القرآن : ہجرت الی اللہ (حصہ اول)

شبِ برات کی مناسبت سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا روحانی و اصلاحی خطاب
مرتّب : محمد یوسف منہاجین معاون : اظہر الطاف عباسی

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَO

(التَّوْبَة ، 9 : 119)

’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہوo‘‘۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَO

(غَافِر - الْمُؤْمِن ، 40 : 14)

’’پس تم اللہ کی عبادت اس کے لئے طاعت و بندگی کو خالص رکھتے ہوئے کیا کرو، اگرچہ کافروں کو ناگوار ہی ہوo‘‘۔

15 ویں شعبان المعظم (شب برات) کی رات درحقیقت ہمارے لئے اپنی طبیعتوں، اپنے قلوب اور اپنی ارواح کو اللہ رب العزت کی طرف راغب کرنے کا ایک خوبصورت موقع ہے۔

اس رات میں اولاً ہم نے اپنے آپ کو اس طرف مائل کرنا ہے کہ ہم دنیا سے آخرت کی طرف رجوع کرسکیں اور پھر آخرت سے اپنے مولا کی طرف رجوع کرسکیں۔ زندگی حقیقت میں ایک سفر ہے، ایک سیر ہے اور یہ سیر اسی کی کامل ہے جس کی سیر الی اللہ ہو، جس کی ہجرت الی اللہ ہو، یعنی جو اللہ کی طرف سفر اور ہجرت کرے۔ ہجرت الی اللہ کا یہ سفر درج ذیل مراحل پر مشتمل ہے، ان مراحل میں سے ہر ایک سے کامیابی کے ساتھ گزرنا ہی ہجرت الی اللہ کو کامل بناتا ہے۔

1۔ گناہ سے نیکی کی طرف ہجرت

ہجرت الی اللہ کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اعمال سیئہ سے اعمال حسنہ کی طرف ہجرت کی جائے۔ زندگی میں جاری برے اعمال، نافرمانیاں، گناہ و اثام، ذنوب و سیئات سے توبہ کرکے نیک اعمال کی طرف رجوع کرنا، ہجرت الی اللہ کے سفر کا آغاز ہے۔ اگر ہم اللہ کی راہ کے مسافر بننا چاہتے ہیں تو شب برات، ماہ رمضان، ایام اعتکاف اور اس جیسی دیگر راتیں اس بات کی یاد دلاتی ہیں کہ ہم اللہ کی طرف ہجرت کے لئے رخت سفر باندھیں اور اس سفر کے لئے تیار ہوجائیں۔ اس کا آغاز برے اعمال کو ترک کرکے اچھے اعمال کی طرف راغب اورمنتقل ہونا ہے۔

2۔ غفلت سے بیداری کی طرف ہجرت

اس ظاہری ہجرت کے بعد ہماری زندگی میں ایک باطنی ہجرت بھی ہے کہ ہم غفلت کو ترک کرکے بیداری کی طرف منتقل ہوں۔ ہم غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں، اگر ہم اللہ کی یاد، اللہ کی عبادت، اللہ کے ذکر، اللہ کی اطاعت اور اللہ کی بندگی میں غفلت ترک کرکے انتباہ کی طرف آجائیں، یعنی ہر وقت ہمارے دل حالتِ بیداری میں رہیں، غفلت چھوٹ جائے، اللہ یاد رہے، کسی لمحے بھی اللہ رب العزت کی یاد سے غافل نہ ہوں الغرض غفلت ذکر میں بدل جائے تو یہ ہماری ہجرت کا دوسرا مرحلہ ہے۔

3۔ محبتِ غیر سے محبتِ الہٰی کی طرف سفر

ہجرت الی اللہ کا تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ ہم ہر غیر کے دھیان سے، ہر غیر کی رغبت اور چاہت و محبت میں کھوجانے سے تائب ہوں اور ہمارا فکر، ہمارا خیال، ہمارا ارادہ، ہماری ہمت تمام کی تمام صرف اللہ کی طرف ہوجائے۔

