بخش کو ہر طرف دوڑایا لیکن کہیں سراغ نہیں ملا‘‘۔ (روزگار فقیر، ص 32)

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا بزرگان دین، اولیاء اللہ اور صوفیاء رحمہم اللہ سے روحانی رابطہ اور رشتہ تادم مرگ رہا۔ بلکہ مذکورہ روحانی بزرگ سے ملاقات کے حوالے سے راقم کو عاشق اقبال اور استاد گرامی جناب پروفیسر مرزا محمد منور کا بیان کردہ ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔

واقعہ یوں ہے کہ تہجد کے وقت علی بخش نے حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو بتایا کہ ایک خوش شکل، پُر نور چہرے والا نوجوان آپ سے ملنے کا خواہشمند ہے، میں نے اسے طلوع سحر تک انتظار کا کہا ہے مگر وہ نوجوان اصرار کر رہا ہے کہ ہم نے اقبال سے ابھی ملنا ہے، تم انہیں ہمارے آنے کی اطلاع کرو۔ علی بخش کے اس پیغام پر آپ خلاف معمول اپنے سب کام چھوڑ کر اس نوجوان کے استقبال کے لئے باہر دروازے پر تشریف لے آئے اور اس کے پیچھے پیچھے نہایت مودبانہ چلتے ہوئے عزت و احترام کے ساتھ اپنے کمرے میں لے آئے۔ علی بخش کے لئے آپ کا اس نوجوان کے پیچھے یوں مودبانہ چلنا حیران کن تھا کیونکہ علی بخش نے حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ہر امیر، غریب، چھوٹے، بڑے، معروف وغیر معروف حتی کہ جواہر لال نہرو کو بھی مؤدب پایا تھا۔ علی بخش کی حیرانی کی انتہاء نہ تھی جب حضرت علامہ نے اس پُر نور نوجوان کو بڑے احترام کے ساتھ اپنی جگہ پر بٹھایا اور خود ان کے پاؤں کی جانب زمین پر بیٹھ گئے اور دونوں نے آپس میں باتیں شروع کر دیں۔ تھوڑی دیر بعد حضرت علامہ نے علی بخش کو بلایا اور محترم نوجوان کے لئے تازہ لسّی لانے کے لئے کہا۔ علی بخش نے کہا کہ میں اس سوچ میں گم تھا کہ اس وقت لسی کی کون سے دکان کھلی ہوگی۔ علی بخش کو عجیب حیرت اور خوشی ہوئی کہ گھر سے باہر نکلتے ہی سامنے ایک شاندار دودھ دہی کی دکان کھلی ہے۔ علی بخش نے اس سے لسی لی اور پیسے ادا کرنے لگا تو دودھ دہی والے پُرنور نوجوان نے کہا کہ ’’پیسے رکھو اور لسّی لے جاؤ، اقبال سے ہمارا حساب چلتا ہے‘‘۔ اذان سحر کے وقت وہ نوجوان چلے گئے۔ علی بخش کے بقول کہ اس نے نوجوان موصوف کے پیچھے چلنا چاہا مگر وہ گھر سے نکلتے ہی نظر سے اوجھل ہوگئے۔ گھر کے سامنے دودھ دہی کی دکان پر نظر ڈالی تو وہ بھی موجود نہیں تھی۔ حضرت علامہ سے پوچھنے کہ ہمت نہ ہوئی۔ لیکن میرے چہرے کی حیرانی اور خاموش استفسار واضح تھا۔ چند دن بعد حضرت علامہ سے پوچھنے کی ہمت کر لی کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ کہ آپ نے ایک نوجوان کو اپنی جگہ پر بٹھا کر خود ان کے قدموں میں بیٹھ گئے۔ حضرت علامہ نے فرمایا کہ جو نوجوان اندر تشریف لائے تھے وہ پیر سنجر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ تھے اور جن نورانی نوجوان سے تم نے لسّی لی تھی وہ حضرت علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ المعروف بہ داتا گنج بخش تھے۔

