الحدیث : شفقتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشقِ صحابہ رضی اللہ عنہم

علامہ محمد معراج الاسلام

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں :

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اِنَّمَا مَثَلِیْ وَمَثَلُ اُمَّتِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اِسْتَوْقَدَ نَارًا فَجَعَلَتِ الدَّ وَابُّ وَالْفَرَاشُ يَقَعْنَ فِيْهِ فَاَنا آخِذٌ بِحُجَزِکُمْ وَاَنْتُمْ تَقَحَّمُوْن فِيْهِ.

(مسلم شريف، 2 : 248)

’’میری اور میری امت کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے آگ جلائی، تو پروانے اور پتنگے آ کر اس میں گرنے لگے۔ میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر کھینچتا ہوں اور تم اس میں چھوٹ چھوٹ کر گرتے ہو‘‘۔

شرح و تفصیل

بے غرض اور خلوص و شفقت سے بھری ہوئی محبت، ایک ایسی چیز ہے جو جس سے کی جائے اسے بندۂ بے دام بنا دیتی ہے اور محبوب بھی اپنے چاہنے والے سے ٹوٹ کر پیار کرنے لگتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب یہ احساس ہوا کہ ان کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو نہ صرف کفر کی دلدل سے نکالا اور اللہ سے ملایا ہے بلکہ ان کے ساتھ بے انتہاء پیار بھی کرتے ہیں تو وہ بھی دل وجاں سے پیار کرنے لگے اور محبت کی انتہائی حدوں کو چھولیا اور جریدہ عالم کے صفحات پر وہ کچھ ثبت کیا، تاریخ انسانی میں جس کی مثال نہیں ملتی۔

خدا رحمت کند ایں عاشقاں پاک طینت را

ہم شفقت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشق صحابہ رضی اللہ عنہم کی کچھ نادر مثالیں پیش کرتے ہیں جو اپنے وقت کی زندہ جاوید حقیقتیں ہیں۔

امت پر شفقت کی ایک جھلک

اللہ پاک نے اپنے بندوں کو بتایا اور احساس جتایا ہے کہ اس نے اپنے محبوب کو بے حد نرم دل اور شفیق و مہربان بنایا ہے، وہ اپنی امت کے لئے سراپا رحمت و کرم ہیں، اس کی تکلیف، کسی بھی قسم کی سختی اور شدت انہیں ناگوار گزرتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے :

الف : فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ.

(آل عمران : 159)

’’یہ اللہ پاک کی خاص رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں‘‘۔

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :

ب : لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُوْمِنِيْنَ رَؤُفٌ رَحِيْمٌ.

(التوبة : 128)

’’بے شک تمہارے پاس تم ہی میں سے، عظیم الشان رسول تشریف لائے، جو چیز تمہیں مشقت میں ڈالے، وہ انہیں بہت ناگوار گزرتی ہے تمہاری بھلائی کے بہت ہی متمنی ہیں۔ مومنوں پر بہت ہی مہربان و رحیم ہیں‘‘۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر میں پیدا کردہ اسی شفقت و رحمت کا اثر تھا کہ صرف نیک اور پرہیزگار لوگ ہی آپ کے پیش نظر نہ تھے، بلکہ گناہ گاروں پر بھی نظر کرم تھی تاکہ وہ رحمت و مغفرت سے محروم نہ رہیں اور فرمانبرداروں کے ساتھ وہ بھی رحمت میں سے حصہ حاصل کر لیں۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

خَيِّرْتُ بَيْنَ الشَّفَاعَةِ و بين ان يدخل نصف امتی الجنة فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ لِاَنَّهَا اَعَمُّ وَاَکْفٰی اَتَرَونَهَا لِلْمُتَّقِيْنَ؟ لَا وَلٰکِنَّهَا لِلْمُذْنِبيْنَ الْخَطَّائِيْنَ الْمُتَلَوِّثِيْنَ.

(ابن ماجه، کتاب الزهد)

’’مجھے شفاعت اور نصف امت جنت میں داخل کرنے کے درمیان اختیار دیا گیا، (کہ چاہے تو آدھی امت بخشوا لیں، چاہے شفاعت کا اختیار لے لیں) میں نے شفاعت کو اختیار کرلیا ہے۔ (اے میرے غلامو!) کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ صرف متقی لوگوں کے لئے ہے؟ نہیں، یہ گناہوں اور خطاؤں کی گندگی میں لتھڑے ہوئے لوگوں کے لئے ہے‘‘۔

حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری امت پیاری ہے، خواہ وہ گناہ گار ہی ہو، اسی لئے شفاعت کو اختیار فرمایا تاکہ انہیں بھی بخشوایا جا سکے۔ اگر آدھی امت کو بخشوا لیتے تو باقی آدھی امت کدھر جاتی، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بے یار و مددگار چھوڑنا پسند نہیں فرمایا۔

