سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روحانی احوال و مقام (حصہ اول)

پروفیسر محمد نصراللہ معینی

21 رمضان المبارک، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یوم شہادت کی مناسبت سے خصوصی تحریر

اللہ رب العزت نے اپنے خاص دوستوں کو ایسی شان و مرتبہ سے نواز رکھا ہے کہ وہ اپنی خداداد طاقت کے ذریعے لوگوں کے احوال سے نہ صرف آگاہی رکھتے ہیں بلکہ ان کی رہنمائی اور حاجت روائی بھی فرماتے ہیں۔

کیا کسی انسان کو اللہ کے سوا حاجت روا کہا جا سکتا ہے۔ کیا اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو حاجت روا کہنے سے شرک تو لازم نہیں آتا؟

یہ وہ سوال ہے جو ایک طبقہ ہر اس موقع پر داغ دیتا ہے جب ان کے سامنے کسی مقبول خدا کی کوئی کرامت پیش کی جاتی ہے اور اس پر وہ قرآن مجید سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ مثلاً

وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اﷲِ مِّنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ.

’’اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی ولی ہے نہ مددگار‘‘ (البقرہ : 107)

وَمَا النَّصُر اِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللّٰه.

’’اللہ کی بارگاہ کے علاوہ کوئی اور مدد نہیں‘‘۔

’’مولا‘‘ کون ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اللہ کی مرضی اور حکم نہ ہو تو کوئی فرشتہ یا انسان کسی دوسرے کی مدد نہیں کر سکتا۔ مدد کرنے کی قوت اور طاقت بارگاہ ربوبیت سے ملتی ہے اور اسی کے اذن اور حکم سے مشکل کشائی ہوتی ہے۔ یہ ہستیاں خواہ فرشتے ہوں، جن ہوں یا انسان، حزب اللہ ’’یعنی اللہ کی ٹیم اور جماعت‘‘ کے کارکن ہیں اور ان کے کام، حقیقت میں اللہ کے کام ہیں۔ اس لئے نیابت کے طور پر وہ بھی ولی اور مددگار ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا :

اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَالَّذِيْنَ اٰٰمَنُوا

(المائدة : 55)

’’بے شک تمہارا ولی (مددگار) تو اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور اہل ایمان تمہارے ولی (مددگار دوست) ہیں‘‘۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا :

فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌO

(التحريم : 4)

’’بے شک اللہ اس (رسول کریم) کا مولا (مددگار) ہے۔ جبریل اور نیک صاحب ایمان لوگ بھی ان کے مددگار ہیں اور اس کے بعد فرشتے بھی کھلم کھلا مددگار ہیں‘‘۔

یاد رہے کہ ’’مولا‘‘ کا لفظ کئی جگہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کے لئے استعمال ہوا ہے۔

اَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِيْن.

(البقرة)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِيْر.

بے شک حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ ہی ’’مولا‘‘ ہے لیکن قرآن مجید میں جبریل علیہ السلام اور صالح مومنین کو بھی مولا قرار دیا گیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا دوسرے کو مولا کہنے سے شرک نہیں ہوتا ورنہ قرآن مجید میں انہیں مولا نہ کہا جاتا۔ لیکن یہ مولا خود بخود نہیں بنے اللہ کے بنائے سے بنے ہیں۔

مخلوق کو حاجت روا اور مشکل کشا کہنا جائز ہے؟

اب رہی یہ بات کہ اللہ کے سوا کیا کسی اور کو حاجت روا اور مشکل کشا کہا جا سکتا ہے یا ایسا کہنا شرک کے دائرے میں آتا ہے؟

اس کا ایک جواب تو اوپر آگیا کہ فرشتوں اور صالح مومنین کا ’’مولا‘‘، مددگار ہونا خود قرآن سے ثابت ہے اور وہ خود مولا نہیں بنے بلکہ یہ منصب انہیں خود اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ اب سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث پڑھئے اور اس بارے میں خود ہی فیصلہ فرما لیجئے۔

بخاری و مسلم کی روایت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَةِ اَخِيْهِ کَانَ اللّٰهُ فِی حَاجته وَمَن فَرَّجَ عَنْ مُسْلمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اللّٰهُ عَنْهُ بِهَا کُرْبَةَ مِنْ کُرْب يوم الْقيامة.

