دورہ صحیح مسلم شریف (نشست چہارم۔ V)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

استقامت و ولایت
جامع مسجد گھمگول شریف (برمنگھم UK)

ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین

منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم کے زیر اہتمام دورہ صحیح البخاری کی عالمی سطح پر بے حد پذیرائی اور کامیابی کے پیشِ نظر اکتوبر 2007ء میں منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم برطانیہ کے زیر اہتمام جامع مسجد گھمگول شریف میں دورہ صحیح مسلم (کتاب الایمان تا کتاب الصلاۃ) کے عنوان سے تین روزہ خصوصی علمی، فکری اور تربیتی پانچ نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔ جن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سینکڑوں علماء و مشائخ، طلباء اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب سے اصول الحدیث، علم الحدیث، امام مسلم کے مقام و مرتبے اور صحیح مسلم کے حوالے سے عقائد، فقہ، تصوف اور دیگر موضوعات پر گفتگو فرمائی۔ دورہ کی پہلی نشست (شائع شدہ مجلہ مئی، جون، جولائی 08ء) میں گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے علمی کلچر کے احیاء کی ضرورت، تاریخِ اصولِ حدیث، علم الحدیث و اصول الحدیث میں امام اعظم کا مقام و مرتبہ، ائمہ حدیث کے ہاں احادیث کی قبولیت و عدم قبولیت کا معیار، بدعت کیا ہے؟ اہلِ بدعت کون ہیں؟ گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقیقی بدعتی، علمی روایات اور ائمہ کا طرزِ عمل، علمی اختلاف کی حقیقت اور ائمہ کرام کا طرزِ عمل، حقیقتِ اجماع، شیوۂ علم اور دیگر موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ دورہ صحیح مسلم کی دوسری نشست (شائع شدہ مجلہ اگست، ستمبر 08ء) میں اصطلاحاتِ حدیث کا قرآن و حدیث سے استدلال و استنباط، حدیث ضعیف پر اعتراضات کا علمی محاکمہ، ضعیف اور موضوع کے اختلاط اور حدیث غیر صحیح کی وضاحت فرمائی۔ دورہ صحیح مسلم کی تیسری نشست (شائع شدہ مجلہ نومبر، دسمبر08، جنوری، مارچ 09) میں صحیح، ضعیف اور موضوع کے مدار، دورِ حاضر میں معیار کا پیمانہ، نام نہاد محققین اور ان کا معیار دین، اکابر کے عقیدہ، ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، علمِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نسبتِ نعلینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق تحقیقی گفتگو فرمائی۔ چوتھی نشست کے اول، دوم سوم، اور چہارم حصہ (شائع شدہ مجلہ اپریل، مئی، جون، جولائی 09ء) میں اسلاف کے عقیدہ اور ہمارا طرزِ عمل، آثار و اماکن سے برکت کا حصول، ایمان و حیاء اور استقامت و ولایت کے حوالے سے پُر مغز تحقیقی گفتگو فرمائی۔ اسی چوتھی نشست کا حصہ آخری نذرِ قارئین ہے۔ (مرتب)

قُلْ لِیْ فِی الْاِسْلَامِ قَوْلاً لَا اَسْئَلُ عَنْه اَحَدًا بَعْدَکَ قَالَ قُلْ اٰمَنْتُ بِاللّٰه ثُمَّ اسْتَقِمْ.

(صحيح مسلم، کتاب الايمان، باب جامع الاوصاف الاسلام، ج 1، ص 65، رقم : 38)

’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اسلام میں کوئی ایک ایسی بات بتا دیں کہ آپ کے بعد زندگی بھر کسی سے کچھ نہ پوچھوں۔ ۔ ۔ کچھ پوچھنے کی حاجت نہ رہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہہ دو میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر پختگی سے قائم رہو‘‘۔