پس امت کا بھی فرض ہے کہ سچی امت بن کر رہے اور فرمانبردار بنے، جس کا سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا ہے اور جس مقصد کے لئے تشریف لائے ہیں، صرف منہ زبانی امت بننے کی کوشش نہ کرے۔

ہر فردِ امت سے محبت

اس حدیث پاک اور چشم دید واقعہ کے راوی، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو آیات کی تلاوت فرمائی، جس میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور جناب عیسیٰ علیہ السلام کی التجاؤں کا ذکر ہے، جو انہوں نے اپنی اپنی امت کے بارے میں اللہ کے حضور کیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اپنی امت یاد آگئی اور اس کے گناہوں کے خیال سے آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور بے ساختہ زبان پر ’’امتی، امتی‘‘ کے الفاظ جاری ہوگئے کہ مولیٰ تعالیٰ! میری امت کو بخش دے۔

فَقَالَ اللّٰهُ تَعالیٰ : يَا جِبْرِيْلُ، اِذْهَبْ اِلٰی محمدٍ وَرَبُّکَ اَعْلَمُ، فَسَلْهُ مايُبْکِيْهِ؟.

’’اللہ تعالیٰ نے جبریل کو فرمایا : ’’اے جبریل، میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا، حالانکہ تیرا رب سب کچھ جانتا ہے، پھر بھی اس سے پوچھ! وہ کیوں رو رہے ہیں؟‘‘

حضرت جبرائیل امین علیہ السلام، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تشریف لائے، اور اللہ کے حکم کے مطابق، رونے کی وجہ پوچھی، آپ نے ساری وجہ بتا دی۔ اللہ پاک نے جبریل امین کو فرمایا :

اِذْهَبْ اِلٰی محمد، فَقُلْ اِنَّا سَنُرْضيک فی اُمَّتِک وَلَا نَسُوْءُ کَ. (مسلم شريف، 1 : 113)

’’میرے محبوب کے پاس جاؤ اور کہو، آپ کی امت کے معاملے میں ہم آپ کو خوش کر دیں گے اور ناراض نہیں ہونے دیں گے‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اِذًا وَاللّٰهِ لاَ اَرْضٰی وَ واحِدٌ مِنْ اُمَّتِیْ فِی النَّارِ. (قرطبی، 20. 96)

’’اللہ کی قسم! اگر میرا ایک امتی بھی دوزخ میں ہوا تو میں راضی نہیں ہوں گا‘‘۔

2۔ ایک موقعہ پر اسی قسم کا ایک اور واقعہ بھی پیش آیا، جس سے اندازہ ہوا کہ سرکار نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری امت پیاری ہے، ایک عاشق دیہاتی تشریف لائے، اپنے عشق میں سچے اور خلوص و وفا کا پیکر تھے، لیکن آزاد دیہاتی ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے عام آداب و تعلیمات سے ناواقف تھے۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آتے ہی ایک عجیب انداز میں اپنی محبت کا اظہار کیا، جو ان کے بھولپن اور سچی عقیدت کا مظہر تھی، بڑی سادگی سے سب کے سامنے کہا :

’’اے اللہ مجھ پر اور محمد پر رحم کر اور کسی پر رحم نہ کر‘‘۔

اسے اپنے محبوب کے سوا اور کچھ نظر ہی نہیں آرہا تھا اور یہی ایک سچے عاشق کے جذبات ہوتے ہیں، بلکہ وہ تو اپنے محبوب کے سوا کسی اور کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ ایک ایسے ہی باکمال عاشق تھے۔ وہ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ بیٹے نے آخر یہ روح فرسا خبر سنائی کہ

’’ابا جان! ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوگیا ہے‘‘۔

یہ جانکاہ خبر سن کر ان کے ہوش اڑ گئے اور حواس کھو بیٹھے، اسی وارفتگی اور بے خودی کے عالم اللہ کے حضور گویا ہوئے :۔

’’یا اللہ! میں اپنی ان آنکھوں کے ساتھ اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کیا کرتا تھا، یہی میری آنکھوں کاحسین مصرف تھا جب وہ میری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں تو یہ آنکھیں بیکار ہیں، میرے اللہ! میری یہ آنکھیں لے لے، میں نہیں چاہتا کہ اپنے محبوب کے بعدکسی اور کو دیکھوں‘‘۔

وہ صحابی اسی وقت نابینا ہوگئے۔

عشق کے اپنے اپنے انداز اور احساسات ہوتے ہیں۔ اس صحابی نے بھی اپنے جذبات کی رو میں یہ بات کہہ دی کہ ’’صرف مجھ پر اور میرے محبوب پر رحم کر‘‘۔ لیکن وہ جو سب پر مہربان اور بقول قرآن ’’رؤف و رحیم‘‘ ہیں وہ یہ کب گوارا کر سکتے تھے کہ باقی امت رحمت سے محروم رہے، اس لئے اسے سمجھایا کہ ایسے نہیں کہتے۔ اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے، اگر وہ سب پر بھی رحمت فرمادے تو اس میں کمی نہیں آتی۔

وصال کے بعد سلسلہ محبت

سرکار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی امت پر جو نظر عنایت اور نگاہ لطف و کرم ہے، وصال شریف کے بعد بھی اس میں کمی نہیں آئی وہ جس طرح پہلے، رحمت و شفقت فرماتے تھے، اب بھی ویسے ہی فرماتے ہیں۔ وصال شریف سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حقیقت سے آگاہ فرما دیا تھا کہ پیار و محبت کا یہ قلزم اسی طرح بہتا رہے گا اور ہم روضہ اطہر میں بھی تمہارے لئے اسی طرح دعا گو رہیں گے، فرمایا :

حَيَاتِیْ خَيْرٌلَّکُمْ وَمَمَاتِیْ خَيْرٌلَّکُمْ تعرض عَلَیَّ اعمالکم فما راَيت من خير حمدت الله عليه وما رايت من شر استغفرت لکم. (شفاء السقام، 35)

’’میری حیات بھی تمہارے لئے بہتر ہے اور میرا وصال فرمانا بھی تمہارے لئے بہتر ہے۔ تمہارے اعمال میرے سامنے پیش ہوتے رہیں گے، جو نیک اعمال دیکھیں گے تو اللہ کا شکر ادا کریں گے اور جو تمہارے برے اعمال دیکھیں گے تو تمہارے لئے استغفار کریں گے‘‘۔

یعنی سلسلہ شفقت و کرم منقطع نہیں ہوگا اور رابطہ محبت بدستور قائم رہے گا، اس دنیا میں بھی تمہارے لئے استغفار کرتے ہیں اور روضہ اطہر میں بھی تمہارے لئے دعا گو رہیں گے۔

نمازِ عشق

آخری ایام میں مرض کے باعث حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، مسجد میں تشریف نہیں لا رہے تھے، اس لئے باجماعت نماز پڑھانے کا فریضہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سونپ دیا گیا تھا، وہ تین دن سے مسجد نبوی میں مصلیٰ پر کھڑے ہو کر نماز پڑھا رہے تھے۔

اپنے محبوب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف نہ لانے کے باعث صحابہ کرام بے حد اداس اور غمگین تھے، سارے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے تھے، ہر وقت تمام حضرات مسجد شریف میں بیٹھے رہتے تاکہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت مبارک کی تازہ صورت حال سے آگاہ رہیں، انہیں کھانا پینا، لین دین، میل ملاپ اور بیوی بچے سب بھولے ہوئے تھے ان پر ایک ہی دھن سوار تھی اور وہ یہ کہ صحت مند حالت میں اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ دیکھ لیں اور انہیں اسی طرح ہنستا مسکراتا، جاتا آتا اور باتیں کرتا دیکھیں جس طرح پہلے دیکھا کرتے تھے، اسی خیال میں مستغرق تھے اور یہی آرزو ان کی آخری منزل بن کر رہ گئی تھی۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں۔

پیر کا دن تھا، فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے شیدایان حق تیزی سے مسجدنبوی میں جمع ہو رہے تھے، اتنے میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر پڑھی اور حاضرین نے صفیں درست کر لیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، معمول کے مطابق امامت کے فرائض انجام دینے کے لئے آگے بڑھے اور انہوں نے اللہ اکبر کہہ کر نماز کی نیت باندھ لی، باقی نمازیوں نے بھی ان کی اقتداء کی اور نماز شروع ہوگئی۔

مدینہ طیبہ میں قبلہ جنوب کی طرف ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حجرہ مبارک مشر ق کی طرف تھا جس کی ایک کھڑکی مسجد کی جانب کھلتی تھی، اسی سے نکل کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے۔

دامن رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی کے باعث اطاعت حق کے رسیا، یہ مسجد نبوی کے نمازی خشوع و خضوع اور انہماک و توجہ کے ساتھ اپنی نماز میں مصروف تھے کہ اچانک انہوں نے محسوس کیا کہ مشرق کی جانب کچھ ہلچل ہے اور کھڑکی کے پردے کو جنبش ہو رہی ہے۔

اسی پردے کی جنبش کے ساتھ ان لازوال محبت کی ناقابل فراموش یادیں وابستہ تھیں، یہیں سے انہیں عشق کی معراج نصیب ہوا کرتی تھی اور یہیں سے وہ اپنے مضطرب جذبات کی تسکین کا سامان کیا کرتے تھے، اس لئے ان کی گردنیں سامنے ہٹ کر، مشرق کی طرف مڑگئیں اور پردے پر مرکوز ہوگئیں۔