شبِ برات ہمیں نداء دیتی ہے کہ ہم اللہ کی طرف ہجرت کریں۔ ہم اس دنیا میں مقیم ہیں، ہم نے یہاں اقامت اختیار کرلی جبکہ اللہ رب العزت چاہتا ہے کہ ہم اس دنیا میں مسافر ہوں۔ جس طرح مسافر اپنے سفر میں مختلف منزلوں پر قیام کرتا ہے مگر وہ مقیم نہیں ہوتا اسے معلوم ہوتا ہے کہ میری منزلِ اقامت آگے ہے۔ اسی طرح ہم نے یہاں اقامت اختیار نہیں کرنی بلکہ نگاہ منزل یعنی آخرت پر رکھنی ہے اور اسے کبھی فراموش نہیں کرنا۔

تزکیہ نفس کا 4 نکاتی پیکج

امام غزالی نے (مجموعہ رسائل امام غزالی، ایھا الولد، ج : 1، ص : 161) شیخ ابوبکر شبلی رحمہ اللہ کا ایک قول روایت کیا ہے کہ شیخ ابوبکر شبلی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں چار سو شیوخ اور اساتذہ کی خدمت کی اور ان کی صحبت کا فیض پایا ہے۔ میں نے اپنے شیوخ سے چار ہزار احادیث سبقاً پڑھیں مگر بالآخر میں نے ان چار ہزار احادیث کے سرمایہ میں سے ایک حدیث کو اپنی زندگی کے سبق کے طور پہ اختیار کرلیا۔

میں نے اس حدیث پر عمل کیا تو علوم و فنون اور باقی چیزوں سے بے نیاز ہوگیا۔ میں نے دنیا، شیطان اور نفس کے سارے گورکھ دھندوں سے نجات صرف اسی ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سبق کے ذریعے حاصل کرلی۔ میں نے دیکھا کہ اولین و آخرین کا سارا علم اسی ایک حدیث میں درج تھا، اس لئے اسی پر اکتفا کیا اور وہ یہ ہے کہ

1۔ انتظامِ دنیا بقدرِ قیامِ دنیا

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو تعلیم دی اور فرمایا:

اِعْمَلِ الدُّنْيَا بِقَدْرِ مُقَامِک فِيْهَا.

(احمد بن حنبل، الورع، ص : 96)

اے بندے دنیا کو کمانے کی صرف اتنی محنت کر، اتنا وقت صرف کر اور اتنی ہی جان کھپا جتنا تیرا اس دنیا میں قیام ہے۔ اس دنیا کے لئے محنت اور دنیا میں اپنے قیام کا ایک ترازو اور تناسب قائم کر۔

2۔ انتظامِ آخرت بقدرِ قیام آخرت

پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

وَاعْمَل لِاخِرَتِکَ بِقَدْرِ بَقَائِکَ فِيْهَا.

اور اپنی آخرت کے لئے اتنا عمل کر، اتنی محنت کر، اتنی تیاری کر جتنا تو نے آخرت میں رہنا ہے۔

یہ موازنہ کرایا جارہا ہے کہ ہم سب کا دنیا میں قیام کتنا ہے؟ ذرا سوچیں کہ کسی کا یہاں قیام تیس، چالیس برس ہے اور کسی کا پچاس، ساٹھ برس کا قیام ہے، کسی کا آخری حد نوے، سو برس کا قیام ہوجائے گا لیکن بالآخر اسے یہاں سے رخصت ہونا ہے، دنیا میں قیام محدود ہے۔ دنیا میں قیام کا یہ دور چشم زدن میں، تیزی سے گزر جاتا ہے۔ دوسری طرف آخرت کا قیام دائمی اور لامحدود ہے۔ آخرت کے قیام اور بقاء کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس دن بندے کی آنکھ بند ہوتی ہے اور اسے قبر میں لٹایا جاتا ہے تو قبر کی پہلی شام سے ہی اس بندے کی آخرت شروع ہوجاتی ہے۔ قبر کی پہلی شام سے شروع کرکے قیامت کے دن تک، پھر قیامت کے اختتام تک اور پھر قیامت کے بعد جنت و دوزخ میں دخول تک اور پھر اس کے دوام تک ساری آخرت ہی رہتی ہے۔ پورا زمانہ قبرو برزخ بھی آخرت۔۔۔ پورا زمانہ قیامت بھی آخرت۔۔۔ بعد از قیامت کا پورا دور بھی آخرت کا ہے۔

