القرآن : اسلام کا تصورِ امن و سلامتی

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین

ارشاد رب العزت ہے :

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاًO

(بنی اسرائيل : 70)

’’اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیاo‘‘۔

درج بالا آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تکریم انسانی کا ذکر فرمایا ہے کہ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی، مختلف سواریوں کو اس کے تابع کیا، پاکیزہ رزق عطا فرمایا اور اشرف المخلوقات کے مرتبہ پر فائز کیا ہے۔ عظمت و تکریم انسانی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم علیہ السلام کے واقعہ کے باب میں بھی کیا، ارشاد فرمایا :

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً.

(البقرة : 30)

’’اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں‘‘۔

گویا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے انسان اور سب سے پہلے نبی ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کو جب پیدا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو انہیں اپنے نائب/ خلیفہ کے طور پر متعارف کروا کر عظمت و تکریم آدم کا ذکر کیا۔

اول الذکر آیت کریمہ (بنی اسرائیل : 70) میں نسل آدم یعنی انسان کی عزت و تکریم کا ذکر ہے، بات فقط اہل ایمان و اسلام کی نہیں ہو رہی بلکہ مطلقاً نسل بنی آدم، بنی نوع انسان کی بات ہو رہی ہے کہ بنی نوع انسان کو ہم نے بطور انسان اپنی کائنات خلق کے بے شمار طبقات پر فضیلت و برتری عطا کی ہے۔ انسان کی عظمت و تکریم کو مزید واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَO

(الحجر : 29)

’’پھر جب میں اس (کے ظاہر) کو درست کر لوں اور اس (کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس (کی تعظیم) کے لئے سجدہ کرتے ہوئے گر پڑناo‘‘۔

انسان کی ایک فضیلت اس آیت مبارکہ سے یہ ثابت ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے باطن میں اپنی روح پھونکی ہے اور اپنے نور کا چراغ روشن فرمایا ہے۔ اسی آیت کریمہ سے انسان کی دوسری فضیلت اس طرح عیاں ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت و اکرام کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں سجدہ کرنا۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :

اُسْجُدُوْا لِاٰدَم.

(البقرة : 34)

’’آدم ( علیہ السلام) کو سجدہ کرو‘‘ تاکہ ان کی عظمت و اکرام تمہارے سجدے سے ظاہر ہو۔ جب ابلیس نے حکمِ خداوندی کے باوجود سجدہ نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا کہ

قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ.

(ص : 75)

’’(اﷲ نے) ارشاد فرمایا : اے ابلیس! تجھے کس نے اس (ہستی) کو سجدہ کرنے سے روکا ہے جسے میں نے خود اپنے دستِ (کرم) سے بنایا ہے‘‘۔

گویا اپنے ہاتھ سے تخلیق کرنے کا ذکر فرمانا دراصل حضرت آدم علیہ السلام کی بے حد عظمت و اکرام کا اظہار کرنا ہے۔ بنی نوع انسان کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌO

(الحجرات : 13)

’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہےo‘‘۔

درج بالا آیات کریمہ انسان کے مقام و مرتبہ، عظمت و فضیلت کے حوالے سے تھی۔ انسانوں کے طبقات اور انسانوں کے آپس کے رشتے کے حوالے سے ارشاد فرمایا :

وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًاO

(النساء : 36)

’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو o‘‘۔

اس آیت کریمہ میں حکم توحید کے فوری بعد ماں باپ کا حق بیان کیا اور اس کے بعد رشتہ داروں، یتیموں، محتاجوں، ہمسایوں، مسافروں، غلاموں، ہم مجلس اور اجنبیوں کے حقوق کا ذکر کیا کہ ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آؤ۔ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَيْمَانُکُمْ میں اُس دور کے غلاموں کی طرف صریحاً ذکر کے ساتھ ساتھ یہ ملکیت حق زوجیت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔

موجودہ حالات و واقعات کے تناظر میں یہ امر اس بات کا شدت کے ساتھ متقاضی ہے کہ اسلام میں انسانی حقوق کو نمایاں کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے نیز اسلام اور تصور امن کو بھی واضح کیا جائے تاکہ اسلام پر انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے اعتراضات کا کماحقہ جواب دیا جاسکے۔ آیئے یہ جانتے ہیں کہ

  • اسلام میں مختلف طبقات انسانی کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں؟
  • اسلام میں تصور امن کیا ہے؟
  • اسلام کی نظر میں غیر مسلموں سے کیسا تعلق ہونا چاہئے؟

مومن و مسلم کون؟

درج بالا سوالات کے جوابات کے باب میں بنیادی چیز یہ جاننا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے مسلمان کی عملی تعریف کیا کی ہے کہ مسلمان کون ہوتا ہے؟

٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔

اِنَّ رَجُلًا سَاءَلاً النبی صلی الله عليه وآله وسلم اَیُّ الْمُسًلِمِيْنَ خَيْرٌ؟ قَالَ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لسَانِه وَيَدِه.

(صحيح بخاری، کتاب الرقاق، ج 5، ص 2379، رقم 6119)

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ مسلمانوں میں بہتر مسلمان کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بہتر مسلمان وہ شخص ہے جس کی زبان اورجس کے ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔

یعنی نہ وہ زبان سے مسلمانوں کو گزند تکلیف و اذیت پہنچائے اور نہ وہ ہاتھ سے مسلمانوں کو نقصان پہنچائے۔ سوال چونکہ مسلمانوں کے حوالے سے کیا گیا کہ مسلمانوں میں سے اچھا مسلمان کون ہے لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سوال کا جواب بھی مسلمانوں کی نسبت سے عطا فرمایا۔

ایک اور مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمان اور مومن کی تعریف بیان فرماتے ہیں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لسَانِه وَيَدِه وَالْمُوْمِنُ مَنْ اَمِنَه النَّاسُ عَلٰی دِمَائِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ.

(جامع ترمذی، کتاب الايمان عن رسول الله، ج 5، ص 17، رقم 2627)

اس حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان اور مومن کی تعریف بیان کی کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔۔۔ جو مسلمانوں پر حملہ آور نہ ہو۔۔۔ مسلمانوں پر اسلحہ اور ہتھیار نہ اٹھائے۔۔۔ مسلمانوں کو بموں کے ذریعے نہ اڑائے۔۔۔ اور خود کش حملے یا کسی اور ذریعے سے مسلمانوں کے خون کو نہ بہائے۔۔۔ ہاتھ سے تکلیف پہنچانا تو ایک طرف رہا بلکہ مسلمان اپنی زبان سے بھی دوسروں کو تکلیف نہ پہنچائے۔ بندوق چلانا تو بڑی بات ہے اپنی زبان بھی مسلمانوں کے خلاف نہ چلائے۔

پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن کی تعریف میں فرمایا کہ مومن وہ ہے جس سے صرف مسلمانوں کی نہیں بلکہ کل انسانوں (خواہ مسلم ہوں یا نصاریٰ، یہودی ہوں یا ہندو، ان کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب سے ہو) کی جانیں اور ان کے مال محفوظ رہیں۔ گویا مومن وہ ہے جو انسانوں کے لئے امن کا پیکر، امن کا منبع اور امن کا باعث ہو نیز انسانی زندگی کے امن کا محافظ ہو۔ انسانوں کو امن فراہم کرنے والا ہو۔ اس میں نہ مسلمان کا امتیاز رہا اور نہ غیر مسلم کا امتیاز رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس تصور اور فکر باطل کو سراسر رد فرما دیا کہ کسی مسلمان کی (معاذاللہ) یہ ذمہ داری ہے کہ وہ محض مسلمان ہونے کی وجہ سے غیر مسلموں کی جانیں لیتا پھرے، انہیں قتل کرے، ان کے مال لوٹے اور ان پر ظلم کرے۔ فرمایا : ایسا عمل اسلام سے خارج ہے اور ایسا عمل کرنے والا شخص خود مسلمان اور مومن ہی نہیں ہے۔

پس احادیث مبارکہ میں مذکور مسلم و مومن کی تعریف سے ہی اسلام کا تصور امن نکھر کر سامنے آرہا ہے کہ اسلام و ایمان کی حدود میں وہی شخص شامل ہے جو انسانوں کے لئے باعث امن و سلامتی ہو۔

ایمان، اسلام اور احسان

اللہ رب العزت نے جو دین ہمیں عطا کیا اس کا نام خود اللہ نے اسلام رکھا۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی تعمیل کرنے، ان پر عمل کرنے کا نام اسلام ہے۔۔۔ اللہ، اس کے رسولوں، کتابوں، فرشتوں اور آخرت کے ماننے کا نام ایمان ہے۔۔۔ اور عبادت میں بلند رتبہ پالینے کا نام احسان ہے۔

عقیدہ درست کر لینے کا نام ایمان رکھا۔۔۔ عمل درست کر لینے کا نام اسلام رکھا۔۔۔ اور قلب و باطن کا حال درست کر لینے کا نام احسان رکھا۔۔۔ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کے ساتھ اگر بندے کا عقیدہ قائم ہو جائے تو ایمان بنتا ہے۔۔۔ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے ساتھ اگر بندے کا عمل وابستہ ہوجائے تو اسلام بنتا ہے۔۔۔ اور اللہ کی ذات اور اس کے حسن مطلق کے ساتھ بندے کے قلب و باطن اور روح کی کیفیات کا تعلق قائم ہو جائے تو احسان بنتا ہے۔۔۔ یہ تین درجات حدیث جبرائیل میں بیان ہوئے ہیں کہ حضرت جبرائیل امین نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ ماالايمان ’’ایمان کیا ہے‘‘؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے جواب میں بنیادی عقائد کا ذکر فرمایا۔۔۔ پھر پوچھا گیا ماالاسلام؟ ’’اسلام کیا ہے‘‘؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے جواب میں ان پانچ ارکان کا ذکر فرمایا جن پر ایمان کی عملی عمارت قائم ہے۔۔۔ پھر سوال کیا گیا ماالاحسان ’’احسان کیا ہے‘‘؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوران عبادت اللہ کے حسن کے مشاہدہ کی کیفیت کے طاری ہونے یا مراقبہ کی کیفیت کے نصیب ہونے کو احسان کہا کہ عبادت یوں کرو گویا اللہ کے حسن کا مشاہدہ کررہے ہو اور اگر مشاہدہ کی کیفیت قائم نہ ہوسکے تو مراقبہ کے حال کا تصور کرو۔

ایمان، اسلام اور احسان کی اساس

ایمان، اسلام اور احسان یہ تینوں الفاظ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا کئے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَاللّٰهِ الْاِسْلَام.

