صلح حدیبیہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امن و استحکام پر مبنی سیاسی بصیرت کا اعجاز (دوسرا حصہ)

محمد علیم

6ھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو صحابہ کے ساتھ مدینہ سے عمرہ کی خاطر مکہ کی طرف کوچ فرمایا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع سفر تا آخر اس بات کا بڑی شدت سے التزام کیا کہ آثار و قرائن اور مسلم گروہ کے رویے ایسے رہیں کہ جن سے واضح طور پر امن کا پیغام ملے اور نہ صرف قریش پر بلکہ تمام عربوں پر عیاں ہو جائے کہ مسلمانوں کا مقصد صرف عمرہ ہے۔ نیزوں اور تلواروں کے سوا کسی کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ تلواریں چمڑے کے میانوں میں تھیں کیونکہ مقصود عمرہ ادا کرنا تھا نہ کہ جنگ میں الجھنا۔ ویسے بھی مصلحت کا تقاضا تھا کہ قریش کو ہر ممکن طریقے سے یقین دلا دیا جاتا کہ پرامن طور پر حرم پاک کی زیارت کے سوا کچھ مطلوب نہیں۔ صرف بیت اللہ کی زیارت اور اس کا اکرام مقصود ہے۔ جبکہ کفار بضد تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہرگز حرم میں داخل نہ ہونے دیں گے۔ تصادم سے بچنے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کے مشورہ سے غیر روائیتی دشوار گزار پہاڑیوں اور گھاٹیوں کے درمیان راستہ بدل کر پچاس میل کا سفر کر کے حدیبیہ کی خشک وادی میں پہنچے اور قریش کی چال کو ناکام بنا دیا۔ قریش کو علم ہوا تو وہ تیزی سے حدیبیہ کے سامنے البلدہ کے پانی کے چشموں پر پہنچ کر قابض ہو گئے اور اپنا لشکر جمع کر کے اہل توحید کا راستہ روکا۔

قریش نے اپنے متعدد سفراء نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھیجے مگر وہ کوئی معاہدہ نہ کر پائے تھے ۔ حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے قربانی کے جانور بھی دکھائے اور اطمینان دلایا کہ مقصد عمرہ کرنا ہے (ابن ہشام ج 2 : 373) لیکن ان سفیروں کو معاہدے کا اختیانہ دیا گیا تھا یا شائد وہ سارے ہی دھونس جمانے آئے تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارت

قریش بضد تھے کہ وہ کسی قیمت پر بھی مسلمانوں کو آگے نہیں بڑھنے دیں گے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش تھی کہ جنگ نہ ہونے پائے اور معاملات حسن و خوبی کے ساتھ طے پا جائیں۔ گروہ قریش میں سے کچھ لوگوں کی خواہش اور کوشش تھی کہ لڑائی کا ماحول پیدا کر دیں تاہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوررس نگاہ لڑائی کو اسلامی کاز کیلئے نقصان دہ سمجھتے ہوئے صلح کے تمامتر ذرائع و وسائل(Options) کو بروئے کار لانے کو مفید سمجھتی تھی۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خراش الخزاعی کو سفیر بنا کر مکّہ بھیجا۔

مکہ مکرّمہ میں ان کی سواری کے اونٹ کو مار ڈالا گیا اور خود انہیں جان کے لالے پڑ گئے۔ قریشی خراش کو قتل کرنا چاہتے تھے مگر متحدہ گروہ(احابیش) نے انہیں بچا لیا۔ ابن سعد کے بقول ان کے قبیلے کے آدمیوں نے انہیں بچا لیا۔ دوسرے روز فجر کی نماز کے وقت اندھیرے میں قریش کے اسّی (80) افراد کا گروہ کوہ تیغم سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل ارادے سے اتر کر حملہ آور ہوا مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (کمانڈر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ) نے ان سب کو باندھ لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں آزاد فرما دیا۔ (خزائن العرفان) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے قریش کیلئے یہ ایک اور روشن ثبوت تھا کہ مسلمانوں کی آمد کا مقصد و مدعا لڑائی یا خونریزی نہیں صرف زیارت و طواف بیت ا ﷲ ہے۔