پس حدیث مبارکہ میں انسان کو اس جانب متوجہ کیا جارہا ہے کہ اے انسان تو دنیا و آخرت میں قیام کے دورانیہ کو ذہن میں رکھ کر دنیا و آخرت کے لئے کئے جانے والے کاموں میں توازن پیدا کر اور سوچ کہ تو اس دنیا کے لئے کتنی تکلیف اٹھا رہا ہے، کتنی محنت کررہا ہے، کتنی تگ و دو کررہا ہے۔ اتنی محنت کر جتنا تو نے دنیا میں قیام کرنا ہے، اتنی ہی محنت کر جتنی تیری ضرورت ہے۔ اس کے مقابلہ میں آخرت کے قیام کو ذہن میں رکھ، اس لئے کہ وہاں کا قیام طویل ہے، endless ہے، Ever lasting ہے، کبھی ختم نہ ہونے والا ہے۔ آخرت میں چونکہ قیام بہت زیادہ ہے لہذا آخرت کے لئے تیاری اور محنت اس قیام کے حساب سے کر۔

4۔ محتاجی کے مطابق عبادت

اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَاعْمَلْ لِلّٰهِ بِقَدْرِ حَاجتِکَ اِليه.

پھر اپنے اللہ کے لئے عمل (عبادت، اطاعت) اتنا کر کہ جتنی تجھے اللہ کی حاجت ہے۔ اس بات کا تعین کرلے کہ تو اللہ کا کتنا محتاج ہے۔۔۔ اگر کسی کو تھوڑی سی حاجت ہے تو وہ تھوڑا عمل کرلے۔ سوچ! کہ کیا صرف کھانے میں اس کی حاجت ہے، یا صرف پینے میں اس کی حاجت ہے، یا صرف پہننے میں اس کی حاجت ہے، یا صرف جینے میں اس کی حاجت ہے، یا صرف مرنے میں اس کی حاجت ہے، یا صرف چلنے پھرنے میں اس کی حاجت ہے، یا صرف بیماری، صحت و شفاء، تندرستی میں اس کی حاجت ہے۔ پس بقدر حاجت اللہ کے لئے کام کر لیکن اگر ہر ہر مرحلے پر تجھے اللہ کی حاجت ہے تو پھر اعمال بھی ہمیشہ اللہ کے لئے کر اور کسی بھی لمحہ اسے فراموش نہ کر۔ اے بندے! تو تعین کرکہ تجھے اللہ تعالیٰ کی کتنی حاجت ہے پس جتنی حاجت تیری سمجھ میں آئے اتنا اللہ کے لئے کام کر۔

کارکن، رفقاء، وابستگان اس بات کو ذہن میں رکھ لیں کہ ایک روٹی کا لقمہ بھی ہمیں اللہ کی حاجت کے بغیر نہیں مل سکتا، لقمہ کھالیں تو اللہ کی مدد کے بغیر پیٹ میں اتر نہیں سکتا اگر اللہ تعالیٰ کی مدد نہ ہو تو سانس تک آ نہیں سکتا۔ ہر لمحہ کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔ ایک قدم اٹھایا تو دوسرا قدم نہیں اٹھ سکتا، اٹھا ہوا قدم زمین پر رکھ نہیں سکتے جب تک اللہ کی مدد نہ ہو۔ اے بندے! تو سوچ لے کہ تجھے اللہ کی حاجت کتنی ہے پس اس کے مطابق اعمال انجام دے۔

