آل پاکستان مشائخ کانفرنس

رپورٹ : علامہ سید فرحت حسین، صاحبزادہ محمد حسین آزاد

تحریک منہاج القرآن کے مرکز لاہور میں عظیم الشان آل پاکستان مشائخ کانفرنس

رپورٹ : علامہ سید فرحت حسین، صاحبزادہ محمد حسین آزاد

برصغیر پاک و ہند میں بالخصوص اور پوری اسلامی دنیا میں بالعموم صوفیائے کرام کی دینی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اخلاص، محبت، امن، بقائے باہمی اور انسان دوستی جیسی خصوصیات ان کی سیرت و کردار کے وہ نمایاں پہلو ہیں جو انہیں مخلوقِ خدا میں ہر دلعزیز بنائے رکھتے ہیں۔ سیرت و کردار کا یہی کھرا، بے لوث اور محبت بھرا انداز انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے قریب کر دیتا ہے۔ اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوب کر زندگیاں گزارنے والے یہ جلیل القدر لوگ اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین شخصیات ہوتی ہیں جن کی رضا کو رب تعالیٰ اپنی رضا سے تعبیر فرماتا ہے۔ فیضانِ توحید و رسالت کی امین یہ عظیم المرتبت ہستیاں قرآن و سنت کی دلآویز تفسیریں ہوتی ہیں ایسی تفسیریں لوگ جن کے حلقہ ہائے اثر میں بیٹھ کر رموز دین سمجھتے اور ان پر دل و جان سے عمل پیرا رہتے ہیں۔ تاریخ اسلام کا دامن ان ان لوگوں کے سنہری کارناموں سے مالا مال ہے۔ گذشتہ دو صدیوں سے جاری امت پر اجتماعی زوال کا ہمہ گیر اثر ان خانقاہوں پر بھی پڑا اور ان کا تربیتی، تعلیمی اور روحانی نظام متاثر ہوا ہے۔ اس کے باوجود ان خانقاہوں سے وابستہ مسلمانوں کی بھاری اکثریت پُر امن اور باعمل لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دینی مراکز پر تھوڑی سی توجہ سے زیادہ بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔ روحانی خانوادوں کی اسی تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور دینی اہمیت کے پیش نظر حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے لاہور میں اپنی موجودگی کے دوران آل پاکستان مشائخ کانفرنس کا انعقاد کیا۔ چنانچہ وطن عزیز کے دور و نزدیک سے کثیر تعداد میں مشائخ نے اس دعوت کو شرف قبولیت بخشا۔

مورخہ 3 مارچ 2009ء کو داتا کی نگری لاہور میں مشائخ عظام کا جم غفیر تحریک منہاج القرآن کے مرکز میں رونق افروز تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے موسم بہار میں مرکز بہار پر مشائخ کی بہار اُمڈ آئی ہے۔ ان مشائخ کی میزبانی آستانہ عالیہ چشتیہ آباد شریف کامونکی کے سجادہ نشین حضرت پیر سید محمد خلیل الرحمن چشتی (مرکزی نائب امیر تحریک منہاج القرآن)، حضرت صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی اور ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر رحیق احمد عباسی سرانجام دے رہے تھے۔ کانفرنس میں چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر سے 300 سے زائد مشائخ و پیران عظام نے خصوصی شرکت کی۔

کانفرنس کی غرض و غایت

تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے منعقدہ اس کانفرنس کو منعقد کرنے کا مقصد یہ تھا کہ موجودہ دور میں اصلاح احوال و اعمال کے لئے ایک ایسا متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جائے تاکہ تصوف و روحانیت سے متعلق مخالفین کے غلط پراپیگنڈے کا سد باب کیا جا سکے۔ نیز درج ذیل مقاصد بھی احسن طور پر حاصل کئے جا سکیں :

٭ عقائد صحیحہ کا تحفظ ٭ دینی و روحانی اقدار کی بحالی

٭اسلامی تصوف اور صوفیاء کی تعلیمات کی حفاظت و ترویج ٭ انتہاپسندانہ اور دہشت گردانہ رویوں کا تدارک

٭ اعتقادی اور فکری حملوں کا سدِّ باب ٭ سلاسل و طرق سے بامقصد نسبت کا حصول

کانفرنس کا آغاز تلاوت کلام مجید سے کیا گیا اور یہ اعزاز محترم قاری حافظ عنصر محمود نے حاصل کیا جبکہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گلہائے عقیدت محترم محمد افضل نوشاہی نے پیش کئے۔

استقبالیہ کلمات شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے استقبالیہ کلمات میں فرمایا :