’’جو شخص اپنے کسی بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے۔ اور جس نے کسی مسلمان کی ایک تکلیف دور کی (مشکل حل کر دی) اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے قیامت کی تکلیفوں میں سے اس کی ایک تکلیف دور فرما دے گا‘‘۔

کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اس حدیث میں رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بھائی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کو قابل تحسین قرار دیں۔ لیکن ہمارے یہ نادان بھائی اس کو شرک ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اس موضوع پر بے شمار روایات اور دلائل موجود ہیں جن میں حاجت روائی، مشکل کشائی اور مدد و نصرت کو بندوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ لیکن کوئی ایسا مسلمان نہیں جو ان بندوں کو حقیقی مشکل کشا یا حاجت روا سمجھتا ہو۔ سب مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ یہ رب العزت کی ذات اقدس ہی ہے جو ان بندوں سے اس نوعیت کے کام کرواتی ہے۔

ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے حاجت روا خاص بندے ہمیشہ اور ہر دور میں رہتے ہیں اور ان کی تخلیق ہی اس مقصد کے لئے ہوتی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اِنَّ لِلّٰهِ خَلْقًا خَلَقَهُمْ لِحَوَائج النَّاسِ تَفْزع النَّاسُ اِلَيْهمِ فی حوائجهم اولٰئِکَ الاٰمِنُوْنَ مِنْ عَذاب اللّٰهِ.

(الترغيب والترهيب 3 : 390)

’’اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی حاجت روائی کے لئے ایک مخلوق پیدا کر رکھی ہے تاکہ لوگ اپنی حاجات کی تکمیل کے لئے ان سے رجوع کریں۔ یہ لوگ عذاب الہٰی سے محفوظ و مامون ہیں‘‘۔

علامہ محمد اقبال نے انہیں نفوس قدسیہ کے متعلق فرمایا تھا :

خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دلِ بے نیاز

اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب اس کی نگاہ دل نواز

ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکشا، کارساز

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ مشکل کشا

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے ان مولا صفات بندوں میں سے جس ہستی کو تاج سروری عطا کیا گیا وہ خاتون جنت کے شوہر نامدار، حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے والد گرامی سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی ذات گرامی ہے۔ صحابہ کے بھرے مجمعے میں جن کا ہاتھ باعثِ تکوین کائنات فخر موجودات سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں لے کر بلند کیا اور فرمایا :

مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیُّ مَوْلَاهُ.

’’جس کا میں مولا ہوں علی بھی اسکا مولا ہیں‘‘۔

ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح لوگ مشکلات اور پریشانیوں میں سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں رجوع کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توجہ اور دعا سے انہیں مشکلات سے نجات مل جاتی تھی، اسی طرح وہ بارگاہ مرتضوی رضی اللہ عنہ سے بھی رجوع کرتے چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کی روحانی توجہ اور دعا سے مشکل کشائی ہو جاتی۔

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی روحانی قوت

حضرت امام یوسف النبھانی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام فخرالدین رازی کے حوالے سے سیدنا حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کی روحانی قوت کا یہ ایک دلچسپ واقعہ جامع کرامات اولیاء میں درج کیا ہے وہ لکھتے ہیں۔

٭ ایک حبشی غلام حضرت حیدر کرار رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ چوری کے جرم میں اسے حضرت امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا تو آپ کے حکم سے حسب قانون اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ ہاتھ کٹوا کر حبشی غلام دربار مرتضوی سے واپس آرہا تھا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن الکواء سے ملاقات ہوگئی جنہوں نے پوچھا کہ تیرا ہاتھ کس نے کاٹا ہے؟ غلام کہنے لگا ’’یعسوب المسلمین‘‘ ختن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور زوج بتول علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے کاٹا ہے۔ ابن الکواء رضی اللہ عنہ نے پوچھا : انہوں نے تیرا ہاتھ کاٹ دیا ہے اور تو ان کی مدح کرتا ہے؟

