الفقہ : آپ کے دینی مسائل

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال : گھر میں کتا رکھنے اور اس کی خرید و فروخت کو شرعی حوالے سے واضح فرمادیں؟ (ڈاکٹر نثار احمد خان، لاہور)

جواب : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ اَمْسَکَ کَلْبًا فَاِنَّه يَنْقُص کل يوم مِنْ عمله قِيْرَاط اِلَّا کلب حرثٍ اَوْ مَاشِيَةٍ.

جس نے کتا رکھا اس کے نیک اعمال سے ہر روز ایک قیراط نیکیاں کم ہوجائیں گی، سوائے کھیتی اور مویشیوں کی (حفاظت کی خاطر رکھے گئے کتے کے)۔

دوسری روایت میں ہے

ہاں وہ کتا رکھنا جائز ہے جو بکریوں یا کھیتی یا شکار کے لئے رکھا جائے۔

(بخاری ج1، ص 312، طبع کراچی)، (مسلم ج 2، ص27، طبع لاهور)

ائمہ و فقہاء کے نزدیک

آیئے : اس معاملے میں ائمہ کبار اور فقہاء کرام کی آراء اور موقف جانتے ہیں :

امام نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ :

فمذهبنا انه يحرم اقتناء الکلب بغيرحاجة ويجوز اقتناه للصيد وللزرع وللماشية.

’’ہمارا مذہب یہ ہے کہ بلا ضرورت کتا پالنا حرام ہے ہاں شکار، کھیتی اور مویشیوں کی حفاظت کے لئے جائز ہے‘‘۔

(نووی، شرح مسلم ج 2، ص 28، طبع لاهور)

امام قرطبی اندلسی مالکی رحمۃ اللہ علیہ :

امام قرطبی اندلسی مالکی فرماتے ہیں کہ امام مالک کا مذہب مشہور یہ ہے کہ کتا رکھنا جائز ہے اور اس کی خرید و فروخت کرنا مکروہ ہے۔ اگر بیع ہوگئی تو فسخ نہ ہوگی۔ تو گویا ان کے نزدیک یہ نجس نہ ہوا اور انہوں نے اس کے جائز منافع حاصل کرنے کی اجازت دی ہے اور اس کا حکم باقی اموال تجارت کی طرح ہے، ہاں شریعت نے اس کی خرید و فروخت سے منع فرمایا تو یہ کراہت تنزیہی ہے کہ اخلاق حسنہ کے خلاف ہے۔

(امام ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، شرح بخاری ج 4، ص 427، طبع دارالفکر)

امام ابن حجر عسقلانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ :

علی جواز تربية الجر والصغير لاجل المنفعة التی يؤل امره اليها اذ اکبر، ويکون القصد لذلک قائما مقام وجود المنفعة به کما يجوز بيع مالم ينتفع به فی الحال لکونه ينتفع به فی المال.

’’کتے کا چھوٹا بچہ ان فوائد کے لئے پالنا جو اس کے بڑا ہونے سے وابستہ ہیں، جائز ہے اور ان فوائد کی نیت و ارادہ، ان کے حصول کے قائم مقام ہوگا جیسے ان اشیاء کو بیچنا جائز ہے جن سے ابھی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا مگر مستقبل میں ان سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں‘‘۔

(فتح الباری، ج 5، ص 7، طبع دارالفکر)

حنفی مذہب :

عطاء بن ابی رباح، ابراہیم نخعی، امام ابوحنیفہ، ابو یوسف، امام محمد، ابن کنانہ سخنون مالکی اور امام مالک (ایک روایت کے مطابق) علیہم الرحمۃ والرضوان نے فرمایا :

الکلاب التی ينتفع بها يجوز بيعها ويباح اثمانها وعن ابی حنيفة ان الکلب العقور لايجوز بيعه ولا يباح ثمنه.

’’جن کتوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے ان کو خریدنا، بیچنا جائز اور ان کی قیمت حلال ہے۔ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کاٹنے والے کتے کو نہ بیچنا جائز اور نہ ہی اس کی قیمت جائز ہے۔

اسی طرح بدائع میں ہے کہ خنزیر کے علاوہ مندرجہ ذیل درندوں کی خرید و فروخت جائز ہے۔

اما بيع ذی ناب من السباع سوی الخنزير، کالکلب والفهد والاسد والنمر والذئب والهر ونحوها فجائز عند اصحابنا. ثم عندنا لافرق بين المعلم وغيرالمعلم فی الاصل فيجوز بيعه کيف ماکان و روی عن ابی يوسف انه لايجوز بيع الکلب العقور کما روی عن ابی حنيفة.