(آل عمران : 19)

’’بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے‘‘۔

اسلام کا کوئی حکم ان تین دائروں سے خارج نہیں ہے۔ کل دین اسلام ان تین دائروں کے اندر ہے۔ ان تینوں الفاظ کا ایک Root word (مادہ) ہے جس سے یہ تینوں الفاظ نکلے ہیں اور اس Root Word (مادہ) کے اندر بھی امن، سلامتی، اعتدال، توازن کا معنی پایا جاتا ہے۔

1۔ امن، ایمان کی اصل ہے

ایمان، ’’امن‘‘ سے ہے، ہم تو ایمان کو صرف ’’ماننے‘‘ سے جانتے ہیں مگر اس کے ’’مادہ‘‘ میں ’’امن‘‘ ہے۔ گویا ایمان کا بیج بھی ’’امن‘‘ ہے۔ جس شخص کے ایمان میں ’’امن‘‘ نہیں اس کے پاس ایمان نہیں۔۔۔ جو اپنے آپ کو صاحب ایمان اور مومن کہے اور اس کے عقیدے میں امن نہ ہو وہ مومن و مسلم ہی نہیں ہے۔ اگر کسی کے عقیدے میں ہر ایک کے لئے امن نہیں۔۔۔ اپنوں کے لئے بھی نہیں اور غیروں کے لئے بھی نہیں۔۔۔ نیک کے لئے بھی نہیں اور بد کے لئے بھی نہیں۔۔۔ اللہ کو ماننے والوں کے لئے بھی نہیں اور نہ ماننے والوں کے لئے بھی نہیں وہ مومن ہی نہیں۔

امن کی حد

اس امن کی حد کہاں تک ہے؟ اسلام میں اس امن کی حد وہاں وہاں تک ہے جہاں جہاں تک اللہ رب العزت کی حکمرانی ہے، یعنی جس جس کا وہ رب ہے وہاں وہاں تک امن ہو۔ اس لئے کہ اس کی شان یہ ہے کہ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْن.

(الفاتحة : 1)

’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے‘‘۔

وہ سارے جہانوں کا رب ہے، جو اس پر ایمان لائے گا وہ سارے جہاں کی مخلوقات کے لئے امن کو اپنی بنیاد بنائے گا اور جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے گا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی کہلائے گا، اس کے لئے بھی یہ لازم ہے کہ اپنے نبی رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ کو اپناتے ہوئے ہر ایک کے لئے سراپا من ہو۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف الحمدللہ رب العلمین کہہ کر کروایا اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا تعارف قرآن پاک میں وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْن. (الانبیاء : 107) کے الفاظ سے کروایا کہ میرا محبوب سارے جہانوں کے لئے رحمت ہے۔

رحمت، امن کی Advanced Shape ہے۔ رحمت، امن سے بھی بڑھ کر ہے۔ امن یہ ہے کہ کسی کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔۔۔ جبکہ رحمت یہ ہے کہ ہر واقف و ناواقف کا بھلا کرنا۔۔۔ ہر ایک پر کرم اور احسان کرنا۔۔۔ ہر ایک کے بگڑے ہوئے حال کو سنوارنا۔۔۔ گویا اس رحمت کی اساس و بنیاد بھی امن ہے مگر اس میں امن کے ساتھ محبت و رافت جمع ہو جاتی ہے۔ اللہ رب العزت نے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا تو خالی امن سے نہیں بلکہ ساتھ محبت و رافت اور رحمت کو بھی ملا دیا۔

پس ہر اس شخص کے لئے جس کے لئے اللہ ’’رب‘‘ ہے اس کے لئے امن کا پیکر ہونا، ایمان ہے اور یہی مومن کی شان ہے۔

2۔ سلامتی، اسلام کا خاصہ

دین میں دوسرا مرتبہ اسلام ہے اور اہل اسلام، مسلم کہلاتے ہیں۔ پس امت، امت مسلمہ اور عالم، عالمِ اسلام ہوگیا۔ اسلام کا لفظ ’’سِلم‘‘ سے ہے۔ ارشاد فرمایا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً

’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ‘‘۔ (البقرہ : 208)

اللہ تعالیٰ نے یہاں خود اسلام کا دوسرا نام ’’سِلْم‘‘ رکھا۔ سِلْم کا معنی سلامتی و امن ہے۔ پس اسلام کو بھی سِلْم پر قائم کیا، گویا اسلام کی اصل، جڑ، بیج بھی سلامتی ہے۔ جس شخص کے کردار میں دوسروں کے لئے امن و سلامتی نہ ہو وہ شخص مسلمان ہی نہیں ہے۔

ایمان و اسلام کے مفہوم کو جان لینے کے بعد اب مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہ رہا اور آپ کو سمجھنے میں کوئی رکاوٹ نہ رہی کہ جو شخص اپنے کردار کے لحاظ سے دہشت گرد ہے وہ نہ مومن ہے نہ مسلم ہے۔ دہشت گرد مسلمان نہیں ہو سکتا، نہ مومن کہلانے کا حقدار ہے نہ مسلم کہلانے کا حقدار ہے۔ پس جب دہشت گرد (Terrorist) مسلمان نہیں ہے تو دہشت گردی (Terrorism) اسلام نہیں ہے۔ اب خواہ کوئی شخص دہشت گردی کو کوئی بھی لبادہ پہنائے، وہ یہ سب مذہب کے نام پر کرے یا سیاست کے نام پر کرے۔۔۔ علاقائیت کے نام پر کرنے یا لسانیت کے نام پر کرے۔۔۔ تفرقہ و مسلک کے نام پر کرے الغرض جس بھی نام پر کوئی دہشت گردی کرے گا، انسانوں کو قتل کرے گا، بے گناہ انسانوں کا ناحق خون بہائے گا وہ دہشت گرد ہے۔ وہ مومن ہے اور نہ ہی مسلم کیونکہ دہشت گردی کا کوئی بھی تعلق اسلام سے نہیں ہے۔

3۔ احسان، ’’حُسن‘‘ سے ماخوذ

اسی طرح ایمان اور اسلام کے بعد تیسرا لفظ ’’احسان‘‘ ہے۔ ’’احسان‘‘، ایمان اور اسلام کا حُسن (Beauty) ہے۔ ایمان اور اسلام کا کمال (Perfection) ’’احسان‘‘ ہے۔ جب ایمان اور اسلام اپنے مرتبے، اثرات، کیفیات، ثمرات اور نتائج میں اپنے کمال کو پہنچتے ہیں، اتنے کمال پر کہ وہاں بندے کے قلب و روح کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ خواہ وہ کیفیت مشاہدہ میں چلا جائے یا کیفیت مراقبہ میں چلا جائے، ایمان و اسلام کا یہ مرتبہ ’’احسان‘‘ کہلاتا ہے۔

’’احسان‘‘۔ ’’حُسن‘‘ سے ہے۔ ’’حُسن‘‘ بھی ٹھنڈک اور سلامتی ہی ہے۔ ’’حُسن‘‘ توازن (Moderation) کا نام ہے۔ جتنا کسی چیز میں توازن ہوگا اتنی وہ چیز حسین ہوگی۔ رنگ کا توازن ہو تو رنگ حسین ہوتا ہے، اعضاء میں توازن ہو تو اعضاء حسین ہوتے ہیں، قد و قامت میں توازن ہو تو بندہ حسین ہوتا ہے، اخلاق میں توازن ہو تو خُلق حسین ہوتا ہے۔ پس جس کو اللہ نے کمالِ ایمان کہا وہ ’’احسان‘‘ ہے اور احسان کا مادہ ’’حُسن‘‘ ہے اور حُسن میں بھی امن و سلامتی، توازن، اعتدال ہے۔

منہاج القرآن، دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار

تحریک منہاج القرآن ہر سال دہشت گردی، بربریت، انتہا پسندی کے خلاف ’’سنت اعتکاف‘‘ کے تحت 10 روزہ ٹریننگ کیمپ منعقد کرتی ہے۔ اس دس روزہ منہاج القرآن کے سالانہ عالمی کیمپ میں لوگ ایمان، اسلام اور احسان سیکھنے آتے ہیں۔ اس 10 روزہ عالمی کیمپ میں دن کے اجالے اور روشنی میں ایمان و اسلام سمجھایا، پڑھایا جاتا ہے اور جب رات کا اندھیرا چھا جاتا ہے تو تراویح کے بعد رات بھر ’’احسان‘‘ سکھایا جاتا ہے۔

ہر ایک کا دہشت گردوں کا دشمن ہونا مشکوک ہو سکتا ہے مگر تحریک منہاج القرآن دہشت گردی کی کتنی دشمن ہے اس میں کوئی شخص شک و شبہ نہیں کر سکتا، ہمارا عقیدہ یہی ہے۔

منہاج القرآن۔۔۔ سلسلہ صوفیاء کا تسلسل

تحریک منہاج القرآن کا ذوق، صوفیاء کا ذوق ہے اور صوفیاء تاریخِ انسانیت میں پیکران امن و سلامتی ہوتے ہیں۔۔۔ پیکران محبت و الفت ہوتے ہیں، ان کے اندر بھی امن ہوتا ہے اور ان کے باہر بھی امن ہوتا ہے۔ صوفیاء کے پرامن سلسلہ کی جو کڑی طویل مدت سے کٹ چکی تھی تحریک منہاج القرآن نے اس کٹی ہوئی اور ٹوٹی ہوئی کڑی کو پھر سے جوڑا ہے۔ یہ صوفیاء کے سلسلے کا تسلسل ہے۔ تحریک منہاج القرآن حضرت ابراہیم بن ادہم، حضرت فضیل بن عیاض، حضرت حبیب عجمی، حضرت امام حسن بصری، حضرت سری سقطی، حضرت ذوالنون مصری، حضرت جنید بغدادی، حضرت معروف کرخی، حضرت شاہ ابوالحسن خرقانی، حضرت بایزید بسطامی، امام غزالی، سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی، سلطان ہند حضرت خواجہ اجمیر، حضرت داتا گنج علی ہجویری، حضرت بابا فرید گنج شکر، حضرت قطب الدین بختیار کاکی، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء، حضرت علاؤالدین صابر، حضرت شاہ نقشبند، حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شیخ عمر سہروردی، حضرت سعدی شیرازی، حضرت غوث بہاء الدین زکریا، حضرت شاہ رکن عالم رحمہم اللہ کا تسلسل ہے۔