’’تمام طرق اور سلاسل تصوف سے تعلق رکھنے والے مشائخ عظام، خلفاء نمائندگان اور حضرات سجادہ نشینان جنہوں نے ہماری دعوت اور درخواست کو شرف قبولیت سے نوازا۔ اس پر جملہ مشائخ کا صمیم قلب سے صدہا بار ہدیہ تشکر پیش کرتا ہوں اور آپ سب کے لئے میں سراپا استقبال ہوں۔ اس تاریخی کانفرنس کا کریڈٹ دراصل سندھ کے مشائخ کو جاتا ہے وہ اس وجہ سے کہ تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی سندھ کے دورے پر گئے تو سندھ کے مشائخ نے میرے ساتھ ملاقات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جس کے لئے سکھر میں آل سندھ مشائخ کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کی گئی جس میں بعد ازاں سندھ کی بجائے پورے ملک کی نمائندہ کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا۔

اس وقت ایک منظم سازش کے تحت دین پر اعتقادی حملے ہو رہے ہیں اور خاص طور پر سلاسل طریقت و تصوف سے امت کے ذہنوں کو پراگندہ کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف ہمیں اس جھوٹے پروپیگنڈہ کا جواب دینا ہے اور دوسری طرف ایمانداری اور انصاف سے یہ جائزہ بھی لینا ہوگا کہ تصوف کے روشن چہرہ کو دنیا کے سامنے لانے کے لئے صحیح طور پر محنت کی جانی چاہئے۔ اس سمت میں کیسے پیش رفت ممکن ہے۔۔۔؟ میں چاہتا ہوں کہ تصوف کے خلاف اعتقادی اور فکری حملوں کے سدِّباب اور اصلاحِ اعمال و احوال کے لئے ایسا کثیر الجہتی فارمولا اپنایا جائے جس سے خانقاہوں کے حال اور مستقبل کو بچایا جا سکے۔ اسلحے کے ساتھ ہم دفاع نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ ہمارا طریق ہے، تصوف اور صوفیاء کے طریقے کی ایسی شمعیں جلائی جائیں اور ایسی تعلیمات پروان چڑھائی جائیں جس سے آئندہ نسل بھی نہ بہکے اور کامیابی کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔ تعلیمات تصوف و صوفیاء پر عمل پیرا ہو کر عملی طریق اپناتے ہوئے اس کے دفاع کی تعبیریں اور تدبیریں نکالی جائیں اوراس سلسلے میں وسیع حکمت عملی اپنائی جائے۔

یہ حقیقت ہے کہ تصوف صرف چند رسوم تک محدود کر دیاگیا ہے۔ داعیان تصوف نے سلاسلِ تصوف اور صوفیاء کی حقیقی تعلیمات پر کام نہیں کیا جس کی وجہ سے کئی دہائیوں سے اچھی رسوم میں ناجائز رسوم شامل ہو گئیں۔ درس و تدریس کی محافل اور خالص دعوتی و تربیتی پروگرام عرس کی صورت میں عوامی میلوں میں بدل گئے اور میلوں میں ریچھ اور کتوں کی لڑائیاں بھی شروع ہو گئیں۔ ہر جگہ پر یہ خلاف شرع کام نہیں ہو رہے لیکن منکرین تصوف کو بطور نمونہ پیش کرنے کے لئے دو چار جگہوں کے حوالہ جات دینا کا فی ہیں۔ چادریں جو تعظیم و تکریم کے لئے مزارات پر چڑھائی جاتی تھیں اب کئی فرلانگ سے ڈھول تماشے کے ساتھ مزارات پر لائی جاتی ہیں۔ مزارات پر سجدے کرنا، چوکھٹ کو چومنا، مزارات کے طواف جیسی ناجائز رسوم نے تصوف کے حقیقی اور روشن چہرے کو مسخ کر دیا ہے ۔ لہذا ایسے حالات میں خانقاہی نظام کو شریعت کے مطابق استوار کرنے اور حقیقت تصوف کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تصوف کو راسخ کرنے کی ضرورت ہے جو عہدنبوی، خلفائے راشدین، اہل بیت اطہار، صحابہ کرام، تابعین وتبع تابعین کے ادوار میں عملاً فروغ پذیر تھا۔ جس کے روشن چہرے نے اشاعت اسلام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسلام کی اشاعت و فروغ میں جو کردار صوفیا کی تعلیمات اور ان کے کردار نے ادا کیا ہے اس کی روشن مثالیں تاریخ میں موجود ہیں۔