حضرت علامہ محمد اقبال کی حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ سے محبت و عقیدت کے حوالے سے سید عبداللہ قادری نے مذکورہ بالا واقعہ کے علاوہ اپنے مضمون بعنوان ’’اقبال بحضور سید ہجویر‘‘ میں مزید لکھا ہے کہ :

’’آخری عمر میں تو حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ فنا فی الگنج بخش ہو کر رہ گئے تھے۔ ان دنوں میں ایک تو وہ کشف المحجوب کا بکثرت مطالعہ کرتے اور دوسرے 1936ء سے لے کر اس وقت تک جبکہ چلنے پھرنے سے بالکل معذور ہوگئے، ہر روز صبح کی نماز اپنے ایک عزیز ڈاکٹر نیاز احمد کی ہمراہی میں حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ میں ادا کرتے اور معمول میں کبھی ناغہ نہ ہوا۔ ہاں اگر وہ لاہور سے باہر گئے ہوں تو علیحدہ بات ہے‘‘۔

فقیر وحیدالدین نے اپنی کتاب میں جو دوسرا واقعہ لکھا ہے وہ یہ ہے کہ جس زمانے میں اقبال انار کلی کے دو منزلہ مکان میں رہتے تھے۔ ایک رات کو سوتے سوتے ان کی آنکھ کھل گئی اس وقت انہوں نے اپنی طبیعت میں شعر گوئی کی کیفیت محسوس کی۔ فقیر وحیدالدین لکھتے ہیں :

’’ڈاکٹر صاحب مکان کی دوسری منزل پر استرحت فرما تھے، پاس نہ کاغذ تھا، نہ پنسل۔ چپ چاپ اٹھے، لالٹین ہاتھ میں اٹھائی اور سیڑھیوں سے قدرے تیزی کے ساتھ اتر کر نچلی منزل میں پہنچے۔ لالٹین ایک طرف رکھ دی۔ کاغذ اور قلم سنبھالا اور جس قدر اشعار اس وقت موزوں ہوتے گئے، انہیں قلم بند کرتے گئے۔ یہاں تک کہ نزول شعر کی یہ کیفیت اختتام کو پہنچی۔ انہوں نے بالائی منزل پر جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک سفید ریش، طویل قامت اور درویش صفت بزرگ نظر آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے حیرت و استعجاب کے انداز میں دریافت کیا کہ آپ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟ درویش نے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے جلدی جلدی کہا : پانچ سو آدمی پیدا کرو، پانچ سو آدمی پیدا کرو۔ یہ کہتے ہوئے وہ بازار کی جانب کھلنے والی کھڑکی کی طرف بڑھتے گئے حالانکہ اس طرف کوئی راستہ نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے لالٹین اٹھائی اور زینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جہاں گھپ اندھیرا تھا کہا، چلیے میں آپ کو راستہ دکھاؤں اور نیچے لے چلوں لیکن اس بزرگ نے ڈاکٹر صاحب کی اس پیش کش کا کوئی جواب نہ دیا۔ وہ اپنا وہی فقرہ اسی جوش اور تاکید کے ساتھ دہراتے ہوئے نظر سے اوجھل ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب زینے کی طرف سے سیڑھیاں طے کر کے بازار میں آئے اور دور تک دیکھا مگر بزرگ کا کہیں پتہ نہ تھا۔ ایسے میں ڈاکٹر صاحب کو رات میں گشت کرنے والا کانسٹیبل نظر آیا۔ اس سے دریافت کیا کہ تم نے اس وضع قطع، چال ڈھال اور حلیہ کا کوئی آدمی تو نہیں دیکھا۔ کانسٹیبل نے نفی میں جواب دیا۔ ڈاکٹر صاحب مایوس ہو کر اپنے گھر لوٹ آئے اور پھر بستر پر سوگئے۔ صبح کو جب بیدار ہوئے تو رات کا واقعہ ذہن میں بالکل تازہ تھا مگر پھر خیال آیا کہ شاید انہوں نے خواب دیکھا ہے۔ لیکن جب نچلی منزل میں آ کر رات کے لکھے ہوئے اشعار موجود پائے اور قریب ہی لالٹین رکھنے کا نشان بھی ابھرا ہوا تھا تو ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ وہ خواب تھا یا بیداری تھی بہر حال جو حالت بھی تھی، اس کا ایک حصہ حقیقت بن چکا تھا‘‘۔