الغرض تحریک منہاج القرآن ان تمام اولیاء و صوفیاء کرام کا تسلسل ہے جنہوں نے پوری دنیا میں امن پھیلایا۔۔۔ ان کی مجالس میں ہندو، سکھ، یہودی، عیسائی سب آتے۔۔۔ جو آتا جھولیاں بھر کے لے جاتا۔۔۔ جو آتا خیرات پاتا۔ صوفیاء کا یہ طبقہ ایسا تھا جس میں کس کے بیٹھنے پر پابندی نہ تھی۔۔۔ ان کی مجلس میں بیٹھنے پر بھی کسی کو اعتراض نہ تھا۔۔۔ جو آنے والا چاہتا اُسے آنے میں خوشی ہوتی۔۔۔ اور جو آنا چاہتا اِنہیں بٹھانے میں خوشی ہوتی۔

الغرض شرق تا غرب پوری دنیا میں صوفیاء، اولیاء کا ایک سلسلہ امن تھا۔۔۔ ایک سلسلہ عشق تھا۔۔۔ ایک سلسلہ سلامتی تھا۔۔۔ ایک سلسلہ الفت و محبت تھا۔۔۔ ان کا پیغام محبت تھا سو ہر کوئی ان کے پاس آتا۔۔۔ ان کے خزانے میں سب کچھ تھا مگر نفرت ان کے پاس نہ تھی۔۔۔ ان کے پاس جبرو اکراہ نہ تھا۔۔۔ ان کے پاس قتل و مقاتلہ نہ تھا۔۔۔ ان کے پاس نگاہ کی تلوار تھی، ان کی تلوار محبت کی تلوار تھی۔۔۔ ان کی تلوار پیار اور وعظ و نصیحت کی تلوار تھی۔۔۔ ان کی تلوار برکت و کرامت کی تلوار تھی۔۔۔ ان کی تلوار تعلیم، تقویٰ و کردار کی تلوار تھی۔۔۔ جس کسی نے اسلام قبول کیا اس نے صوفیاء کی محبت کی وجہ سے اسلام قبول کیا۔

ہندوستان میں اسلامی تعلیم کے مراکز بھی ہیں اور صوفیاء و اولیاء کے مزارات بھی ہیں مگر ان دونوں جگہوں میں آنے والے حاضرین میں فرق ہے۔ اسلامی تعلیمی مراکز میں صرف مسلمان آتے ہیں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہندو، سکھ، عیسائی ادھر کا رخ نہیں کرتے جبکہ اولیاء و صوفیاء کے در پر بلا تفریق مذہب ہر کوئی حاضری دیتا ہے۔ خواجہ اجمیر معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر بھی ہندو، سکھ، مسلمان ہر کوئی حاضری دیتا ہے، وہاں مسلم و غیر مسلم کا بھی فرق نہیں جبکہ اسلامی تعلیم کے مراکز کی طرف غیر مسلم رخ نہیں کرتے۔ گویا کچھ تو فرق موجود ہے جو آنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ پس مسلمان وہ ہے جس کے عقیدے و ایمان کو صحت مل جائے۔ دارالعلوم، مدرسوں اور تعلیمی مراکز کی طرف مومن و مسلم ہی جاتے ہیں جن کے عقیدے و ایمان کو صحت حاصل ہے، کیونکہ یہاں ایسے طبیب ہیں جو صحت مند لوگوں کا علاج کرتے ہیں۔۔۔ وہ لوگ جن کے عقیدے خراب ہیں، غیر مسلم ہیں وہ مریض ہیں، وہ ان تعلیمی مراکز کی طرف نہیں جاتے، وہ صرف صوفیاء و اولیاء کے شفاخانوں کی طرف جاتے ہیں۔

صوفیاء کا جو تسلسل ٹوٹ چکا تھا، منہاج القرآن نے اسے طویل مدت کے بعد پھر سے بحال کیا ہے۔ منہاج القرآن حقیقت میں پرانی صدیوں کی تحریک ہے جو بپا اس دور میں ہوئی ہے۔ اس کا ذوق پرانا ہے مگر پیالہ نیا ہے۔ اس کی شراب پرانی ہے مگر اس کا جام نیا ہے۔

پس اسلام کے تینوں شعبوں ایمان، اسلام اور احسان کی بنیاد امن و سلامتی پر ہے۔

اسلام کا بنیادی مزاج

اسلام کا مجموعی بنیادی مزاج نرمی، لطف، محبت، آسانی، شفقت اور رحمت پر قائم ہے۔ اس کے اصل مزاج میں بھی سختی، جبر، بربریت اور سختی و تنگی کی بھی گنجائش نہیں ہے، دہشت گردی تو بڑی دور کی بات ہے۔ اسلام کے احکام شرعی درج ذیل پانچ اصولوں پر قائم ہیں۔

1۔ عدم حرج (تنگی کا نہ ہونا)

(Avoid ness of narrowness)

شریعت اسلامی کا پہلا اصول عدم حرج ہے یعنی شریعت اسلامی کے احکام میں تنگی نہیں ہے بلکہ سہولت ہے اور جس کے فتوے میں تنگی ہو وہ اسلامی فتویٰ نہیں ہے۔ اللہ رب العزت نے دین کے اندر ہمارے لئے تنگی پیدا ہی نہیں کی۔ تنگی، جبر اور سختی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ سہولت، امن اور سلامتی کی طرف جاتی ہے۔ ارشاد رب العزت ہے :

وَمَا جَعَلَ عَلَيْکُمْ فِی الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ.

(الحج : 78)

’’اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی‘‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اَلدِّيْنُ يُسْرٌ. ’’دین نام ہی آسانی کا ہے‘‘۔

(صحيح بخاری، کتاب الايمان، ج 1، ص 23، رقم 39)

پس جو دین کی تعبیر سختی و تنگی کے ساتھ کرے وہ دین کے اصل مزاج کے خلاف ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دین سہولت کے لئے آیا ہے، انسانوں کو تنگی میں مبتلا کرنے نہیں آیا۔ قرآن پاک نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں ارشاد فرمایا :

وَ يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَيْهِم.

(الاعراف : 157)

’’اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے۔ ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں‘‘۔

گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانوں کو بوجھوں میں دبانے کے لئے نہیں آئے بلکہ پہلے سے جو بوجھ چلے آرہے تھے ان کو اتارنے اور انسانوں کو بوجھ سے نجات دلانے کے لئے تشریف لائے۔ آپ انسانیت کو آزادی دلانے کے لئے آئے۔ The Biggest liberator of the mankind آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات انسانی کے سب سے بڑے آزادی دلوانے والے ہیں۔ انسان زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان زنجیروں کو توڑنے کے لئے آئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب صحابہ کرام کو مختلف جگہوں پر دعوت و تبلیغ اسلام کے لئے بھیجتے تو ارشاد فرماتے :

يَسِّرُوْا وَلاَ تُعَسِّرُوْا وَبَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا.

(صحيح بخاری، کتاب الايمان، ج 1، ص 38، رقم 69)

یعنی آسانیاں پیدا کرو، تنگی پیدا نہ کرو اور ایسا دین ان کے سامنے رکھا کرو کہ ان کے دل راغب ہو جائیں، ان کے دلوں میں رغبت پیدا ہو جائے، انہیں خوشی اور فرحت ملے، دین کو ایسا سخت کرکے پیش نہ کیا کرو کہ وہ متنفر ہو جائیں، انہیں دین سے بھگایا نہ کرو، نرمی، سہولت و رحمت اور امن کا دین پیش کرو تاکہ ہر کوئی اس کی طرف آئے۔ پس تنگی کو دور کرنا اور آسانی پیدا فرمانا اسلام و احکام شریعت کا بنیادی اصول ہے۔

2۔ قلت تکلیف

(Removal of hardships)

احکام شریعت کا دوسرا اصول ’’قلت تکلیف‘‘ ہے۔ جس پر شریعت کے احکام اور اسلامی قوانین قائم ہیں۔ اسلام کی قانون سازی اصول قلت تکلیف کو بھی مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ آدمی میں جتنی طاقت ہو، اس کی طاقت کے مطابق اس پر حکم جاری کیا جائے، اس کو طاقت کے مطابق مکلف ٹھہرایا جائے، اس کی استعداد، طاقت و قدرت سے بڑھ کر اس پر حکم نہ لگایا جائے۔ ارشاد فرمایا :

لَا يُکَلِّفُ اﷲُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا.

(البقره : 286)

’’اﷲ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا‘‘۔

گویا اس پر شریعت کے احکامات کی فرضیت و وجوب کو کم سے کم تر کر دیا اور اتنی لچک پیدا کر دی کہ اگر کسی میں اس کو نبھانے کی طاقت نہیں تو حکم میں گنجائش رکھ دی۔ قلتِ تکلیف کے اصول کو درج ذیل مثالوں سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

٭ ظہر، عصر اور عشاء کی نماز میں چار، چار فرض ہیں، اگر سفر میں ہوں اگرچہ سفر تکلیف دہ بھی نہ ہو، ہوائی جہاز کا سفر ہو، عالیشان آرام گاہ ہو، کھانا بھی اعلیٰ دستیاب ہو مگر چونکہ سفر، سفر ہے اس لئے حکم دیا کہ میری عبادت کے 4 فرضوں کو نصف کر لو اور 2 پڑھا کرو، گویا قصر کا حکم دیا۔ اس کے بعد سنتیں اور نوافل ہیں۔ اگر تمہارے پاس وقت ہے تو سنتیں، پڑھ لو یہ نفل کے درجے میں چلی جائیں گی۔ یعنی اگر سنتیں پڑھ لو تو تمہیں نفلوں کی طرح ثواب ملے گا اور اگر نہ پڑھ سکو تو تم پر کوئی گناہ نہیں، تم تارکِ سنت نہ کہلاؤ گے، اس پر مواخذہ نہ ہوگا۔

٭ اسی طرح کوئی مریض کھڑے ہوکر نماز ادا نہیں کر سکتا تو فرمایا بیٹھ کر پڑھ لیا کرو، اگر بیٹھنے کی طاقت نہ ہو توحکم دے دیا کہ وہ لیٹے ہوئے بھی نماز ادا کر سکتا ہے۔ الغرض آسانیوں پر آسانیاں دی جا رہی ہیں۔