’’خنزیر کے علاوہ تمام درندوں مثلاً تیندوا، بھیڑیا، شیر، چیتا، بلی وغیرہ کی خرید و فروخت ہمارے اصحاب (حنفیہ) کے نزدیک جائز ہے۔ پھر ہمارے نزدیک اصل میں اس بات میں کوئی فرق نہیں کہ یہ جانور پڑھائے سدھائے ہوں، یا نہ ہوں۔ سو جیسے بھی ہوں ان کی تجارت جائز ہے۔ امام ابو یوسف اور امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک پاگل کتے کی بیع جائز نہیں‘‘۔

(عمدة القاری شرح صحيح البخاری، ج 12، ص 59)

امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ :

يجوز بيع الکلب والفهد، والسباع المعلم وغيرالمعلم فی ذالک سواء.

’’خنزیر اور کاٹنے والے کے کے علاوہ کتا، تیندوا یا بھیڑیا اور سدھائے سکھائے یا غیر معلم درندوں کی خرید و فروخت جائز ہے‘‘۔

(امام ابن همام هدايه مع فتح القدير، ج 6، ص 345)

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ :

شکار، مویشیوں، گھروں اور فصل کی حفاظت کے لئے کتا پالنا، بالاجماع جائز ہے مگر گھر میں نہ رکھے۔ ہاں اگر چوروں یا دشمنوں کا ڈر ہو تو گھر میں (بھی) رکھ سکتا ہے۔ اس حدیث صحیح کی بناء پر کہ جس نے شکار اور مویشیوں کی حفاظت کے علاوہ (گھر میں) کتا پالا، ہر دن اس کے اجر و ثواب میں دو قیراطوں کی کمی کر دی جائے گی۔ گڑیا کی بیع اور بچوں کا اس سے کھیلنا جائز ہے۔ سوائے خنزیر کے، کتے، بھیڑیئے، ہاتھی، بندر اور تمام درندوں، یہاں تک کہ بلی اور پرندے سدھائے ہوں یا نہ، سب کی خرید و فروخت جائز ہے۔

(شامی، الدرالمختار مع ردالمختار ج 5، ص 226، طبع کراچی)

عالمگیری :

 فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ

’’سانپوں کی تجارت جائز ہے بشرطیکہ ان سے دوائیں بنائی جائیں۔ اگر اس کے لئے مفید نہیں تو بیع جائز نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ ہر چیز جس سے نفع اٹھایا جائے اس کی تجارت جائز ہے۔ ہمارے نزدیک سکھائے ہوئے کتے کی بیع جائز ہے اور اسی طرح بلی اور وحشی درندوں اور پرندوں کی خرید و فروخت درست ہے۔ اگرچہ سکھائے سدھائے ہوں یا نہ ہوں جس کتے کو سدھا یا پڑھایا نہ جائے اگر وہ قابل تعلیم ہے تو اس کا لین دین بھی جائز ہے۔ اگر قابل تعلیم نہیں (پاگل ہے) تو اس کی بیع درست نہیں‘‘۔

’’امام محمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ شیر کے بارے میں بھی یہی ہے کہ اگر قابل تعلیم و تربیت ہے اور اس سے شکار کیا جائے تو اس کی بیع جائز ہے۔ بھیڑیا اور باز ہر حال میں تعلیم قبول کرتے ہیں لہذا ان کی ہر حال میں تجارت بھی جائز ہے۔ ۔ ۔ بھیڑیئے یا (تیندوے) کے چھوٹے بچے کو جو قابل تعلیم نہ ہو، ان کو بیچنا بھی جائز ہے‘‘۔

’’ امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے فرمایا چھوٹے بڑے کا ایک ہی حکم ہے۔ ہاتھی کی تجارت جائز ہے۔ بندر کی خرید و فروخت میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی دو روایتیں ہیں۔ ایک روایت جواز کی ہے اور یہی مختار ہے جیسا کہ محیط سرخسی میں ہے اور خنزیر کے علاوہ تمام حیوانوں کی خرید و فروخت جائز ہے، یہی مذہب مختار ہے‘‘۔

(فتاویٰ عالمگيری ج 3، ص 114، طبع کوئته)