ہمارا رویہ اس کے برعکس ہے۔ ہم تو اللہ کے لئے کام بہت کم کرتے ہیں۔ اللہ کی اطاعت، اللہ کی بندگی، اللہ کے لئے عبادت، اللہ کی محبت، اس کی رضا، اس پر توکل، اس پر یقین، اس سے تعلق، اس کی طرف ہجرت ان تمام امور کو زندگی کے ہر لمحہ میں فوقیت دینا ہوگی کیونکہ ہمیں اس کی حاجت بھی زندگی کے قدم قدم پر ہے۔ اتنی مزدوری اللہ کے لئے کرنے اور اتنی عبادت اللہ کے لئے کرنے سے ہی حق بندگی ادا ہوتا ہے۔

4۔ برے اعمال سے اجتناب

پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

وَاعْمَلْ لِلنَّارِ بِقَدْرِ صبر عَلَيْهَا.

’’دوزخ کے لئے اتنا کام کر جتنا تو اس کی تکالیف پر صبر کرسکے‘‘۔

ہمارا عمل یہ ہے کہ ہم تو ساری زندگی سب کچھ دوزخ کے لئے ہی کررہے ہیں۔ ہر عمل، اللہ کی نافرمانی، دوزخ کے لئے ہے۔۔۔ غفلت، دوزخ کے لئے۔۔۔ نمازوں کا ترک کردینا، دوزخ کے لئے۔۔۔ حرام کھانا، دوزخ کے لئے۔۔۔ دنیا کا حرص و طمع، دوزخ کے لئے۔۔۔ لالچ، دوزخ کے لئے۔۔۔ جھوٹ بولنا، دوزخ کے لئے۔۔۔ غیبت، دوزخ کے لئے۔۔۔ حسد کرنا، دوزخ کے لئے۔۔۔ کبر اور رعونت، دوزخ کے لئے۔۔۔ نفاق، دوزخ کے لئے۔۔۔ نفرت و عداوت، دوزخ کے لئے۔۔۔ کونسا کام ہے زندگی میں جو ہم دوزخ کے لئے نہیں کرتے۔ ہر وہ کام جو اللہ سے دور کرتا ہے۔۔۔ ہر وہ کام جو دلوں کو مردہ کررہا ہے۔۔۔ ہر وہ کام جو ہمارے دلوں اور باطن میں تاریکی اور اندھیرا پیدا کررہا ہے۔۔۔ ہر وہ کام جو ہمیں آئے دن اللہ کی قربت سے دور کررہا ہے۔۔۔ وہ دوزخ کے لئے ہے۔ فرمایا: اے بندے! جہنم کے لئے اتنا کام کر جتنی تو جہنم کی آگ کو برداشت کرسکے، یہ سوچ کر عمل کر کہ اس آگ کو کتنا برداشت کرسکے گا، جتنی تیری ہمت اور برداشت دوزخ کے لئے ہے اتنا دوزخ کا کام کر۔ بہت زیادہ اگر برداشت نہیں ہے تو پھر ان کاموں کو بھی کم کر جو دوزخ میں جانے کا باعث بنتے ہیں۔

زندگی کا ماحصل

امام غزالی رحمہ اللہ ’’مجموعہ رسائل، ایھا الولد‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ

حضرت حاتم اصم رضی اللہ عنہ ، حضرت شقیق بلخی رضی اللہ عنہ کے تلامذہ اور مریدین میں سے تھے۔ ایک روز حضرت شقیق بلخی رضی اللہ عنہ نے حضرت حاتم اصم رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے میری صحبت میں 33 سال گزارے، اس دوران آپ نے میری صحبت سے کیا حاصل کیا؟ حضرت حاتم اصم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ان 33 سالوں میں آپ کی صحبت سے آٹھ فائدے حاصل کئے۔ حضرت شقیق بلخی رضی اللہ عنہ کے پوچھنے پر آپ نے بتایا کہ وہ فائدے یہ ہیں:

