اجلاس مرکزی مجلس شوریٰ تحریک منہاج القرآن

رپورٹ: محمد یوسف منہاجین

تحریک منہاج القرآن کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس 4, 5 جون 2011ء بروز ہفتہ، اتوار مرکزی سیکرٹریٹ پر منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت مرکزی امیر تحریک محترم صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی نے کی جبکہ اجلاس کو ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کنڈکٹ کیا۔ اس اجلاس میں نائب ناظمین اعلیٰ، ناظمین، سینئر نائب ناظمین، نائب ناظمین، سربراہان مرکزی شعبہ جات، تحریک منہاج القرآن اور اس کے جملہ فورمز کی ملک بھر میں موجود تنظیمات میں سے منتخب ممبران مجلس شوریٰ نے خصوصی شرکت کی۔ تلاوت و نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس اجلاس کی کاروائی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

ایجنڈا

  1. سال 11 - 2010 کے ورکنگ پلان پر عملدرآمد کا جائزہ
  2. سال 12 - 2011 کیلئے تنظیمی اور تحریکی اہداف
  3. بیداری شعور مہم
  4. اعتکاف 2011ء
  5. زکوۃ و عشر مہم 2011ء

بیداری شعور تحریک

اجلاس کے آغاز میں ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے شرکاء اجلاس کو خوش آمدید کہتے ہوئے اجلاس کے ایجنڈے کے حوالے سے تفصیلی اظہار خیال کیا۔ بیداری شعور مہم کے پس منظر کو بیان کرتے ہوئے محترم ناظم اعلیٰ نے کہا کہ

’’بیداری شعور مہم کا آغاز 9 اپریل 2011ء کے ورکرز کنونشن کے بعد ہوچکا ہے۔ اگلے سال کے جملہ پروگرامز میں ہم بیداری شعور کو فوکس کریں گے لہذا اسے مہم کے بجائے بیداری شعور تحریک کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ یہ 1 یا 2 ماہ کا کام نہیں بلکہ تسلسل کے ساتھ کرنے والا کام ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ہم نہ روایتی سیاسی جماعت ہیں اور نہ روایتی دینی و مذہبی جماعت ہیں بلکہ ہم ایک انقلابی دینی تحریک ہیں۔ ہمارے مقاصد بڑے واضح ہیں۔ ہماری ایک منزل ہے اور ہم اس کو حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کی 31 سالہ جدوجہد پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ کسی بھی موقع پر ہم اول دن سے متعین تحریک کے مقاصد سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ ان اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے ہم نے مختلف راستوں پر جدوجہد ضرور کی مگر مقصد اور مشن ہمیشہ پیش نظر رہا۔ ان مختلف راستوں کا انتخاب بھی دراصل جلد از جلد اپنے مشن کے حصول کی تڑپ تھی اور جب ہم نے ان روایتی طریقوں پر جدوجہد کو سعی لاحاصل جانا تو اپنی توانائیاں ادھر خرچ کرنے کی بجائے اپنے طریقہ کار میں تبدیلی کی۔

2003ء کے بعد کے دورانیہ کو دیکھا جائے تو ہم دعوتِ دین، تعلیمی اور فلاحی کام کو آگے لے کر بڑھے۔ اس دوران تمام سرگرمیوں کی نوعیت مذہبی رہی۔ دروس قرآن، دروس حدیث، حلقہ ہائے درود، حلقہ عرفان القرآن، اعتکاف، عالمی میلاد کانفرنس الغرض ان تمام سرگرمیوں کی نوعیت مذہبی ہے۔ ان مذہبی نوعیت کی سرگرمیوں کی وجہ سے بعض حلقوں میں یہ غلط تاثر عام ہوگیا کہ شاید ہم عامۃ الناس کے مسائل سے آہستہ آہستہ دور ہوتے جارہے ہیں جبکہ مختلف سیاسی جماعتیں ہر ایشو کو سیاسی طور پر استعمال کرتی ہیں اور اس کے ذریعے وہ عوام کو تحرک دیتی ہیں۔ اس موقع پر اس امر کی وضاحت کرتا چلوں کہ ہمارا دیگر روایتی سیاسی ومذہبی جماعتوں کے ساتھ موازنہ ہر گز نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری تحریک کا ایک فکر اور نظریہ ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک ایسی شخصیت ہیں جو قوم کو ایک نظریہ اور فکر کی طرف لے جارہے ہیں۔ تحریک اپنی فکر اور مزاج کی وجہ سے ہر ایشو پر ردعمل ظاہر نہیں کرتی، اس لئے کہ ملک میں یہ ایشو کون اٹھاتا ہے؟ ان ایشوز کو منظر عام پر لانے کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما ہوتے ہیں؟ ان کو عملی ومالی امداد کہاں سے ملتی ہے؟ تحریک کی قیادت ان تمام امور سے باخبر ہے۔ لہذا کسی مخصوص مقصد کے تحت اٹھائے گئے بیشتر ایشوز پر ہم اپنا جذباتی ردعمل دے کر اپنے آپ کو اوروں کے ہاتھوں میں کھلونا نہیں بناسکتے۔

