اسلام کے ’’نادان دوست‘‘

پروفیسر محمد رفیق

فی الحقیقت اسلام ہی انسانیت کا وہ واحد نجات دہندہ مذہب ہے جس کی کتاب مقدس اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور غیر مسلم بھی تسلیم کرنے لگے ہیں کہ دور حاضر کے مسائل کے حل کی کلیدِ اسلام کے پاس ہے لیکن اس امر میں بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ مسلمانوں کا ناپسندیدہ کردار قبول اسلام کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب ریشمی رومال تحریک کے دوران مولانا عبیداللہ سندھی نے کمیونسٹ لیڈر ٹراٹسکی سے مل کر اسلامی نظریہ کی وضاحت کی تو وہ متاثر ہوا لیکن اس نے یہ کہہ کر مولانا سندھی کو لاجواب کر دیا کہ ہم جس نظریہ کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ہمارے ہاں تو پھر بھی نظر آتا ہے، کیا آپ کسی ایسے علاقہ کی نشاندہی کر سکتے ہیں جہاں اسلام کی برکات کو دیکھا جاسکے۔ ۔ ۔؟

اگرچہ مغربی میڈیا پوری دنیا میں مسلمانوں کی منفی تصویر پیش کر رہا ہے اور اس کے پیچھے کچھ خفیہ مفادات کی حفاظت کا ہاتھ بھی کار فرما ہے لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ دشمن کو ایسا کرنے کا موقع کیا ہم نے خود فراہم نہیں کیا۔ ۔ ۔؟

خود احتسابی

نیت خواہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اور مقاصد کتنے ہی اعلیٰ کیوں نہ ہوں اگر طریق کار میں غلطیاں سرزد ہونے لگیں تو نتائج خواہش کے برعکس نکلتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر افراد اور تنظیمیں ظلم یہ کرتی ہیں کہ غلطیوں کا اعتراف اور اصلاح کرنے کی بجائے انہیں تاریخی حوالوں سے سند جواز عطا کرنے لگتی ہیں۔ یوں جس بیماری کے علاج کے لئے وہ کوشاں ہوتی ہیں اس میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے کائنات کو انسان کے لئے اور انسان کو صرف اپنے لئے پیدا کیا، اس لئے اس کی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ بندہ کسی اور کی محبت کا دم بھرے، اب بندے کے لئے اس کے سوا اور کوئی طرز بندگی نہیں ہو سکتا کہ وہ عبادت اور اطاعت کے ذریعے اللہ کی رضا جوئی میں لگا رہے۔

بے جا دعوؤں سے اجتناب

فی زمانہ جس مذہبی تنظیم کو دیکھیں یا اس کے مقاصد کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا وہ اسلامی انقلاب یعنی اسلامی حکومت کے قیام کے لئے کوشاں ہے۔ فی نفسہ مقاصد تو نیک ہوتے ہیں مگر ان مقاصد کو حاصل کرنے والے افراد (الا ماشاء اللہ) اپنے اپنے مفادات کے حصار میں گھومتے رہتے ہیں۔

اسلامی حکومت کا قیام فی نفسہ مطلوب نہیں بلکہ حکومت، اسلامی اقدار کی حفاظت اور برائی کے سرغنوں کی سرکوبی کے لئے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اگر حکومت ماحول کو سازگار بنائے تو آسانیاں پیدا ہوتی ہیں لیکن جس کام کے کرنے کی نہ اہلیت ہو اور نہ آپ مکلف ہوں اسے اپنی منزل بنا کر دوسروں کو چیلنج کرتے پھرنے سے نہ صرف خود ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑے گا بلکہ دوسروں کے لئے مشکلات اور مایوسیاں بھی پیدا کریں گے۔ اس سے ایک طرف موجودہ دور میں اسلام کے قابل عمل ہونے پر سے اعتماد اٹھتا چلا جائے گا تو دوسری جانب اسلام دشمن قوتوں کو مسلمانوں کے خلاف مزید پراپیگنڈہ کا موقع ملے گا کہ یہ دہشت گرد لوگ ہیں اور یوں اسلام کے بارے میں دل میں نرم گوشہ رکھنے والے غیر مسلم بھی اس سے متاثر ہو کر متنفر ہوتے چلے جائیں گے۔