استقامت کی اقسام

محدثین نے اس حدیث کے تحت استقامت کی 3 اقسام کا ذکر کیا۔

  1. استقامت العمل
  2. استقامت القلب
  3. استقامت الروح

گویا استقامت سے مراد صرف وہ نہیں جو ہم اپنے ذہنوں میں لئے بیٹھے ہیں بلکہ استقامت سے مراد یہ بھی ہے کہ عمل میں استقامت ہو، عمل کے اندر لرزش نہ ہو، اس کے بعد دل میں استقامت ہو۔ اسی کی طرف اشارہ ہے کہ ’’دل بدست آور کہ حج اکبر است‘‘ یعنی اپنے دل میں استقامت پیدا کر، ہر طرف سے شہوات کی آندھیاں چلیں گی۔ ۔ ۔ خواہشات، لذات، حلاوتوں، چاہتوں، حرصوں، رغبتوں کی آندھیاں چلیں گی۔ ۔ ۔ انسان جب اردگرد کے ماحول کو دیکھتا ہے تو دنیا والوں کی آسائشات پر اپنی محرومیوں کا گلہ کرتا ہے۔ ۔ ۔ دل میں استقامت ہو تو پھر دوسروں کی آسائشات دیکھ کر اپنی محرومیوں پر رونا نہیں آتا۔ ۔ ۔ دل میں استقامت ہو تو پھر اپنی کٹیا اور اپنا حجرہ بھی ہزار محلات سے بہتر اور بڑا نظر آنے لگتا ہے۔ اصل میں حجرے والے ہی محلات والے ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ حجرہ ہی محل ہوتا ہے، مکان کا بڑا ہونا یا چھوٹا ہونا غیر متعلقہ چیزیں ہیں۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ ’’درویشی، لنگوٹا پہن لینے کا نام نہیں ہے‘‘، یعنی لباس اچھا نہ پہننے، لوٹا اٹھانے، جائے نماز ساتھ رکھنے کا نام درویشی نہیں ہے بلکہ استقامت کا نام درویشی ہے۔

عمل اور قلب کی استقامت کے بعد روح کی استقامت ہے۔ جب روح کو استقامت ملتی ہے تو اس کے بعد ’’مرتبہ سِرْ‘‘ سنورتا ہے اور پھر علی الترتیب ’’مرتبہ خفی‘‘ اور ’’مرتبہ اخفیٰ‘‘ سنورتا ہے اور اس طرح تمام لطائف، استقامت کے حامل ہو جاتے ہیں۔

پس اگر اپنا دل سنور گیا، استقامت کا حامل ہوگیا تو اس سے وہ دائیں بائیں لرزتا نہیں ہے۔ ۔ ۔ اس کے اندر استغناء آ جاتا ہے۔ ۔ ۔ ملے تب بھی اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ۔ ۔ نہ ملے تب بھی فرق نہیں پڑتا۔ الغرض کسی حال میں فرق نہیں پڑتا۔ پس اپنے دل کو اس طرح استقامت دیں کہ ’’دل بدست آور کہ حج اکبر است ‘‘ کے مصداق ہو جائے۔ یعنی دل کو استقامت مل جائے تو یہ حج اکبر ہے۔

’’از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است‘‘، مراد یہ کہ کعبہ کی ہزارہا فضیلتوں سے بھی استقامت والے ایک دل کی فضیلت اونچی ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ یہ تو مولانا روم نے کہا ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ مولانا روم کوئی ان پڑھ صوفی نہ تھے، بلکہ بہت بڑے عالم دین تھے، جب حال نے غلبہ کیا تو قال کم ہوگیا اور مثنوی میں مصروف ہوگئے۔ پس جب انہیں دل والے شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ مل گئے تو حال غالب آگیا اور قال کم ہوگیا۔

دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ استقامت والا دل، کعبہ سے زیادہ فضیلت والا ہے اور یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ارشاد فرمائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دفعہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے کہ کعبہ کو مخاطب کرکے فرمایا : اے کعبۃ اللہ بے شک تیرا رتبہ بلند ہے اور تو عظمت کا حامل ہے مگر مومن کی عزت و حرمت و مرتبہ اللہ کی نگاہ میں تجھ سے کہیں اونچا ہے۔

مَااَعظمکَ وَاعظم حرمتک وللمومن اعظم عنداللّٰه حرمة منک.