عالمی حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ پاکستانی نوجوان میں بھی تبدیلی کی خواہش پیدا ہورہی ہے۔ اس صورت حال میں ہمیں اپنی مذہبی و دینی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنے انقلابی تشخص کو تبدیلی کے خواہش مند نوجوانوں کے لئے از سر نو موضوع بنانا ہوگا۔ یہ انقلابی تشخص اور شناخت ہمارے اندر اول دن سے ہی موجود ہے۔ اس انقلابی تشخص کو خود ہم نے عمداً اجاگر نہیں کیا لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی اس پہچان اور شناخت کو مزید مضبوط بنیادوں پر منظر عام پر لائیں کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں کسی بھی طرف سے تبدیلی کی خواہش پوری نہ ہونے کی وجہ سے قوم مایوس ہوگی اور تبدیلی کی خواہش ہی ختم ہوجائے گی۔ شیخ الاسلام نے فرمایا ہے کہ مایوسی اور بے مقصدیت کسی قوم کے زوال کی انتہاء ہوتی ہے۔ اس وقت یہ قوم اپنے زوال کی انتہا کو چھو رہی ہے اور اس کے بعد عروج ہی کا آغاز ہے۔ عروج کی اس منزل کا حصول جہد مسلسل کی وجہ سے ہی ممکن ہوگا۔

اس صورت حال میں ضروری ہے کہ ہم اپنا وجود محسوس کرائیں اور مذہبی کے ساتھ دوسری سرگرمیوں کو بھی شروع کریں۔ یہ وہ پس منظر ہے جس کی وجہ سے بیداری شعور تحریک چلانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ یہ کوئی حادثاتی فیصلہ نہیں بلکہ ہم تدریجاً اس طرف آئے ہیں اور بیداری شعور تحریک ہمارے مقاصد میں سے ایک ہے۔ فروغ علم و شعور مراحل تحریک اور مقاصد تحریک میں سے ہے۔ بیداری شعور تحریک کے تسلسل کا حصہ ہے۔

اس بیداری شعور تحریک کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اگلے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ موجودہ کرپٹ سیاسی نظام کی موجودگی میں انتخابات کے ذریعے تبدیلی ممکن نہیں۔ لہذا ہم اپنے طریق سے آئینی و قانونی حدود میں رہتے ہوئے تبدیلی کی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ اسکے ساتھ ساتھ ہمارے مذہبی نوعیت کے پروگرام بھی جاری و ساری رہیں گے۔ اس کام کو ہم نے بطور تحریک اس طرح آگے بڑھانا ہے جس سے تحریک کی پالیسی اور تحریک کا عالمی امیج متاثر نہ ہو۔

تحریک منہاج القرآن چونکہ ہمہ جہتی تحریک ہے اسی لئے بیداری شعور کا کام بھی ہمہ جہتی اور وسعت کا حامل ہی ہوگا۔ یہ تحریک درج ذیل 4 نکاتی ایجنڈے پر قوم کی ذہن سازی کے لئے اقدامات کرے گی۔