اب ان کے سینوں کا رخ جنوب کی جانب یعنی قبلے کی طرف تھا اور وہ نمازکی حالت میں صف بستہ کھڑے تھے، مگر ان کے چہرے مشرق کی جانب مڑے ہوئے تھے اور نگاہیں کھڑکی کے پردے پر جمی ہوئی تھیں۔

پردے کی ہر تار کے ساتھ ان کا دل اٹکا ہوا تھا اور ہر جنبش کے ساتھ تیزی کے ساتھ دھڑک رہا تھا، وہ متمنی تھے کہ اچانک پردہ ہٹے اور انہیں وہ ماہِ مبین نظر آئے جس کے انوار ان کے دلوں کو قرار اور جس کی طلعت ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، وہ رخ زیبا دکھائی دے جس کی دید، قرارِ دل و جاں اور عشرتِ قلب حزیں ہے، وہ محبوب طلعت بارہو جس کا سراپا جانِ آرزو اور روحِ مراد ہے آخر ان کی آرزو کی کلی چٹکی اور دل کی مراد پوری ہوئی۔

فَکَشَفَ النَّبِیّ صلی الله عليه وآله وسلم سِتْرَالْحُجْرَةِ يَنْظُرُ اِلَيْنَا وَهُوَ قَائِمٌ کَاَنَّ وَجْهَه وَرَقَةُ مُصْحَفٍ ثُمَّ تَبَسَّمَ يَضْحَکُ.

’’حضور محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجرے کا پردہ ہٹایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں دیکھنے لگے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے تھے، چہرہ انور اتنا حسین اور تاباں تھا جیسے قرآن پاک کا ورق ہو، پھر سرکار خوشی سے اس طرح مسکرائے کہ دانتوں کے آبدار موتی نمایاں ہوگئے‘‘۔

اب جانِ گلستان، روحِ بہاراں، باعثِ کن فکاں، مرادِ دلِ مشتاقاں، شاہکارِ حسن وجمال، پیکرِ جلال و کمال، مقتدائے شہر یاراں، صدر نشینِ بزمِ خوباں، نشانِ حجتِ حق، کعبۂ ایمان، برہانِ صادق، مظہرِ شانِ قدرت حضور احمد مجتبیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رخِ زیبا ہمارے سامنے تھا، جس کے حسن و جمال کے بارے میں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے رائے دی تھی کہ کسی ماں نے اس سے زیادہ حسین جنا ہی نہیں اور کسی آنکھ نے ایسا خوبرو دیکھا ہی نہیں۔ ۔ ۔ حضرت علی شیر خدا نے کہا تھا : ماضی و مستقبل میں ایسے حُسن کی کہیں مثال ہی نہیں۔ ۔ ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گویا ہوئے تھے : کہ آپ شاہکار قدرت ہیں۔ ۔ ۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا : آپ کا حسن چاند سے زیادہ تاباں اور قرار بخش ہے۔ ۔ ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے دل کی بات یوں کہی تھی : کہ رخ پرنور کے عکس سے دیواریں منور ہوجاتی ہیں اور ان پر حسن کی شعاعیںباقاعدہ رقصاں دکھائی دیتی ہیں۔ ۔ ۔ حضرت جبریل امین علیہ السلام نے اپنا تجربہ بیان کیا تھا کہ میں نے آفاق گھومے ہیں، مشرق و مغرب کے تھالے چھان ڈالے ہیں، بڑے بڑے کجکلاہ اور شہر یارِ حسن و خوبی دیکھے ہیں مگر آپ جیسا کوئی نظر نہیں آیا، آپ یکتا اور بے مثل ہیں، جن کا ثانی ہی نہیں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

مَانَظَرْنَا مَنْظَرًا کَانَ اَعْجَبَ اِلَيْنَا مِنْ وَجْهِ النَّبِیِ صلی الله عليه وآله وسلم حِيْنَ وَضَحَ لَنَا.

’’اس وقت جس انداز سے سرکار قیام فرما تھے، اس سے زیادہ خوبصورت اور پُرکشش منظر ہماری نگاہوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا‘‘۔

ہم شانِ حسن و زیبائی کے رعب و جلال اور انداز محبوبی و دلبری کے کمال میں اتنے مگن ہوگئے کہ قریب تھا سب کچھ بھول جائیں اور یہ یاد ہی نہ رہے کہ ہم نماز پڑھ رہے ہیں۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ شاید آپ باہر تشریف لانا چاہتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا لیکن حضور مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنی نماز مکمل کرو، پھر اچانک پردہ گرادیا، اسی روز آپ کا وصال ہوگیا۔ (بخاری شریف، 1 : 93، 94)