مشائخ عظام کا اظہارِ خیال

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرف سے کانفرنس کی غرض و غایت اور مقصد پر اظہار خیال کے بعد مشائخ عظام کو اس حوالے سے اپنی تجاویز و آراء کے اظہار کی دعوت دی گئی۔ اس پر محترم خواجہ معین الدین کوریجہ، محترم خواجہ غلام قطب الدین فریدی، محترم صاحبزادہ امین الحسنات، محترم پیر عتیق الرحمن مجددی (آزاد کشمیر)، محترم حضرت پیر غلام رضوانی جیلانی (ٹھٹھہ شریف سندھ)، سندھ نواب شاہ سے محترم پیر سید منیر علی شاہ ذاکری، ملتان سے محترم مخدوم محمد احسن، خطیب جامع مسجد داتا گنج بخش علی ہجویری محترم میاں محمد سلیم اللہ اویسی، محترم کرنل (ر) سید عظمت اللہ شاہ، صوبہ سرحد ڈسٹرکٹ سوات اور پیر آف مانکی شریف کے نمائندہ محترم عبدالہادی القادری، اُچ شریف کے سجادہ نشین اور صوفی کونسل پاکستان کے چیئرمین محترم مخدوم سید نفیس الحسن بخاری، ایبٹ آباد سرحد سے آستانہ عالیہ محبوب آباد شریف کے محترم پیر محی الدین محبوب اور محترم صاحبزادہ پیر حبیب نواز نے اظہار خیال کرتے ہوئے اس کانفرنس کے انعقاد پر شیخ الاسلام کو مبارکباد پیش کی اور خانقاہی نظام کے احیاء اور اسلامی تصوف اور صوفیاء کی تعلیمات کے فروغ کے لئے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر علمی، فکری، تحقیقی اور اصلاحی امور سرانجام دینے نیز خانقاہوں اور مزارات میں عرس کے موقع پر یا دیگر مواقع پر اسلام کے نام پر ہونے والی خرافات کو دور کرنے اورحقیقی تعلیمات کو ترویج دینے پر زور دیا۔

مشائخ عظام نے اصلاح احوال اور خانقاہی نظام کے احیاء کے لئے منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کے ساتھ چلنے کا عہد کیا اور کانفرنس میں طے پانے والے لائحہ عمل پر مکمل عمل درآمد کی یقین دہانی کروائی۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ماہنامہ منہاج القرآن ماہ اپریل09ء)

اظہار خیال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مشائخ عظام کے اظہار خیال کے بعد آپ نے ان کی طرف سے دی گئی تمام تجاویز و آراء کو سمیٹتے ہوئے فرمایا :

’’اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، تنگ نظری، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ آج کی ملک گیر مشائخ کانفرنس ایسے منفی رویوں کی ہر سطح پر سختی سے مذمت کرتی ہے۔ صوفیاء کرام نے محبت امن اور سلامتی کے رویے اپنا کر اپنے اعلیٰ کردار و اخلاق سے لاکھوں لوگوں کی دلی کیفیت بدل دی جس سے مختلف معاشرے امن کا گہوارہ بن گئے۔ آج بھی بہت سے مشائخ اور پیران کرام معاشرے میں پر امن رویوں کے لئے کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں لیکن انفرادی سطحوں پر خدمات کا اثر محدود ہوتا ہے۔ اب اجتماعیت کا دور ہے ہمیں مربوط نظام بنانے کی ضرورت ہے۔

اس وقت وطن عزیز بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ شورش زدہ علاقوں میں بزرگان دین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے، کئی مزارات اور خانقاہیں گرا دی گئی ہیں۔ یہ ایک مکروہ اور انتہاء پسندی پر مبنی غیر اسلامی کاوش ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ مشائخ وپیران کرام کا عظیم الشان اجتماع اس بات کا عکاس ہے کہ ملک کے روحانی مراکز ملک میں امن و سلامتی چاہتے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن مشائخ کرام کی مشاورت و رہنمائی سے ایسا تربیتی نظام تشکیل دے رہی ہے جس سے تصوف و روحانیت کی قدروں کو معاشرے میں جلا ملے گی اور پاکستان کو دائمی امن نصیب ہو گا۔

تحریک منہاج القرآن اہلسنت سے خارجیت کی گرد جھاڑ کر اہل بیت اطہار کی محبت اور اولیاء و صلحاء کی محبت پیدا کرنا چاہتی ہے۔ منکرین تصوف کے پاس اسلحہ ضرور ہے لیکن صوفیاء کبھی بھی کلاشنکوف کا جواب کلا شنکوف سے نہیں دیں گے۔ صوفیاء کے پاس بھی ہتھیار ہوتا ہے لیکن صوفیاء کا ہتھیار انکا کردار ہے جو گردنیں اڑانے کی بجائے لوگوں کے دلوں کو گھائل کرتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ خون خرابے کا مقابلہ کرنے کی بجائے حسب روایت یہ جنگ بھی اپنے مضبوط کردار کے ساتھ لڑی جائے۔ حق بالآخر غالب رہتا ہے باطل کے ہتھکنڈے ہمیشہ جلد یا بہ دیر ناکام ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ کمزوریاں کہاں کہاں ہیں۔