مذاہب ائمہ اربعہ

1۔ مالکیہ : کتے کی بیع جائز نہیں، خواہ اسے کسی مقصد کے لئے رکھا جائے حدیث پاک میں اس کے بیع کی ممانعت ہے۔ بعض مالکیہ کے نزدیک شکار اور حفاظت کے لئے کتا رکھنا بھی جائز اور اس کی بیع و شراء بھی جائز ہے۔

2۔ حنابلہ : کتے کی خرید و فروخت کسی صورت جائز نہیں، ہاں شکار، مویشیوں اور کھیتی کی حفاظت کے لئے کتا پالنا جائز ہے۔ بشرطیکہ سیاہ رنگ نہ ہو۔ ۔ ۔ بلی کی بیع میں اختلاف ہے۔ مذہب مختاریہ ہے کہ ناجائز ہے۔ ۔ ۔ درندوں کی بیع جائز ہے جیسے ہاتھی اور باقی درندے۔ ۔ ۔ اسی طرح شکاری پرندوں کی بیع جائز ہے جیسے باز، شکرا۔ ۔ ۔ حشرات الارض کی بیع جائز نہیں جیسے بچھو، سانپ، مگر ریشم کے کیڑوں کی بیع جائز ہے اور شکار کے لئے استعمال ہونے والے کیڑوں کی بیع بھی جائز ہے۔

3۔ حنفیہ : گوبر، بیٹھ وغیرہ کی خرید و فروخت اور ان سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ بطور ایندھن ان کا استعمال جائز اور بیع درست ہے۔ ۔ ۔ کتا، شکار یا حفاظت کے لئے ہو تو اس کی بیع بھی جائز ہے۔ ۔ ۔ یونہی خنزیر کے علاوہ دیگر درندے مثلاً شیر، بھیڑیا، ہاتھی وغیرہ، جب ان سے یا ان کے چمڑوں سے فائدہ اٹھایا جائے مذہب مختار کی رو سے ان کو پالنا اور ان کی خرید و فروخت جائز ہے۔ ۔ ۔ اسی طرح حشرات الارض، کیڑے مکوڑے مثلاً سانپ، بچھو وغیرہ سے جب فائدہ اٹھایا جائے تو ان کو رکھنا، پالنا اور لین دین جائز ہے۔ جیسے شکاری پرندوں کی بیع و شراء جائز ہے مثلاً شکرا، باز۔ ۔ ۔ قاعدہ یہ ہے کہ جس چیز میں فائدہ ہو اور شرعاً اجازت ہو، اس کی بیع و شراء جائز ہے۔

(علامه عبدالرحمن الجزيری، الفقه علی المذاهب الاربعة، ج 2، ص 232، طبع)

خلاصہ کلام

ہماری تحقیق کے مطابق کتا پالنے یا رکھنے کی ممانعت اس بناء پر ہے کہ اگر ذاتی و خانگی رعب و دبدبہ قائم رکھنے اور ریاء کاری و دھونس جمانے کے لئے کتا رکھا جائے۔ نیز ان جانوروں کی وجہ سے راہ چلتے لوگوں کو ایذاء پہنچتی ہے، جس سے لوگ زخمی ہوتے ہیں۔ باؤلے کتوں کے کاٹنے سے مہلک امراض لاحق ہوتی ہیں، کئی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جس کے نتیجہ میں لڑائیاں اور فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے، دشمنیاں جنم لیتی ہیں۔ یہ ممانعت اس وجہ سے بھی ہے کہ لوگ جانوروں کو لڑاتے، ان کو لہو لہان کرکے خود لطف اندوز اور ان کو ایذاء پہنچاتے ہیں۔ ریس مقابلوں پر شرطیں لگاتے اور جواء کھیلتے ہیں۔ معصوم بچوں کی موت و معذوری کا سبب بنتے ہیں۔ ۔ ۔ اگر یہ برے مقاصد و نتائج کار فرما نہ ہوں اور کتا یا دیگر مذکورہ جانور، چرند، درند، حفاظت، یا شکار کے لئے رکھے جائیں تو ان کا رکھنا پالنا بھی جائز اور ان کی بیع و شراء بھی جائز ہے۔

اس موقع پر یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ ان جانوروں کے دوڑ یا دیگر مقابلوں میں ہارنے، جیتنے پر کوئی تنظیم یا حکومت یا فرد، حوصلہ فزائی کے لئے انعام دے تو جائز ہے۔ لیکن اگر کوئی فرد یا تنظیم ہارجیت پر باہم شرط لگائے اور ہارنے والا جیتنے والے کو مقرر شدہ رقم یا جنس دینے کا معاہدہ کرے تو یہ جواء ہے اور حرام ہے۔