یہی حالت اس وقت القاعدہ اور طالبان جیسی نام نہاد اسلامی تحریکوں کی دیکھی جا سکتی ہے۔ مذکورہ تنظیموں سے عالم اسلام کو فائدہ تو کجا الٹا ناقابل تلافی اور دور رس نقصان پہنچا ہے۔ استعماری قوتوں نے القاعدہ کی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے بہانے افغانستان میں حکومت کو ختم کیا پھر وہاں کی مسلمان آبادی پر اندھا دھند بمباری کی جو آج تک جاری ہے۔ پانچ لاکھ سے زائد افغان مسلمان جاں بحق ہو چکے ہیں اور ان سے زیادہ گھر بار چھوڑ کر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

القاعدہ کے خلاف باطل کی یہ یلغار جاری تھی کہ ایک متبادل تحریک طالبان کا بت گھڑ لیا گیا۔ اس میں اسلام دشمن اور پاکستان مخالف ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے اجرتی غنڈے بھرتی کئے گئے اور موجودہ شورش کو ہوا دی گئی جو اس وقت فاٹا، وزیرستان اور سوات کے امن کو تہہ و بالا کئے ہوئے ہے۔ اس پلیٹ فارم کو مزید خود مذہبی انتہاء پسندوں نے بدنام کیا۔ لوگوں کی گردنیں کاٹنا، لوٹ مارکرنا، اغوا برائے تاوان، خود کش دھماکے اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانا عام ہو چکا ہے اور اس کی ذمہ داری بار ہا اسی تنظیم کے ذمہ داران قبول کرتے چلے آئے ہیں۔

فرض کریں ان میں سے کئی لوگ اچھے بھی ہوں گے اور ان کے مقاصد میں تخریب کاری نہیں بلکہ حقیقی اسلامی خدمت کا جذبہ ہوگا لیکن اشیاء کی حقیقت ان کے انجام سے جانی جاتی ہے۔ طالبان تحریک اس وقت جہالت، درندگی اور تخریب کاری کی علامت ہے اور مغرب کا وہ پروپیگنڈا جس کے تحت انہوں نے مسلمانوں کو دہشت گرد مشہور کیا ایسی ہی تنظیموں کی عملی سرگرمیوں سے سچ ثابت ہو رہا ہے۔ ان مٹھی بھر جنونیوں سے اور تو کچھ ہو نہیں سکے گا اپنی جان کے ساتھ ساتھ اسلام کا وقار اور اس کی عزت بھی خاک میں ملا رہے ہیں۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے کروڑوں مسلمان اپنی تمام تر خوبیوں اور انسانیت نوازیوں کے باوجود لوگوں کی نظروں میں ’’دہشت گرد‘‘ بن چکے ہیں۔ پروپیگنڈے کی اس جنگ میں مسلمانوں کو اس بدنامی کے ہاتھوں جو نقصان پہنچ رہا ہے اتنا تاریخ میں کسی بڑی سے بڑی مسلح جنگ میں بھی نہیں پہنچا تھا۔ مذہبی قیادتوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ ان انتہاء پسندانہ تصورات کی سرپرستی کرتے ہوئے اسلام کی خدمت کر رہے ہیں یا عالم کفر کی؟

عدمِ برداشت

تنظیموں کی کثرت نہ اتنی زیادہ تشویشناک ہے اور نہ ہی کلیتاً فوائد سے خالی لیکن اصل مسئلہ ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا اور دوسروں کے کام میں کیڑے نکالنا ہے۔ قیادتوں اور سیادتوں کا سکہ جمانے کے شوق میں انتشارِ امت کی خلیج وسیع کرنے کا کام جاری ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دشمن ’’Divide and Rule‘‘ (تقسیم کرو اور حکومت کرو) کی پرانی شراب کو کام میں لانے کے لئے اسلامی گروپوں کی صورت میں نئے پیمانے سامنے لے آیا ہے کیونکہ بعض انتہاء پسندوں کی پس پردہ پشت پناہی اور out of the way ڈھیل دینا کسی بڑے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔

ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ کہیں ہم غیر ارادی اور بالواسطہ طور پر غیروں کے مذموم عزائم کاآلہ کار تو نہیں بن رہے۔ راہ خدا میں سر دھڑ کی بازی لگادینے کے لئے Motivation اپنی جگہ پر بجا لیکن اسلام کے نام پر خود کشی کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی۔ ۔ ۔ بڑا نازک سا فرق ہے۔ ۔ ۔ لہذا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ مسلمان قوم کو ہمیشہ دغا باز لیڈروں نے مایوس کیا۔ جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے بعد میں خود مذہبی وڈیرے بن کر عقیدت مندوں کا استحصال کرنے لگ جاتے ہیں لیکن سادہ لوح مسلمان ان چالاک شکاریوں سے اس قدر مانوس ہو جاتے ہیں کہ طلسم ہوشربا انہیں قید اور رہائی کا فرق ہی معلوم نہیں ہونے دیتا۔

ترجیحات کے تعین میں احتیاط

مسلمانوں کا ایک مسئلہ ترجیحات کا غلط تعین ہے۔ نام نہاد واعظین نے اپنی خطابت کا سکہ جمانے کے لئے عجیب و غریب نکتہ آفرینیوں سے کام لے کر عوام کا مزاج اس قدر بگاڑ دیا ہے کہ فرائض میں غفلت اور فروعات کے لئے مرنے مارنے پر اُتر آتے ہیں۔ مختلف مکاتب فکر کے لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے بعض اوقات ایسی بھونڈی حرکات کر گزرتے ہیں جس سے غیروں کے سامنے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے سرجھک جاتے ہیں۔ کوئی سیاسی اسلام پر زور دیتا ہے۔ ۔ ۔ تو کوئی اس کی معاشی و مادی تعبیر پیش کرنے پر تلا ہے۔ ۔ ۔ کسی کے پیش نظر محض اخلاقی اصلاح ہے۔ ۔ ۔ تو کوئی صرف روحانیت کو جملہ امراض کی دوا سمجھے بیٹھا ہے۔ ۔ ۔ اور اب تو تجدد پسند مفتی ہر منع کی ہوئی کسی چیز کو قرآن و سنت کی نئی روشی میں سند جواز عطا کرنے میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کرتے۔ جہاں تک کفر کے بے دریغ فتوؤں کا تعلق ہے اس کی زد سے تو شاید ہی کوئی بچا ہو۔ یہ ساری ہا ہو سر پھٹول اور ’’اسلامی جدوجہد‘‘ کار ثواب سمجھ کر کی جا رہی ہے۔

ہماری ذمہ داری

اندریں حالات علمائے حق اور باشعور مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کو اسلام کے ان نادان دوستوں کی ستم ظریفیوں اور چیرہ دستیوں سے بچانے کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کریں ورنہ چالاک دشمن انسانیت کی عدالت میں اگر ہماری ساکھ خراب کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ہم مزید صدیوں پیچھے چلے جائیں گے۔

اس وقت نوجوانوں کے اندر بیداری کی جو لہر ابھری ہوئی ہے اسے بروقت صحیح رخ پر نہ ڈالا گیا تو وہ شتر بے مہار کی طرح تخریبی راہوں پر چل کر ناقابل تلافی نقصانات کا باعث بن سکتے ہیں۔ اسلام امن و سلامتی اور عدل و انصاف کا داعی ہے۔ ہمارے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت آپ کی تعلیمات اس پر شاہد ہیں۔ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور صوفیاء و ائمہ دین کی سنہری زندگیاں اسی انسان دوستی اور امن پسندی کی ناقابل تردید حقیقت ہیں۔ ان تصورات کو عام کیجئے، جوش کے ساتھ ہوش کی ضرورت کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اسلام پر صرف مسلمانوں کی اجارہ داری نہیں بلکہ اس کی مخاطب پوری نوع انسانی ہے۔ وہ غیر مسلم جو اسلامی تعلیمات کی حقانیت سے متاثر ہو کر اسلام کے قریب ہوتے ہیں مسلمانوں کی بدعملی دیکھ کر نفرت کرنے لگتے ہیں لہذا اپنے دائیں بائیں دھیان رکھتے ہوئے اسلام کو ان بے وقوف اور نادان دوستوں کی حماقتوں سے بچانے کی کوشش کیجئے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