(صحيح ابن حبان، ذکر الذجر عن طلب عثرات المسلمين، ج 13، ص 75)

مرد مومن جو صاحب استقامت ہو، وہ ولی ہے، پس اگر کعبہ کی طرف ٹانگیں کرنا یا اس طرف منہ کرکے رفع حاجت کرنا منع ہے تو ولی جس کا مرتبہ کعبہ کی فضیلت سے اونچا ہے اس کے ادب و احترام کا عالم کیا ہوگا۔

ولایت کیا ہے؟

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک عالم، صالح، متقی بزرگ بیعت کے لئے حاضر ہوئے۔ سارا دن وہ بزرگ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے معمولات کو دیکھتے رہے کہ مخلوق خدا کے ساتھ مصروف رہے ہیں، لوگوں کے مسائل حل کرتے اور اُن کے دکھوں اور غموں کو سننے کے بعد اُن کے حسبِ حال کچھ نہ کچھ حل بتاتے رہے، دعائیں کرتے رہے ہیں۔ رات کو اس بزرگ نے جانے کی اجازت چاہی۔ ۔ ۔ آپ نے پوچھا کہ یہ تو بتاؤ کہ آئے کیوں تھے؟۔ ۔ ۔ انہوں نے عرض کیا : بیعت کے لئے آیا تھا۔ ۔ ۔ آپ نے فرمایا : کہ بیعت کیوں نہیں کی۔ ۔ ۔ کہنے لگے صبح سے شام سے آپ کے معمولات دیکھے ہیں، سارا دن آپ مخلوق میں گھرے رہے، اللہ کے لئے کون سا وقت نکالا ہے۔ صرف نماز پڑھی اور بقیہ وقت مخلوق کے مسائل و معاملات کو نمٹاتے ہوئے ہی گزر گیا۔ اس لئے میں نے فیصلہ بدل لیا کہ بیعت کے لئے کوئی اور جگہ ڈھونڈتے ہیں۔

خواجہ نظام الدین اولیاء ہنس پڑے، فرمایا : کہ ہمارا دن دیکھا ہے، ہماری رات بھی دیکھ لو۔ ۔ ۔ وہ بزرگ رک گئے کہ چلو رات بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ۔ ۔ رات ہوئی تو آپ نے عشاء کی نماز پڑھی، معمول کے کچھ وظائف کئے اور سوگئے۔ وہ بزرگ خود ساری رات مصلے پر بیٹھ کر تلاوت کرتے رہے، نفل پڑھتے رہے، ذکر اذکار کرتے رہے اور سوچتے رہے کہ ان کی بڑی شہرت سنی تھی، نہ جانے کس طرح لوگ ان کو مانتے اور بیعت کرتے ہیں۔

تہجد کے وقت حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء اٹھے، چند رکعات تہجد کی پڑھیں اور پھر نماز فجر ادا کی۔ وہ بزرگ آپ کے معمولات دیکھتے رہے، فجر کی ادائیگی کے بعد آپ نے اس شخص کو سُلادیا، اس نے خواب میں دیکھا کہ دو نور روشن ہیں۔ ایک اس کے سر پر ہے اور ایک حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے سر پر ہے۔ ۔ ۔ جو اس کے سر پر نور ہے وہ ایک ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی طرح ہے، مدہم سی روشنی ہے۔ نور اس کے پاس بھی ہے مگر بجھتا ہوا جبکہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے سر پر بہت بڑے ستون کی طرح ایک طاقتور نور ہے جس سے اتنی شعاعیں نکل رہی ہیں کہ کوئی شخص آنکھ اٹھا کر دیکھ نہیں سکتا اور وہ نور ان کے سر سے لے کر آسمان سے بھی اوپر تک جا رہا ہے۔