اس واقعہ کے بعد جب اقبال موسم گرما کی تعطیلات میں سیالکوٹ گئے تو انہوں نے اپنے والد سے اس کا ذکر کیا اور پوچھا کہ پانچ سو آدمی تیار کرنے سے اس درویش کی کیا مراد تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس کی منشاء کے بارے میں تو میں کچھ نہیں جانتا البتہ یہ کہتا ہوں کہ اگر پانچ سو آدمی تیار نہیں کرسکتے تو پانچ سو آدمی تیار کرنے والی پانچ سو اشعار کی کتاب ہی لکھ دو۔ چنانچہ اقبال نے اپنی مشہور مثنوی ’’پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق‘‘ جس میں پانچ سو سے زیادہ اشعار ہیں، لکھی۔

(اقبال ایک صوفی، ص 152،155)

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کشف کے ضمن میں خود 4 اپریل 1916ء کو مہاراجہ سرکشن پرشاد کو اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں :

’’یہ مثنوی جس کا نام ’’اسرار خودی‘‘ ہے ایک مقصد سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ بلکہ مجھ کو اس کے لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے۔۔۔ یہ بیج جو مردہ زمین میں اقبال نے بویا ہے، اُگے گا، ضرور اُگے گا اور علی الرغم مخالف بار آور ہوگا۔ مجھ سے اس کی زندگی کا وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔

(روح مکاتیب اقبال، ص147، بحوالہ اقبال ایک صوفی شاعر، ص 155)

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی پوری سوانح حیات مختلف روحانی واقعات، مکاشفات، مشاہدات اور تجربات سے بھری پڑی ہے۔ آپ اسلامی تصوف کی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے علمی و فکری، روحانی اور عملی طور پر تصوف کی نئی راہیں، نئے مقاصد اور نئی جہات متعین کی ہیں۔ آپ شخصی، قومی و ملی اور روحانی زندگی میں ’’Trend Setter‘‘ یعنی نیا رخ، انداز اور لباس متعین کرنے والے ہیں۔

قرآن کی رو سے تزکیہ نفس دل کی صفائی اور تطہیر قلب کا نام ہے۔ جس کا دل فنا فی اللہ ہے، وہی اللہ کی مخلوق اور اس کی بہترین امت کا مثالی اور بہترین فرد بن کر امت مسلمہ بلکہ تمام مخلوق خدا کی خدمت کرتا ہے۔

مارچ 1907ء وہ سال ہے جس میں حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ ایک روحانی تجربہ سے گزرے اور چند پیش گوئیاں کیں جو اشعار کی شکل میں آپ کی زبان پر وارد ہوئیں۔ اس نظم میں آپ نے چار پہلوؤں پر روشنی ڈالی جو ان کی علمی و فکری، فنی اور روحانی زندگی کا محور ہیں۔

اول : آپ نے اس نظم میں یورپی تہذیب و تمدن کے بودے پن اور مادہ پرستانہ بربادی کا ذکر کیا ہے۔

دوم : اسی نظم میں آپ نے احیائے اسلام کی نوید دی ہے۔

سوم : احیائے اسلام کی علمی و فکری، دینی و روحانی اساس کا ذکر کیا ہے۔

چہارم : آپ نے احیائے اسلام کی راہ میں موجود تاریکی کو دور کرنے کے لئے اپنے مصمم ارادے اور استقامت کا ذکر کیا اور کہا کہ میں اور میرے شعر اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ نظم درج ذیل ہے :

سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر استوار ہوگا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زر کم عیار ہوگا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

سفینہ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس میرا شعلہ بار ہوگا

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے حقیقی تصوف کی وضاحت کرتے ہوئے 9 مارچ 1916ء کو شاہ سلیمان پھلواری کو خط لکھا کہ ’’حقیقی اسلامی تصوف کا میں کیونکر مخالف ہو سکتا ہوں کہ خود سلسلہ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں نے تصوف کو کرامت سے دیکھا ہے۔ بعض لوگوں نے غیر اسلامی عناصر اس میں داخل کر دیئے ہیں جو شخص غیر اسلامی عناصر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے، وہ تصوف کا خیر خواہ ہے نہ کہ مخالف‘‘۔