1۔ اللہ کی بندگی اور عبادت کو اخلاص اور للہیت تک لے کر جانا: مراد یہ کہ نماز پڑھنے والا ثواب کے لئے نہ پڑھے بلکہ اللہ کے لئے پڑھے۔ جملہ عبادات، اللہ کے لئے کرے۔ یعنی عبادات کو رسوم و رواج سے نکال کر اخلاص تک پہنچانا ہے۔ یہ پیغام ہم نے دروس عرفان القرآن، عرفان القرآن کورسز، مذہبی اجتماعات، دعوت بذریعہ سی ڈی، شیخ الاسلام کی کتب کا مطالعہ اور تربیتی سرگرمیوں کے ذریعے عوام تک پہنچانا ہے۔

2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور غلامی کو وفا تک لے کر جانا: مراد یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفا کا پیغام عام کرنا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفا کیا ہے؟ دین کی وفا کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تقاضا آپ سے وفا کرنا ہے اور وفا کرنے سے مراد اقامت دین کی جدوجہد اور خدمت دین ہے۔ اس پیغام کو حلقہ درود، محافل نعت، محافل میلاد، دروس قرآن اور شیخ الاسلام کی کتب کے ذریعے آگے پہنچانا ہے۔

3۔ موجودہ نظام کی خرابیوں کو اجاگر کرکے نظام سے بیزاری اور نفرت تک لے کر جانا: عوام کو اس نظام کے خلاف تیار کرنا ہوگا۔ اس پیغام کے فروغ کے لئے ہم نے سیمینارز، کانفرنسز، آرٹیکلز، عوامی مسائل پر ہینڈ بلز اور کتابچوں کو اختیار کرنا ہے۔

4۔ افراد معاشرہ کو انفرادی سوچ کے حصار سے نکال کر اجتماعیت کی طرف لے کر آنا: ہماری قوم میں اجتماعیت نہیں رہی، مختلف اکائیوں میں تقسیم ہے۔ اس صورت میں قومی غیرت و حمیت کا پیغام دینا ہے اور انفرادی سوچ سے نکال کر اجتماعیت کی طرف لانا ہے۔ لوگوں کو ذاتی مفاد سے نکال کر اجتماعی مفاد کی طرف لانا ہوگا۔ اس کے لئے ہمیں تعلیمی ادارہ جات میں تعلیمی سرگرمیوں اور دیگر سماجی و فلاحی سرگرمیوں کا آغاز کرنا ہوگا۔

سالانہ کارکردگی رپورٹ (11 - 2010ء) و آئندہ سالانہ تحریکی و تنظیمی اہداف

ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی کی تفصیلی بریفنگ کے بعد سینئر نائب ناظم اعلیٰ محترم شیخ زاہد فیاض نے سال 11 - 2010ء کے تنظیمی و تحریکی اہداف کے حصول پر مبنی سالانہ کارکردگی رپورٹ برائے جائزہ ہاؤس میں پیش کی۔ امسال کارکردگی رپورٹ پر جائزہ کو مؤثر بنانے کے لئے انفرادی طور پر ہر نظامت اور فورم کی کارکردگی پیش کرنے کے بجائے اجتماعی طور پر ہر نظامت و فورم کے حاصل کردہ اہداف کو ہاؤس کے سامنے پیش کیا گیا۔

محترم شیخ زاہد فیاض نے گذشتہ سال تحریک اور اس کے جملہ فورمز کے ذریعے وابستہ ہونے والے افراد، رفقاء، لائف ممبرز، تحریک اور اس کے جملہ فورمز کی تحصیلی، یونین کونسل اوریونٹس سطح پر قائم ہونے والی تنظیمات کے حوالے سے ہاؤس کو آگاہ کیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے تحریک کے جملہ فورمز کی دیگر سرگرمیاں، دروس قرآن، حلقات درود، حلقات عرفان القرآن، عرفان القرآن کورسز، عرفان القرآن سنٹر، سی ڈی ایکسچینج، تربیتی کیمپس، بیداری شعور کنونشن، ورکرز کنونشن، دفاتر کا قیام، تحصیلی سطح پر محافل میلاد، کتب کی نمائش، فلڈ ریلیف مہم، سیمینارز، روحانی اجتماعات، تعارفی نشستیں اور دیگر پروگرامز کی سالانہ کارکردگی رپورٹ پیش کی۔