حبشی کہنے لگا میں ان کی مدح کیوں نہ کروں، انہوں نے مجھے آخرت کی سزا سے بچا لیا ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اس کی یہ بات سن کر بڑے حیران ہوئے اور جا کر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کر دیا۔

سیدنا حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ نے فوراً غلام کو طلب فرمایا اور اس کا ہاتھ اس کی کلائی کے ساتھ رکھ کر رومال سے ڈھانپ دیا، کچھ دعائیہ کلمات پڑھے۔ اچانک ایک آواز آئی کہ کپڑا ہٹادو، کپڑا ہٹایا گیا تو ہاتھ بالکل صحیح سالم تھا۔ (جامع کرامات اولیا و جلد اول ص 423)

٭ علامہ تاج الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ ’’طبقات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ جناب حیدر کرار رضی اللہ عنہ اور آپ کے دونوں شہزادوں نے رات کی تاریکی میں کسی کو درد بھری آواز میں شعر پڑھتے سنا :

يا من يجيب دعاء المضطر فی الظلم
يا کاشف الضر والبلوی مع السقم

ان کان عفوک لا يرجوه ذو خطاء
فمن يجود علی العاصين بالنعم

’’اے وہ ذات اقدس جو تاریکیوں میں مضطرب و بے قرار انسان کی پکار سنتی ہے۔ اگر خطا کار تیری بخشش کے امیدوار نہ ہوں تو پھر گناہ گاروں پر تیرے سوا نعمتوں کی بارش کون برسائے گا۔ ‘‘

حضرت حیدر کرار رضی اللہ عنہ نے اشعار سنے تو حکم دیا اس شخص کو تلاش کیا جائے۔ لوگ اسے ڈھونڈ کر لے آئے، وہ پہلو گھسیٹتا ہوا آپ کے سامنے حاضر ہوگیا، آپ نے فرمایا : تجھے کیا مصیبت پیش آئی ذرا بیان تو کرو۔ وہ شخص کہنے لگا : میں عیش و نشاط اور گناہوں میں مبتلا تھا، میرے والد مجھے نصیحت فرماتے ہوئے کہتے : بیٹا خدا سے ڈرو، اس کی گرفت بڑی سخت ہے۔ ایک دفعہ جب انہوں نے بار بار نصیحتیں کیں تو مجھے غصہ آگیا اور میں آپے سے باہر ہوگیا اور طیش میں آکر انہیں پیٹ ڈالا۔

میرے والد نے کہا میں تیری شکایت کعبۃ اللہ جا کر دربار خداوندی میں کروں گا، چنانچہ وہ کعبہ گئے اور جب واپس آئے تو میرا دایاں پہلو مفلوج ہو چکا تھا۔ اب مجھے اپنے کئے پر سخت ندامت ہوئی۔ میں نے اپنے والد سے معافی مانگی اور انہیں راضی کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ آخر کار انہوں نے وعدہ فرما لیا کہ وہ اللہ کے گھر جا کر میرے حق میں دعا کریں گے۔ میں نے انہیں سفر کے لئے اونٹنی پیش کی جس پر سوار ہوکر وہ مکہ کی طرف روانہ ہوگئے لیکن اونٹنی بھاگ کھڑی ہوئی اور وہ چٹان سے گر کر فوت ہوگئے۔

سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا : اگر تمہارا باپ راضی ہوگیا تھا تو اللہ کریم بھی راضی ہیں۔ اس نے کہا قسم بخدا میرے والد راضی ہوگئے تھے۔ یہ سن کر حضرت حیدر کرار اٹھے، کئی رکعت نوافل ادا کئے اور دعا فرمائی۔ پھر فرمایا : تجھے مبارک ہو کھڑا ہو جا، وہ اٹھا اور بالکل صحیح سلامت چلنے لگا۔ وہ شخص صحت یاب ہو چکا تھا۔

تاجدار اقلیم ولایت سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کی ظاہری حیات مبارکہ میں پیش آنے والے ایسے کئی واقعات تو کتابوں میں منقول ہیں مگر کتب صوفیاء میں بے شمار ایسے واقعات اور مکاشفات بھی موجود ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ کے روحانی فیوضات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آپ کے کمالات دراصل کمالاتِ نبوت کا ہی تسلسل ہیں کیونکہ ہر ولی کی کرامت دراصل نبی علیہ السلام کے معجزات کا تسلسل شمار ہوتی ہے۔ ان کرامات کا منبع اور سرچشمہ بھی نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات اقدس ہوتی ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ علوم روحانیت کا دروازہ

سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے متعلق سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

انا مدينة العلم وعلی بابها.