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا فلسفہ خودی اسی ’’گسستن‘‘ یعنی ’’تو عین ذات می نگری درتبسمی‘‘ کی تشریح و توضیح ہے۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں انفرادی خودی کے تحفظ کا درس دیا ہے وہاں قومی و ملی خودی یعنی غیرت، حریت، ہمت اور جرات کا پیغام بھی دیا ہے اور یہی وہ درس تھا جو برصغیر میں ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا پیش خیمہ بنا۔

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے 1930ء کے خطبہ الہ آباد اور بعد ازاں بعض خطوط میں برملا کہا ہے کہ شمالی ہند کے مسلمان باشندوں کے ذمے اللہ تعالیٰ کوئی بڑا کام لگانے والا ہے اور ان کی خواہش ہے کہ ان کے شعر اس الوہی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے میں ممد و معاون ہوں۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں عالمی اور بالخصوص اسلامی دنیا کے احوال بیان کئے ہیں وہاں اپنی روحانی چشم تصور سے آئندہ ہونے والے عالمی واقعات کی تصویر کشی بھی کی ہے۔ جس میں سے ’’مشتے از خروارے‘‘ کے طور پر چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے طلوع اسلام (بانگ درا) میں کہا ہے کہ

بمشتاقاں حدیث خواجہ بدر و حنین آور
تصرف ہائے پنہانش بچشمم آشکار آمد

اسی طرح حضرت علامہ نے برصغیر کے مسلمانوں کو یہ نوید سنائی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر کرم اس خطہ کے مسلمانوں کی حالت زار پر ہے اور یہ مسلمانان ہند جلد غیر ملکی تسلط سے نجات پائیں گے اور آزادی سے بہرہ ور ہوں گے اور ان کی آزادی اسلامی نشاۃ ثانیہ کی خشت اول ہوگی۔

خضرِ وقت از خلوتِ دشتِ حجاز آید بروں
کارواں زیں وادی دور و دراز آید بروں

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں یورپی تہذیب کے زوال کی پیشگوئی کی تھی وہاں روس کے ملحدانہ اشتراکی نظام کے انہدام کا ذکر بھی اپنے خطوط میں کیا ہے کہ روسی اشتراکی نظام غیر فطری ہے۔ لہذا خود روسی عوام میں بھی رسوخ نہیں پاسکے گا۔ حضرت علامہ محمد قبال رحمۃ اللہ علیہ نے فطرت کے مقاصد کے حصول کے لئے صحرائی اور پہاڑی افراد کی اہمیت بیان کی ہے کہ

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا بندہ کوہستانی

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کلید ایشیا یعنی ایشیا کی آزادی کے لئے پاکستان اور افغان پہاڑی باشندوں اور صحرائے عرب کے فکر و نظر اور بود باش کو اہم قرار دیا ہے۔ نیز آپ نے حرم سے دور از خلوت دشت حجاز یعنی خطہ ہند کو احیائے اسلام کا مرکز تصور کیا ہے۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی مسلمانان ہند کے حوالے سے یہ پیشگوئی بھی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور ہندوستان میں ایک علیحدہ اسلامی نظریاتی ریاست وجود میں آئی جس کا بنیادی مقصد نظام اسلام کی بحالی تھا۔ نیز یہی وہ ریاست ہے جس نے اسلام کے رکن رکین جہاد کو از سر نو زندہ کیا اور عالم اسلام کو جہاد کے ذریعے عملی اتحاد کا باعث بنایا۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے تصوف کی جو راہ متعین کی ہے وہ فنا فی اللہ کی نہیں ہے۔ بقول حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ :

تو رہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہمنشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود روحانی سرشاری اور مستی میں غرق ہونا نہیں ہے بلکہ روحانی مستی میں مسرور رہ کر عالم انسانیت کی روحانی بلندی اور بالیدگی کی تبلیغ اور ترویج کرنا ہے۔

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن

(بشکریہ معارف اولیاء)