سالانہ کارکردگی رپورٹ (11 - 2010ء) ہاؤس کے سامنے پیش کرنے کے بعد محترم شیخ زاہد فیاض نے Vision - 2012 کی روشنی میں آئندہ سال 12 - 2011ء کے اہداف بھی ہاؤس کے سامنے برائے منظوری و تجاویز پیش کئے۔

٭ محترم سینئر نائب ناظم اعلیٰ کی فیلڈ ورک کے حوالے سے بیان کی گئی رپورٹس اور اہداف کے بعد محترم ناظم اعلیٰ نے بیداری شعور تحریک، سالانہ کارکردگی 11 - 2010ء اور آئندہ اہداف سال 12 - 2011ء پر آراء، تجاویز، لائحہ عمل، موثر نفاذ اور ترجیحات کے تعین کے حوالے سے ممبران مجلس کو آراء و تجاویز پیش کرنے کی دعوت دی۔ ہاؤس نے درج بالا نکات پر اپنی مفصل آراء و تجاویز کا اظہار کیا۔

فیصلہ جات: ممبران مجلس کی تفصیلی آراء و مشاورت کے نتیجے میں درج ذیل فیصلہ جات کئے گئے۔

1۔ سال 12 - 2011ء کے تنظیمی و تحریک اہداف کی منظوری دی گئی۔

2۔ سالانہ رپورٹ 11 - 2010ء کی کارکردگی کی روشنی میں بیداری شعور تحریک کو موثر بنانے اور اس تحریک کے چار نکاتی اہداف کے حصول کے لئے رائے شماری کے ذریعے سرگرمیوں کی درج ذیل ترجیحات طے کی گئیں۔

i۔ ویڈیوپروگرام ii۔ CD کی ترسیل iii۔ آئیں دین سیکھیں iv۔ حلقات درود و فکر

اعتکاف مہم

سینئر نائب ناظم اعلیٰ محترم شیخ زاہد فیاض نے اعتکاف 2011ء کا پلان ہاؤس میں پیش کیا جس کی روشنی میں فیصلہ کیا گیا کہ تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام ’’شہر اعتکاف‘‘ کا انعقاد تحریک کی پہچان ہے اور حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اعتکاف کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پچھلے سال سیلاب کی وجہ سے اعتکاف کا انعقاد نہ ہوسکا اور اس سے پچھلے سال کم جگہ کی دستیابی کی وجہ سے اعتکاف کو محدود کرنا پڑا۔ اس سال چونکہ الحمدللہ تمام انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں۔ لہذا گذشتہ سالوں کی نسبت کئی زیادہ معتکفین کے لئے اعتکاف گاہ میں گنجائش موجود ہوگی۔ جملہ تنظیمات، رفقاء اور کارکنان اعتکاف کو کامیاب بنانے کے لئے بھرپور محنت کریں۔

شرکاء: 1۔ تنظیمات اپنے علاقوں سے رجسٹریشن کروانے والے احباب کی سیکورٹی کلیئرنس کریں گی۔

2۔ شرکاء کا تناسب اس طرح رکھا جائے کہ 70 فیصد رفقاء، کارکنان، وابستگان اور تنظیمی عہدیداران، 20 فیصد عوام الناس اور 10 فیصد مؤثر افراد ہوں گے۔

رجسٹریشن: 1۔ معتکفین کے لئے رجسٹریشن مورخہ 15 جولائی تا 15 اگست تک پہلے آیئے پہلے پایئے کی بنیاد پر کی جائے گی۔ 2۔ اس سال رجسٹریشن فیس 1200 روپے فی کس ہوگی۔

3۔ مردوں کی رجسٹریشن اوپن ہوگی جبکہ خواتین کی تعداد محدود ہوگی۔ مرکزی ویمن لیگ اپنی تنظیمات کو کوٹہ جاری کرے گی۔

عشر مہم

تحریک کے زیراہتمام چلنے والے مختلف رفاہی، فلاحی اور تعلیمی منصوبہ جات کے لئے مستقل بنیادوں پر عشر مہم کو بھی ملک گیر سطح پر لانچ کرنے کی تجویز ہاؤس میں پیش کی گئی۔ ہاؤس نے مشاورت کے بعد اس کی منظوری دی۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن اس سلسلے میں ضروری لٹریچر اور مواد تنظیمات کو فراہم کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔

زکوۃ مہم

ہاؤس کے سامنے تجویز پیش کی گئی کہ سیلاب کی وجہ پچھلے سال زکوۃ کے حوالے سے منظور کئے جانے والے پلان کے مطابق عمل درآمدنہ ہوسکا لہذا اس سال کے لئے تجویز ہے کہ زکوۃ مہم کو اسی انداز میں لانچ کیا جائے اور اس سال ہر رفیق کم از کم 5 ہزار روپے زکوۃ جمع کرے اور جملہ تحصیلات میں جمع ہونے والی زکوۃ مرکز میں جمع کروائیں۔ ہاؤس نے کثرت رائے سے اس تجویز کی منظوری دی۔

پاکستان عوامی تحریک پنجاب کی تنظیم نو

  • اجلاس میں محترم ناظم اعلیٰ نے ممبران مجلس کو بتایا کہ بیداری شعور مہم سے حوصلہ افزاء نتائج کے حصول کے لئے صوبائی سطح پر پاکستان عوامی تحریک کی تنظیم نوکا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایسے افراد کو نامزد کیا گیا ہے جو فکری اور نظریاتی حوالے سے پختہ شخصیت کے مالک ہیں اور مشن کی واضحیت کے ساتھ ساتھ سماجی و سیاسی ذوق کے بھی حامل ہیں۔ اس سلسلے میں PAT پنجاب کی تنظیم نو 25 مئی کو عمل میں آئی ہے۔ جس میں درج ذیل احباب کو منتخب کیا گیا ہے۔
  • صدرPAT: محترم لہراسب خان گوندل (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ)
  • نائب صدور PAT: محترم چوہدری محمد حنیف سندھو (لاہور)، محترم حاجی طالب حسین (لاہور)، محترم ڈاکٹر ظفر علی ناز قریشی (سرگودھا ڈویژن)، محترم ڈاکٹر محمد الیاس (جنوبی پنجاب)، محترم خان عبدالقیوم خان (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ)
  • سیکرٹری جنرلPAT: محترم چوہدری محمد حسین شاہین (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ)
  • سیکرٹری فنانس: محترم حافظ غلام فرید
  • سیکرٹری کوآرڈینیشن: محترم اشتیاق احمد چودھری (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ)
  • سیکرٹری انفارمیشن: محترم میاں زاہد جاوید

ممبران مجلس شوریٰ نے نئے منتخب عہدیداران PATکو مبارکباد دی اور ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔

خصوصی گفتگو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مجلس شوریٰ کے اجلاس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ممبران شوریٰ سے بذریعہ ویڈیو کانفرنس خصوصی گفتگو کی۔ آپ کی گفتگو نذرِ قارئین ہے:

’’الحمداللہ اس بات کی خوشی ہے کہ شوریٰ کے اجلاس دستور اور شیڈول کے مطابق ہورہے ہیں۔ اس پر آپ کومبارکباد دیتا ہوں۔ ان اجلاس اور اس طرح کے دیگر اجلاسز میں اپنی کارکردگی کا جائزہ لیا کریں کہ اہداف کیا تھا اور کتنے پورے ہوئے؟ اگر پورے نہیں ہوئے تو اس کی وجوہات کیا تھیں الغرض ان اسباب کا تجزیہ کیا کریں۔ خود احتسابی کا عمل ضروری ہے، محاسبہ کا عمل اہم ہے اس سے قبل مراقبہ یعنی نگرانی اور جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ جائزہ کے اس عمل میں دیانتداری پہلی شرط ہے۔