٭ اسی طرح وضو کے دوران پاؤں دھونے کا حکم ہے لیکن اگر ضرورت محسوس کرو اور حالت سفر میں ہو تو پاؤں میں موزے پہن لو اور تین دن تک اس پر مسح کرنا ہی کافی ہے اور اگر حضر میں ہو تو پانچ نمازوں کی مدت تک ان موزوں پر مسح کر سکتے ہو۔

٭ زکوۃ فرض ہے لیکن اگر کوئی غریب ہے، مال و دولت نہیں تو اس کو معاف ہے۔۔۔

٭ حج فرض ہے مگر جو استطاعت نہیں رکھتا اس کے لئے حج بھی معاف کر دیا۔۔۔

٭ روزے فرض ہیں، مگر مریض کو کہا کہ اگر عارضی مرض ہے تو رمضان کے بعد قضاء کر لو، قبول کرلوں گا، اگر دائمی مرض، بہت زیادہ ضعیف ہے تو اسے روزوں کے بدلے پورا مہینہ کسی غریب کو کھانا کھلانے کا حکم دیا کہ روزے نہ رکھو اپنی صحت کا خیال رکھو، تمہارے روزے قبول کر لوں گا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی برسات ہے کہ ایک طرف مریض کی صحت کا خیال اور دوسری طرف غریب کا بھلا کہ اسے کھانا مل رہا ہے۔

اسلام میں سختی نہیں

پس جیسا حال ہے ویسے ہی احکام شریعت میں اللہ تعالیٰ نے گنجائش پیدا کر دی۔ اسلام کے احکامات کی ہر جہت میں رحمت و شفقت، نرمی، گنجائش اور سہولت ہے۔ پھر سختی والا دین کہاں سے آگیا۔۔۔ ؟ جبر و بربریت والا دین کہاں سے آگیا۔۔۔ ؟ یہ دہشت گردی والا دین، قتل و غارت گری والا دین کہاں سے آگیا۔۔۔ ؟ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کے احکامات تو نہیں ہیں۔ حتی کہ ارشاد رب العزت ہے :

لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ.

(البقرة : 256)

’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے‘‘۔

جنت و دوزخ کے فیصلے بے شک حق و سچ ہیں مگر کسی کو اس کی طبیعت کے برعکس مسلمان کرنے کے لئے جبر کرنا بھی حرام ہے۔ مسلمان کرنے کے لئے بھی جبر نہیں کر سکتے۔ اسلام میں جبر ہے ہی نہیں۔ اس کی مرضی اسلام قبول کرے یا نہ کرے، وہ خود ذمہ دار ہے، کسی کو اس حوالے سے ٹھیکیدار نہیں بنایا۔ اللہ رب العزت نے ہر نبی کو یہ حکم دیا کہ اپنی امت کو یہ پیغام دے دو کہ

وَمَا عَلَيْنَا اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْن.

(يٰسين : 17)

’’اور واضح طور پر پیغام پہنچا دینے کے سوا ہم پر کچھ لازم نہیں ہے‘‘۔

یعنی ہم حق بات پہنچانے کے لئے آئے ہیں، تلوار اور جبر کے ذریعے اپنا دین منوانے کے لئے نہیں آئے۔ جب اللہ تعالیٰ کے نبی یہ فرما رہے ہیں کہ حق پہچانا ذمہ داری ہے، جبر سے منوانا ذمہ داری نہیں ہے تو آج کسی امتی کو یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ وہ حق، جبر کے ذریعے کسی کو مسلمان کرے۔ تلوار اٹھا کر کسی کو زبردستی مسلمان کرنا بدتر عمل ہے، دین میں حرام ہے۔ ارشاد فرمایا :

فَمَنْ شَآءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْيَکْفُرْ.

(الکهف : 29)

’’پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے‘‘۔

ہر کوئی اپنے عمل کا ذمہ دار ہے، ہم نے حق سمجھا دیا اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔

وَهَدَيْنَه النَّجْدَيْن.

(البلد : 10)

’’اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں دین کے نام پر جبر و بربریت کے خلاف ایک مکمل سورت اتاری اور آزادی مذہب کے تصور کو واضح کرنے کے لئے اس سورت میں واضح ارشاد فرمادیا، اس سورت میں اول تا آخر آزادی مذہب (Right of Religious Freedom) کے سوا کوئی اور مضمون ہی نہیں ہے اور وہ سورۃ ’’سورۃ الکفرون‘‘ ہے۔ ارشاد فرمایا :

قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَO لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَO وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُO وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْO وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُO لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِO

(الکافرون : ا تا 6)

’’آپ فرما دیجئے : اے کافرو!o میں ان (بتوں) کی عبادت نہیں کرتا جنہیں تم پوجتے ہوo اور نہ تم اس (رب) کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوںo اور نہ (ہی) میں (آئندہ کبھی) ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن (بتوں) کی تم پرستش کرتے ہوo اور نہ (ہی) تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس(رب) کی میں عبادت کرتا ہوںo (سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے یہ کہلوا رہا ہے اور قرآن پاک میں پوری سورت آزادی مذہب کے حوالے سے نازل فرما رہا ہے، اللہ کا رسول، رسالت کا پیغام پہنچا کر حق و ہدایت کی راہ دکھا کر آزادی مذہب دے رہا ہے کہ تم خوشی سے قبول کرو تو کرو مگر جبر نہیں تو امتی کو کیا حق ہے کہ وہ کہے کہ تم اپنا مسلک و عقیدہ چھوڑ دو ورنہ قتل کردوں گا۔۔۔ تم مسلمان ہو جاؤ، نہیں تو قتل کردوں گا۔۔۔ نہ جانے وہ کس نبی کا امتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی یقینا نہیں ہو سکتا، وہ قرآن کا ماننے والا تو نہیں ہو سکتا کیونکہ قرآن کا پیغام تو ’’لَکُمْ دِيْنُکُمْ وَ لِیَ دِيْنِ‘‘ ہے۔

3۔ نسخ

احکامِ شریعت کا تیسرا اصول نسخ ہے۔ جو احکام پہلے دیئے، بعد ازاں جب حالات بدل گئے تو خود حکم دینے والے رب نے اپنا حکم منسوخ کر دیا۔ گویا عمل نسخ خود اس بات کی دلیل تھا کہ خدا تعالیٰ بطریق شفقت و رحمت اپنا دین نازل و نافذ کرنا چاہتا ہے۔ درج ذیل احادیث مبارکہ سے اس امر کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے۔

٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ کوئی قربانی کا گوشت تین دن تک اپنے گھر میں نہ رکھے‘‘۔

(صحیح مسلم، کتاب الاضاحی، ج 3، ص 1563، رقم 1977)

جس نے کھانا ہے تین دن میں کھالے باقی تقسیم کر دے، تین دن سے زائد نہ رکھے۔۔۔ عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اپنا قبیلہ ہی بہت بڑا ہے میں کہاں غربیوں کو بانٹوں، فرمایا : سارا حصہ خود اور اپنے رشتہ داروں کو کھلادیا کرو۔۔۔ عرض کیا یارسول اللہ اپنا گھرانہ ہی بہت بڑا ہے، رشتہ داروں کو کہاں سے دوں؟ فرمایا : سارا گوشت خود گھر والے ہی کھا لیا کرو۔ گویا آسانی، شفقت و رحمت کے باعث خود ہی اپنے دیئے گئے حکم میں تبدیلی فرما رہے ہیں۔

٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو وضو کے ساتھ ہو اور آگ پر پکی ہوئی کوئی چیز (روٹی، سالن وغیرہ) کھالے تو وہ وضو دوبارہ کرے، وضو ٹوٹ گیا۔۔۔ پھر ایک وقت آیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ اس سے میرے امتیوں کو تکلیف ہوگی تو فرمایا کہ میں اس حکم کو منسوخ کرتا ہوں، اب آگ پر پکی ہوئی جو چیز مرضی کھاؤ تمہارا وضو برقرار رہے گا۔ پس عمل نسخ کے ذریعے آسانی و وسعت پیدا فرمائی۔

٭ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے، پہلے شرک کرتے تھے، بتوں کو پوجتے تھے، اپنے آباؤ اجداد اور بزرگوں کی قبروں کو بھی پوجتے تھے، توحید کی سمجھ نہ تھی، عورتیں قبروں پر جا کر روتیں، ماتم کرتیں، بالوں میں خاک ڈالتی تھیں الغرض کئی خرابیاں تھیں منع فرما دیا کہ قبروں پر نہ جایا کرو۔ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، ج 2، ص 762، رقم 977)

مدینہ طیبہ کا زمانہ آگیا، تربیت ہوگئی، حق و ناحق کی لوگوں کو سمجھ آگئی، توحید و شرک کے فرق کو سمجھ گئے اور قبرستان اور مزارات پر جانے کے آداب جان گئے تو ارشاد فرمایا :

کُنْتُ نَهَهْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْهَا.