اس کی آنکھ کھل گئی، کانپ اٹھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے قدموں میں گر پڑا اور توبہ کرنے لگا۔ عرض کرنے لگا کہ آپ نے یہ مرتبہ کیسے پایا؟ آپ نے فرمایا : ولایت زیادہ نفل پڑھنے، تسبیح کرنے، زیادہ وظائف کرنے کا نام نہیں ہے، تم نے صرف ظاہر عبادت کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ ولایت، استقامت قلب و روح کا نام ہے۔ عمل صالح پر قائم رہنا اور قلب و روح کو استقامت کے ساتھ رکھنا ولایت ہے۔ تم نے ساری رات عبادت میں اسی دھیان میں گزاری کہ میرا ولایت میں کتنا درجہ ہے اور اس کا کتنا ہے؟ تم ولایت کے طالب رہے حالانکہ طالب مولیٰ رہنا، ولایت ہے۔ دنیا تو دنیا ہے، طالب آخرت بھی نہ رہنا اور جنت کی طلب و حرص میں بھی مارے مارے نہ پھرنا ولایت ہے۔ جنت، دنیا سے بھی بڑھ کر حرص و ہوس ہے، یہ آخرت کے حسین پردوں میں چھپی ہوئی حرص ہے، یہ ولایت نہیں ہے، ولایت فقط طالب مولیٰ رہنا ہے۔ بندہ کا دل و روح جب استقامت کے مقام پر فائز ہوتا ہے تو وہ دل سے ہر شے کی طلب، حرص، محبت، رغبت، چاہت، الغرض ہر شے نکال دیتا ہے۔ دنیا تو دنیا حتی کہ آخرت کا حرص بھی نکال دیتا ہے اور صرف اس کا دل و روح مولیٰ کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ اگر دل کی ایسی دوستی قائم ہوجائے تو اس کو ولایت کہا جاتا ہے۔ ولی کا معنی ہے دوست، اس کی مرضی جس کو چاہے دوست بنالے، یہ اس کے ساتھ دوستی ہے۔ دوستی کا مطلب ہے کہ پھر دل و روح میں اس کے سوا کوئی شے نہ آئے۔

حضرت رابعہ بصری ایک مرتبہ علیل ہوگئیں، لوگ عیادت کے لئے آنے لگے، لوگوں کو بیماری کی مختلف وجوہات بتائی گئیں، حضرت حسن بصری بھی عیادت کے لئے آئے انہوں نے بھی سبب مرض پوچھا وہی جواب دیا، حضرت حسن بصری کے اصرار پر اصل سبب بتایا کہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی کہ اس میں جنت اور اس کے انعامات کا تذکرہ ہوا، تھوڑی دیر کے لئے دل میں جنت کی طلب پیدا ہوئی پس جب میرا قلب جنت کی جانب متوجہ ہوا تو باری تعالیٰ نے اظہار ناراضگی فرمایا کہ رابعہ، محبت میرے ساتھ مگر طلب جنت کی، پس رب کی یہی ناراضگی میرے مرض کا باعث ہے۔ مراد یہ تھی کہ دعوی ہمارے عشق اور دیدار کا اور دھیان جنت کی طرف۔ سوچیں کہ اگر جنت کی طرف دھیان کا یہ حال ہے تو دنیا کی طرف دھیان کا حال کیا ہوگا؟

غیراللہ سے مراد۔ ۔ ۔ ؟

جب دل و روح کی محبت، خالص اللہ کے لئے رہ جائے تو جنت بھی غیر اللہ ہے۔ غیراللہ کا شور مچانے والے حقیقت میں غیراللہ کے مفہوم کو ہی نہیں سمجھ پائے۔ ایک معنی میں جنت بھی غیراللہ ہے، سوائے اللہ تعالیٰ کے ہر شے کی طلب غیراللہ ہے۔ محبت جب خالص ہوتی ہے اور قلب و روح کو اللہ کی ذات کے ساتھ استقامة فی المحبة نصیب ہوتی ہے تو پھر کسی شے کی طلب نہیں رہتی۔ غیراللہ کا یہ معنی، معنی معرفت ہے۔

غیراللہ کا دوسرے معنی کا تعلق اعتقاد سے ہے شریعت میں غیراللہ کا معنی یہ ہے کہ ہر وہ شے اور ہر وہ شخص جو آپ کو اللہ سے دور لے جائے، صرف وہ غیراللہ ہے اور جو اللہ کے قریب کرے وہ غیراللہ نہیں ہے، وہ اللہ کا اپنا ہے، اللہ کا غیر نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ دنیا کی محبت کو اپنے اولیاء کے دلوں سے دور رکھتا ہے۔ امام سلمی نے طبقات الصوفیہ میں صفحہ 9 پر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

يَقُوْلُ اللّٰهُ تعالیٰ لِدنيا يَا دُنْيَا مُرِّی عَلٰی اَوْلِيآئِی وَلاَ تَحْلَوْلِی لَهُمْ فَتَفْتَنِيْهِمْ.