مراقبہ میں انسان اپنے احوال کی نگرانی کرتا ہے۔ اس نگرانی کے نتیجے میں آنے والی کمی و بیشی کے اسباب کا جائزہ لینا محاسبہ کہلاتا ہے۔ محاسبہ کے عمل کے دوران نقص اور کمی کے سامنے آنے پر کبھی اس کا دفاع نہیں کرنا چاہئے، اس سے مجادلہ (لڑائی جھگڑا) ہوتا ہے اور نقصانات کا ازالہ کرنے کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ محاسبہ کا مطلب اور غرض اپنا موازنہ ہوتا ہے تاکہ بہتری لائی جائے۔ زندگی میں کبھی Reactive نہ ہوں، جذباتی ردعمل کا اظہار نہ کریں۔ جب بھی Reactive ہوں گے تو زندگی میں نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سوال کرنے کو کبھی تنقید نہ سمجھا جائے۔ سوال کو تنقید سمجھنا اصل میں Complex ہے۔ سوال کو تنقید سمجھنے پر مشاورت کی برکت ختم ہوجاتی ہے۔ سوال کو Welcome کرنا چاہئے۔ یہ لیڈر شپ کوالٹی کا حصہ ہے۔ کچھ لوگ سوال تو برداشت کرلیتے ہیں مگر تنقید برداشت نہیں کرتے۔ تنقید کا برداشت نہ کرنا ناکامی ہے۔ ذات کے محاسبہ کو ہمیشہ مثبت لیں، سوال کو مثبت لیں، تنقید کو بھی خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ لیں اگرچہ کرنے والے نے منفی انداز سے کی ہو۔ نیتوں کے حال اللہ بہتر جانتا ہے، نیت کا تعلق دل سے ہے۔ لہذا ہم کسی کے سوال یا تنقید پر منفی ہونے کا لیبل نہیں لگاسکتے۔

ایک غزوہ میں ایک صحابی نے دوسرے شخص کو قتل کیا اور جو قتل ہوا اس نے عین آخری وقت کلمہ پڑھا مگر پھر بھی اس صحابی نے اسے قتل کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں قتل کیا حالانکہ اس نے کلمہ بھی پڑھ لیا تھا؟ عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرا خیال تھا کہ اس نے جان کے بچاؤ کے لئے کلمہ پڑھا۔ فرمایا: کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 3 مرتبہ فرمایا کہ قیامت کے دن کیا جواب دو گے۔ صحابی کہتے ہیں کہ اس وقت میں سخت پریشان ہوا اور یہ کہتا رہا کہ کاش میں آج مسلمان ہوا ہوتا اور یہ عمل میرے نامہ اعمال میں نہ لکھا جاتا اور آج مسلمان ہونے کی وجہ سے پچھلے گناہ اور بداعمالیوں پر جوابدہ نہ ہوتا۔

مراد یہ ہے کہ کسی کے دل کے حال کو قیاس نہ کریں۔ کسی کے جملے کو منفی نہیں بلکہ ہمیشہ مثبت لیں۔ تنقید کو اپنے لئے نعمت سمجھیں کہ اس نے آپ کو آپ کے حال کی طرف متوجہ کیا۔ اس کی تنقید کو اپنے اوپر احسان سمجھیں۔ امام اعظم پر ایک شخص نے تنقید کی اور آپ کی غیبت کی۔ آپ کو خبر پہنچی تو آپ نے غیبت کرنے والے اور تنقید کرنے والے کے لئے تحائف بھیجے، پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا عمل کیوں کیا؟ فرمایا: انہوں نے مجھے میرے احوال کی اصلاح کی طرف متوجہ کیا، اس پر شکریہ کے اظہار کے لئے یہ تحائف بھیجے۔

یاد رکھیں وہ شخص فریسٹریشن سے نہیں نکل سکتا، صبر اور ضبط پیدا نہیں کرسکتا جو تنقید اور سوال کو برداشت نہیں کرتا۔ اگر اس طرح کی سوچ نصیب ہوجائے تو جدوجہد میں برکت آجاتی ہے اور نتائج جدوجہد سے بھی زیادہ بڑھ کر آتے ہیں۔ نیکی، نیکی تب شمار ہوتی ہے جب نیک عمل اللہ کی رضا کے لئے کیا جائے۔ اولیاء اللہ نے کہا کہ جو آدمی مخلوق کو دکھانے کے لئے عمل کرے تو یہ شرک ہے اور جو مخلوق کے دیکھنے کی وجہ سے عمل ترک کرے تو یہ ریاء و دکھلاوا ہے۔ عمل کرنا تھا اللہ کے لئے اور ہم نے عمل کرنے اور نہ کرنے کو مخلوق کے ساتھ جوڑ دیا۔ اخلاص یہ ہے کہ اعمال کی ادائیگی میں نہ شرک ہو نہ ریاء ہو۔ اخلاص یہ ہے کہ عمل ہو مگر مخلوق نہ ہو۔۔۔ اخلاص یہ ہے کہ عمل کے کرنے اور ترک کرنے میں مخلوق نہ ہو۔