’’میں شہر علم ہوں اور علی اس شہر کا دروازہ ہیں‘‘۔

اور حضرت حیدر کرار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

علمنی رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم الف باب يفتح. . . . . .

’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے علم کے ہزار باب کی تعلیم دی، ہر باب کے آگے ہزار ہزار باب کھلتے ہیں‘‘۔

قارئین محترم جس علم کے ایک کروڑ ابواب ہوں اس کی وسعت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خرقہ ولایت عطا کرتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ رموز و اسرار مجھ پر منکشف فرمائے جو نہ جبرائیل علیہ السلام کے پاس ہیں نہ میکائیل علیہ السلام کے پاس۔

مقامِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فتح مکہ کے موقع پر ہبل کا بلند و بالا بت گرانے کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ

’’علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے قدم میرے شانوں پر رکھ کر بت گرا دیں۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی تم بارِ نبوت اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ تم میرے کندھوں پر آؤ اور ان بتوں کو گرا دو۔ اسی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا تم اپنے آپ کو کس حالت میں دیکھتے ہو۔ عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایسا دیکھتا ہوں گویا تمام حجابات اٹھ گئے ہیں اور میرا سر ساق عرش سے جا ملا ہے اور جدھر ہاتھ پھیلاؤں وہ چیز میرے ہاتھ میں آجاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی تمہارا کتنا اچھا وقت ہے، تم کارِ حق ادا کر رہے ہو اور میرا حال کتنا مبارک ہے کہ میں بارِ حق اٹھائے ہوئے ہوں‘‘۔

(مدارج النبوت ج دوم ص 486، بحوالہ علی مع الحق ص 73)

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری غسل دیا تو پانی کے چند قطرے آپ کی مقدس پلکوں پر موجود تھے میں نے انہیں اپنی زبان سے چوس لیا۔ بس علم و عرفان اور حکمت و ادراک کا ایک سمندر میرے سینے میں ٹھاٹھیں مارنے لگا۔

بعض شارحین علماء حدیث (انا مدينة العلم و علی بابها) کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ یہاں العلم سے مراد شریعت کا علم نہیں کیونکہ وہ تو دیگر خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کو بھی حاصل تھا۔ اس سے مراد روحانیت کا علم ہے چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کا دروازہ قرار دے کر یہ اعلان فرمایا گیا کہ ان علوم روحانیہ کا طالب اس دروازے کی چوکھٹ چومے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ روحانیت کے تمام سلاسل خواہ چشتی ہوں یا قادری، نقشبندی ہوں یا سہروردی سب کے سب اسی باب علم سے ہی فیضیاب ہو کر منزل مراد تک پہنچتے ہیں۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے

1۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مکتوبات شریف میں لکھا ہے :

’’اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والے راستوں میں سے ایک راستہ قربِ ولایت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے پیشوا سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جسمانی پیدائش سے پہلے اس مقام کے ملجاء و ماویٰ تھے۔ جیسا کہ آپ جسمانی پیدائش کے بعد ہیں۔ ۔ ۔ اور جس کو بھی فیض و ہدایت پہنچی اس راہ سے پہنچی اور ان ہی کے ذریعے سے پہنچی کیونکہ وہ اس راہ کے آخری نکتہ کے قریب ہیں‘‘۔ (مکتوب 123، دفتر سوم، حصہ دوم ص 1425)

2۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوب دفتر اول میں فرماتے ہیں :

