منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم کے زیر اہتمام تیسرا سہ روزہ دورہ بخاری و مسلم

رپورٹ

دورہ صحیح بخاری (اگست 2006ء) اور دورہ صحیح مسلم اکتوبر (2007ء) کی عظیم کامیابی، علماء و عوام الناس میں حد درجہ مقبولیت، عقائد کی اصلاح اور علمی کلچر کے احیاء کے سلسلے میں ان دروس کے واضح کردار کے پیش نظرِمنہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم کے زیراہتمام ایک اور سہ روزہ دورہ بخاری و مسلم کا آغاز مورخہ 23 اگست 2008ء کو یورپ کی تاریخی مرکزی جامع مسجد گھمکول شریف برمنگھم میں ہو۔ جس میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے علاوہ افریقہ، ہالینڈ، اسپین، فرانس، ناروے، کینیڈا اور شام کے علماء و اہل علم حضرات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ اس پروگرام کی تفصیل نذرِ قارئین ہے :

پہلا دن

پروگرام کا آغاز محترم قاری زبیر قادری (ہالینڈ) کی تلاوت سے ہو۔ بعد ازاں اور شام سے عبدالرحمٰن اور سید معاذ النص نے عربی میں نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش کی۔

اس موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ابتدائی گفتگو فرماتے ہوئے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ اور سنت بھی وحی الٰہی ہی ہیں اور شرعی احکامات کے استدلال میں قرآن و احادیث کا رتبہ ایک ہی ہے کیونکہ دونوں کا ذریعہ ایک (اللہ رب العزت) ہی ہے۔ لیکن مرتبے کے لحاظ سے قرآن حکیم اول اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے درجہ پر ہیں۔ قرآن حکیم وحی متلو ہے جب کہ حدیث مبارکہ وحی غیر متلو ہے۔ سورہ النجم کی آیت نمبر 4 میں ارشاد باری تعالی ہے :

اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ يُّوْحٰی.

’’اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے‘‘۔

اس نشست میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ نے "احادیث مبارکہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام اور تدوین احادیث" کے موضوع پر پُر مغز گفتگو کرتے ہوئے درجنوں قرآنی آیات و احادیث مبارکہ سے ثابت کیا کہ کسی شرعی حکم کے احادیث مبارکہ سے ثابت ہو جانے کے بعد بھی اگر یہ شرط عائد کی جائے کہ یہ حکم قرآن حکیم سے دکھائیں گے تو قبول کریں گے ورنہ نہیں، ایسا کہنا تو دراصل قولِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار ہے اور ایسا کہنے والا مسلمان نہیں رہ سکت۔ صرف قرآن پاک سے سند حاصل کرنے کی شرط کفر ہے۔ کیونکہ اگر احادیث مبارکہ سے حکم ثابت ہو جائے تو قرآن سے حکم مانگنے کی ضرورت نہیں رہتی بالکل اسی طرح جیسے قرآنی حکم ملنے کے بعد احادیث کی ضرورت نہیں رہتی۔ افسوس آج جدیدیت اور سیکولرازم کے نام پر مسلم امہ میں نفرت اور تفرقہ بازی کو ہوا دی جا رہی ہے اور احادیث مبارکہ کی غلط توضیح و تشریح کر کے علوم دینیہ سے نابلد عناصر امت کو گمراہ کر رہے ہیں۔

دوسرا دن

سہ روزہ دورہ بخاری و مسلم کے دوسرے روز کا آغاز مورخہ 24 اگست 2008ء کو تلاوت قرآن مجید سے ہو۔ بعد از تلاوت کلام مجید آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت پیش کئے گئے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ نے دوسرے روز شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علم حدیث ایک سمندر کی مانند ہے جس میں صرف غوطہ زنی کرنے والے ہی کو گوہر نایاب ملیں گے جبکہ کناروں پر بیٹھنے والے صرف اعتراضات پر ہی اکتفا کریں گے۔ امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عدل کی بجائے رحم کا رویہ اپناتا ہے۔ اسی لیے اگر امتی کے دل میں گناہ کا محض وسوسہ آجائے اور وہ اس پر عمل نہ کرے تو بارگاہ الٰہی سے، اس بْرے وسوسہ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ایک نیکی عطا کر دی جاتی ہے اور اگر نیک کام کا ارادہ کر لے تو اللہ تعالیٰ امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارادہ کرنے پر ایک نیکی جبکہ ارادہ پر عمل کرنے سے دس نیکیاں عطا کرتا ہے۔ اس لطف و کرم کی خاص وجہ وسیلہ محبوب خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔

اس موقع پر شیخ الاسلام نے بخاری و مسلم کی روایات سے اس سوال کا تفصیلی جواب دیا کہ حجِ بیت اللہ تو مکہ میں ہوتا ہے لیکن ایمان کی حفاظت مدینہ میں کیونکر ہو گی؟ جب اسلام سکڑ کر مکہ و مدینہ تک رہ جائے گا اور دجال وہاں بھی پہنچ جائے گا تو ایمان مکہ کی بجائے مدینہ کی جانب رخ کر کے اپنی حفاظت کر لے گا کیونکہ ایمان کی سلامتی وجود مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قبر انور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ہو گی۔ مدینہ میں ماسوائے اس کے کچھ نہیں کہ اس کی شان و عظمت کا مرکز و محور وجود مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے مقابلے میں مدینہ کی برکت میں فضیلت کی دعا فرمائی تھی۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے مولا موت تیرے راستے میں آئے اور دفن مدینہ منورہ میں ہوں۔ پس جن دلوں میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بسیرا ہو وہ دل مردہ نہیں ہوتے اور جس امت میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چنگاری پھوٹ جائے اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کی راہنمائی و ہدایت کا مرکز و محور بن جائے نہ وہ انتہا پسند بنتے ہیں نہ دہشت گرد کہلاتے ہیں، وہ ہتھیار کی بجائے محبت و الفت کے ذریعے لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں۔ علماء و مشائخ کو چاہئے کہ وہ نوجوان نسل کے دلوں میں محبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ روشن کر دیں، دنیا بھر میں پیدا شدہ مشکلات کا حل خود بخود سامنے آجائے گ۔ امت مسلمہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی نسبت و تعلق کو مضبوط تر بنائے۔ اس میں دنیاوی و اخروی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔

سہ روزہ دروہ بخارہ و مسلم کے دوسرے روز مصر سے تشریف لائے ہوئے محترم شیخ احمد درویش، شام کے عظیم سکالر و خطیب اعظم شیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی، شیخ عبدالرحمان اور بنگلہ دیش کے مفتی حبیب اللہ نے اپنے خیالات کا اظہار کی۔

تیسرا دن

سہ روزہ دورہ بخاری و مسلم تیسرے اور آخری روز کا آغاز 25 اگست 2008ء کو حسب معمول تلاوت قرآن مجید سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھی گئی۔

دورہ بخاری و مسلم کی اختتامی نشست سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ امت مسلمہ طلب دنیا، حرص و ہوس، ذات و برادری اور رسم و رواج جیسی برائیوں میں گِھر چکی ہے اور ہم ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے رشتہ کو مضبوط بنانے کی جانب کوہتائی کا شکار ہیں۔ امت ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، دین اور سنت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے بے حسی میں مبتلا ہے۔ کیا ہماری توجہات کا مرکز و محور دنیا اور مادی اشیاء کا حصول رہ گیا ہے ؟ جب کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ سے امت کی شفاعت کا وعدہ مانگتے بسر کر دی۔

اس موقع پر شیخ الاسلام نے شفاعت، عقیدہ اور فوائد الحدیث و شرح پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت کے دن کی تفصیلات سے آگاہ نہیں وہ بے علم اور غلط فہمی کا شکار ہیں کیونکہ امت کو قیامت کے بارے میں لمحہ بہ لمحہ خبر قرآن پاک سے نہیں بلکہ صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملی۔ من گھڑت توحید کے دعویدار بروز قیامت سب کچھ بھول کر انبیاء کرام کے در پر شفاعت کیلئے کھڑے ہونگے۔ قیامت کے روز صرف یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ڈنکا بجے گا۔ جو نعرہ اس روز لگانا ہے وہ آج ہی لگا لیں تو بہتر ہو گا۔ امام بخاری و مسلم عظیم عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور اگر امت بھی آج اپنے قلب و باطن کو محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تعلق مدینہ کو مضبوطی سے اپنا مرکز و محور بنا لے تو کوئی وجہ نہیں کہ امت مسلمہ پھر سے اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنے میں کامیاب نہ ہو۔ آج امت جس نازک دور سے گزر رہی ہے اس سے نبرد آزما ہونے کیلئے دلوں میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بسیرا امت کے مردہ جسم میں جان ڈال دے گا۔ امت مسلمہ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا ہتھیار ہوتے ہوئے کسی کے خلاف کسی دنیاوی ہتھیار کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ محبت و اخلاق اور اعلیٰ کردار جیسا ہتھیار مختلف قوتوں کے قلب و ذہن فتح کرنے کیلئے مدد کار ثابت ہو سکتا ہے۔

مدینہ کو دنیا بھر میں فضیلت محض اس وجہ سے ہے کہ وہاں پر وجود محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اس لیے ہم بھی مدینہ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں کہ یہاں ہمارے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک لگے ہیں۔ آج امت میں عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلق کو جتنا بھی مضبوط کیا جائے کم ہے۔ آج کے دور سے قبل امت کا اپنے محبوب سے تعلق کمزور نہیں ہوا تھا لہذا ہمیں طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ سے کرنا ہوگا۔

اختتامی نشست سے شام کے خطیبِ اعظم شیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی، شیخ عبدالرحمان، مصر کے شیخ احمد درویش، بنگلہ دیش کے مفتی حبیب اللہ، ہالینڈ سے حافظ نذیر احمد خان، ناروے سے علامہ نور احمد نور، علامہ سہیل صدیقی کے علاوہ علماء و مشائخ کی بڑی تعداد نے خطاب کیا۔ مقررین نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی علم حدیث پر علمی دسترس اور جدید تقاضوں کے مطابق تحقیق و تشریح پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ احادیث کی تشریح جس پیرائے میں شیخ الاسلام نے کی ہے اس کا کتابوں میں ملنا محال ہے۔ آپ کے ہر ہر لفظ سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے علمی سمندر میں غوطہ زنی کر کے سمندر کی تہوں سے موتی تلاش کر کے امت محمدی میں تقسیم کیے جا رہے ہوں۔ ایسی مجالس میں شرکت کیلئے طویل سفر اختیار کرنا خسارے کا سودا نہیں ہے۔ دروس بخاری و مسلم نے ثابت کر دیا ہے کہ آپ واقعی شیخ الاسلام کے ٹائٹل (لقب) کے سچے حقدار ہیں۔

دورہ بخاری و مسلم کا باقاعدہ اختتام اجتماعی دعا سے ہوا جس میں امت مسلمہ کی کامیابی و کامرانی کیلئے خاص طور پر دعائیں کی گئیں۔