1۔ بہترین محبوب و دوست کا انتخاب

سب سے پہلا فائدہ مجھے آپ کی صحبت سے یہ حاصل ہوا کہ میں نے دیکھا دنیا میں ہر شخص کا کوئی نہ کوئی محبوب ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی سے محبت کرتا ہے، کسی نہ کسی چیز کو چاہتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ کوئی شخص اپنے خوبصورت گھر، کوئی مال و دولت، کوئی جاہ و منصب، کوئی اپنی اولاد، کوئی رشتہ داروں، کوئی زیورات، کوئی اچھے لباس اور کوئی دوست احباب سے محبت کرتا ہے۔

مگر جب اس بندے کی موت آتی ہے تو اس کے سارے محبوب اور دوست جن کو وہ عمر بھر چاہتا رہا، وہ اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی قبر میں اس کے ساتھ نہیں گیا۔ اس کو قبر میں لٹاکر، تنہائی کے اس کمرے میں اتار کر ہر کوئی واپس آگیا، کسی کے محبوب اور دوست نے اس لمحہ تنہائی میں اس کا ساتھ نہیں دیا، ہر کوئی واپس پلٹ آیا۔

میں نے غور کیا کہ کیا اس دنیا میں کوئی ایسا دوست بھی ہے جس سے محبت کی جائے اور وہ قبر میں چھوڑ کر واپس نہ آئے بلکہ قبر میں بھی ساتھ جائے۔ جب لمحہ تنہائی وارد ہو، سوال و جواب کیا جائے، بہشت کی گھڑی آئے تو وہ دوست تب بھی ساتھ کھڑا ہو۔

میں نے غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ دوست صرف اعمال صالحہ، نیک اعمال، رات کے اندھیروں کی عبادتیں، رات کے اندھیروں کے سجدے، آنکھوں سے اللہ کے لئے چند آنسو، بندوں پر کئے ہوئے احسان، عبادات، صدقات و عطیات وہ دوست ہیں جو قبر میں بھی ساتھ جائیں گے۔ یہ اعمال دیگر دوستوں اور محبوبوں کی طرح واپس نہیں جائیں گے بلکہ کہیں گے کہ اے دوست! تم نے ہم سے پیار کیا لہذا ہم قبر میں تیری تنہائی کے وقت بھی تیرے ساتھ ہیں۔

پس میں نے فیصلہ کیا اور ساری محبتیں چھوڑ کر اعمال صالحہ کی محبت کو اپنا لیا تاکہ وہ اعمال صالحہ قبر میں میرا سراج اور چراغ بن جائیں۔ قبر میں میرا مونس بنے، قبر میں میرا ہمدم بنے اور قبر میں مجھے تنہا نہ چھوڑیں۔

شب برات کا بھی یہی سبق ہے جو حضرت حاتم اصم رضی اللہ عنہ نے حضرت شقیق بلخی رضی اللہ عنہ سے حاصل کیا کہ ساری محبتوں کو نیچے کردو اور محبت اعمال صالحہ کو سب محبتوں پر غالب کرلو۔ تقویٰ سے محبت کرو، عبادت سے محبت کرو، اللہ کی اطاعت سے محبت کرو، اللہ کی بندگی، حسنات و صالحات سے محبت کرو تاکہ یہ تمام قبر کی وحشت کی گھڑیوں میں بھی ساتھ رہے اور کام آئے۔

2۔ خواہشات کی پیروی سے اجتناب

دوسرا فائدہ آپ کی صحبتوں سے یہ حاصل کیا کہ میں نے دیکھا کہ دنیا میں ساری مخلوق اور ہر شے اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتی ہے۔ ہر کوئی نفسوں کی خواہشات کو پوجتا ہے، نفس جو چاہتا ہے ہر شخص وہی کرتا ہے۔ نفس کی ہر خواہش پوری کرنے کے لئے میں نے دیکھا کہ دنیا میں لوگ مر رہے ہیں، ہلاک ہورہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ اللہ رب العزت نے کیا حکم دیا ہے کہ کس کی پیروی کی جائے۔ اللہ پاک نے فرمایا:

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىo فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىo

(النَّازِعَات، 79 : 40. 41)

’’اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھاo تو بیشک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگاo‘‘۔

مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ کا وعدہ حق ہے، سو میں نے اس دن نفس کی خواہشات کی پیروی کی بجائے خواہشات نفس کی مخالفت کرتے ہوئے مجاہدہ و ریاضت کو اپنالیا۔ میں نے ہوائے نفس کی پیروی چھوڑ دی اور اللہ کی اطاعت و پیروی اختیار کرلی۔

3۔ انفاق فی سبیل اللہ

تیسرا فائدہ میں نے یہ حاصل کیا کہ میں نے دنیا میں دیکھا کہ ہر شخص مال و دولت اکٹھا کرنے کی فکر میں ہے۔ چاہے غریب ہو یا امیر، کوئی تھوڑا جمع کر بیٹھتا ہے اور کوئی زیادہ جمع کر بیٹھتا ہے مگر فکر ہر ایک کو یہ ہے کہ دنیا کی لکڑیاں جمع کی جائیں، ایندھن دنیا جمع کیا جائے، مال و دولت جمع کیا جائے۔ میں نے غور کیا کہ کون سا مال اچھا ہے جسے جمع کرنے کی فکر ہونی چاہئے؟ اللہ رب العزت کے اس پیغام نے میری رہنمائی فرمائی کہ

مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ وَمَا عِندَ اللّهِ بَاقٍ.

(النَّحْل، 16 : 96)

’’جو (مال و زر) تمہارے پاس ہے فنا ہو جائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے باقی رہنے والا ہے‘‘۔

میں نے فیصلہ کیا کہ میں فانی مال و دولت کو جمع کرنے کا فکر چھوڑ دوں اور اس کو جمع کروں جو باقی ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا۔ پس میں نے اپنی زندگی میں انفاق فی سبیل اللہ، Charity اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا وطیرہ و طریقہ اپنا لیا تاکہ یہ مال جو میں خرچ کروں گا یہ اللہ کے حضور جاکر باقی ہوجائے گا۔ وہ مال جو دنیا میں آرام و آسائش کے لئے خرچ ہوتا ہے وہ ختم اور فنا ہوجاتا ہے، وہی مال باقی رہتا ہے جو آگے آخرت کے لئے بھیج دیا جائے۔ پس میں نے اسی دن سے مال یہاں (دنیا) خرچ کرنے کی بجائے آخرت کے لئے آگے بھیجنا شروع کردیا۔

لوگو! جس کو جتنی توفیق ہو اپنا مال آگے بھیجو تاکہ آپ کے پہنچنے سے پہلے آخرت میں آپ کا بینک بیلنس اچھا بن چکا ہو۔ وہاں قرض نہیں ملے گا، جو لے کر آیا ہوگا اسی سے گزر اوقات ہوگی اور وہ زندگی بڑی طویل ہے جس کا کوئی خاتمہ نہیں۔

4۔ تقویٰ کا حصول

چوتھا فائدہ آپ کی صحبت سے یہ حاصل ہوا کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اس دنیا میں عزت طلب کرتے ہیں۔ کچھ لوگ مال و دولت اور ثروت کے ذریعے عزت کے طالب ہوتے ہیں، کچھ لوگ کثرت اولاد سے عزت طلب کرتے ہیں اور کچھ جاہ و منصب سے عزت طلب کرتے ہیں، یہ سب چیزیں ان کے لئے وجہ افتخار ہوتی ہیں۔ میں نے دیکھا وہ ساری چیزیں جن سے وہ عزت طلب کرتے ہیں، ان میں سے کوئی چیز بھی اللہ کے ہاں عزت دلانے والی نہیں ہے۔ میں نے باری تعالیٰ سے پوچھا کون سی ایسی چیز ہے جس کی تیری نگاہ میں اتنی قدر و منزلت ہو کہ اس کو اختیار کرنے سے تیری بارگاہ میں بندہ عزت پا جائے۔ اللہ پاک نے فرمایا:

 إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ.