حضرت امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں کہ ’’میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں آسمانوں کا علم سکھاؤں‘‘۔ جب میں اچھی طرح متوجہ ہوا تو تمام خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اس مقام کو حضرت امیر (سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ مخصوص پایا۔

3۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ مکتوب 251 دفتر اول میں لکھتے ہیں :

’’چونکہ امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) ولایت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بوجھ اٹھانے والے ہیں اس لئے اقطاب، ابدال، اوتاد جو اولیائے عزلت میں سے ہیں۔

قطب مدار کا سر حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے قدم کے نیچے ہے۔ قطب مدار ان ہی کی حمایت و رعایت (نگرانی) سے اپنے ضروری امور کو سرانجام دیتا ہے اور مداریت سے عہدہ برآ ہوتا ہے۔ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ اور امامین بھی اس مقام میں حضرت امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ شریک ہیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ برصغیر کے ان اکابر جید علماء ربانیین اور صاحب کمال ہستیوں میں سے ہیں جن کی تمام مسالک (اہل سنت، اہل حدیث اور دیوبندی) عزت و تکریم کرتے ہیں اور ان کے علم و فضل کے معترف ہیں۔ آپ فرماتے ہیں :

1۔ ’’ایک روز مقام قرب میں غور کی نگاہ کی گئی تو ہر چند نظر دور دور تک گئی لیکن جہت خاص جو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ میں تھی اس سے زائد کسی میں نہ دیکھی گئی اور اس جہت میں کسی دوسرے کی ان پر فضیلت نہیں دکھائی دی۔ آپ اس جہت یعنی مقام قرب کے اعلیٰ مرکز کے اوپر ہیں اور اسی لئے آپ ہی مبداء عرفان ہوئے ہیں۔ ‘‘

(القول الجلی فی ذکر آثار ولی ص 522)

2۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب الفاس العارفین میں اپنے چچا حضرت ابو الرضا محمد کی روایت درج کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری بار بچشم حقیقت زیارت ہوئی، میں نے عرض کی : یاسیدی میری خواہش ہے کہ آپ کے طریقہ عالیہ کے فیض یافتہ کسی مردِ حق سے بیعت کروں تاکہ ان سے حقائق کی تفصیل پوچھ سکوں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل ہوئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تیری بیعت امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ سے ہوگی۔

کچھ دنوں بعد دیکھا کہ گویا کسی راستے پر جارہا ہوں۔ آس پاس کوئی شخص نظر نہیں آرہا۔ لیکن راستے پر گذرنے والوں کے نقوش موجود ہیں۔ تھوڑی دور راستے کے درمیان ایک شخص کو بیٹھا ہوا دیکھا۔ میں نے اس سے راستہ پوچھا، اس نے ہاتھ کے اشارہ سے کہا ادھر آؤ۔ اس سے مجھے انشراحِ قلب حاصل ہوا۔ انہوں نے فرمایا : اے سست رفتار، میں علی ہوں اور مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں ان کی بارگاہ میں لے چلوں۔ میں ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا یہاں تک کہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں دے کر کہا : يا رسول الله هذا يدی الرضا محمد یہ سن کر حضور نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت لی۔ اس موقع پر میرے دل میں ایک بات کھٹکی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس پر مطلع ہو کر فرمایا کہ میں اسی طرح اولیاء اللہ کے حق میں وسیلہ بیعت رہتا ہوں ورنہ اصل میں تمام سلاسل کی بیعتوں کا مرکز اور مرجع حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دست مبارک ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے مجھے اشغال اور اذکار کی تلقین فرمائی اور علوم و اسرار سے نوازا۔

حقیقت یہ ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ذات اقدس تمام علوم ظاہری و باطنی کا محزن ہے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپ کی اس شان سے آگاہ اور معترف تھے اور شیخین کریمین مختلف مواقع پر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے تبحر علمی اور اصابت رائے سے استفادہ بھی کرتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں کتب مناقب میں بڑے دلچسپ اور ایمان افروز واقعات منقول ہیں۔ جنہیں آئندہ شمارے میں ملاحظہ فرمائیں۔ (جاری ہے)