سورۃ الفتح کی آیت نمبر 24 میں اسی واقعہ کا بیان مذکور ہے۔

وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًاO

’’اور وہی ہے جس نے سرحدِ مکّہ پر (حدیبیہ کے قریب) ان (کافروں) کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان (کے گروہ) پر غلبہ بخش دیا تھا۔ اور اﷲ ان کاموں کو جو تم کرتے ہو خوب دیکھنے والا ہےo‘‘۔

قریش مکہ کی یہ مجرمانہ اشتعال انگیزی بھی سب کے علم میں آگئی تھی۔ سب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امن پالیسی جان گئے تھے اور قریش سوچتے تھے جب یہ بات جزیرہ نمائے عرب میں پھیلے گی تو لوگ ان کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے مگر قریش کو اس سے بھی بڑا خوف یہ تھا کہ اگر انہوں نے مسلمانوں کو عمرہ کی اجازت دے دی تو عرب میں ان کی قوت کا پول کھل جائے گا اور لوگ کہیں گے کہ مسلمان اپنی مرضی سے آئے اور عمرہ کر کے اپنی مرضی سے واپس چلے گئے۔ اس لئے قریش کوئی راستہ تلاش کر رہے تھے مگر اس صورتحال سے نکلنے کی انہیں کوئی تد بیر نہیں سوجھ رہی تھی۔ صلح نامہ حدیبیہ میں قریش نے مسلمانوں کیلئے بیت اللہ کا راستہ روک کر ایک فاش سیاسی غلطی کی تھی۔ اس کی وجہ سے رائے عامہ مسلمانوں کے حق ہموار ہو گئی اور بہت سے قبائل مسلمانوں کی طرف جھک گئے اور قریش کے قرب و جوار کا علاقہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ان تمام چیزوں نے بعد میں عملی طور پر فتح مکہ کو آسان بنا دیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری سفارت

خراش بن امیہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر کو مکہ کے خاندانی سفیر ہونے کے ناطے سفارت کے لئے بھیجنا چاہا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عذر کیا کہ مکہ والے میرے سخت دشمن ہیں اور وہاں میرے قبیلے بنو عدی کا کوئی آدمی نہیں جو میری حمایت کر سکے۔ ان کے مشورے پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کا ایک عزیز ابان بن سعید اپنی زیر حمایت مکہ لے گیا۔ جن کے قبیلے کو اس وقت قریش میں درجہ ریاست و سالاری حاصل تھا مقصد صرف یہ تھا کہ اشراف قریش کو بتایا جائے کہ ہمارا مقصد جنگ نہیں صرف حرم پاک کی زیارت، طواف اور اجلال واکرام ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو درج ذیل تین فرائض سونپ کر مکہ بھیجا گیا۔

  1. اہل مکہ کو دعوت اسلام دینا اور بتانا کہ ہم عمرہ کرنے آئے ہیں۔
  2. اہل مکہ کو قائل کرنا کہ وہ تین دن کہ لئے شہر مسلمانوں کہ حوالے کر دیں اور تین دن بعد مسلمان شہر خالی کر دیں گے۔
  3. مکہ میں مقیم اہل ایمان مردوں اور عورتوں کو اللہ کے دین کی فتح کی خوشخبری دینا اور بتانا کہ اللہ کا دین غالب آنے والا ہے یہاں تک کہ کسی کو اپنے ایمان کے لئے کسی سے چھپنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مکہ کے سرداروں سے ملے اور مؤثر انداز میں مسلمانوں کی سفارت کاری کی۔ آپ اہل ایمان مردوں اور عورتوں سے بھی ملے اور ان کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بشارتیں دیں۔ قریش نے دوران سفارت آپ کو طواف کعبہ کی پیشکش کی آپ نے یہ پیشکش رد کر دی اور کہا ’’جب تک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طواف نہیں کرتے میں نہیں کروں گا‘‘۔ قریش نے انہیں حرم میں قید کر دیا۔ (ابن کثیر ج 4، ص 588)