(صحيح مسلم، کتاب الجنائز، ج 2، ص 672، رقم 977)

میں قبروں پر نہ جانے کے حکم کو منسوخ کرتا ہوں، اب جایا کرو اور قبروں کی زیارت کیا کرو۔ پس قیامت تک امت کو قبور کی زیارت کا حکم دے دیا۔ چونکہ اس سے منافع ہوتے ہیں، آخرت یاد آتی ہے، خیرو بھلائی نصیب ہوتی ہے، روحانی فوائد و برکات ہیں۔

٭ اس طرح جب نماز کا حکم نازل ہوا تو ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے، رکوع میں جانا، رکوع سے کھڑے ہونا، سجدہ میں جانے سے قبل اور بعد حتی کہ ایک رکعت میں 8 مرتبہ تک رفع یدین کا ابتداء میں معمول تھا۔

(صحيح بخاری، کتاب صفة الصلاة، باب اتمام التکبير فی الرکوع، باب اتمام التکبير فی السجود، باب الکتبير اذا قام من السجود)

بعد ازاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک رکعت میں 6 مرتبہ تک رفع یدین کی اجازت دی، اسی طرح بعد میں ایک رکعت میں رفع یدین کو 4 مرتبہ تک کر دیا اور بعد ازاں 2 مرتبہ رفع یدین کی اجازت دی پھر اسے بھی منسوخ کر دیا اور پھر آخری حکم جو قیامت تک امت کے لئے دے دیا کہ جب نماز کا آغاز کرو اس وقت صرف ہاتھ اٹھاؤ، باقی تمام تکبیرات میں ہاتھ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے، اس تکلیف میں نہ پڑو۔

(سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب من لم يذکر الرفع عند الرکوع، ج 1، ص 287، الرقم : 750)

سب احادیث صحیحہ ہیں، احادیث موجود ہیں مگر یہ ان کی تطبیق ہے۔ پس اصول نسخ بھی امت کے لئے رحمت و سہولت پیدا کرنے کے لئے ہے۔

٭ پہلے ہر شخص پر موت آنے سے قبل واجب کر دیا کہ وہ وصیت کرے، اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ یہ میرے بندوں پر مشکل ہو جائے گا، موت کے وقت تکلیف کی وجہ سے کسی کو وصیت کرنا یاد نہ رہے گا اور اس طرح اللہ کے حکم کی تعمیل نہ ہوگی اور جن کو حصہ ملنا تھا وہ بھی نہ ملا، یہ بھی حکم وصیت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے گناہگار ہوا اور غریب بھی حق نہ ملنے کی وجہ سے محروم رہ گئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خود وراثت کے حصے قرآن پاک میں نازل کر دیئے اور وصیت کے واجب ہونے کے حکم کو منسوخ کر دیا کہ جس کا جی چاہے کرے اور جس کا جی چاہے نہ کرے، میں نے قریبی رشتے داروں کے حصے خود ہی متعین و مقرر کر دیئے ہیں۔ اس طرح شریعت کے احکام میں نسخ کی Application کی فلاسفی اور وجوہات پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وجوہات رحمت، نرمی، شفقت، وسعت اور امن و سلامتی ہے۔

4۔ استثنیٰ (Exemption)

احکام شرعی کا چوتھا اصول استثنیٰ ہے۔ اس اصول کی بنیاد بھی رحمت و شفقت اور آسانی پر ہے۔ اس اصولِ استثنیٰ کی وضاحت درج ذیل احادیثِ مبارکہ سے بآسانی ہو جاتی ہے۔

٭ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

حُرِّمَتْ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَةُ.

(المائده : 3)

’’تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے ‘‘۔

ہر مردار حرام ہے۔ مردار اس جانور کو کہتے ہیں جو ذبح کئے بغیر مر جائے یعنی حلال جانور بھی اس وقت حلال ہوتا ہے جب اس کو شرعی طریق سے ذبح کیا جائے۔ پس قرآن میں حکم آگیا کہ جو جانور حلال تھا مگر وہ ذبح کئے بغیر کسی اور طریق سے مرگیا، وہ مردار ہے اور اس میں کوئی استثنیٰ نہ دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمۃ اللعالمین ہیں، خیال آیا کہ میرے مولیٰ میری امت تو مشکل میں پڑجائے گی، اس امت میں تو ایسے لوگ بھی ہوں گے کہ جن کے وطن ہی جزائر میں ہوں گے اور کئی سمندروں کے کناروں پر آباد ہوں گے، وہاں تو اتنے بکرے، چھترے نہ ہوں گے، ان کا گزر اوقات تو زیادہ تر مچھلی پر ہوگا اور مچھلی تو پکڑتے پکڑتے مر جاتی ہے ذبح نہیں ہوتی، جبکہ قرآن نے کہا ہے کہ جو حلال ہے اور ذبح کے بغیر مرجائے وہ مردار ہے، حرام ہے، پس امت پر شفقت و رحمت اور آسانی کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

کُلُّ مَيْتَةٍ حَرَامٌ اِلَّا مَيْتَتَان.

(سنن ابن ماجه، کتاب الصيد، ج 2، ص 1073، رقم : 3218)

’’ہر مردار حرام ہے سوائے مچھلی اور ٹڈی کے‘‘۔

اب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کل امت جو جزائر اور سمندروں کے کناروں پر رہتی ہے ان کو آسانی ہوگئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس استثنیٰ کرنے کے سبب ساری امت مچھلیاں کھا رہی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریعی حیثیت

یہاں اس بات کی بھی وضاحت کرتا چلوں کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حلال اور حرام کرنے کا شرعی اختیار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں ہے وہ احکام شریعت کے بنیادی اصول و قوانین سے ہی ناواقف ہیں، اب تو انہیں یہ چاہئے کہ وہ مچھلی کھانا چھوڑ دیں کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ نے حلال نہیں کی بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلال کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو حرمت عليکم الميتة کے تحت تمام مردار حرام قرار دے دیئے تھے۔ قرآن پاک میں تو کہیں بھی مچھلی کا استثنیٰ نہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمۃ اللعالمین ہیں، لہذا آپ نے امت پر رحمت و شفقت کے پیش نظر اسے حلال قرار دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ہی یہ اختیار دے رکھا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا نمائندہ بنایا ہے۔

٭ اصول استثنیٰ کو اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریشم مرد کے لئے حرام قرار دیا۔

(جامع ترمذی، کتاب اللباس، ج 4، ص 217، رقم 1720)

عورتوں کو ریشم پہننا جائز قرار دیا اور مردوں کو کہا کہ تمہیں جنت میں ریشم ملے گا۔ گویا جنتی لباس ریشم کو اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر شفقت فرماتے ہوئے دنیا میں حلال قرار دیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں دو صحابی حاضر ہوئے، عرض کیا : یارسول اللہ جلد کی تکلیف ہے اگر ریشمی کپڑا نہ پہنوں تو جلد کو تکلیف پہنچتی ہے، فرمایا تمہارے لئے حلال ہے۔

(صحیح بخاری، کتاب الجہاد و سیر، ج 3، ص 1096، رقم 2673)

پس شریعت کا مزاج ہی آسانی پیدا کرنا ہے کسی کو مشکل میں ڈالنا نہیں ہے۔

٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’جو جان بوجھ کر روزہ توڑ دے اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ 60 روزے رکھے اگر نہیں رکھ سکتا تو 60 مسکینوں کو کھانا کھلائے، یا ایک غلام آزاد کرے‘‘۔

(صحیح بخاری، کتاب الصوم، ج 2، ص 684، رقم 1834)

ایک صحابی حاضر ہوئے، عرض کیا یارسول اللہ میں ہلاک ہوگیا، پوچھا کیا ہوا، عرض کیا : روزہ توڑ بیٹھا ہوں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جاؤ غلام آزاد کرو، عرض کیا۔ غریب آدمی ہوں، فرمایا : 60 روزے رکھو، عرض کیا : ایک کو توڑ بیٹھا ہوں 60 کیسے رکھوں، فرمایا : 60 مسکینوں کو کھانا کھلاؤ، عرض کیا : غریب ہوں کیسے کھلاؤں۔ اتنی دیر میں ایک صحابی کھجوروں کا ٹوکرا لے کر حاضر ہوئے، فرمایا : اسے لے جاؤ اور غرباء میں بانٹ دو، کفارہ ادا ہوجائے گا۔ عرض کیا : مجھ سے بڑا مسکین اور غریب کون ہوسکتا ہے، فرمایا : گھر لے جاؤ خود کھاؤ اور اپنے گھر والوں کو کھلاؤ، یہی تمہارا کفارہ ہے۔

(صحیح بخاری، کتاب الصوم، ج2، ص684، رقم1835)

گویا دین، آسانی والا دین ہے، دین اسلام کا پورا Concept امن، سلامتی، شفقت، محبت اور رحمت پر قائم ہے اس میں سختی، جبر و بربریت دہشت گردی نام کی چیز نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بجائے اس کے کہ ناراض ہوتے کہ جو حکم دے رہا ہوں صحابی کہتے ہیں کہ میں اس کے قابل نہیں ہوں، آپ ناراض ہونے کی بجائے مسکرا پڑے اور اس کو استثنیٰ دے دیا۔

پس آپ بھی اپنے اندر نرمی پیدا کریں، اپنے مزاجوں کو بھی اوروں کے لئے رحمت و شفقت کا پیکر بنائیں۔ جس دل میں نرمی آگئی وہ صوفی ہوگیا۔

٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردوں کے لئے سونا حرام قرار دیا۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الحمام، ج 4، ص 50، رقم 4057)

مگر ہجرت کے سفر میں کفار مکہ کے جھانسے میں آکر 100 سرخ اونٹ حاصل کرنے کے لالچ میں سراقہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعاقب کیا اور آپ کو پکڑنا چاہا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دیکھا تو اس کا گھوڑا زمین میں دھنس گیا۔ سراقہ نے معافی مانگی کہ لالچ میں آگیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاف فرما دیا اور فرمایا کہ میں تمہارے ہاتھ میں کسریٰ ایران کے سونے کے کنگن دیکھ رہا ہوں۔

(صحیح بخاری، کتاب فضائل صحابہ، ج 3، ص 1420، رقم : 3693)

ابھی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت ہو رہی ہے، فتوحات کا سلسلہ ابھی شروع ہی نہیں ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وصال ہوگیا، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور میں ایران فتح ہوا، مال غنیمت تقسیم ہونے کا وقت آیا مگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مال غنیمت میں سے سونے کے کنگن تلاش کر رہے ہیں۔ پوچھنے پر بتایا کہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کے لئے خوشخبری سنائی تھی اس لئے کنگن ضرور اس مال میں ہوں گے۔ (سیوطی، الخصائص الکبریٰ، ج 2، ص 193)

پس وہ سونا جو مرد کے لئے حرام تھا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کے لئے حلال قرار دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے اس نرمی، شفقت اور استثنیٰ کے عمل کو جاری رکھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں کوئی مرد سونے کی انگوٹھی بھی پہن نہیں سکتا تھا مگر کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سراقہ کے لئے ایک بات کہہ دی تھی اس لئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں سے سونے کے کنگن حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کو پہنائے کہ تمہارے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حلال کرگئے ہیں۔ کسی نے اعتراض نہ کیا۔ جس کے لئے چاہیں حلال کردیں، جس کے لئے چاہیں حرام کر دیں۔

اختیاراتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ان احادیث مبارکہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیار کے حوالے سے بات عیاں ہو جاتی ہے کہ طاقت و اختیار اتنا کہ چاہیں تو پہاڑوں کو اشارے سے پیچھے ہٹا دیں اور دشمنان اسلام کو زمین میں دھنسا دیں اس کے باوجود پیکر رحمت ہیں۔ غار ثور کے اندر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کسی نے ہمیں دھانے کے قریب پہنچ کر دیکھ لیا تو کیا ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر کیا ہوگا وہ ادھر سے داخل ہوں گے تو ہم ادھر سے نکل جائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جونہی غار کے دوسرے بند حصے کی طرف اشارہ کیا، حضرت ابوبکر صدیق نے دیکھا کہ دوسری طرف ایک دریا بہہ رہا ہے اور اس میں ایک کشتی بالکل تیار کھڑی ہے۔ ایک نرمی کرنا بے اختیاری کا ہے کہ طاقت و قدرت نہیں ہے اس لئے نرمی کی، نہیں بلکہ قوت و طاقت اور قدرت اس قدر بھی کہ پہاڑوں کو اشارہ سے پیچھے کر سکتے ہیں، سب کچھ اختیار میں ہے مگر اس کے باوجود سراپا شفقت و رحمت ہیں۔

اس استثنیٰ کے تحت جو مثالیں دیں، ان سے مقصود یہ سمجھانا تھا کہ ہر معاملے میں نرمی، شفقت، رفق، لطف، گنجائش اور وسعت کو استثنیٰ کے قاعدے کے تحت بھی پورا کیا۔

5۔ تدریج

احکام شرعی کا پانچواں اصول تدریج ہے۔ مراد یہ کہ حکم آہستہ آہستہ درجہ بدرجہ نافذ کیا جائے، سارا دین یکبارگی نافذ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو پورا قرآن ایک ہی رات میں نازل فرما دیتا مگر لوگوں کی طبیعتیں اور طاقتیں ملحوظ رکھیں کہ اگر سارا قرآن یکبار نازل ہوگیا تو سارے احکام بھی ایک ہی بار نازل ہو جائیں گے، سارے فرئض، واجبات، حلال، حرام یکمشت پورا پیکج ایک ہی دن میں مل جائے گا اور اس پر عمل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ لہذا 23 سال میں اپنے احکام تھوڑے تھوڑے کر کے نازل فرمائے تاکہ لوگ پہلے والے احکام کے عادی بن جائیں، عامل ہو جائیں جب پختہ ہو جائیں تو اگلے احکامات نازل ہوں۔

حتی کہ اکثر احکام شریعت پہلے 13 برسوں میں نازل ہی نہ فرمائے بلکہ ہجرت مدینہ کے بعد شروع کئے۔ ان میں سے حلال و حرام کے احکامات، سود و شراب کی حرمت، نماز، اذان، حج، جہاد کے احکامات یہ تمام مدینہ طیبہ ہجرت کے بعد نازل فرمائے، 13 ,14 سال صرف ایمان میں پختہ کرتے رہے، احکامات بعد میں نازل ہوتے رہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ احکامات تو 14,13 سال بعد نازل ہوئے تو اتنا عرصہ ایمان کیسے پختہ ہوتا رہا؟ ایمان سے مراد کیا تھا؟اس کا جواب یہ ہے کہ انہیں 13 برس وفاداری میں پختہ کرتے رہے، جب وفادار ہوگئے تو احکامات تدریجاً نازل کرتے رہے۔

٭ شراب کی حرمت بھی 3 مراحل میں اتاری۔۔۔

٭ سود کی حرمت ہجرت مدینہ کے 9 ویں سال میں اتاری

٭ جہاد کے احکامات ہجرت مدینہ کے بعد ساتویں سال میں اتارے۔۔۔ 13 سال مکہ اور 7 سال مدینہ میں جہاد کے احکامات ہی نازل نہ فرمائے۔ بعثت نبوی کا کل زمانہ 23 برس ہے ان میں سے 20 برس تک جہاد کا حکم نازل نہیں فرمایا۔ آج کیا صورت حال ہے کہ ہر کوئی جسے شریعت کی الف، ب نہیں آتی وہ جہادی بن جاتا ہے، نہ انہیں جہاد کے تقاضے معلوم ہیں اور نہ ہی شرائط، واجبات، آداب اور حکم شرعی سے آگاہ ہیں، ہر بندہ جہادی ہے، وہ سمجھتا ہے کہ بندوق اٹھانا، گولیاں مارنا، لوگوں کو قتل کرنا، بم مارنا، انسانیت کو قتل کرنا جہاد ہے، یاد رکھیں یہ جہاد نہیں بلکہ فساد ہے، شر ہے، فتنہ ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ.

(البقرة : 191)

’’اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی زیادہ سخت (جرم) ہے‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لئے نرمی ا ور شفقت کا عالم دیکھیں کہ جب تک مسلمان کمزور تھے، لڑ نہ سکتے تھے جہاد کا حکم ہی نہ اتارا کہ کہیں ایسے ہی نقصان کا شکار نہ ہو جائیں، پس جب تک سنبھل نہ گئے، طاقتور نہ ہوگئے اس وقت تک یعنی 20 سال تک جہاد کا حکم ہی نازل نہ ہوا تھا۔ اگر حکم جہاد اترا ہوتا تو صلح نامہ حدیبیہ نہ ہوتا۔۔۔ اگر جہاد کا حکم نازل ہوا ہوتا تو 1500 صحابہ کرام کے بشمول اپنے احرام نہ کھلواتے۔۔۔ 1500 صحابہ کا قافلہ لے کر، احرام باندھ کر، قربانیوں کے جانور لے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرہ کرنے چلے تھے، مذاکرات ہوئے، کفار نے آگے جانے نہ دیا، بالآخر معاہدہ طے پایا اور 10 سال کا No war pect طے پاگیا۔ Pact of peace for 10 years دس سال کے لئے معاہدہ امن طے پایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دستخط ثبت فرمادیئے۔

لطیف نکتہ

یہاں ایک لطیف و دقیق بات کہنا چاہتا ہوں کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاہدے کو توڑنے والے تھے۔۔۔ ؟ اللہ اور اللہ کا رسول اپنا وعدہ توڑ سکتا ہے۔۔۔ ؟ ہر گز نہیں، کفار مکہ نے صلح حدیبیہ خود توڑ دیا، کفار مکہ کے توڑنے سے معاہدہ ٹوٹا تب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 8 ہجری میں فتح مکہ کے لئے آئے۔ اگر بالفرض کفار معاہدہ نہ توڑتے تو کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لشکر لے کر مکہ فتح کرنے کے لئے حملہ آور ہوتے۔۔۔ نہیں ہرگز نہیں۔۔۔ صلح حدیبیہ 6 ہجری میں ہوئی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال 10 ہجری میں ہوا، اگر کفار مکہ معاہدہ امن نہ توڑتے اور برقرار رہتا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو توڑنا نہ تھا تو اس معاہدہ کے 4 سال بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوجاتا تو کیا مکہ فتح ہوتا؟ بلکہ فتح کئے بغیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو جاتا، کیونکہ ابھی اس معاہدہ کو مزید 6 سال باقی ہوتے۔

قیام امن اور کردار مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اگر صلح حدیبیہ کی شرائط کا بغور مطالعہ کریں تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صلح حدیبیہ کی شرائط اور اس کو لکھتے وقت پیش آنے والے حالات و واقعات میں بھی کفار کی بات کو تسلیم کرلینا جبکہ بظاہر مسلمانوں کا موقف کمزور اور مغلوب ہوتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ پھر بھی قیام امن کے لئے ان تمام چیزوں کو قبول کر لینا بھی ہمیں اسلام کی امن و سلامتی والی تعلیمات کی طرف متوجہ کرتا ہے۔

معاہدہ لکھنے کے لئے کفار کی طرف سے سہیل بن عمرو اور مسلمانوں کی طرف سے حضرت علی رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معاہدہ لکھنے کا آغاز بسم اللّٰه الرحمن الرحيم لکھنے سے کروایا، کفار نے اعتراض کیا کہ ہم بسم اللّٰه الرحمن الرحيم سے واقف ہی نہیں ہم تو اپنے آباؤ اجداد کے زمانے سے آج تک باسمک اللهم لکھتے آئے ہیں۔ لہذا بسم اللّٰه الرحمن الرحيم کی جگہ باسمک اللهم لکھیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ رک گئے کہ وہ کس طرح بسم اللّٰه الرحمن الرحيم کے الفاظ کاٹیں۔

(احمد بن حنبل، المسند، ج 4، ص 325)
(صحیح بخاری، کتاب الشروط، ج 2، ص 979 تا 974، رقم 2581)

لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاہدہ امن کو توڑ چڑھانے کے لئے بسم اللّٰه الرحمن الرحيم کے الفاظ کاٹ دینے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امن کی خاطر الفاظ پر اصرار نہ کیا۔ آج دنیا میں ساری جنگ ہی الفاظ کی ہوتی ہے۔ یہ لفظ نہیں کہا بلکہ یہ کہا، وہ لفظ نہیں کہا بلکہ یہ کہا وغیرہ وغیرہ۔

معاہدے کی شرائط لکھنے کا وقت آیا تو ان شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو لوگ مدینے پناہ لینے آئیں، مسلمان ان کو واپس کریں گے لیکن قریش اس بات کے پابند نہ ہوں گے کہ اگر کوئی مدینے سے مکہ آئے تو وہ اس کو مدینے واپس کریں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امن کی خاطر اس شق کو بھی قبول کر لیا۔ آج اس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے دین پر خلافِ امن ہونے کی تہمت ہے۔۔۔ تہمت لگانے والے خود دنیا کے سب سے بڑے بد امن ہیں۔۔۔ وہ خود پوری دنیا میں بد امنی پھیلانے والے ہیں، جو تاجدار کائنات کو پیغمبر امن نہیں سمجھتے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین اسلام کو دین امن نہیں سمجھتے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان شرائط پر متزلزل اور پریشان ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں :

’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک میں اللہ کا رسول ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا ’’کیا ہم مسلمان نہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’بے شک ہم مسلمان ہیں‘‘ انہوں نے کہا ’’ کیا وہ مشرک نہیں؟‘‘ ارشاد ہوا ’’ہاں وہ مشرک ہیں‘‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ’’تو پھر ہم اپنے دین میں ذلت کیوں قبول کریں؟‘‘۔

اس ساری گفتگو کے آخر پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دلی کیفیت کو بھانپ کر جو بھرپور اور جامع جواب دیا اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت و بصیرت اور اپنے موقف کی سچائی پر یقین کامل کا اندازہ ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

انا عبدالله ورسوله لن اخالف امره ولن يضيعنی.