(الْحُجُرَات ، 49 : 13)

’’بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو‘‘۔

جو زیادہ متقی ہے، جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے، جوہر حرام سے پرہیز کرنے والا اور ورع و تقویٰ کی راہ پر چلنے والا ہے، جو اللہ کو ناراض نہیں بلکہ ہر عمل میں اللہ کو راضی کرنے والا ہے وہی اللہ کے ہاں زیادہ عزت والا ہے۔ پس قرآن کے اس وعدے پر میں نے یقین کیا اور تقویٰ اختیار کیا اور یہی تقویٰ مجھے کافی ہوگیا۔

5۔ اللہ کی تقسیم پر راضی

پانچواں فائدہ آپ کی ہم نشینی سے یہ پایا کہ لوگوں کو دیکھا کہ ایک دوسرے کی مذمت، غیبت، چغلی اور شکایت کرتے ہیں۔ میں نے غور کیا کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں کرتے ہیں؟ ایک دوسرے کی برائی کی ٹوہ میں کیوں لگے رہتے ہیں؟ ایک دوسرے کی غیبت کیوں کرتے ہیں؟ ایک دوسرے کے عیب کیوں اچھالتے ہیں؟ میں ان تمام امور پر غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ ان تمام گناہوں کی جڑ حسد ہے۔ حسد کی وجہ سے لوگ غیبت اور ایک دوسرے کی مذمت کرتے ہیں۔ پھر میں نے یہ جاننا چاہا کہ یہ حسد کیوں ہے؟ تو میں نے دیکھا کہ حسد کے 3 اسباب ہیں۔

  1. مال کی کثرت میں بڑھ جانے پر حسد۔
  2. عزت اور جاہ و منصب کی مسابقت میں حسد۔
  3. علم کی مسابقت میں حسد۔

علماء دوسرے علماء سے حسد کرتے ہیں، وہ گوارہ نہیں کرتے کہ ان سے بڑھ کر کوئی اور صاحب علم ہوجائے، ان سے بڑھ کر کسی کو اعلیٰ عالم تصور کیا جائے، وہ دعویدار ہیں کہ وہ سب سے بڑے عالم ہیں لہذا ان کے پاس ہی علم سب سے زیادہ ہو۔ علم کی کثرت، مسابقت اور مقابلہ میں دوسرے عالموں سے حسد کرتے ہیں۔

جو لوگ جاہ و منصب والے ہیں، عزت والے ہیں وہ اوروں کی عزت اور جاہ و منصب پر حسد کرتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ کسی اور کی عزت زیادہ ہو، کسی اور کی تکریم زیادہ ہو، دنیا میں کسی اور کی چاہت زیادہ ہو۔ وہ دوسروں کی قدر ومنزلت اور عزت دیکھ کر حسد کرتے ہیں۔

کچھ لوگ مال کی وجہ سے حسد کرتے ہیں کہ اس کو مال زیادہ کیوں مل گیا؟ اس نے زیادہ کیوں کما لیا؟ یہ زیادہ آسائش میں کیوں ہے؟ اس کا گھر اونچا کیوں ہے؟ گاڑی اعلیٰ کیوں ہے؟ اس کے پاس پیسوں کی ریل پیل کیوں ہے؟ گویا مذمت، غیبت اور چغلی کی بنیاد حسد ہے۔ اس حوالے سے اللہ رب العزت کی رہنمائی چاہی تو میری نگاہ اللہ رب العزت کے اس فرمان پر پڑی:

نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا.

(الزُّخْرُف، 43 : 32)

’’ہم اِن کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے (اسبابِ) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں‘‘۔