بیعت رضوان

لشکر اسلام میں یہ خبر پھیل گئی کہ قریش نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل یا قید کر دیا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نازک صورت حال میں ایک ایسا اقدام کیا جس سے دنیا بھر کے جرنیل سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ قوم کے جوش و خروش کو کس طرح تعمیری مقصد کیلئے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ اس پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بے سر و سامان جماعت سے جانثاری کی بیعت لی کہ اگر لڑنا پڑا تو ثابت قدم رہیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس بیعت پر اپنی رضا کا اظہار یوں فرمایا :

لَقَدْ رَضِیَ اﷲُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ.

(الفتح : 18)

اس بیعت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بائیں ہاتھ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیا اور اپنے دائیں ہاتھ سے صحابہ سے بیعت لی۔ یہ بیعت جذبات اسلامی کی بھرپور عکاسی تھی جو ایک طرف نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں قریش کی ہٹ دھرمی کا توڑ کرنے کا عزم مصمم تھا تو دوسری طرف قصاصِ عثمان رضی اللہ عنہ کا وہ میثاق تھی جسے ہرگز نہ توڑا جا سکتا تھا نہ نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ اس بیعت نے قریش کو خوفزدہ کر دیا۔ جب اہل مکہ نے دیکھا کہ خدا نے انہیں خرابی اور خواری میں ڈال دیا ہے اور خدا نے ان کے دلوں میں رعب ڈالا تو انہوں نے صلح اور موافقت چاہی اور حضرت عثمان کو رہا کر کے اسلامی کیمپ میں بھیج دیا۔ نازک صورتحال کے پیش نظر انہوں نے سہیل بن عمرو جیسے سنجیدہ اور صلح پسند شخص کو اس لیے بھیجا کہ وہ مصالحت کی کوشش کرے اور موافقت پیدا کرے۔ یہ ام المومنین حضرت سودہ کا چچا زاد تھا۔ اسے خطیب قریش کہتے تھے۔ نظام حق کے داعی کی نگاہ حقیقت نے اس کو دیکھتے ہی اندازہ کر لیا تھا کہ قریش نے اس آدمی کو بھیجا ہے اور صلح پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’تمھارا کام سہل کر دیا گیا ہے‘‘۔

سہیل عامری کو قریش نے صلح کا معاہدہ کرنے کی اجازت اس شرائط کے ساتھ د ی کہ مسلمان اس سال واپس چلے جائیں تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ وہ مکہ میں زبر دستی اور قریش کی مخالفت کے باوجود داخل ہوئے تھے۔

تجاویز قریش

سہیل نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف صلح کے لیے آیا ہوں اس نے کہا : 

  1. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہدی کے جانور یہیں ذبح کر کے جائیں گے۔
  2. دو سال کی میعادی صلح کر لیں۔
  3. ہمارا کوئی آدمی آپ کے پاس بھاگ کر چلا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے قبول نہ کریں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استفسار پر سہیل نے کہا بدلے میں ہم آئندہ سال تین دن کے لیے مکہ خالی کر دیں گے۔ تین دن کے لیے مکہ خالی کرنے کی تجویز نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پیش کی تھی قریش اس تجویز کو مان تو گئے تھے تاہم وہ اس سال نہیں بلکہ اپنی جھوٹی انا کی تسکین کیلئے اور عربوں کی چہ میگویؤں سے بچنے کیلئے اس کو اگلے سال مؤخر کرنے کی تجویز لیکر آئے تھے۔ یہی وہ کٹھن لمحات تھے جہاں سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارتی سوجھ بوجھ (Diplomatic Vision) اور جماعت کے جذبہ اطاعت و وفا کشی کا امتحان شروع ہوتا ہے اور نتیجتاً ’’وما ينطق عن الهوی‘‘ کے سہرہ دار کی سیاسی بصیرت اور سفارتی دور اندیشی مسلمہ صورت میں منارۂ رشد بن کر رہتی دنیا تک کے لیے مشعل راہ کے طور پر محفوظ ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف جماعت بھی آزمائش کی کٹھن گھڑی سے گزر کر سرخرو ٹھہرتی ہے۔