منہاج القرآن کا تمام علمی سرمایہ آپ مشائخ علماء کا سرمایہ ہے۔ اس علمی و تحقیقی اثاثے سے نہ صرف آپ خود مستفید ہوں بلکہ اپنے مریدین کی اصلاح احوال و اعمال کے لئے انہیں بھی اس طرف راغب کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تحریک منہاج القرآن نے قرآن فہمی، مجموعہ ہائے حدیث کی تدوین نو، تصوف اور امن عالم، بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی، تصوف و ولایت اور اس طرح کے کئی ایسے علمی کام کئے ہیں جو صدیوں سے امت پر ادھار تھے۔ انہی کاموں میں سے ایک کام جس کا تعلق بطور خاص آپ سے ہے وہ یہ کہ میں نے شیخ عبدالرحمن السلمی، امام قشیری، شہاب الدین سہروردی، شیخ اکبر محی الدین ابن عربی اور ان جیسے کئی اکابر صوفیاء کرام سے مروی احادیث بھی تلاش بسیار کے بعد شائع کر دی ہیں جن سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ صوفیاء محض صاحب حال ہی نہ تھے بلکہ عظیم محدث بھی تھے۔ اس لئے ان کا ہر قول و عمل محض ایک صوفی ہونے کی بناء پر ناقابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اسی طرح میں نے متعدد محدثین کے حوالے سے بھی دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ تمام بڑے نامور محدثین حدیث کے علم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم کے بھی ماہر اور اکابر صوفیاء و اولیاء تھے۔ حتی کہ انہوں نے تصوف کی بنیادی کتب کی نہ صرف اکابر اولیاء سے قرات و سماعت کی بلکہ ان کی اجازت بھی حاصل کی۔ محدث کبیر حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی (صاحب فتح الباری) کا شمار ایسے ہی محدثین میں ہوتا ہے۔

منہاج القرآن کے انہی علمی و تحقیقی کاموں میں سے اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مناقب پر مشتمل اربعینات بھی شامل ہے جو آپ تمام حضرات کے لئے ایک عظیم علمی سرمایہ ہے۔

ہمیں ان کتب سے علمی استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی خانقاہوں اور آستانوں کے معمولات اور مریدین کے احوال و اعمال کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی تاکہ معترضین کو اعتراض کا موقع نہ مل سکے اور اپنا حلقہ احباب بھی قلبی و روحانی تسکین کے لئے ان خانقاہوں سے اکتساب فیض کرتا رہے۔

خانقاہی نظام کے احیاء کا لائحہ عمل

اس موقع پر شیخ الاسلام نے شرکاء اجلاس کی مشاورت سے تربیتی لائحہ عمل اور روحانی نصاب کا اعلان کیا۔ خانقاہی نظام کے لئے کانفرنس میں جس لائحہ عمل کا اعلان کیا گیا وہ حسب ذیل ہے۔

  1. ہر مزار اور آستانے پر حلقہ ذکر و درود قائم کیا جائے گا، دن میں دوبار صبح اور شام حلقہ ذکر منعقد ہوا کرے گا۔ ذکر جہری اور ذکر خفی بھی کر سکتے ہیں اس کے بعد سارا دن حلقہ درود بن جائے گا، خواتین کے لئے الگ حلقہ ذکر و درود قائم ہو گا۔
  2. جب کوئی ارادت مند دعا، بیعت یا کسی مسئلے کے حل کے لئے آئے تو اس پر لازم کیا جائے گا کہ پہلے دو رکعت نماز نفل تحیۃ الوضو یا تحیۃ المسجد ادا کرے پھر آقا علیہ السلام پر 100 بار درود پڑھ کر آئے۔
  3. تمام مشائخ اپنے مریدین پر لازم کریں گے کہ وہ حلقہ ذکر و درود میں حاضر ہوں اور ایک تسبیح لازمی روزانہ درود کی پڑھیں گے اور باوضو رہیں گے۔ اس طرح خانقاہیں خود بخود آباد ہوں گی۔
  4. ہر دربار پر ایک ناظم صلوۃ مقرر کر دیا جائے جو تمام مریدین کو نماز پڑھانے کا ذمہ دار ہو۔ پانچ وقت باجماعت نماز کے وقت مزار شریف پر تالہ لگا دیا جائے کیونکہ نماز کے وقت کعبہ کا طواف بھی بند ہو جاتا ہے۔ لہذا نماز کے بعد مزار شریف کا تالہ کھولا جائے تاکہ حاضری و زیارت ہو سکے۔ اس عمل سے ہر طرف خیر ہی خیر ہو جائے گی۔
  5. دین کے نصاب کا ایک نمونہ دیا گیا ہے جس میں عرفان القرآن، کنز الایمان، تفسیر مظہری، تفسیر ضیاء القرآن شامل ہے۔ یہ نصاب ہر مکتب ومدرسہ وخانقاہ میں پڑھایا جائے گا اس کے لئے معلمین تیار کئے جائیں گے۔
  6. معلمین کی تیاری کے لئے سال کے ایک ماہ جولائی میں 15 - 15 روز کے دو کورسز کا اہتمام منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ میں کیاجائے گا، منہاج القرآن کی جانب سے یہ کورسز فری کروائے جائیں گے۔
  7. مشائخ کرام اپنے بیٹوں، اور اعزاء کو بھیجیں گے۔ مکمل تربیت کے لئے 5 سالہ کورس جبکہ 3 سے 6 ماہ کے کورسز کا بھی آئندہ سالوں میں اہتمام کیا جائے گا۔
  8. پہلا short کورس اس سال یکم جولائی سے 15 جولائی 2009 تک ہو گا جس کی باقاعدہ سند دی جائے گی، طعام اور قیام منہاج القرآن نظامت تربیت کے ذمے ہو گا۔
  9. فیلڈ میں 100 افراد پر مشتمل 3 سے 7 روزہ تصوف ٹریننگ کیمپ منعقد کرائے جائیں گے جس میں پڑھے لکھے مریدوں کو جمع کیا جائے گا۔
  10. ہر دربار پر ایک لائبریری قائم کی جائیگی، کتابوں کی فہرست بنا کر بھجوا دی جائے گی اور منہاج القرآن پبلیکیشنز ان لائبریریوں کو اپنی کتب %50 رعایت پر دے گا۔
  11. ہر خانقاہ، آستانے اور مزار پر قرآن و سنت اور فقہ کی تعلیم کے لئے مدارس قائم کئے جائیں۔
  12. قبروں کوسجدے اور دیگر خرافات کو حکماً روکا جائے اور مزارات پر حاضری کے آداب اور غیر شرعی کام کے روکنے کے لئے احکامات تحریری بھی لکھے جائیں۔
  13. کئی مزارات پر عرس عوامی میلوں میں بدل رہے ہیں جنہیں فوری طور پر حکماً روکا جائے۔
  14. خواتین کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کیا جائے کیونکہ خواتین آبادی کا %55 ہیں اور ان کے ذریعے بھی معاشرے میں بد عقیدگی تیزی سے پھیل رہی ہے ان کی بھی تعلیم و تربیت انہی خطوط پر کی جائے۔
  15. تعلیم و تربیت کے لئے تحریک منہاج القرآن ایک سال کا کورس جاری کر رہی ہے جس میں مستقبل کے گدی نشین یا سجادہ نشین حضرات کو قرآن، حدیث و فقہ اور ان کے طریق کے مطابق تصوف کی تعلیم و تربیت بھی دی جائے گی، اس تعلیم کے لئے کم ازکم تعلیمی معیار میٹرک ہو گا۔

اس موقع پر محترم پیر امین الحسنات جگہ گوشہ حضرت ضیاء الامت کی زیر نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، اس کمیٹی میں محترم علامہ شہزاد احمد مجددی، علامہ عمرحیات الحسینی سید منیر شاہ، علامہ سید فرحت حسین شاہ اور پیر عظمت علی شاہ شامل تھے۔ ان احباب نے کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ آراء اور تجاویز کی روشنی میں مرتب کیاجس کی شرکاء کانفرنس نے توثیق کی۔

آل پاکستان مشائخ کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ

تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام کل پاکستان مشائخ کانفرنس میں شریک جملہ مشائخ طریقت اور پیران عظام نے مشترکہ و متفقہ طور پر طے کیا کہ موجودہ ملکی و بین الاقوامی صورتحال کے پیش نظر تصوف مخالف نظریات و افکار کے فروغ اور صوفیاء کرام کے امن و آشتی پر مبنی پیغام کو مسخ کرنے کی مذموم کوششوں کا سدباب کرنے کے لئے باہم مشاورت سے عملی اقدامات کئے جائیں۔ شرکاء کانفرنس نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں مندرجہ ذیل نکات پر مکمل اتفاق کیا :

  1. پاکستان اور دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی ہرشکل کی بھرپور مذمت کی گئی اور اسلام کے محبت و امن پر مبنی پیغام کو دنیا بھر میں عام کرنے کے لئے صوفیاء و مشائخ اپنا بھرپور کردارادا کریں گے۔
  2. خانقاہی نظام کے احیاء اور سلاسل تصوف کے لئے ضا بطہ اصلاح تیارکرنا۔
  3. تصوف ریسرچ سنٹر کا قیام جس کا مقصد سلف صالحین اور اکابر صوفیاء پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینا اور تعلیمات تصوف کو متقدمین صوفیاء کی آراء و افکار کی روشنی میں پیش کرنا ہو گا۔
  4. مزارات اور خانقاہوں میں باقاعدہ دینی اداروں کا قیام اور جو ادارے تحریک منہاج القرآن سے منسلک ہوں وہاں صاحبزادگان کیلئے خصوصی نشستوں کا اہتمام کیا جائے گا۔
  5. خانقاہوں میں رائج منکرات و خرافات کے خاتمہ و اصلاح کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں گے۔ اس سلسلے میں بعض خواص اور با اثر مشائخ پر مشتمل نگران کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
  6. علماء و مشائخ پر مشتمل رابطہ کمیٹی کا قیام جو مذکورہ بالا اہداف و مقاصد کے حصول کے لئے اپنا فریضہ منصبی ادا کریں گے۔
  7. جو مراکز اہل سنت انفرادی سطح پر تعلیم و تربیت کا بہتر اور موثر کام سرانجام دے رہے ہیں، انہیں اس اجتماعی دھارے میں شامل کیا جائے گا۔
  8. خانقاہی نظام کے احیاء و تجدید کیلئے ایسا جامع نصاب مرتب کرنا جس کی روشنی میں عرفاء و صلحاء کے نقش قدم پر چلنا آسان تر بنایا جا سکے۔
  9. خانقاہوں، درگاہوں اور درباروں سے منسلک مصلحین اور خلفاء کی تعلیم و تربیت کے لئے ورکشاپس منعقد کی جائیں گی۔
  10. علم و تحقیق کی حوالہ جاتی و مطالعاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے معیاری لائبریریوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
  11. تمام سلاسل کے نظام سلوک کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حلقہ ہائے ذکر و درود کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
  12. مزارات اور درباروں پر صوفیاء کرام کے طریقہ تبلیغ و اصلاح پر مبنی انداز میں دعوت و ارشادکے کام کو فروغ دیا جائے گا، خواتین کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کیا جائے گا اور خلق خدا کی داد رسی اور حاجت روائی کو ترجیحی بنیادوں پر اختیارکیا جائے گا۔

کانفرنس میں شریک مشائخ عظام

کانفرنس میں شریک مشائخ عظام کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں۔

  1. حضرت پیر خواجہ دیوان بختیار سید محمد چشتی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ پاکتپن شریف)
  2. حضرت پیر علامہ صاحبزادہ محمد امین الحسنات شاہ (سجادہ نشین آستانہ عالیہ بھیرہ شریف)
  3. حضرت پیر صاحبزادہ عتیق الرحمن مجددی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ ڈھانگری شریف آزاد کشمیر)
  4. حضرت پیر خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ (سجادہ نشین آستانہ عالیہ کوٹ مٹھن شریف ضلع راجن پور)
  5. حضرت پیر خواجہ غلام قطب الدین فریدی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ گڑھی شریف خانپور)
  6. حضرت پیر مخدوم سید نفیس الرحمن بخاری (سجادہ نشین آستانہ عالیہ اوچ شریف و چیئرمین صوفی کونسل پاکستان)
  7. حضرت پیر صاحبزادہ کرنل عظمت اللہ شاہ (سجادہ نشین آستانہ عالیہ نقیب آباد شریف قصور)
  8. حضرت پیر مخدوم سید چن پیر قادری (سجادہ نشین آستانہ عالیہ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ لاہور)
  9. حضرت پیر سید ڈاکٹر جمیل الرحمن چشتی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ چشتیہ آباد شریف کامونکی)
  10. حضرت پیر صاحبزادہ علامہ میاں محمد سلیم اللہ اویسی(خطیب جامع مسجد داتا دربارلاہور)
  11. حضرت پیر صاحبزادہ محمد شہزاد مجددی (سرپرست اعلیٰ دار الاخلاص لاہور)
  12. حضرت پیر سید ناظم حسین شاہ (مرکزی راہنما علماء و مشائخ ونگ PPP)
  13. حضرت پیر سید منیر علی شاہ (سجادہ نشین آستانہ عالیہ نواب شاہ۔ سندھ)
  14. حضرت پیر صاحبزادہ بنی امین (زیب سجادہ آستانہ عالیہ مانکی شریف نوشہرہ صوبہ سرحد)
  15. حضرت پیر سید مبارک شاہ جیلانی (آستانہ عالیہ سجادہ نشین گھوٹکی شریف سندھ)
  16. حضرت پیر سید صبغۃ اللہ شاہ جیلانی (سجادہ نشین دربار عالیہ رانی پور شریف سندھ)
  17. حضرت پیر سید غلام مصطفی شاہ جیلانی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ قمبر شریف شہداد کوٹ سندھ)
  18. حضرت پیر مخدوم صاحبزادہ ندیم احمد ہاشمی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ کھوڑا شریف سندھ)
  19. حضرت پیر میاں عبدالرسول (سجادہ نشین خانقاہ عالیہ قادری بھرچونڈی شریف کشمور سرحد)
  20. حضرت پیر میاں مظہر علی (سجادہ نشین درگاہ عالیہ سرحد شریف گھوٹکی سندھ)
  21. حضرت پیر سید ضیاء اللہ شاہ جیلانی (سجادہ نشین دربار عالیہ کرونڈی فیض گنج ضلع خیر پور سندھ)
  22. حضرت پیر محمد کرم اللہ (سجادہ نشین دربار عالیہ فضل آباد شریف بدین سندھ)
  23. حضرت پیر مولانا میاں محمد قاسم ہاشمی (سجادہ نشین درگاہ قادریہ اویسیہ گڑھی یاسین سندھ)
  24. حضرت پیر منیر احمد نقشبندی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ کنب شریف سندھ)
  25. حضرت پیر صاحبزادہ عبدالہادی قادری (سجادہ نشین آستانہ عالیہ یار حسین شریف ضلع صوابی سرحد)
  26. حضرت صاحبزادہ سید سجاد بادشاہ (سجادہ نشین دربار عالیہ قمبرپور شریف پشاور و صدر مسلم لیگ علماء و مشائخ ونگ صوبہ سرحد)
  27. حضرت پیر صاحبزادہ ابوالفضل محمد فضل اللہ (سجادہ نشین آستانہ عالیہ لنڈی شاہ ضلع مردان)
  28. حضرت پیر مولانا صاحبزادہ فضل رحیم (سجادہ نشین جلالہ شریف مردان)
  29. حضرت پیر سید محمد عالم شاہ (سجادہ نشین آستانہ عالیہ کند کوٹ سندھ)
  30. حضرت پیر صاحبزادہ غلام دستگیر توگیروی (سجادہ نشین دربار عالیہ توگیرہ شریف بہاولنگر)
  31. حضرت پیر فخر احمد میروی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ میرا شریف پنڈی گھیپ)
  32. حضرت پیر پائندہ محمد خاں (سجادہ نشین آستانہ عالیہ تھانہ شریف مالا کنڈ ایجنسی صوبہ سرحد)
  33. حضرت پیر مخدوم محمد احسن (سجادہ نشین آستانہ عالیہ حضرت خواجہ غلام حسن شہید رحمۃ اللہ علیہ ملتان)
  34. حضرت پیر میاں تنصیر احمد علوی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ شکار پور سندھ)
  35. حضرت پیر صاحبزادہ اسد اللہ شاہ غالب (سجادہ نشین آستانہ عالیہ چورہ شریف اٹک)
  36. حضرت پیر سید شوکت حسین گیلانی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ کرمانوالہ شریف اوکاڑہ)
  37. حضرت پیر صاحبزادہ محمد فیض شاہد فیضی (سجادہ نشین دربار عالیہ داد والی شریف گوجرانوالہ)
  38. حضرت پیر جان آغا (سجادہ نشین آستانہ عالیہ وئر شریف بھان سعید آباد سندھ)
  39. حضرت پیر صاحبزادہ سعید احمد صابری (سجادہ نشین درگاہ عالیہ حضرت منظور المشائخ اوکاڑہ)
  40. حضرت پیر طارق ولی چشتی صابری (سجادہ نشین درگاہ پیر سید علی حیدر شاہ گیلانی فیصل آباد)
  41. حضرت پیر سید محمد اصغر شاہ گیلانی (سجادہ نشین دربار عالیہ فیض عالم گنجیال شریف خوشاب)
  42. حضرت پیر صاحبزادہ محمد تبسم بشیر اویسی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ مرکز اویسیاں نارووال)
  43. حضرت پیر صاحبزادہ حبیب الرحمن شاہ رحمانی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ رحمانیہ کرم آباد شریف مسّہ کسووال ضلع راولپنڈی)
  44. حضرت پیر اختر رسول قادری (سجادہ نشین آستانہ عالیہ حق باہو سرکار والٹن لاہور)
  45. حضرت پیر صاحبزادہ توصیف النبی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ احمد پور شریف ڈسکہ سیالکوٹ)
  46. حضرت پیر بدر محی الدین گیلانی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ جلالپور جٹاں گجرات)
  47. حضرت پیر ثناء اللہ طیبی بخاری (خلیفہ مجاز دربار عالیہ حضرت کرمانوالہ شریف اوکاڑہ)
  48. حضرت پیر صاحبزادہ سید شاہد محمود ہاشمی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ بھیری شریف حافظ آباد)
  49. حضرت پیر غلام غوث شاہ (سجادہ نشین درگاہ عالیہ اٹل شریف ڈیرہ اسماعیل خان)
  50. حضرت پیر سید قربان حسین شیرازی (سجادہ نشین خانقاہ شیرازیہ پیپلاں میانوالی)
  51. حضرت پیر خواجہ معین الحق چشتی (سجادہ نشین درگاہ عالیہ حضور خواجہ محمداکبر رحمۃ اللہ علیہ بصیر پور اوکاڑہ)
  52. حضرت پیر سید ذاکر سجاد شاہ (سجادہ نشین آستانہ عالیہ خانو ہارنی شریف سؤا آصل ضلع قصور)
  53. حضرت پیر سید محمد اجلال حسنین بخاری (سجادہ نشین آستانہ عالیہ حضرت شاہ ولایت خانپور چکوال)
  54. حضرت پیر سید محمد صفی اعظم (المعروف چن پیر) (سجادہ نشین آستانہ عالیہ سوہدرہ شریف وزیرآباد گوجرانوالہ)
  55. حضرت پیر زاہد صدیق بخاری (سجادہ نشین آستانہ عالیہ بوکن شریف گجرات)
  56. حضرت پیر احمد جمال چشتی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ فرید پور شریف تاندلیانوالہ فیصل آباد)
  57. حضرت پیر خواجہ محمد عارف نقشبندی (المعروف پیر سائیں) (سجادہ نشین درگاہ نقشبندی گوجرہ ٹوبہ ٹیک سنگھ)
  58. حضرت پیر آغا فقیر محمد جان نقشبندی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ ویڑ شریف جامشورو سندھ)
  59. حضرت پیر ڈاکٹر منظور احمد نقشبندی ویڑوی (آستانہ عالیہ ویڑ شریف جامشورو سندھ)
  60. حضرت پیر ڈاکٹر محمد اکرم نقشبندی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ صدر بازار فیصل آباد)
  61. حضرت پیر حاجی محمد افضل (سجادہ نشین آستانہ عالیہ بیربل شریف سرگودھا)
  62. حضرت پیر محی الدین محبوب (سجادہ نشین خانقاہ محبوب آباد شریف حویلیاں ایبٹ آباد سرحد)

پروگرام کے اختتام پر بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے دربار شریف کے سجادہ نشین سلسلہ چشتیہ کی عظیم روحانی شخصیت محترم پیر سید محمد چشتی نے خصوصی دعا فرمائی۔

کانفرنس میں محترم صاحبزادہ حسن محی الدین، محترم صاحبزادہ حسین محی الدین، امیر تحریک محترم صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی، حضرت علامہ سید علی غضنفر کراروی، ناظم اعلیٰ تحریک محترم ڈاکٹر رحیق عباسی، سینئر نائب ناظم اعلیٰ محترم شیخ زاہد فیاض، صدر علماء کونسل پنجاب علامہ امداد اللہ خان قادری و دیگر قائدین تحریک اور ملک بھر سے مشائخ عظام اور پیران کرام نے خصوصی شرکت کی۔

شیخ الاسلام نے اس کانفرنس کی کامیابی کے لئے محنت کرنے والے احباب محترم مسکین فیض الرحمن درانی، محترم مخدوم ندیم احمد ہاشمی سندھ، محترم پیر مشتاق سہروردی سندھ، محترم پیر خلیل الرحمن چشتی، محترم محمد ندیم نقشبندی، محترم سردار منصور، محترم حفیظ بلوچ، محترم پیر تبسم شبیر اویسی، محترم الحاج امداد اللہ خان، محترم میر محمد آصف اکبر، علامہ محمد حسین آزاد اور علامہ سید فرحت حسین شاہ کے لئے بطور خاص کلمات تحسین و تبریک پیش کئے۔