(الطبری تاريخ الامم والملوک، 3 : 79)

’’میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا اور وہ مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا‘‘۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسی جذباتی حالت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور مذکورہ شرائط کے بارے میں اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔ یار غار رضی اللہ عنہ نے فرمایا عمر! وہ اللہ کے رسول ہیں جو فیصلہ وہ کریں گے وہی درست ہوگا۔

ابھی صلح کی شرائط پر مذاکرات جاری تھے، بحث و تمحیص ہو رہی تھی کہ ایک ایسا واقعہ پیش آگیا جس سے مسلمانوں کے دکھ اور کرب میں مزید اضافہ ہوگیا اور ان کی مایوسی اپنی انتہا کو پہنچ گئی، ہوا یہ کہ جب صلح نامہ کی شرائط طے ہوگئیں اور آخری دستخط ثبت ہونا باقی رہ گئے تو ایک نوجوان جو زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا قریش کی قید سے بھاگ کر وہاں پہنچ گیا۔ وہ اپنے مسلمان بھائیوں سے پناہ کا طلبگار تھا۔ یہ قریش کی طرف سے نامزد کردہ مذاکراتی ٹیم کے سربراہ سہیل بن عمرو کا بیٹا تھا جن کا نام ابو جندل رضی اللہ عنہ تھا انہوں نے جب پوچھا کہ

يامعشر المسلمين، ارد الی المشرکين يفتنوننی فی دينی؟.

(المغازی الواقدی، 1 : 208)

’’اے مسلمانوں کے گروہ! مجھے دوبارہ مشرکین کے ظلم و ستم سہنے کے لئے ان کے حوالے کر دیا جائے گا؟‘‘۔

تو مسلمانوں میں اضطراب کی تازہ لہر دوڑ گئی۔

معاہدہ کی شرائط طے ہو رہی تھیں، مسلمان مایوسی کے عالم میں ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے، لیکن حضرت ابوجندل رضی اللہ عنہ کی آمد اور ان کی گریہ و زاری نے مسلمانوں کے جذبات میں آگ لگا دی۔ سینوں میں ایک تلاطم برپا ہوگیا۔ قریش کے وفد کا سربراہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور اسے زد و کوب کرنے لگا وہ اپنے بیٹے کو دھکے دے رہا تھا اور حضرت ابوجندل رضی اللہ عنہ مسلمانوں کو چیخ چیخ کر مدد کے لئے پکار رہے تھے۔ مسلمانوں سے نہ رہا گیا آگے بڑھ کر ابوجندل رضی اللہ عنہ کو سہیل بن عمرو کی گرفت سے آزاد کرایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفد کے سربراہ سے کہا چونکہ ابھی معاہدہ پر دستخط نہیں ہوئے اس لئے ہم ابوجندل رضی اللہ عنہ کو واپس نہیں کریں گے، سہیل بن عمرو نے کہا کہ اگر میرے بیٹے کو واپس نہ کیا گیا تو میں معاہدے کو توڑ دوں گا اور اس پر دستخط نہیں کروں گا۔ چنانچہ حضرت ابوجندل رضی اللہ عنہ کو واپس کرنا پڑا اور سب نے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں سرتسلیم خم کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوجندل رضی اللہ عنہ کو بھی تسلی دیتے ہوئے کہا کہ تم بھی بحیثیت مسلمان پسند نہیں کرو گے کہ ہم عہد کی خلاف ورزی کریں، حضرت ابوجندل رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل کر کے ایک قابل فخر مثال قائم کی۔ صحابہ رضی اللہ عنہما افسردہ تھے، حضرت ابوجندل رضی اللہ عنہ اپنی آنکھوں میں حسرت و یاس لئے کفار کی قید میں چلے گئے۔ (سبل الھدی والرشاد، 5 : 91)

معاہدہ مکمل لکھنے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ’’محمد رسول اللّٰہ‘‘ کے الفاظ تحریر کئے کہ یہ معاہدہ ان کی طرف سے ہے۔ کفارنے لفظ ’’رسول اللّٰہ‘‘ پر بھی اعتراض کر دیا کہ ہم تو انہیں ’’رسول اللّٰہ‘‘مانتے ہی نہیں ہیں، اگر ’’رسول اللّٰہ‘‘مان لیتے تو جھگڑا کس چیز کا تھا۔ ہم تو انہیں ’’محمد بن عبداللہ‘‘ کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ لہذا ’’رسول اللّٰہ‘‘کا لفظ کاٹ دو، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امن کی خاطر اور اس معاہدے کی تکمیل کی خاطر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ لفظ ’’رسول اللّٰہ‘‘ کاٹ دو۔۔۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میرا قلم یہ نہیں کاٹ سکتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کاغذ لے کر خود رسول اللہ کے الفاظ کاٹ دیئے کہ لفظ کاٹنے سے میری رسالت تو ختم نہ ہو جائے گی۔

معاہدہ معرض تحریر میں آچکا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ واپس جانے کی تیاری کرنے لگے، صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی حکم دیا کہ احرام کھول دیں، قربانی کے جانور ذبح کریں اور سر منڈا لیں لیکن طواف کعبہ کئے بغیر واپسی کا خیال دل پر بوجھ بنا ہوا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خاموشی اختیار کی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خاموشی پر رنجیدہ ہوئے، خیمے میں تشریف لائے تو ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پریشانی کا سبب پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ساری صورتحال سے آگاہ فرمایا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشورہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دینے کی بجائے عملی مظاہرہ کر کے دکھائیں۔ اپنے جانور خود پہلے ذبح کریں اور سر منڈا لیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کی پیروی میں ایسا ہی کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زوجہ مطہرہ کی اس تجویز کو پسند کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی جگہ سے اٹھے، قربانی کے جانور کو ذبح کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جانور ذبح کرتے دیکھ کر صحابہ رضی اللہ عنہم بھی اٹھے اور قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے لگے۔

ان حالات میں امن کے لئے اتنی بڑی بڑی قربانی تاریخ انسانیت میں کسی نے نہیں دی، بعد ازاں کفار نے اگلے سال معاہدہ توڑا اور 10 سال کی جنگ نہ کرنے کی شرط ختم ہوگئی تب 8 ہجری میں مکہ فتح ہوا۔ ورنہ معاہدہ امن کا حال تو یہ تھا کہ اگر وہ معاہدہ امن نہ توڑتے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتح مکہ کے لئے حملہ نہ کرتے اور اسی حال میں وصال ہو جاتا، مکہ بعد میں فتح ہوتا۔ امن کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ایک بہت بڑا قدم تھا۔ یہ اصل اور حقیقی اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

٭ اسی طرح جب ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو سب سے پہلا قدم بھی امن کے لئے اٹھایا اور یہود کے ساتھ معاہدہ کر کے میثاق مدینہ تحریر فرمایا۔ تاریخ مدینہ کی ابتداء حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود و غیر مسلم قبائل کے ساتھ معاہدہ امن کے ساتھ کی۔ پھر بھی اسلام پر یہ طعنہ کہ غیر مسلموں کو برداشت نہیں کرتا، یہود و نصاریٰ کو برداشت نہیں کرتا جس پیغمبر نے ہجرت مدینہ کے بعد کی تاریخ کی ابتداء بھی دشمنوں کے ساتھ معاہدہ امن پر کی ہو۔ ہر ایک کے جان و مال اور عزت کی حفاظت کی ضمانت دی ہو ا، نسانی حقوق کی ضمانت دی ہو، ان کے مقامی رسوم و رواج اور قوانین کو تسلیم کرکے نافذ العمل بنایا ہو۔ پھر بھی دین اسلام اور پیغمبر اسلام پر عدم برداشت کا طعنہ دینے والی خود بدامن اور عدم برداشت کی حامل اقوام ہیں۔

اعلیٰ ایمان کی نشانی

پورے اسلام کا مزاج بنیادی طور پر امن، سلامتی، شفقت، رحمت، سہولت، گنجائش، وسعت، اعتدال اور توازن پر ہے۔

٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اِنَّ مِنْ اَکْمَلَ الْمُوْمِنِيْنَ اِيْمَانًا اَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَاَلْطَفُهُمْ بِاَهْلِه.

(جامع ترمذی، ابواب الايمان، ج 5، ص 9، رقم 2612)

’’مومنین میں سے سب سے کامل ایمان اس شخص کا ہے جو اپنے اخلاق میں سب سے بہترین ہو اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نہایت نرم ہو‘‘۔

ان دو خوبیوں میں نہ نماز کا ذکر ہے اور نہ ہی حج، روزہ، زکوۃ اور دیگر عبادات کا ذکر ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا مغز، نچوڑ، تصور اور تاکید حُسن خلق اور گھر والوں پر سراپا رحمت ہونا ہے۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین کی روح حُسن خلق اور گھر والوں کے ساتھ نرمی کو قرار دیا۔ افسوس کہ ہم نے اس سے اپنی توجہ ہٹا رکھی ہے جبکہ ہمارے ہاں ایمان اور اسلام کے پاکستانی ماڈل میں یہ دونوں چیزیں (الا ماشاء اللہ) موجود نہیں، بڑے بڑے مذہبی لوگ جو عمرے، حج، زکوۃ، تسبیحات، نوافل، ذکر اذکار میں اپنا ثانی نہیں رکھتے مگر اخلاقی لحاظ سے نہایت پست ہیں، چہرے پر ہر وقت جلال کی کیفیت رکھتے ہیں، بات میں نرمی نہیں ہے، چہرہ پر تبسم نہیں ہے، میل ملاپ میں شفقت نہیں ہے، گفتگو میں مٹھاس نہیں ہے۔ بلکہ یہاں تک ان مذہبی لوگوں کا تاثر پھیل چکا ہے کہ نوجوان نسل ان سے ان کے غصے کی وجہ سے کنارہ کشی کو ترجیح دیتی ہے۔ یہ ایک غلط تاثر ہے، افسوس کہ ہم میں سے کئی احباب نے اسے پیدا کیا ہے۔

ایمان و اسلام کے پاکستانی ماڈل میں بیوی بچوں کے لئے شفقت و محبت کا کوئی حصہ ہی نہیں ہے، دیہاتوں میں بیوی کو پاؤں کی جوتی سے تعبیر کیا جاتا ہے بیوی کسی عزت کی حقدار نہیں ہے، بیوی کسی اچھے حسن سلوک کی حقدار نہیں ہے، بیوی تو خادمہ ہے، نوکرانی ہے، اس پر رعب و دبدبہ چلتا ہے، وہ محکوم اور غلام ہے، افسوس یہ ہمارا ماڈل ہے جبکہ تاجدار کائنات کا دیا ہوا ایمان کا ماڈل یہ ہے کہ سب سے اعلیٰ ایمان ہی اس کا ہے جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سب سے زیادہ نرم ہے۔

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اَکْمَلُ الْمُوْمِنِيْنَ اِيْمَانًا اَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَ خِيَارُکُمْ خِيَارُکُمْ لِنِسآءِ هِمْ.