لوگو! اس دنیا میں اگر کسی کو عزت کا رزق ملا ہے وہ بھی اللہ نے ہی کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دیا ہے۔۔۔ کسی کو مال و دولت کا رزق ملا ہے تو وہ بھی اللہ نے ہی کسی کو کم اورکسی کو زیادہ دیا ہے۔۔۔ کسی کو اس دنیا میں جاہ و منصب اور علم کا رزق ملا ہے تو وہ بھی اللہ نے ہی دیا ہے، کسی کو علم کا سمندر دیا، کسی کو دو قطرے دیئے۔ اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ نعمتوں کی تقسیم ہم کرتے ہیں، تم نہیں کرتے۔ اگر بندہ کسی کی عزت زیادہ دیکھے اور حسد کرنے لگے، تو درحقیقت اس صاحب عزت سے حسد نہیں کررہا بلکہ اللہ کے فیصلے پر طعن کررہا ہے، اللہ کے فیصلے پر اعتراض کررہا ہے، اللہ سے ٹکراؤ کررہا ہے کہ اللہ نے اس کو عزت کیوں زیادہ دی؟ اللہ نے اس کو مال کیوں زیادہ دیا؟ اللہ نے اس کو جاہ و منصب کیوں زیادہ دیا؟ پس میں نے اس دن سے یہ سوچا کہ یہ حسد بندے سے نہیں بلکہ دراصل اللہ کے فیصلے کے خلاف بغاوت ہے۔ پس میں نے اس دن سے حسد سے توبہ کی اور اللہ کی تقسیم پر راضی ہوگیا۔ اللہ جس کو زیادہ دے اس پر راضی ہوں مجھے کم دیا اس پر بھی راضی ہوں۔

6۔ دشمنی صرف شیطان کے ساتھ

چھٹا فائدہ آپ کی مجلسوں کے فیضان سے یہ حاصل کیا ہے کہ جب میں نے دنیا میں لوگوں کو دیکھا ہر شخص تھوڑی یا زیادہ کسی نہ کسی سے عداوت اور دشمنی رکھتا ہے۔ ساس ہے تو بہو کے ساتھ کچھ نہ کچھ عداوت ہے، اسی طرح بہو کا بھی یہی حال ہے۔ رشتہ داروں کی آپس میں عداوت ہے، کسی کی پڑوسی کے ساتھ عداوت ہے، کسی کی ساتھ کام کرنے والے کے ساتھ عداوت ہے، کسی کو افسر کے ساتھ اور افسر کو اپنے ماتحت کے ساتھ عداوت ہے۔

الغرض کسی نہ کسی شکل میں ظاہری یا چھپی ہوئی، بڑی یا چھوٹی، کم یا زیادہ عداوت ہر ایک سے کسی نہ کسی کی ہوئی ہے۔ یہ عداوت بندے کو راہ حق، اعتدال، تقویٰ، خدا خوفی اور نیکی سے ہٹا دیتی ہے۔ میں نے سوچا کہ ہر شخص کو کسی نہ کسی سے عداوت ہے تو میں بھی کسی نہ کسی سے عداوت کروں۔ اس بارے میں پھر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ ساری عداوتیں انسان کو ہلاک و برباد کرتی ہیں مگر ایک دشمن ایسا ہے کہ اگر تو اس سے دشمنی کرے تو تجھے نجات اور فلاح مل جائے گی اور یہ دشمنی بندے کو ہلاک نہیں کرتی بلکہ نجات دیتی ہے۔

جان لو کہ وہ شیطان سے دشمنی ہے۔ پس اب اس دشمنی کا تقاضا یہ ہے کہ شیطان جو چاہے اس کی مخالفت کروں۔۔۔ شیطان جدھر لگانا چاہے اس کے برعکس دوسری راہ پر چلوں۔۔۔ شیطان جو ترغیب دے، اسے رد کردوں۔۔۔ شیطان میرے دل میں جو خیال ابھارے، اسے ٹھکراؤں۔۔۔ لہذا میں نے نفس اور شیطان سے مخالفت اور دشمنی کرلی، جس دن شیطان سے دشمنی کرلی دنیا کی ساری دشمنیوں سے مجھے نجات مل گئی۔ اللہ پاک نے فرمایا:

إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّ.

(فَاطِر، 35 : 6)

’’بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے سو تم بھی (اس کی مخالفت کی شکل میں) اسے دشمن ہی بنائے رکھو‘‘۔

وہ لوگ جنہوں نے دشمنی کا Target شیطان کو بنا دیا، انہوں نے دنیا کے سارے لوگوں کی دشمنیوں سے نجات پالی۔ (جاری ہے)