کسی نیکی کا دس گنا اجر کیوں ملتا ہے؟ عمل تو ایک کیا لیکن ایک عمل پر ایک نیکی جزاء ہے اور ایک عمل پر جو 10 نیکیاں ملتی ہیں، یہ برکت ہے۔ اور یہ برکت اس عمل کے اخلاص اور للہیت کی وجہ سے ملتی ہیں۔ نیت میں محض اللہ کی رضا غالب ہو، بندے اس نیت پر اثر انداز نہ ہوں۔ جس دن یہ ہوجائے تو ولایت اور برکت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔

جس طرح آپ کے ایک عمل پر 10 نیکیاں ملیں اسی طرح اخلاص اور للہیت کی وجہ سے کوشش میں برکت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نتائج میں بھی اضافہ فرمادیتا ہے۔ دین کی عملی جدوجہد میں نیت جتنی خالص ہوگی نتیجہ خیزی اتنی ہی بڑھ جائے گی۔ نیت اچھی کرنی ہے تو اپنے اندر سے 2 چیزوں کو نکال دیں۔

1۔ ’’میں‘‘ (نفس) کو نکال دیں۔ کوئی کام اپنی خاطر اپنی عزت شہرت، ناموری کے لئے نہ کریں۔

2۔ دوسروں کو نکال دیں یعنی کوئی چیز دوسروں کے لئے نہ کریں کہ وہ یہ کہے گا، وہ خوش ہوگا، وہ ناراض ہوگا۔

جب نیت میں سے ’’میں، یہ، وہ، تو، تم‘‘ الغرض نفس اور لوگ سب نکال دیں گے تو نتائج میں برکت پیدا ہوگی۔

اس کا اطلاق تنظیمی و نجی زندگیوں پر کریں کیونکہ ساری بحث یہی ہے کہ میں جانتا ہوں کہ اس کی نیت کیا ہے؟ اس ’’جاننے‘‘ کو نکال دیں اور ’’نہ جاننے‘‘ کی طرف آجائیں۔ سب خرابی اسی ’’جاننے‘‘ میں ہے۔ جس طرح نیت میں خالصیت کے زیادہ ہونے سے ایک عمل اور ایک نیکی کا اجر 10گنا سے بھی بڑھ کر 70گنا، 100 گنا، 700گنا اور لامحدود ہوجاتا ہے اسی طرح جدوجہد میں بھی نیت کی خالصیت کی وجہ سے برکت آتی ہے اور دین کی خاطر جدوجہد میں نتیجہ خیزی بڑھ جاتی ہے اور 10 گنا سے لے کر 700 گنا تک کے نتائج سامنے آتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ جس میں اللہ کی برکت شامل ہوجائے تو اس ہی کو کرامت کہتے ہیں۔ کرامت کی اصل برکت ہے۔

جب بندہ کسی نیک عمل کی طرف راغب ہوتا ہے تو یہ اللہ کی توفیق سے ہے اور اللہ کی توفیق اس ہی کو نصیب ہوتی ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ اکابر اولیاء میں سے کسی سے پوچھا گیا کیا آپ کو پتہ چلتا ہے کہ اللہ آپ کو کب یاد کرتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، جب میں اس کو یاد کروں تو عین اسی لمحہ وہ مجھے یاد کرتا ہے کیونکہ اس کی طرف سے یاد کئے بغیر یہ توفیق نہیں ملتی۔ توفیق کا ملنا اصل میں Reflection ہے۔ روشنی جس طرح منعکس ہوکر واپس آتی ہے اسی طرح اللہ کا یاد کرنا ہی انسان کو توفیق کی نعمت دیتا ہے اور توفیق وہ اپنے محبوب بندوں کو ہی دیتا ہے۔ جب کوئی کام نہ کرسکیں تو سمجھیں توفیق نہیں ملی اور جس سے توفیق چھن جائے تو یاد رکھیں یہ کسی غفلت و کوتاہی کی وجہ سے ہے۔

