اداریہ : ملکی سلامتی کے لیے فوری اِقدامات کی ضرورت

ڈاکٹر علی اکبر قادری

اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہوا پاکستان جس پُرآشوب دور سے گزر رہا ہے اس میں ہم وطنوں کے پریشان کن اندیشے ایک فطری سی بات ہے۔ یہ طوفانی بادل اتنے گہرے کیوں ہو رہے ہیں؟ دین مخالف اور وطن دشمن قوتیں اس واحد اسلامی ایٹمی اور نظریاتی مملکت کے پیچھے ہاتھ دھو کر کیوں پڑی ہوئی ہیں؟ بلوچستان اور سرحد میں سازش کو پنپنے کا موقع کیوں دیا جارہا ہے؟ طالبان کون لوگ ہیں؟ اور ان کا ایجنڈا کیا ہے؟ یہ اور اسی نوعیت کے بے شمار بنیادی سوالات ہیں جن پر آج کل نہ صرف ملک میں بلکہ پوری دنیا میں غور و فکر اور بحث و مباحثہ ہورہا ہے۔ جہاں تک دین دشمن بیرونی قوتوں کی طرف سے ہونے والی سازشوں کا تعلق ہے تو وہ غیر متوقع یا غیر فطری ہر گز نہیں۔ غیر مسلم اقوام اور ممالک اسلام کے خلاف تعصب اور عداوت کی اس آگ میں اسی دن سے جل رہے ہیں جب سے ہمارے آقا و مولا پیغمبر اعظم و آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ قائم فرما کر مصطفوی اِنقلاب کا پرچم لہرایا اور دنیائے انسانیت پر جاری ظلم و جبر، استبداد اور استحصال کے باطل نظام کو چیلنج کیا اور محبت، امن، رواداری، بقائے باہمی، احترام انسانیت، مساوات، عدل اور قانون کی حکمرانی کے سنہری اصولوں پر مبنی نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطا فرمایا۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اسلام دشمن اور امن مخالف قوتوں کی نفسیات کھول کھول کر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتائیں۔ اہل ایمان کو ان کی مکروہ سازشوں سے باخبر رہنے اور ان کا مناسب توڑ برقرار رکھنے کی تاکید فرمائی۔ ممکنہ قوت کے ساتھ ’’اپنے گھوڑے‘‘ تیار رکھنے کا حکم دیا اور باہمی اتحاد و اتفاق سے ان معاند قوتوں کا مقابلہ کرنے کی جابجا تلقین فرمائی۔ اس لئے دشمنان اسلام کے اتحاد نے پاکستان کے خلاف اگر عالمی طاغوت کی شکل اختیار کی ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایسا عمل ہے جو تاریخ کے ہر موڑ پر دہرایا جاتا رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے زمانی اور مکانی فاصلوں کی وجہ سے کفر کے اتحاد میں اتنی سرعت نہیں ہوتی تھی، ثانیاً مسلمان مجموعی طور پر اتنے منتشر اور کمزور کبھی نہیں ہوئے تھے جتنے اب ہیں۔ سقوط غرناطہ، سقوط بغداد اور سقوط دہلی تاریخ اسلام کے پریشان کن موڑ ضرور تھے لیکن اہل اسلام نے ان واقعات سے مجموعی شکست قبول نہیں کی تھی۔ جبکہ موجودہ معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ عالم کفر شاطرانہ چالیں چل رہا ہے۔ اس نے امت کے خلاف بیک وقت کئی محاذ کھول رکھے ہیں۔ آج ہماری بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا غیرت مند اور صاحب بصیرت سیاسی قیادت سے محروم ہے۔ پورے عالم اسلام کے عوام اپنے نام نہاد مسلمان حکمرانوں پر عدم اعتماد کررہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں معاشی کمزوری اور علمی پسماندگی سے ہمیں دائمی نفسیاتی امراض لاحق ہو چکے ہیں جن میں لسانیت، صوبائیت، قومیت اور مذہبی فرقہ پروری سرِفہرست ہیں۔ یہ وہی بُت ہیں جن کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں اپنے پائے ناز سے پاش پاش کردیا تھا۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ اس وقت ہجوم دشمناں نے مشقِ ستم کے لئے پاکستانی سرحدیں ہی کیوں چن لی ہیں۔ جواب صاف ظاہر ہے کہ پاکستان اس پسماندہ اور بے دست و پا امت کی امیدوں کا محور ہے۔ اسلام کے نام پر لاکھوں شہیدوں کی قربانیوں اور کروڑوں شب زندہ داروں کی نالہ ہاے نیم شبی کا معجزہ یہ ملک ریاستِ مدینہ کے بعد دوسرا ملک ہے جو فقط نظریہ اسلام کی بنیاد پر وجود میں آیا، جس کے تحت مسلمان مختلف علاقوں، قبیلوں، ثقافتوں اور زبانوں کے باوجود ایک قوم ہیں۔ دشمنان دین نے اسے اگرچہ دولخت بھی کر دیا ہے مگر پھر بھی یہی ایک ملک ہے جو ایٹمی قوت حاصل کرنے میں کامیاب ہواہے۔ اس کی جوہری قوت مدافعت عالم کفر کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ عالمی طاغوت کا منہ زور گھوڑا جوہری اثاثوں پر قبضے کے لیے عراق اور افغانستان کی طرح وطن عزیز کو بھی روندنا چاہتا ہے لیکن اس کی قابل فخر منظم فوجی طاقت دینی جذبات کی حامل غیور عوام اور ایٹمی قوت کی موجودگی میں اسے اپنے ان ناپاک ارادوں کی تکمیل دشوار نظر آرہی ہے۔ پاکستان کا ازلی دشمن ہمسایہ بھارت پہلے ہی خوشحال ایٹمی پاکستان کو بوجوہ اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ وہ کشمیر ایشو کو ختم کرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ پاکستانی حکومت نے بہت تاخیر سے سرحد اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت سینٹ اور پارلیمنٹ میں پیش کئے ہیں۔ یہودی قیادت نے پہلی مرتبہ کھل کر پاکستان کی موجودگی کو اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دے دیا ہے اور امریکہ کے اعلیٰ عہدیدار تو صبح شام اسلام آباد آتے جاتے ہیں اور شدت پسندوں کے ساتھ ’’کھلی جنگ‘‘ کے لئے پاکستان پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔

افواج پاکستان کے لئے اس وقت مشکل یہ ہے کہ وہ بیک وقت امریکہ اور نیٹو کی بڑھتی ہوئی مداخلت کو بھی روکنا چاہتی ہیں اور طالبان کے منہ زور گھوڑے کو بھی لگام دینا چاہتی ہیں۔ اب تو یہ بات مکمل طور پر واضح ہو چکی ہے کہ عالمی سامراج کو پاکستان میں فوجی کاروائی کا جواز مہیا کرنے اور اس واحد اسلامی ایٹمی ملک کے جوہری اثاثوں کو تباہ کرنے کا موقع فراہم کرنے میں وہ عناصر پیش پیش ہیں جو آئے روز پرامن بستیوں میں اسلحہ لے کر دندناتے پھرتے ہیں اور فوج پر بھی بے دریغ حملے کرتے چلے جا رہے ہیں اور اپنی مذموم حرکات سے اسلام کے روشن اور تابناک چہرے کو داغدار کر رہے ہیں۔ معلوم نہیں سرحدی علاقوں میں موجود مذہبی قیادت سمیت ملک بھر کے مقتدر سیاسی زعماء اور طالبان کے ہم خیال علماء اپنا اثر و رسوخ کیوں استعمال نہیں کرتے جبکہ یہ واضح محسوس ہو رہا ہے کہ طالبان کا نام استعمال کر کے دوسری ’’مکتی باہنی‘‘ قائم کر دی گئی ہے۔

ہم حکومتِ وقت سمیت جملہ سیاسی اور خصوصاً مذہبی جماعتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ حالات کی لمحہ بہ لمحہ بگڑتی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لئے درج ذیل اقدامات فی الفور کئے جائیں :

٭ حکومت پاکستان بلا تاخیر جنگی بنیادوں پر ایران، سعودی عرب، عرب امارات، یورپی ممالک اور بالخصوص چین اور دیگر دوست ممالک کو صورت حال کی سنگینی کا احساس دلائے اور ان سے تعاون کی درخواست کرے۔

٭ افغانستان اور پاکستان میں طالبان تحریک کی قیادت کو بالواسطہ اسلام دشمن قوتوں کا آلہ کار بننے سے روکنے کے لئے علماء کرام بالخصوص نظریاتی طور پر طالبان سے قرب رکھنے والے مذہبی رہنما سفارتی سرگرمیاں تیز تر کردیں۔

٭ مرکز میں قومی اتفاق رائے سے مؤثر اور جامع حکمت عملی بنائی جائے اور پاکستان غیر ملکی مداخلت کے ثبوت بلا تاخیر اقوام متحدہ میں پیش کرے۔

٭ میڈیا کو خبریّت کی آڑ میں سراسیمگی، مایوسی اور افراتفری پھیلانے سے روکا جائے۔

٭ بلوچستان میں جاری علیحدگی پسند تحریک کے متنازعہ کرداروں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کیے جائیں۔

٭ قومی یک جہتی کے لیے جملہ مذہبی اور سیاسی جماعتیں افواج پاکستان کو اپنی غیر مشروط حمایت کا یقین دلائیں تاکہ چومکھی لڑائی میں اس کے حوصلے بلند رہیں۔

٭ اس موقع پر پوری قوم کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں پر معافی مانگتے ہوئے وطن عزیز کی سلامتی اور ترقی کے لئے خصوصی دعائیں کرے۔ اللہ تعالیٰ ہماری مذہبی، سیاسی اور عسکری قیادت کو ملک و ملت کی بہتری کا اہل بنائے۔

ڈاکٹر علی اکبر قادری