’’اللہ تعالیٰ دنیا سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اے دنیا میرے اولیاء پر کڑوی بن کر رہ اور ان کے لئے بہت میٹھی نہ بن کہ ان کے دل تیرے فتنے میں مبتلا ہوجائیں‘‘۔

گویا اللہ نے فرما دیا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ جو میرے ہیں وہ صرف میرے دھیان میں رہیں۔

پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیر بحث حدیث صحیح مسلم میں ’’ثُمَّ اسْتَقِمْ‘‘ کے ذریعے اس صحابی کو وہ عمل بتا دیا جس سے دین کے جملہ احکامات میں کارفرما روح واضح ہوجاتی ہے۔

ایمان کی حلاوت و چاشنی

٭ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِيْهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الاِيْمَانِ : اَن يَکُوْنَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُه اَحَبَّ اِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَاَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ اِلَّا لِلّٰهِ، وَاَنْ يسَکْرَهَ اَنْ يَعُوْدَ فِی الْکُفْرِ کَمَا يَکْرَهُ اَنْ يُقْذَفَ فِی النَّارِ.

(صحيح مسلم، کتاب الايمان، باب بيان خصال، من اتصف بهن وجد حلاوة الايمان، ج 1، ص 66، رقم : 43)

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس کو پالے گا : اللہ عزوجل اور اسکا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں، جس شخص سے بھی اسے محبت ہو وہ محض اللہ عزوجل کی وجہ سے ہو، کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ (حالتِ) کفر میں لوٹنے کو وہ اسی طرح ناپسند کرے جیسے وہ خود کو آگ میں پھینکا جانا ناپسند کرتا ہو‘‘۔

محدثین نے ایمان کی حلاوت / چاشنی کے بارے لکھا ہے کہ ایمان کی چاشنی ایک شے ہے، اس پر محدثین نے ایک صحابی کا واقعہ نقل کیاہے کہ

ایک صحابی نماز ادا کر رہے تھے، چور آیا اور ان صحابی کا گھوڑا ان کے سامنے سے چوری کر لیا۔ صحابی نے دوران نماز گھوڑے کو چوری ہوتے دیکھا مگر نماز نہ توڑی۔ بعد ازاں اس صحابی سے پوچھا گیا کہ آپ نے چور کو پکڑنے کے لئے نماز کیوں نہ توڑی؟ انہوں نے کہا کہ مَاکُنْتُ فِيْهِ اَلَذُّمِنْ ذٰلِکَ گھوڑا مجھے بڑا محبوب تھا مگر جو لذت نماز میں آرہی تھی، جب مولیٰ سے ہم کلام تھا، اس لذت جیسی گھوڑے میں کیا لذت، میں نے سوچا کہ گھوڑا چوری ہوتا ہے تو ہو جائے مگر یہ جو لذتِ مناجات ہے، اس سے نہ محروم ہوں۔

پس ایمان کی ایک حلاوت ہے، جس کو نصیب ہوتی ہے وہ محسوس کرتا ہے۔ یہ حلاوت اسی طرح محسوس ہوتی ہے جس طرح انواع و اقسام کے کھانے اور پھل کھانے سے ان کا ذائقہ، حلاوت، چاشنی محسوس ہوتی ہے۔ جیسے کھانوں کی حلاوت بدن محسوس کرتا ہے اسی طرح مناجات، عبادات اور اطاعات کی حلاوت قلب روح اور باطن محسوس کرتا ہے۔ کاش ہمیں اس حلاوت کا احساس ہونے لگے۔

اس حلاوت کے محسوس ہونے کی شرائط و تقاضے استقامت، اخلاص، زہد و ورع ہیں۔ یہ حلاوت ان کو نصیب ہوتی ہے جن میں درج ذیل 3 چیزیں پائی جائیں۔

  1. اللہ اور اس کا رسول اسے کائنات کی ہر شے سے محبوب ہو جائیں۔
  2. جس سے بھی محبت کرے اللہ کے لئے کرے، اس نیت سے محبت کرے کہ یہ اللہ کا محبوب ہے، اللہ کا ولی ہے، اللہ کا مقبول ہے، اللہ کا ذاکر، عبادت گزار ہے۔
  3. کفر میں واپس پلٹنے کو اس طرح ناپسند کرے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔

1۔ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو ملانا

1. اَن يَکُوْنَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُه اَحَبَّ اِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا.

’’اللہ اور اس کا رسول اسے کائنات کی ہر شے سے محبوب ہو جائیں‘‘۔

امام عسقلانی، امام عینی، قاضی عیاض اور دیگر محدثین نے لفظ ’’سواہما‘‘ پر بحث کی ہے کہ ’’ہما‘‘ تثنیہ کی ایک ہی ضمیر میں اللہ اور رسول دونوں کو جمع کر دیا ہے اور مخلوقات میں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سواء کسی کی شان نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر، اللہ کے ساتھ ایک ہی ضمیر میں جمع کر دیا جائے۔ یہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی شان ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح بھی فرماسکتے تھے کہ

اَن يَکُوْنَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُه اَحَبَّ اِلَيْهِ مِنَّ اللّٰه وَرَسُوْلِه.

مگر ’’ہما‘‘ کی ضمیر کا ذکر خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا اور تثنیہ کی ضمیر کا ایک ہی کلمہ استعمال کیا اور اس میں اللہ اور رسول دونوں کو جمع کردیا۔

اللہ اور اللہ کے رسول کو ایک ہی کلمہ میں جمع کر دینے سے استنباط کرتے ہوئے محدثین کا اس پر اجماع ہے کہ یہ شان صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے دنیا میں کوئی اور مخلوق اس شان کی حامل نہیں۔

اس سے اہل سنت پر لگنے والے ایک اعتراض کا جواب بھی مل رہا ہے کہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ اللہ اور اللہ کے رسول کو اکٹھا کردیتے ہیں، ملا دیتے ہیں۔ ان احباب سے صرف اتنا کہنا ہے کہ یہ کام ہم نے نہیں کیا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’’سواہما‘‘ کے الفاظ کے ذریعے خود کیا ہے۔

پس ملانے کا مطلب دوستی اور محبت ہے، دوست اور محبوب، محبت سے ملے رہتے ہیں، وہ جدا ہوتے ہی نہیں، اس ملنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ معاذاللہ شان ایک ہوگئی ہے یا برابری ہوگئی ہے، یہ تو کفر ہے۔ یہاں ملنے سے مراد مرتبے میں برابری نہیں ہے۔ اگر مرتبے میں اللہ کے رسول کو اللہ سے ملانے کا عقیدہ نہ ہو تو اللہ کے رسول کو محبت، اطاعت میں اللہ سے ملانے سے کفر و شرک نہیں ہوتا بلکہ یہ تو مقصود نبوت ہے، مقصود تعلق ہے۔

محبتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ ہونا عدمِ ایمان کی علامت

ان احادیث کو ذکر کرنے کے بعد صحیح مسلم میں امام مسلم نے جو باب قائم کئے وہ قابل توجہ ہیں :

باب وجوب محبۃ رسول اللہ اکثر من الاہل والولد والوالد والناس اجمعین ترجمۃ الباب میں یہ الفاظ لکھے ہیں :

واطلاق عدم الايمان علی من لم يحبه هذه المحبة.

’’جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کائنات کے ہر رشتے سے بڑھ کر والہانہ اور عاشقانہ محبت نہ کرے اس کے لئے ایمان کا لفظ استعمال کرنا ہی جائز نہیں‘‘۔

گویا اسے مومن سمجھنا اور ایمان کا لفظ اس کی طرف منسوب کرنا ہی جائز نہیں۔ یہاں ناقص و کامل ایمان کا سوال ہی نہیں بلکہ کہا کہ مطلقاً ایمان ہی نہیں ہے۔

عشق شاخ و عشق نخل و عشق گل
عشق اول، عشق آخر عشق کل

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت اگر عاشقانہ اور والہانہ درجے کی نہ ہو توامام مسلم کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ شخص سرے سے مومن ہی نہیں ہے اور اس پر ایمان کا اطلاق کرنا جائز ہی نہیں۔ (جاری ہے)