اداریہ : رحمت کا سائبان اور اہل وطن کی مشکلات

ڈاکٹر علی اکبر قادری

گرمی، مہنگائی اور حکومتی کرپشن میں گھری پاکستانی قوم پر رحمت باری تعالیٰ رمضان المبارک کی صورت سایہ فگن ہو چکی ہے۔ ہم وطنوں کی غالب اکثریت اس مرتبہ اپنی زندگی کی مہنگی ترین افطاریوں اور سحریوں سے ’’لطف اندوز‘‘ ہو رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالیہ گرانی نے لوگوں کو خط غربت سے مزید نیچے دھکیل کر ان سے جینے کی امیدیں بھی چھین لی ہیں۔ قبل ازیں روز مرہ ضرورت کی اشیائے خورد و نوش میں مصنوعی قلت پیدا کر کے منافع خور مافیا اپنی تجوریاں بھرتا ہی تھا لیکن اس مرتبہ یہ کمال بھی ہو گیا کہ اس طاقتور مافیا نے حکومت اور اپوزیشن کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ اس کی تازہ مثال چینی چوروں کے ساتھ حکومت کی آنکھ مچولی ہے۔ پاکستان دنیا کے بکثرت چینی پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے لیکن منافع خور شگر ملز مالکان نے چینی کی مصنوعی قلت پیدا کر رکھی ہے تاکہ من مانی قیمتوں کے ذریعے غریب ضرورت مندوں کو لوٹا جا سکے۔ ’’عوامی حکومت‘‘ کی پاکستانی عوام کے ساتھ ہمدریوں کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ PTCL اور ریلوے کے بعد سٹیل مل PIA اور واپڈا جیسے مرکزی شعبے حکومتی لوٹ مار اور کرپشن کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن نیم مردہ عوام کا ناکافی ردِعمل کسی کو سنائی نہیں دیتا جو کہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہے۔ حکومت نے قبل ازیں پٹرولیم مصنوعات میں بھی اعلیٰ عدالتی فیصلے کے برعکس من مانے اضافے کر کے مہنگائی کو چار چاند لگائے ہیں۔ بنیادی ضرورتوں کو ترستے ہوئے عوام جب خودکشیاں کرنے اور لوگ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے پر مجبور ہونے لگیں تو یہ خونی انقلاب کی طرف بڑھتے ہوئے ریلے میں اضطراب کی علامات ہوا کرتی ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ملک میں توانائی کا شدید ترین بحران جاری ہے اور یہ بحران ایک دن یا مہینے میں پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کے اشارے گزشتہ کئی سالوں سے مل رہے تھے۔ اس ضرورت کے پیش نظر آج سے 30 سال قبل کالاباغ ڈیم جیسے قومی منصوبے کی شروعات کی گئیں لیکن پاکستان میں ترقی اور خوشحالی کے دشمن حرکت میں آئے اور اس اہم ترین اور منافع بخش قومی منصوبے کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ناقابل فہم اعتراضات کھڑے کر کے التواء میں ڈال دیا۔ چنانچہ یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ مختلف اوقات میں صرف بھارت کے خفیہ اداروں نے کالا باغ کے مخالفین پر 8 ارب روپے خرچ کئے۔ اب جب یہ منصوبہ ہماری سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو چکا ہے اور حکومت نے اس کے متبادل کے طور پر اسلام آباد سے 400 کلومیٹر دور شمالی علاقہ جات میں چلاس کے قریب بھاشا کے مقام پر ڈیم بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس ڈیم سے 4500 میگاواٹ بجلی کی پیداوار متوقع ہے۔ جس سے حالیہ بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے مگر پہلی بات تو یہ ہے کہ اس پر اگر مسلسل کام جاری رہا تو یہ ڈیم دس سال میں مکمل ہوگا۔ ثانیاً ہمارے مہربان ہمسایہ بھارت نے اس پر بھی عالمی اداروں میں شور مچانا شروع کر دیا ہے۔ اس کا یہ دعویٰ ہے کہ چونکہ یہ علاقہ کشمیر بلتستان کا متنازعہ علاقہ ہے اس لئے پاکستان یہاں کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کے برعکس وہی بھارت جس نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور خود UNO میں رائے شماری کے لئے درخواست دے رکھی ہے سندہ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے سندھ چناب اور جہلم پر 62 سے زائد ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر شروع کر چکا ہے۔ بھارت دریائے جہلم پر بگلیہاڑ ڈیم کی تکمیل کے بعد کرگل میں دریائے سندھ پر ایشیاء کے سب سے بڑے ڈیم پر کام شروع کرنے والا ہے۔ لیکن اس کی حتی الامکان کوشش ہے کہ نہ پاکستان کو دریاؤں کا پانی ملنے پائے اور نہ یہاں کے لوگ زرعی ترقی کر سکیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی پالیسیوں کو ازسرنو مرتب کیا جائے اور بنیادی ضرورت کے ایسی کلیدی منصوبوں پر غیر ملکی دباؤ ماننے سے صاف انکار کر دیا جائے ورنہ پاکستانی عوام کے برعکس پاکستان کے بدخواہوں کی آرزوئیں پوری ہوتی رہیں گی اور ہم اس خاموش جنگ میں شکست سے دوچار ہو کر پانی کی ایک ایک بوند کو ترسیں گے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گزشتہ کئی دنوں سے ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں یہ خبریں گشت کر رہی ہیں کہ پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں امریکہ نے 18 ایکڑ اراضی حاصل کر لی ہے جس پر وہ عراق کے بعد دنیا کا سب سے بڑا سفارتخانہ بنا رہا ہے۔ اس خطہ اراضی پر سینکڑوں رہائشی عمارتیں اور دفاتر تعمیر کئے جائیں گے جہاں دس ہزار تک امریکی میرین ڈیوٹی پر موجود ہوں گے۔ گویا یہ سفارت خانہ کم اور فوجی چھاؤنی زیادہ ہو گی جہاں پینٹاگون سے براہ راست ہدایات آئیں گی اور اس مرکز سے امریکہ ایران، چین، بھارت اور جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں پر نظر رکھے گا۔

اس نوعیت کی دوسری اہم خبر یہ ہے کہ امریکہ خطے میں تادیر قیام کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لئے امریکی سنٹرل کمانڈ میں ایک نئی انٹیلی جنس ایجنسی قائم کر رہا ہے جہاں افغانستان اور پاکستان کے فوجی افسران اور خفیہ ایجنٹس کو خصوصی تربیت دی جائے گی اور یہ خدمات کم از کم پانچ سال کے لئے لی جائیں گی۔ واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ کے مطابق اس تربیتی ادارے کی سربراہی ’’کرنل ڈیرک ہاروے‘‘ کریں گے۔ امریکی مڈل ایسٹ پر اپنا قبضہ مکمل کرنے کے بعد ایشیائی ممالک کے وسائل تک آزادانہ رسائی کے لیے ’’بلیک واٹر‘‘ اور ’’زی ورلڈ وائڈ‘‘ جیسے بدنام زمانہ اداروں کی خدمات حاصل کر رہا ہے۔ جس کے چیف ’’ایرک پرنس‘‘ پر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگجو ہونے کے سنگین الزامات عائد ہو چکے ہیں۔

ایک طرف تو امریکہ بہادر اتنے دور رس منصوبے بنانے میں مصروف ہے اور دوسری طرف امریکی کمانڈر ایڈمرل مائیک مولن اور جنرل ڈیوڈ پیٹر یاس نے تازہ بیانات میں یہ اعتراف کیا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجوں کا قیام بڑھتی ہوئی طالبان سرگرمیوں کے مقابلے میں ایک مشکل اور مہنگا منصوبہ ہے۔ انہوں نے امریکی حکومت کو صاف الفاظ میں باور کرایا ہے کہ طالبان پورے افغانستان پر قابض ہیں اور پہلے سے ان کی سرگرمیوں میں بہتری اور تیزی بھی آرہی ہے۔ تجزیہ نگار ان بیانات کو امریکی ناکامی اور گھبراہٹ کی علامت سمجھ رہے ہیں جس کا منطقی نتیجہ ویت نام کی طرح امریکہ کی ناکام واپسی کی صورت میں نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ ادھر اس ظالم عالمی دہشت گرد کی نظریں پاکستان کے جوہری اثاثوں پر گڑھی ہوئی ہیں اور وہ بہرصورت ایٹمی ہتھیاروں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اپنے ہاتھوں میں لینے کی فکر میں ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ مالاکنڈ اور وزیرستان میں پاکستانی طالبان کے خلاف پاک فوج کا کامیاب آپریشن امریکہ کے لئے پریشانی کا باعث بن گیا ہے۔ پاکستان میں بدامنی اور دہشت گردی کے مرکزی کردار بیت اﷲ محسود کی غلطی سے ہلاکت بھی امریکہ کے لئے باعث تشویش ہے کیونکہ وہ جہاد کے نام پر امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی جنگ لڑ رہا تھا۔ پاک فوج اور پاکستانی قوم کو ابھی اس محاذ پر مزید صبر و ہمت اور استقلال کے ساتھ ڈٹ کر لڑنا ہے۔ ان شاء اﷲ وطن عزیز کے ان تمام بدخواہوں کے خواب ادھورے رہیں گے اور یہ کوچۂ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کے نقشے پر سدا قائم و دائم رہے گا بشرطیکہ غیور پاکستانی عوام باہمی خانہ جنگی کے ماحول سے نکل کر استعماری حربوں کو ناکام بنانے کا عزم کر لیں۔