(جامع ترمذی، ابواب الرضاع، ج 3، ص 466، رقم 1162)
(ابن حبان، الصحيح، ج 2، ص 227، رقم 479)

’’مومنین میں سے کامل ایمان اس کا ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے اور جو اپنی بیویوں کے ساتھ سب سے اچھا ہے‘‘۔

بات ایمان کی ہو رہی ہے کہ سب سے کامل ایمان کس کا ہے اور ہمارے ماڈل کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان ہی کی بات کرتے، موضوع ایمان ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان کی تعریف میں بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کو بیان فرما رہے ہیں۔

وہ لوگ جو مسلمان ہیں اورمغرب کے دلدادہ ہیں، جنہیں اسلام کا خوبصورت چہرہ نہیں دکھایا گیا، جنہوں نے اسلام کسی سے سنا اور سمجھا نہیں ہے، ان کو اور مغربی دنیا کو پیغام دینا چاہتا ہوں جو خواتین کے حقوق کے چیمپئین بنتے ہیں، کیا انسانی حقوق کی اس سے بڑھ کر بات کائنات انسانی میں کوئی اور بھی کر سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ایمان اس ہی کا اعلیٰ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر سلوک کرتا ہے۔ کیا اس سے بڑا کوئی Complement دیا جا سکتا ہے۔ عورتوں کی حقوق خواتین کے ساتھ شفقت، بھلائی، نرمی، حسن سلوک، حقوق کے احترام کی بات اس سے بھی بڑی کوئی اور ہو سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیویوں کے ساتھ بھلائی کو عین ایمان کا درجہ دے دیا۔ اسلام کا بنیادی مزاج حسن خلق پر قائم ہے اور حسن خلق، نرمی، شفقت اور محبت کا نام ہے۔

٭ حضرت جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اِنَّ مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَیَّ وَاَقْرَبِکُمْ مِنِّیْ مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اَحَاسِنَکُمْ اَخْلَاقًا.

(جامع ترمذی، ابواب البروالصلة، ج 4، ص 370، رقم 2018)

’’قیامت کے دن تم میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ وہ شخص محبوب ہے اور اسے قیامت کے دن اپنے سب سے زیادہ قریب بٹھاؤں گا جس کے اخلاق لوگوں کے ساتھ اچھے ہیں‘‘۔

ایمان کے اس تصور کے ذریعے اپنی پوری زندگیوں کو بدل ڈالو۔

٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔

اِنَّ الْمُوْمِنَ لَيُدْرِکُ بِحُسْنِ خُلُقِه دَرَجَةَ صَائِمَ الْقَائِم.

(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، ج 4، ص 252، رقم 4798)

’’بے شک مومن حسن اخلاق کے ذریعے، لوگوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کے ذریعے، لوگوں کے ساتھ نرمی، شفقت، رحمت، مٹھاس پر مبنی برتاؤ کے ذریعے اس درجے پر پہنچ جاتا ہے جو درجہ عمر بھی دن کو روزہ رکھنے والا اور ساری رات اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قیام کرنے والے کا ہوتا ہے‘‘۔

٭ حضرت ابو درداء روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَامِنْ شَئٍی اَثْقَلُ فِی الْمِيْزَانِ مِنْ حُسْنِ الْخُلُق.

(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، ج 4، ص 253، رقم 4799)

’’قیامت کے دن لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے بڑھ کر زیادہ وزنی کوئی عمل میزان میں نہ ہوگا‘‘۔

گویا اسلام میں کوئی عمل اتنا وزنی نہیں ہے جتنا قیامت کے دن میزان میں حسن اخلاق وزنی ہوگا۔ اسلام کی تاکید لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ برتاؤ میں ہے۔

حسن اخلاق میں نرمی اولین شرط ہے اور اس کی تائید حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے ہو رہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

حُرِّمَ عَلَی النَّارِ کُلُّ حَيِّنٍ سَهْلٍ قَرِيْبِ مِنَ النَّاس.

(جامع ترمذی، ج 4، ص 654، رقم 2488)

’’اس شخص پر دوزخ کی آگ حرام کر دی گئی ہے جو شخص لوگوں کے ساتھ نرم خو ہے اورجو خوش اخلاق ہے اور جو اپنی طبیعت کی نرمی، ملائمت اور ملاطفت کی وجہ سے لوگوں کے قریب رہتا ہے، لوگوں کو دھکے نہیں دیتا، خود سے دور نہیں کرتا۔ لوگوں کو قریب رکھتا ہے، ان سے محبت کرتا ہے پس جو لوگوں سے قربت رکھتا ہے، اپنے اخلاق کو اچھا رکھتا ہے، اپنی طبیعت کو نرم رکھتا ہے ایسے شخص پر اللہ نے دوزخ کی آگ حرام کر دی ہے۔

اس سے بڑھ کر امن و سلامتی، شفقت و رحمت، الفت و محبت کا پیغام اور دنیا کا کون سا تصور دے سکتا ہے۔

حسن خلق اور طبیعت کی نرمی کی علامت

٭ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

تَبَسُّمُکَ فِی وَجْهِ اَخِيْکَ لَکَ صَدَقَةَ.

(جامع ترمذی، ابواب البروالصلة، ج 4، ص 339، رقم 1956)

٭ حسن اخلاق جو دوزخ کی آگ کو بھی حرام کر دیتا ہے اس کی علامت یہ ہے کہ جب اپنے کسی مسلمان بھائی سے ملو تو ملاقات کے وقت تمہارے چہرے پر تبسم آ جائے یہ بھی اللہ کے ہاں صدقہ ہے۔

صرف Smiling Face مسکراتے چہرے کے ساتھ ملنا بھی حسن خلق، صدقہ و خیرات ہے۔ ایک Smile دینا بھی Charity (خیرات) ہے۔ افسوس کہ ہمارے چہرے اتنے سخت ہوگئے ہیں کہ کوشش بھی کریں تو مسکرانا نہیں آتا، جلالی خد و خال بن چکے ہیں اور اگر کوئی جبراً مسکرالے تو محسو س ہوتا ہے کہ مسکرانے سے بھی مذاق کیا جا رہا ہے۔

حسن خلق کی تعریف کے حوالے سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اِنَّ اللّٰه يُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْاَمْرِکُلِّه.

(صحيح بخاری، کتاب الادب، ج 5، ص 2242، رقم 5678)

’’اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرمی برتنے کو پسند فرماتا ہے‘‘۔

گویا اخلاق کا معنی اور اسلام کا مزاج اس حدیث مبارکہ سے متعین ہوگیا۔ وہی معاملہ اللہ کی بارگاہ میں اچھا ہے جس میں بندے کے معاملے میں نرمی ہے۔ سختی کا معاملہ اللہ کو پسند نہیں کیا جب ہم سختی کا معاملہ کریں گے تو اپنے ساتھ قیامت کے دن سختی کا معاملہ گوارا کر لیں گے۔ ہم خود تو اللہ سے نرمی کا معاملہ مانگیں اور خود سختی کے معاملے کریں، یہ دوہرا پن ہے۔

٭ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

يَا عَائِشَةُ اِنَّ اللّٰهَ رَفِيْقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْاَمْرِ کُلِّه.

(صحيح بخاری، کتاب الاستتابة المرتدين، ج 6، ص 2539، رقم 6528)

’’اے عائشہ! اللہ تعالیٰ خود نرمی کا سلوک فرمانے والا ہے اور ہر معاملہ میں نرمی کرنے والے کو اللہ پسند فرماتا ہے‘‘۔

تحریک منہاج القرآن کے رفیقو! غور کرو لفظ ’’رفیق‘‘ کس کے ساتھ وابستہ ہے، پس اس لفظ کی عظمت کا لحاظ رکھو، منہاج القرآن کا ہر رفیق، اس ٹائٹل ’’رفیق‘‘ کا لحاظ کرے کہ اس لفظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے وابستہ ہے اور اس ٹائٹل کے اندر نرمی کا معنی موجود ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ہر نرم خو، نرم مزاج، نرم چہرے رکھنے والے شخص سے پیار کرتا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں کیا کوئی سختی کی گنجائش رہی۔۔۔ ؟ اسلام میں سختی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے غور کریں کہ کہاں ہے سختی۔۔۔؟

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’اللہ تعالیٰ نرم معاملہ فرمانے والا، نرمی کا سلوک فرمانے والا ہے اور ہر معاملہ میں نرمی کو پسند فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ نرمی اختیار کرنے والوں، نرمی کا معاملہ کرنے والوں کو وہ کچھ عطا کرتا ہے جو سختی کرنے والوں کو عطا نہیں کرتا‘‘۔

(صحيح بخاری، کتاب الاستتابة المرتدين، ج 6، ص 2539، رقم : 6528)

نرم خوئی کی جزاء

پس اللہ تعالیٰ نرم خوئی پر جو جزا عطا فرماتا ہے وہ کبھی سختی پر عطا نہیں کرتا۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

مَنْ يُحْرِم الرِّفْقَ يُحْرَم الْخَيْر.

(صحیح مسلم، کتاب البروالصلة، ج 4، ص 2003، رقم 2592)

’’جو نرم طبیعت سے محروم کر دیا گیا وہ ساری خیر و بھلائی سے محروم کر دیا گیا‘‘۔

جس کی طبیعت میں نرمی نہ رہی، جس کے معاملے میں نرمی نہ رہی، جس کے اخلاق میں نرم نہ ہوئی وہ سمجھے کہ وہ ساری خیر سے محروم ہوگیا۔ گویا کل خیر نرمی میں ہے اور کل شر سختی میں ہے۔

اس ساری گفتگو سے یہ چیز اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ اسلام امن پر کیوں قائم ہے؟

اسلام میں امن کی اہمیت کیا ہے؟ اسلام میں تصور امن کیا ہے؟

پس اسلام رحمت، رفق، شفقت اور دین بخشش ہے۔ اسلام محبت، امن، سلامتی، گنجائش، سہولت، آسانی، عطاء اور سخاء کا دین ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس دین امن پر صحیح طور پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم