تعمیرِ شخصیت کے روحانی ضابطے (آخری حصہ)

شفا قت علی شیخ

گذشتہ اقساط کا خلاصہ : انسان کو اس دنیا میں ایک خاص مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے تا کہ وہ یہا ں رہ کر ایمان اور اعمالِ صا لح کی روش کو اپنا کر اپنی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کرے اور اسے اخلاقِ حسنہ سے آراستہ و پیراستہ کرے۔ تمام انبیاء کرام کی بعثت کا مقصد بھی یہی تھا۔ اسلام کے دا من میں جتنی بھی عبا دات ہیں ان سب کا مقصود بھی یہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب سب کچھ وا ضح ہے تو پھر انسان بار بار کیوں بہک جاتا ہے اور لو گوں کی اکثریت تعمیر کو چھوڑ کر تخریب کی طرف کیوں چل پڑتی ہے؟ اس کے جو اب میں بہت سی با تیں کہی جا سکتی ہیں۔ لیکن بڑی وجوہات علم کی کمی اور ضبط نفس کا فقدان ہے۔ آ ج کے ایک عام انسان کو ضبطِ نفس کا کوئی آسان فارمولہ دینا ہوگا جو اس کے لیے قا بلِ عمل بھی ہو سکے۔ ہمارے خیال میں اکیسویں صدی کے انسان کے لیے ایسا لائحہ عمل جو ضبطِ نفس کی کیفیت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کی آوارگیوں کو کم کر کے اُسے مخصوص ڈگر پر ڈال کر عروج کی جانب رواں دواں کر دے اور وہ ان چار چیزوں پر مشتمل ہے۔ 1۔ ضبطِ طعام، 2۔ ضبطِ کلام، 3۔ اقامتِ صلوٰۃ، 4۔ نظام الاوقات
ضبطِ طعام اور ضبطِ کلام کے حوالے سے تفصیلی بحث گذشتہ اقساط (شائع شدہ ماہ مئی، جون09ء) میں گزر چکی، اس مضمون کا آخری حصہ نذرِ قارئین ہے :

3۔ اقامتِ صلوٰۃ

ضبّطِ نفس کو حاصل کرنے اور زندگی کی آوارگیوں کو کم کر کے مثبت، تعمیری اور صحت مند بنیادوں پر شخصیت کی تشکیل کا تیسرا نکتہ اقا متِ صلوٰۃ ہے۔ اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے ایمان کے بعد عملی ارکان میں سے پہلا عظیم الشان رکن ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآنِ مجید کے آغاز میں ہی فرما یا گیا :

ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَO

(البقرة : 2، 3)

"(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہےo"

قرآن و حدیث میں جتنی اہمیت اس عمل کی بیان کی گئی ہے اور جتنا زور اس پر دیا گیا ہے کسی اور عمل اور عبا دت پر نہیں دیا گیا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضو ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا :

1. اَلصَّلَاةُ عِمَادُ الدِّيْن.

"نماز دین کا ستون ہے۔"

(اخرج الديلمی، الدر المنثور، قوله تعالیٰ حافظوا علی الصلوات والصلاة الوسطی، جلد 1 ص 708)

2. اَلصَّلٰوةُ عِمَادُ الدِّيْن فَمَنْ اَقَامَهَا فَقَدْ اَقَامَ الدِّيْن وَمَنْ تَرَکَهَا فَقَدْ هَدَمَ الدِّيْن.

(عمدة القاری، باب قوله تعالیٰ منيبين اليه واتقوه واقيموا الصلاة، ج 5 ص 6)

"نماز دین کا دستو ن ہے، پس جس نے اسے قائم کیا اُس نے دین کو قائم کیا اور جس نے اسے ترک کیا اُس نے دین کی عمارت کو گرا دیا۔"

3. آخرت کے اندر بھی نجات اور بخشش کا دار و مدار نماز کے درست ہونے پر ہے۔ حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ

اِنَّ اَوَّلَ مَا يُحَا سِبُ بِه الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ مِنْ عَمَلِه صَلٰوته فَاِنْ صَلَحَتْ فَقَدْ اَفْلَحَ وَ اَنْجَحَ وَاِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَ خَسر.

(سنن ترمذی، باب ماجآء اول مايحاسب، رقم 413)

"قیا مت والے دن بندہ سے سب سے پہلے نما ز کا حساب لیا جا ئے گا۔ پس اگر یہ درست ہوئی تو وہ فلا ح اور نجا ت پا جائے گا اور اگر اس میں بگاڑ ہوا تو وہ ناکام و نامراد ہو جائے گا۔"

اسی طرح ارشاد فرمایا :

4. مَنْ تَرَکَ الصَّلٰوةَ فَلاَ دِيْنَ لَه.

(شعب الايمان، کتاب الطهارة جلد 3، ص 39، رقم 2807)

"جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی اُس کا کوئی دین نہیں۔"

وَ بَيْنَ الْکُفْرِ وَالْاِيْمَانِ تَرَکَ الصَّلوٰة.

(سنن ترمذی، باب ماجآء فی ترک الصلواة، رقم : 2618)

"ایمان اور کفر کے درمیان فرق نماز کے تر ک کرنے کا ہے۔"

ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا :

وَلاَ دِيْنَ لِمَنْ لَاصَلٰوةَ لَه.

(تذکرة الحفاظ، جلد 3، رقم : 781)

"جو شخص نماز نہیں پڑھتا اُس کا دین ہی نہیں ہے۔"

مندرجہ بالا احا دیثِ مبا رکہ سے وا ضح ہوتا ہے کہ نماز زندگی کا مرکز و محور ہے جس کے گرد ایمانی زندگی گھوم رہی ہے۔ ایمانی زندگی کا آغاز بھی نماز سے ہوتا ہے اور اُس کے تمام صلاح و فساد کا دار و مدار بھی نماز پر ہے۔

اسی حقیقت کی طرف اشا رہ کرتے ہوئے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانۂ خلافت میں اپنے عمال کے نام خط میں تحریر فرمایا تھا کہ

ان اهم امور کم عندی الصلاة من حفظها وا حافظ عليها حفظ دينه ومن ضيعها فهو لما لسواها اضيع.

(مصنف عبدالرزاق، باب المواقيت، ج 1، ص 536)

"تمہارے تمام اُمور میں سے میرے نزدیک سب سے اہم ترین عمل نماز کا ہے جس نے اس کی حفاظت کر لی اُس نے بقیہ دین کی بھی حفاظت کر لی۔ جس نے اسے ضا ئع کر دیا وہ بقیہ دین کواس سے بھی زیادہ ضا ئع کرنے وا لا ہے۔"

حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ نما ز ہی ہے جو انسانی کردار کی کمزوریوں اورخامیوں پر قا بو پا کر اُس کی سیرت و کر دار میں ٹھوس تبدیلیاں پیدا کرتی ہے۔ قرآنِ مجید کے اندر نماز کے اسی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ

اِنَّ الصَّلوٰهَ تَنْهیٰ عَنِ الفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ.

(العنکبوت : 45)

"بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔"

فحشا اور منکر کے دو الفاظ اتنے جامع ہیں کہ اخلاقی بگاڑ کی تقریبا ً جملہ صورتیں ان کے اندر آجاتی ہیں۔ چنانچہ نماز کے اندر یہ خاصیت ہے کہ یہ انسان کے اخلاقی بگاڑ کی تمام جہتو ں کو درست کر سکے اور نماز کی یہ خاصیت اتنی یقینی ہے کہ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطا بق وہ نما ز، نماز ہی نہیں ہے جس پر مندرجہ بالا اثرات مرتب نہ ہو رہے ہوں۔

من لم تنهه الصلوته عن الفحشاء والمنکر فلا صلاة له.

(تفسير ابن ابی حاتم، ج 9، ص 3066)

"جس شخص کی نماز اُسے بے حیائی اور بُرائی سے نہ روکے تو اُس کی نماز ہی نہیں ہے۔"

مطلب یہ ہے کہ وہ صورۃً تو نماز پڑھ رہا ہے لیکن اُس کی نماز میں کو ئی نہ کوئی ایسی کمی ضرور ہے جو نماز کی روح اور حقیقت کو بیدار نہیں ہونے دے رہی۔ اور نماز کے حقیقی ثمرات اُسے حاصل نہیں ہو رہے۔

اقامتِ صلٰوۃ کی حکمتیں

نماز کے حوا لے سے یہ بات بڑی اہم ہے کہ قرآنِ مجید نے نماز پڑھنے کی بجائے قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس میں بطورِ خاص دو حکمتیں بیان کی گئی ہیں :

1۔ اگر نماز پڑھنے کا لفظ استعمال کیا جاتا تو اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا تھا کہ محض ایک مرتبہ یا چند مرتبہ پڑھ لی ہے تو کافی ہے۔ لیکن قیام کا لفظ اپنے اندر ثبات اور دوام کی کیفیت لیے ہوئے ہے۔ یعنی نماز ایک ایسا عمل ہے جو زندگی بھر پر محیط ہے اور اسے جاری و ساری رہنا ہے۔

2۔ اگر محض پڑھنا کہا گیا ہوتا تو اس سے مراد محض پڑھنا لیا جاتا۔ جیسے بھی پڑھ لی لیکن قائم کرنے کے مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ نماز کو تمام ظاہری اور باطنی آداب، شرائط اور تقاضوں کے ساتھ ادا کرنا ہے۔

مندرجہ بالا گفتگو کی روشنی میں یہ بات بخوبی سمجھ میں آجاتی ہے کہ آج ہماری نمازیں بے اثر کیوں ہو گئی ہیں اور آج ہماری مسجد والی زندگی اور معاشرتی زندگی میں اتنا تضاد کیوں آ گیا ہے کہ ہم جب مسجد میں ہوتے ہیں تو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جھک رہے ہوتے ہیں، اُس بارگاہ میں پیمانِ عہد و وفا باندھ رہے ہوتے ہیں اور اُس کی بندگی کا اقرار کر رہے ہوتے ہیں لیکن جب باہر آتے ہیں تو وہاں مکمل طور پر نفس کے بندے بن جاتے ہیں اور اللہ رب العزت کی رضا کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے ذوق اور خواہشات پر عمل کرتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نماز کی حرکات و سکنات اور الفاظ و کلمات کو عموماً زندہ اور بیدار شعور کے ساتھ ادا نہیں کرتے بلکہ ایک رسم اور عادت کے طور پر بجا لاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُس کے جو اثرات قلب و باطن اور شخصیت و کردار پر مرتب ہونا چاہییں تھے وہ نہیں ہو پاتے۔

نماز، ظاہری امراض سے نجات کا سبب

نماز کے دینی اور ایمانی پہلو سے ہٹ کر بھی دو ایسے پہلو ہیں کہ اُن جہتوں سے بھی نماز ایک عظیم الشان عمل بن جاتی ہے۔

1۔ آج کی دنیا میں جسمانی و ذہنی صحت (Fitness) کے لیے ورزش کو ایک لازمی عنصر قرار دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے مختلف افراد کے لیے اُن کی عمر، جنس اور جسمانی حالت کے مطابق مختلف قسم کی ورزشیں ترتیب دی جاتی ہیں لیکن نماز کے حوالے سے یہ بات کسی بھی قسم کی مبالغہ آرائی کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ یہ ایک ایسی ورزش ہے جو ہر عمر اور ہر جنس کے افراد کے لیے یکساں طور پر مفید ہے۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جو نماز کے علاوہ شاید ہی دنیا کی کسی ورزش میں اس انداز میں پائی جاتی ہو۔

2۔ آج کی دنیا میں نفسیاتی امراض کا بہت چرچا ہے اور ان کے حل کے لیے جو طریقہ ہائے علاج ہیں ان کے اندر ایک نمایاں اہمیت کا حامل مراقبہ ہے۔ مراقبہ کی بہت ساری قسمیں ہیں اور آج مغرب اور یورپ کے ممالک میں بڑی فراوانی کے ساتھ مراقبہ کو نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے اختیار کیا جارہا ہے۔ جب ہم نماز کا مراقبہ والی جہت سے جائزہ لیتے ہیں تو یہاں پھر مراقبہ کی تھیوری (Tneory) اور اُس کی مختلف اقسام کو دیکھ کر ہمیں یہ کہنا پڑتا ہے کہ نماز، مراقبہ کی بہترین عملی شکل ہے جو تمام افراد کے لیے یکساں طور پر مفید ہے۔

مذکورہ بالا دونوں جہتوں سے بھی نماز کے اثرات کو مکمل طور پر حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نماز محض پڑھنے کے درجے میں نہ ہو بلکہ اقامت کے درجے میں ہو۔

نماز کے حوالے سے اب تک کی ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ تعمیرِ شخصیت کے اندر نماز کے کردار کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے تعمیرِ شخصیت میں مؤثر عامل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن شرط یہی ہے کہ نماز کو صحیح معنوں میں اقامت کے درجے میں لیا جائے۔

اقامتِ صلٰوۃ کے تقاضے

اس حوالے سے جو کچھ اولیاء و صوفیاء نے کہا اور کر کے دکھایا وہ سب کچھ تو آج کے دور کے عام انسان کے لیے کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے اور نہ اس کی توقع رکھنی چاہیے۔ تاہم Something is better than nothing کے اُصول کے مطابق عام آدمی نماز پر کچھ محنت کر کے اسے کافی بہتر بنا سکتا اور اس کے اثرات سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں کافی مدد تو ضبّطِ طعام اور ضبّطِ کلام سے انسان کو مل سکتی ہے۔ اگر اُن دو ضابطوں کو انسان اچھی طرح سے اپنا لے تو قلب و باطن میں کافی ٹھہراؤ آجاتا ہے اور ذہنی یکسوئی اور ارتکاز بڑھ جاتا ہے جس سے نماز میں دھیان کو مرکوز رکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھ کر نماز کے معیار کو کافی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

(i) باجماعت اور بروقت ادائیگی

پہلا ضابطہ یہ ہے کہ نماز کو ایک عظیم الشان عمل سمجھتے اور اسے مکمل اہمیت دیتے ہوئے حتی الوسع وقت کی پابندی کے ساتھ با جماعت ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس حوالے سے خاص احتیاط یہ کی جائے کہ اذان کی آواز کان میں پڑتے ہی تمام سرگرمیوں (Activities) کو سمیٹ کر نماز کے لیے تیاری شروع کر دی جائے۔ تاکہ ذہن آہستہ آہستہ نماز کے لیے تیار ہونا شروع ہو جائے اور نماز کے اثرات کو جذب کرنے کے قابل ہونے لگے۔ وجہ یہ ہے کہ دنیوی مصروفیات میں کھو کر اُن کے جو اثرات قلب و باطن پر مرتب ہوتے ہیں اُن سے یکدم ذہن کو خالی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ لہذٰا اگر انسان بھاگم بھاگ وقت بے وقت نماز ادا کرنے جائے تو اُس کے لیے فوری طور پر ممکن ہی نہیں ہوتا کہ وہ ذہن کو تمام دنیوی خیالات سے خالی کر کے نماز کی طرف لگا دے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جسم جائے نماز پر ہوتا ہے اور ذہن دنیا کے دھندوں میں اُلجھا ہوا ہوتا ہے۔ لہذٰا نماز سے پہلے نماز کے لیے تیاری بہت ضروری ہے اور اُس کے لیے آخری حد اذان کی آواز ہے کہ اُسے سنتے ہی تمام مصروفیات کو چھوڑ کر نماز کی طرف رجوع کرے۔

(ii) ارتکاز اور یکسوئی

دوسرا ضابطہ یہ ہے کہ نماز کے اندر جسم کو سیدھا رکھنا اور نگاہوں کو ایک نکتے پر مرکوز رکھنا۔ یہ دونوں باتیں نماز کے اندر یکسوئی پیدا کرنے کا بہت اہم ذریعہ ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جب جسم ڈھیلا ڈھالا ہو گا یا متحرک ہوگا تو خیالات میں بھی ڈھیلا پن آجائے گا۔ اسی طرح جب نگاہیں بھی ایک نکتے پر مرکوز نہ ہوں تو خیالات کو بھی ایک نکتے پر مرکوز رکھنا بہت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے نماز کی مختلف حالتوں میں نگاہوں کو مرکوز کرنے کے مختلف پوائنٹس مقرر کئے ہیں۔ اُن کا مقصد یہی ہے کہ نگاہوں کے ارتکاز کے ذریعے خیالات کو مرتکز کیا جائے۔ نیز نماز کے اندر خواہ مخواہ ہلنے جلنے اور بغیر کسی اشد مجبوری کے ہاتھوں کو حرکت دینے کو ناپسند کیا گیا ہے۔ اس میں فلسفہ یہی ہے کہ جتنا زیادہ جسم سکون کی حالت میں ہو گا اُتنا ہی خیالات میں یکسوئی پیدا کرنا آسان ہو جائے گا۔

(iii) معنیٰ و مفہوم پر غور و فکر

تیسرا ضابطہ یہ ہے کہ نماز میں پڑھے جانے والے الفاظ کے معانی یاد کیے جائیں اور الفاظ کو رٹے رٹائے انداز میں پڑھنے کی بجائے معانی کی طرف دھیان کرتے ہوئے تفکر و تدبر کے ساتھ ادا کیا جائے۔ اس میں ایک خاص راز یہ بھی ہے کہ انسانی ذہن ایک ہی وقت میں دو مختلف چیزوں کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتا۔ لہذٰا جب ذہن الفاظ اور اُن کے معانی کے متعلق سوچ رہا ہو گا تو اُس کے لیے ارد گرد کے آوارہ خیالات میں بھٹکنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔

مندرجہ بالا تینوں اُصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو نماز کا معیار کافی بہتر ہو سکتا ہے اور انسانی زندگی پر اُس کے اثرات کافی بڑھ سکتے ہیں۔

4۔ نظام الاوقات

تعمیرِ شخصیت کے سفر کا چوتھا اور آخری ضابطہ نظام الاوقات ہے۔ نظام الاوقات کا مطلب ہے مختلف کاموں کی انجام دہی کے لیے اوقات کو متعین کرنا اور پھر حتی الوسع اُن کی پابندی کرتے ہوئے کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا۔ نظام الاوقات کی انسانی زندگی میں کیا اہمیت ہے اور یہ تعمیرِ شخصیت کے حوالے سے کیا کردار ادا کرتا ہے۔ آیئے اس سے قبل انسانی زندگی میں وقت کی اہمیت کو جانتے ہیں۔

وقت کی اہمیت

وقت، اللہ جل مجدہ کی ایک ایسی نعمت ہے جو امیر و غریب، عالم و جاہل اور چھوٹے بڑے کو یکساں ملی ہوئی ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو انسان کی زندگی وقت کے علاوہ کسی چیز کا نام نہیں ہے۔ انسان کو جتنی بھی زندگی کی مہلت یہاں ملی ہوئی ہے وہ ساری کی ساری وقت کی اکائیوں سے ہی عبارت ہے، جہاں وقت ختم ہو جاتا ہے وہاں ہر چیز ختم ہو جاتی ہے۔ وقت کو اس کائنات کی روح بھی کہہ لیا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔ ہر دور کے علماء و عقلاء اس بات پر متفق رہے ہیں کہ انسان کی سب سے اہم پونجی جس کو بچا بچا کر استعمال کرنا چاہیے، وقت ہے۔ لمحاتِ زندگی فراہم کرنے والا وقت در حقیقت بہت بڑی غنیمت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی کوئی بھی دولت سونا، چاندی، ہیرے، جواہرات وغیرہ وقت کی برابری نہیں کر سکتے۔ دنیا کی ہر دولت کو کھونے کے بعد بھی اس بات کا امکان رہتا ہے کہ انسان اُسے دوبارہ پالے بلکہ بسا اوقات اُس سے بھی زیادہ حاصل کر سکتا ہے لیکن وقت ایک ایسی دولت ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اس کا ایک لمحہ کسی قیمت پر واپس نہیں لاسکتا۔

انسان دنیا میں جتنی بھی کامیابیاں حاصل کر تا ہے اور جو بھی کارہائے نمایاں سر انجام دیتا ہے وہ سب کے سب وقت کے بہترین استعمال کے ہی مرہونِ منت ہوتے ہیں۔ وقت سے اچھے طریقے سے کام لینے والے اس تھوڑی سی زندگی میں موجد بن گئے۔ دین و دنیا کے مالک بن گئے۔ اس کے برعکس جتنے مفلوک الحال اور قابلِ ترس لوگ دکھائی دیتے ہیں یہ سب کے سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں وقت کو ضائع کیا ہوتا ہے۔ گویا وقت کو ضائع کرنا صرف وقت کو ضائع کرنا ہی نہیں ہے بلکہ خود اپنے آپ کو اور اپنی زندگی کو ضائع کرنا اور اپنے مستقبل کو تباہ کرنا ہے۔ لہذٰا دین، دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیوں، کامرانیوں، سعادتوں اور بھلائیوں کا دارومدار صرف اور صرف وقت کے بہترین استعمال پر منحصر ہے۔ دنیا میں جس قدر کامیاب و کامران ہستیاں گذری ہیں اُن کی کامیابی اور ناموری کا راز صرف وقت کی قدر اور اُس کا صحیح استعمال تھا۔ وقت ایک ایسی زمین ہے کہ اگر اس میں سعی کامل کی جائے تو یہ پھل دیتی ہے۔ بے کار چھوڑ دی جائے تو خار دار جھاڑیاں اُگاتی ہے۔ ۔ ۔ یا پھر وقت خام مصالحہ کی مانند ہے جس سے جو چاہیں بنایا جا سکتا ہے اور اگر اسے یونہی چھوڑ دیا جائے تو ضائع ہو جائے گا۔ ۔ ۔ یا پھر وقت کی مثال کڑکڑاتی دھوپ میں رکھے ہوئے برف کے اُس بلاک کی ہے جس سے، اگر فائدہ اُٹھا لیا جائے تو ٹھیک ورنہ اُس نے تو بہرحال پگھل ہی جانا ہے۔

وقت کی اس اہمیت کے پیشِ نظر قرآن و حدیث میں بھی جا بجا وقت کی قدر و قیمت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ

(العصر : 1، 2)

"زمانے کی قسم، انسان گھاٹے میں ہے"

یہاں انسان کے حوالے سے ایک بات کہنی تھی اُس سے پہلے زمانے کی قسم کھائی گئی اور زمانہ وقت سے ہی عبارت ہے۔ اسی طرح مختلف مقامات پر مختلف اوقات مثلاً صبح، دوپہر اور رات کے اوقات کی قسمیں کھائی گئی ہیں جو وقت کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی مختلف اسالیب اور پیرائے میں وقت کی قدر و قیمت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

نعمتانِ و مغبون فيها کثير من الناس. الصحة والفراغ

(جامع ترمذی، کتاب الزهد، باب الصحة والفراغ، ج 4، ص 55)

"دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے متعلق اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں۔ صحت اور فراغت"

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اِغتنم خمساً قبل خمس : حياتک قبل موتک، وصحتک قبل سُقْمِک، وفراغک قبل شُغلِک و شبابک قبل هرمک و غناک قبل فقرک.

(کشف الخفاء، ج 1، ص 166، رقم : 436)

"پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جان۔ زندگی کو موت سے پہلے، صحت کو مرض سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے اور امارت کو غربت سے پہلے"

مندرجہ بالا آیات و احادیثِ مبارکہ وقت کی اہمیت و افادیت کو کسی نہ کسی رنگ میں بیان کر رہی ہیں کہ انسان کو وقت کی قیمتی متاع سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے اور وقت کی صورت میں ملی ہوئی مہلت کے ایک ایک لمحے سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے تاکہ وہ دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل کر سکے۔

جہاں تک نظام الاوقات کی اہمیت کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ فقط اس ایک بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ کائنات کا سارے کا سارا نظام وقت کی پابندی کے ساتھ چل رہا ہے۔ خاص موسموں میں خاص فصلوں کا اُگنا، موسموں کا تغیر و تبدل، رات اور دن کا آنا جانا، سورج، چاند، ستاروں کا طلوع و غروب ہر چیز ایک خاص ضابطے کے تحت ہو رہی ہے۔ اسی طرح انسان کی پیدائش اور موت کا بھی وقت مقرر ہے۔

وَ لَنْ يُّؤَخِّرَ اﷲُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَا.

"اور اللہ ہرگز کسی نفس کو مہلت نہیں دے گا جب اُس کا مقررہ وقت آجائے گا۔" (المنٰفقُون : 11)

شریعت کے جتنے احکام ہیں وہ سب کے سب وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہیں۔ نماز اپنے مقررہ اوقات کے ساتھ فرض ہے۔

اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ کِتٰابًا مَّوْقُوْتًا.

(النساء : 103)

"بے شک نماز مومنین پر مقررہ وقتوں میں فرض کی گئی ہے"

اسی طرح روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ ہر چیز کے لیے اوقات مقرر ہیں۔ کائنات کا یہ سارا نظام اپنے دامن میں انسان کے لیے یہ زبردست سبق لیے ہوئے ہے کہ اُسے بھی اپنی زندگی کی جملہ حرکات و سکنات کو نظام الاوقات کا پابند بنانا چاہیے۔

انسانی زندگی اور نظام الاوقات

وقت کی اہمیت کو دیکھنے کے بعد اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ نظام الاوقات کی انسانی زندگی میں کیا اہمیت ہے اور دن رات کے اوقات اور لمحات کو مختلف سرگرمیوں کے حوالے سے تقسیم کرنا کیوں ضروری ہے؟

نظام الاوقات کی اہمیت دو جہتوں سے ہے۔

1۔ ایک تو یہ کہ نظام الاوقات کی تشکیل کے بغیر وقت کو بہترین انداز میں استعمال کرنا ممکن ہی نہیں ہے اور جب تک وقت کو بہترین انداز میں استعمال نہ کیا جائے کامیابی کی کسی اعلیٰ منزل کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

2۔ نظام الاوقات کی افادیت کی دوسری جہت یہ ہے کہ جب تک انسان کے اوقات منظم (Manage) نہ ہوں اُس کی زندگی منظم نہیں ہو سکتی۔ زندگی کے اندر آوارگیاں ہوتی ہیں۔ انتشار اور پراگندگی ہوتی ہے، سفلی خواہشات اور پست جذبات کی تکمیل ہوتی ہے۔ نتیجۃً زندگی عروج کی طرف سفر کرنے کی بجائے زوال کی طرف چل پڑتی ہے۔

نسان کتنا ہی دانا و حکیم ہو وہ اپنے اخلاق کو اُس وقت تک بہتر نہیں بنا سکتا جب تک اپنی فرصت کے ہر لمحہ کو کا م میں نہ لائے۔

بہت بڑا نقصان اور خسارا جو بے کاری اور وقت کے ضیاء سے ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بیکار آدمی کے خیالات ناپاک اور زبوں ہو جاتے ہیں اور وہ طرح طرح کے جسمانی و روحانی عوارض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ حرص و لالچ، ظلم و ستم، جوا، زنا اور شراب نوشی عموماً وہی لوگ کرتے ہیں جو معطل اور بے کار رہتے ہیں۔ جب تک انسان کی طبیعت اور دل و دماغ نیک اور مفید کام میں مصروف نہ ہوگا اس کا رجحان گناہ کی طر ف رہے گا۔ پس انسان اسی وقت صحیح انسان بن سکتا ہے جب وہ اپنے وقت پر نگران رہے، ایک لمحہ بھی فضول نہ کھوئے، ہر کام کے لئے ایک وقت اور ہر وقت کے لئے ایک کام مقرر کردے۔

لہٰذا ایک طرف تو وقت سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لیے نظام الاوقا ت کی تشکیل اشد ضروری ہے تو دوسری طرف انسانی زندگی کی آوارگیوں کو ختم کرنے اور اسے منفی خیالات، خواہشات، پست جذبات اور تخریبی عادات کی بھینٹ چڑھ جانے سے بچانے کے لیے بھی زندگی کا نظام الاوقات کا پابند ہونا ضروری ہے۔

نظام الاوقات کی تشکیل

1۔ نظام الاوقات کی تشکیل کے حوالے سے پہلی اہم بات تو یہ ہے کہ انسانی زندگی بہت مختصر ہے اور کا م بہت زیا دہ ہیں۔ ہر شخص مختصر سی زندگی میں سب کچھ نہیں کر سکتا ہے۔ اور اللہ رب العزت بھی اپنے بندوں پر طاقت سے بڑھ کر بو جھ نہیں ڈالتا ہے۔

لَا يُکَلِّفُ اﷲُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا

(البقرة : 286)

"اللہ کسی جان پر اُس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔

"دوسری جگہ ارشاد فرمایا :

يُرِيْدُ اﷲُ بِکُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُبِکُمُ الْعُسْرَ.

"اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ کرتا ہے اور وہ تمہارے ساتھ مشکل کا ارادہ نہیں کرتا ہے۔" (البقرہ : 185)

لہٰذا ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ زندگی میں کیا کچھ اہم ہے اورکیا غیر اہم ہے؟ پہلے اہم کا موں کو سرانجام دینا چاہیے پھر اُن سے جو وقت بچ جائے وہ کم اہم یا غیر اہم کاموں میں لگانا چاہیے۔

2۔ نظا م الاوقات کے حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ انسانی زندگی حوادثات و سانحات سے عبارت ہے۔ زندگی کا سفر کبھی ہموار راستوں پر طے نہیں ہوتا بلکہ یہاں نشیب و فراز ہیں، ناہمواریاں ہیں، مشکلات و مصائب ہیں، مخالفتیں اور مزاحمتیں ہیں، اُلجھنیں اور تکالیف ہیں، بے شمار ایسے غیراختیاری اُمور ہیں جو انسان کے سارے منصوبوں کو خاک میں ملا دیتے ہیں اور اُس کے نظام الاوقات کو متاثر (Disturb) کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اُس کے لیے اپنے طے شدہ لائحہ عمل پر چلنا ممکن نہیں رہتا۔ تا ہم اس سب کچھ کے باوجود اُسے لائحہ عمل کا تعین بھی کرنا ہے اوراُس پر حتی الو سع چلنے کی کو شش بھی کرنا ہے۔ اُسے خارجی ناخوشگواریوں کے اندر سے ہی حکمت، دانائی، تدبر اور تفکر سے اپنے لیے راستہ نکالنا ہے اورSome thing is better than nothing کے مقو لے کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے جس حد تک بھی ممکن ہو سکے اپنے آپ کو نظم و ضبّط کا پابند بنانا ہے تا کہ وہ زندگی کے بازار میں زندگی کی زیادہ سے زیادہ قدر و قیمت وصول کر سکے۔

نظام الاوقات کے ضابطے

نظام الاوقات کے حوالے سے آخری اہم بات یہ ہے کہ اگر انسان درج ذیل تین ضابطوں کو بنیادی اہمیت دیتے ہوئے اُن کے حوالے سے وقت کی پابندی کو بطورِ خاص اپنا شعار بنا لے تو پھر بقیہ معاملات کو منظم کرنا قدرے آ سا ن ہو جاتا ہے۔

1 - نمازوں کے اوقات کی پابندی :

حتی الوسع ہر نماز کو اُس کے مقررہ وقت میں جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی کو شش کرے۔ اس سے انسانی زندگی میں بہت زیادہ ڈسپلن آتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جتنا زیادہ انسان اپنی نمازوں کے اوقات منضبط کرتا جاتا ہے اتنا ہی انسان کی دیگر سرگرمیاں نظم و ضبط کے دائرے میں آتی جاتی ہیں۔

2- کھا نے کے اوقا ت کی پا بندی :

کھا نے کے لیے اوقات مقرر کر نے اور حتی الوسع اُن کی پابندی کر نے سے بھی زندگی میں نظم و ضبّط آتا ہے۔

3- سو نے جا گنے کے اوقات کی پا بندی :

تیسرا ضابطہ سونے جاگنے کے اوقات کو مقرر کرنا اور حتی الوسع ان کی پابندی کرنا۔ ایسا کرنے سے بھی انسان کی وقت پر گرفت مضبوط ہوتی ہے اور اوقات کو منضبط کرنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ بالخصوص رات کو جلد سونے اور صبح کو جلد اٹھنے کی عادت ڈالنا اور اس پر باقاعدگی اور دوام اختیار کرنا بھی انسان کو اپنے اوقات کو بہتر طریقے سے استعمال میں لانے پر معاون ثابت ہوتا ہے۔

مندرجہ بالا تین چیزوں کو انسان جتنا مضبوطی سے تھام لے گا اُتنا ہی بقیہ اوقات کی پابندی آسان ہوتی چلی جائے گی اور وقت کا بہتر استعمال ممکن ہوتا جائے گا۔

خلاصۂ کلام

تعمیر شخصیت کے مندرجہ بالا چاروں اصول انسانی زندگی میں اخلاق حسنہ کی عمارت کی تشکیل کے لئے بنیادوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن کے اوپر اچھے اخلاق کی عمارت آسانی کے ساتھ تعمیر کی جا سکتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان پر عمل کرنے سے ایک طرف تو انسان کے اندر آہستہ آہستہ ضبط نفس بڑھتی چلی جاتی ہے جس سے وہ اندرونی و بیرونی طور پر مضبوط سے مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کے لئے اپنے اندر کے منفی جذبات، خیالات اور خواہشات و رجحانات پر قابو پانا اور طبیعت کو عقل اور عقل کو وحی کے تابع کرنا آسان ہوتا چلا جاتا ہے جو کہ شریعت کا مقصود ہے۔ دوسری طرف اس پروگرام پر عمل پیرا ہونے سے انسانی زندگی کی آوارگیاں کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں انسان کے لئے اپنی صلاحیتوں، توانائیوں اور استعدادوں کو دریافت کرنا، بہتر بنانا اور انہیں اپنی اور اپنے ماحول کی اصلاح کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کرنا آسان ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ان اصولوں کو نظر انداز کر کے اخلاقی تعلیمات کی حیثیت خوبصورت فلسفوں سے زیادہ نہیں رہ جاتی جو ذہنوں اور زبانوں پر تو ہوتے ہیں لیکن عمل کا حصہ نہیں بن پاتے اور زندگی قول اور فعل کے تضاد کا شکار ہو کر بے سکونی و بے اطمینانی کی آگ میں جلتی رہتی ہے۔

ان اصولوں کے حوالے سے دو باتیں اہم ہیں۔

ایک یہ کہ ان میں تربیت بہت اہم ہے۔ پہلا ضابطہ دوسرے کے لئے زینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرا تیسرے کے لئے اور تیسرا چوتھے کے لئے زینے کا کام دیتا ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسروں پر اثر انداز ہوتا ہے یعنی یہ چاروں آپس میں اس طرح مربوط ہیں کہ کسی بھی ایک پر عمل دوسروں کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔ اور اس طرح ان چاروں کے اجتماع سے تعمیر شخصیت کا ایک ایسا تاج تعمیر ہوتا ہے جسے انسان اپنے سر پر سجا کر اپنی شخصیت کے حسن اور دلکشی میں اضافہ کر سکتا ہے اور اپنی دنیا و آخرت کو سنوار سکتا ہے جو کہ اسلام اور ایمان کا مقصود ہے۔

المنہاج السوی کی قبولیتِ عامہ

عقائد، عبادات، معاملات، حقوق، مناقب اور دیگر اہمیت کے حامل موضوعات پر 1100 منتخب احادیث کے مجموعہ پر مشتمل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تالیف ’’المنہاج السوی‘‘ ہر خاص و عام حلقہ میں تیزی سے قبولیت کے مدارج طے کر رہی ہے۔ جہاں اس کتاب کو ہمہ جہتی افادیت، جدید اسلوب اور عمدہ تحقیق و تخریج کے پیش نظر عالمِ عرب کے علمی و فکری حلقوں میں بے حد پذیرائی حاصل ہے، جس کا ثبوت اس مجموعہ حدیث کے شروع میں لکھی گئیں تقاریظ ہیں۔ وہاں پاک و ہند میں بھی یہ کتاب اس سے بھی کہیں زیادہ قبولیت عامہ کی انتہائی حدوں کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے۔

حال ہی میں چنائی (بھارت) میں واقع عریبک کالج ’’دارالعلوم الکلیۃ العربیہ الجمالیہ‘‘ (Darul uloom Jamalia arabic College) (الحاق شدہ مدراس یونیورسٹی) نے اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر اسے اپنے باقاعدہ نصاب میں شامل کیا ہے۔ کالج پرنسپل محترم نیاز احمد ’’المنہاج السوی‘‘ کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ

’’ہم نے اس کتاب کو اہل سنت کے جملہ عقائد کے مستند دلائل پر مشتمل نہایت ہی فائدہ مند پایا۔ نئے تراجم الابواب قائم کئے گئے ہیں جن کی بناء پر قاری کو احادیث کی تلاش میں مشکل پیش نہیں آتی۔ یہ کتاب اہل سنت پر ہونے والے جملہ اعتراضات کے جوابات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ پس ہم نے اس کتاب کی اسی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر اسے اپنے باقاعدہ نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس خوبصورت مشن میں ان کے دست و بازو بن سکیں‘‘۔

یاد رہے کہ یہ عریبک کالج الحاج علامہ جمال محی الدین رحمۃ اللہ علیہ نے 1898ء میں قائم کیا تھا۔ 1967ء میں مدراس یونیورسٹی سے اس کا الحاق ہوا۔ یہاں کے فارغ التحصیل سکالرز پورے بھارت میں متعدد مقامات پر اسلام کی حقیقی تعلیمات کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