میعادی مدت کی تجویز بھی سفراء قریش کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے ہی پیش کر چکے تھے وہ بھی تسلیم کر لی گئی تھی بلکہ ان کی طرف سے اب ایک مطالبہ کی صورت میں سامنے آئی تھی۔ یہ تجویز قریش کی طرف سے ریاست مدینہ کے وجود کو تسلیم کرنے کا عہد تھی، جس کیلئے وہ پہلے کبھی آمادہ نہ ہوئے تھے۔ اس کے عوض وہ اپنی معاشی مجبوریوں کے پیش نظر اپنے تجارتی راستوں کی حفاظت کی ضمانت لینا چاہتے تھے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میعادی صلح کی مدت کو اسلامی کاز کیلئے زیادہ عرصہ تک کیلئے لاگو رکھنا چاہتے تھے۔ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ تحریکوں، جماعتوں اور ملکوں کی تاریخ میں چند سال کچھ عرصہ نہیں ہوتا قریش نے جو تیسری شرط پیش کی تھی وہ دراصل ان کیلئے بڑا مسئلہ تھی۔ خود سہیل بن عمرو کے دو بیٹے، دو بیٹیاں، دو داماد اور ایک بھائی مسلمان ہو کر مدینہ میں مقیم تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے عزیز و اقارب بھاگ کر مدینہ جائیں تو انہیں قبول نہ کیا جائے۔

یہ تجویز پیش کر کے قریش یہ سمجھتے تھے کہ وہ آئندہ مکہ میں قبول اسلام کی راہ بند کر لیں گے۔ تاہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بجا طور پر ادراک رکھتے تھے کہ صلح کی صورت میں یہ شرط قبول اسلام کا راستہ نہیں روک پائے گی بلکہ صلح نامہ بحیثیت مجموعی اشاعت اسلام میں معاون و مددگار ہو گا۔ قریش کو کیا سمجھ تھی!

عشق وہ آگ ہے جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے

یہ مسلمانوں کیلئے اس وقت تک کی سب سے بڑی کامیابی تھی کہ قریش نظریاتی جنگ ہار رہے تھے اور عملاً وہ ریاست مدینہ کو تسلیم کر چکے تھے اب وہ صرف اپنے تئیں کچھ شرائط کے ذریعے اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور اپنے ڈوبتے ہوئے دین و عقائد کو سہارا دینا چاہتے تھے۔ قریش کے سردارانِ شرک و جہالت کو مذاکرات کی میز پر لا کر ریاست مدینہ کو تسلیم کروانا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تزویراتی حکمت عملی کی کامیابی کے راستے میں بہت بڑی پیش رفت کا ایسا ثبوت تھا جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ مگر یہاں ایک مشکل درپیش تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جذباتی ہو رہے تھے اور عام عربی معمول اور معیارات کے مطابق جس بات میں ظاہری طور پر سبکی یا خفت کا پہلو نکلتا ہو اسے آسانی سے تسلیم کر لینا عام آدمی کیلئے پل صراط کا سفر تھا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کو عمرہ ادا کیے بغیر واپس جانا گوارا نہیں ہو رہا تھا۔

اس طرح معاہدہ حدیبیہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طویل المیعاد حکمت عملی کے حق میں تھا لیکن وقتی طور پر آپ کو اپنے پیروکاروں میں پیدا ہونے والی مایوسی سے نپٹنا پڑا جو اس مہم کی ظاہری ناکامی سے پیدا ہوئی تھی۔ (مقدمہ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ج 1، ص 435)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری جان آپ پر قربان! کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی یہ شرط قبول کر لیں گے کہ ان میں سے جو کوئی مسلمان ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے گا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے قبول نہیں کریں گے۔ باقی سب مسلمانو ں سے بھی آواز اٹھی کہ سبحان اللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائی کو مشرکین کی طرف لوٹا دیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عمر! سکوت کرو۔ سہیل بن عمرو نے ایک اور تجویز دی کہ آپ کی طرف سے کوئی ہمارے پاس آجائے تو ہم اسے واپس نہیں کریں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر سوال کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرا جو آدمی جائے گا وہ ضرور منافق ہوگا اس کا جانا ہی اچھا ہے۔

البتہ جس مسلمان کو ہم واپس کر دیں گے تو اس کیلئے خداوند کریم جلد سبب پیدا کر دے گا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے سہیل بن عمرو اور مکرز بن حفض کے طویل مذاکرات ہوئے۔ اب سہیل مکمل ہونے والی گفتگو اور تبادلہ شدہ تجویز و خیالات کی اپنی طرف سے مکمل منظوری لینے دوبارہ مکہ گیا۔ شرائط صلح سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ مضطرب تھے۔ ان کا کوئی ذاتی معاملہ نہ تھا ان کے اندر حمیت حق کام کر رہی تھی۔

جس معاہدے پر مسلمان دل گرفتہ تھے، قریش نے اسکی بخوشی منظوری دے دی تھی۔ سہیل واپس آیا تو کہا کہ ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اسے ضبط تحریر میں لے آئیں۔ کافی رد و قدح ہوا، صحابہ سہیل کی شرائط پر جز بز تھے۔

تحریکات پر ایسے وقت یقینا آجاتے ہیں جب قائد کی نظر کارکنان کی نظر سے کہیں دور اوپر اور آخری منزل پر ہوتی ہے مگر تمام لوگ مقاصد کی نزاکت اور جزئیات کو سمجھ نہیں پاتے۔ یوں ایک کھچاؤ پیدا ہو تا ہے جو تحریک کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تحریک اسلامی کو بھی اسی چیلنج کا سامنا تھا۔ تحریک اسلامی کے کارکنان (صحابہ) کو اپنے قائد کی ذات پرمکمل اعتماد نے اس سخت چیلنج سے عہدہ براء اور سرخرو ہونے میں مدد دی اور وہ خاموش ہو گئے۔ معاہدہ لکھا جانے لگا اور ایسے حالات میں لکھا جا رہا تھا کہ بات بات پر کھنچاؤ پیدا ہوتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آغاز کے طور پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے کا حکم دیا، سہیل بول اٹھا : ہم اللہ کو جانتے ہیں اور نہیں جانتے رحمن اور رحیم کیا ہے۔ لہذا با سمک اللھم لکھا گیا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آگے لکھا ’’یہ معاہدہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سہیل بن عمرو کے درمیان طے پایا‘‘ سہیل نے اعتراض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا اور اپنے والد کا نام لکھوائیں۔ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول مانتے تو آپکے خلاف لڑتے کیوں، ہم آپ کی اتباع کرتے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی درخواست پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن عبداللہ لکھنے کا حکم دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھ چکے تھے اور فرط ادب سے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ مٹانا گوارا نہ کیا اور ادب سے انکار کر دیا۔

مسلمانوں کو یہ بات ناگوار گزری اور انہیں غصہ آ گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قلم لے کر سہیل کی درخواست کے مطابق تبدیلی کر دی۔ معاہدہ یوں لکھا گیا۔

شرائط معاہدہ

  1. اے اللہ تیرے نام سے آغاز ہے۔
  2. ان شرائط پر یہ معاہدہ صلح محمد بن عبداللہ کا سہیل بن عمرو کے ساتھ ہوا۔
  3. فریقین میں دس سال کے لیے جنگ کرنا ممنوع ہے۔
  4. ان دس برسوں میں اگر یاران محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مندر جہ ذیل تین اغراض میں سے کسی ایک کیلئے مکہ آئیں یا یمن یا طائف جائیں تو اہل مکہ پر ان کی جان اور مال کی ذمہ داری ہے۔ (ا) حج کیلئے (ب) عمرہ کیلئے (ج) تجارت کیلئے۔ اگر قریش تجارت کیلئے مدینہ کی راہ سے ہو کر مصر یا شام کی طرف جائیں تو مسلمان ان کی جان اور مال کے ذمہ دار ہوں گے۔
  5. اہل مکہ میں سے جو شخص اپنے خاندانی سربراہ کی اجازت کے بغیر مسلمان ہو کر مدینہ چلا آئے تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس کا مکہ لوٹا دینا واجب ہے۔ بخلاف اس کے اگر کوئی شخص مدینہ میں سے اسلام ترک کر کے مکہ میں پناہ گزیں ہو تو قریش اسے واپس نہیں کریں گے۔
  6. ایک دوسرے کے خلاف کسی خفیہ سازش، کینہ پر وری کا ارتکاب نہیں کیا جائے گا۔
  7. قبائل میں سے جو قبیلہ اہل مکہ کے ساتھ معاہد رہنا چاہے وہ مختار ہے۔ اگر کوئی قبیلہ اسی قبیلہ کی مانند محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معاہدہ کرناچاہے تو یہ بھی آزاد ہے۔ (اس موقع پر بنو خزاعہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بنو بکر نے قریش کے ساتھ معاہدہ کر لیا)
  8. اس مرتبہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسکے ہم راہوں کو عمرہ کے بغیر واپس لوٹنا ہوگا۔ آئندہ سال مکہ میں عمرہ کیلئے آنے کے مجاز ہونگے۔ ان کے داخلے پر قریش اور ان کے ہمسائے شہر خالی کردیں گے، مسلمان اپنے ساتھ صرف سواری کے شایان اسلحہ لا سکتے ہیں۔ مگر تلواریں میان میں ہوں نہ کہ کسی اور غلاف سے ڈھکی ہوئی۔ وہ مکہ میں تین دن قیام کر سکیں گے۔
  9. مسلمان اس سفر میں عمرہ کے لئے جو جانور اپنے ہمراہ لائے ہیں وہ منیٰ میں لے جا کر ذبح نہیں کیے جا سکتے۔
  10. ہمارے اور تمہارے حقوق و واجبات برابر ہوں گے۔
  11. فریقین میں سے اس معاہدہ پر مندرجہ ذیل افراد کے دستخط ہوئے۔

1۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ 2۔ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

3۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف 4۔ سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص

5۔ عبداللہ بن سہیل بن عمرو 6۔ محمود بن مسلمہ

7۔ مکرز بن حفص 8۔ محرر وثیقہ علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب

طبقات کے مطابق عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بن الجراح، حویطب بن عبدالعزی نے بھی دستخط کئے۔ صلح نامہ کا ایک نسخہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رہا اور ایک سہیل کے پاس۔

ان شرائط پر مسلمانوں کو بڑی تشویش ہوئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت بھی اس عمیق مقصد کو فورًا نہ سمجھ سکی اور برملا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اظہار ناپسندیدگی کیا۔ لیکن مسلمانوں میں انتہا درجے کا نظم و ضبط تھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا مندی دیکھ کر ہر شخص راضی برضا ہو گیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربانی

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احباب کو قربانی کر دینے اور سر کے بال منڈا کر احرام کھول دینے کا حکم دیا مگر مسلسل رنج اور غم کی وجہ سے صحابہ کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تین بار حکم دینے کے، کوئی نہ اٹھ سکا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دیکھ کر مغموم ہوئے اور اپنے غم کا ذکر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے کیا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ سے کچھ نہ کہیں اس وقت انہیں شدید رنج شرائط صلح اور بغیر عمرہ واپسی کی وجہ سے پہنچا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب کے سامنے حلق کروا کر احرام کھول دیں اور جانور کی قربانی دیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر سب صحابہ نے پیروی کی۔

صحابہ کو اپنی اس نافرمانی کا اس قدر نج ہوا کہ ان کے ہوش و حواس جاتے رہے اور سر مونڈنے میں قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے کو قتل ہی کر دیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبہ میں معاہدہ کے تین دن بعد تک کل انیس یا بیس دن قیام فرمایا۔ (جاری ہے)