کارکنان، دین کی خدمت کریں۔ مشن کے فروغ کے لئے تحریک کی طرف سے دی گئی جملہ سرگرمیوں کو آگے بڑھائیں۔ کوشش آپ نے کرنی ہے، اجر اور نتائج میں برکت اللہ کی طرف سے ضرور آئے گی۔ نیت کو خالصتاً اللہ کی طرف کرنے کی ضرورت ہے۔ کارکن اور تنظیمات جس جس سرگرمی کو آگے بڑھائیں گے اس کا اجر اور صدقہ جاریہ ان کے نام ہوگا۔ بیداری شعور تحریک کے ذریعے انقلاب کے پیغام کو گھر گھر پہنچائیں۔ ارشاد فرمایا:

فَذَکِّرْقف اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ.

(الْغَاشِيَة ، 88 : 21)

’’پس آپ نصیحت فرماتے رہئے، آپ تو نصیحت ہی فرمانے والے ہیں‘‘۔

اس آیت میں تذکیر سے مراد شعور کی بیداری ہے۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

 يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَأَنذِرْo

(الْمُدَّثِّر ، 74 : 2)

’’اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!) اُٹھیں اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سنائیں‘‘۔

اس آیت میں قیام کرنے کا مطلب لوگوں کو بیدار کرنا ہے۔ ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا:

رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ.

(آل عِمْرَان ، 3 : 193)

’’اے ہمارے رب! (ہم تجھے بھولے ہوئے تھے) سو ہم نے ایک ندا دینے والے کو سنا جو ایمان کی ندا دے رہا تھا‘‘۔

اس آیت کریمہ میں بھی بیداری شعور ہی کی طرف اشارہ ہے کہ شعور کو بیدار کرنے والے نے ندا دی اور شعور دیا۔ کارکنان مذہبی و دینی سرگرمیوں کو انقلاب آفرین بنائیں یہ بیداری شعور ہے۔ ان سرگرمیوں سے روحانیت آپ کے لئے ہو اور سوسائٹی کے لئے اس سے انقلاب پھوٹے۔ لوگوں کو رفاقت، وابستگی کی طرف راغب کریں۔ انقلاب انگیز اور نتیجہ خیز رفاقت بنائیں۔ عقیدت کو رفاقت میں بدلیں۔ جملہ سرگرمیوں سے رفاقت میں اضافہ کریں۔ جملہ سرگرمیوں میں شامل ہونے والے افراد کو مصطفوی انقلاب کی طرف منتقل کریں۔ ان کوثواب تک نہ رکھیں بلکہ انقلاب کی طرف لائیں۔ اگر دینی سرگرمیوں کا فائدہ آپ کو پہنچے تو ثواب ہے اور سوسائٹی کو پہنچے تو انقلاب ہے۔ وابستگی کو انقلابی وابستگی میں تبدیل کریں۔

ہر حال میں استقامت میں رہیں، کارکن وہی ہے جو صاحب استقامت ہے۔ عمل، سوچ اور اللہ کے ساتھ تعلق میں استقامت رکھیں۔ گرد و پیش کے حالات یقینا استقامت چھیننے والے اور مایوس کن ہیں۔ مایوسی سے نکلنا انقلاب ہے۔ اس پورے ماحول میں خیر کا وجود نہیں بچا۔ اس ماحول میں چٹان کی طرح اپنے آپ کو قائم رکھیں۔ سیلاب میں وہ بہتا ہے جس کی بنیاد کمزور ہو۔ آپ پہاڑ بن جائیں کہ بڑے سے بڑا سیلاب آپ کونہ ہٹاسکے۔ کوہ استقامت بنیں کہ آپ پر حالات اثر انداز نہ ہوں۔

سوال کریں کہ کس نے قوم اور ملک کو یہاں تک پہنچادیا؟ جواب یہی ہوگا کہ حکمرانوں نے۔ ان حکمرانوں کے نام اس لئے نہیں لیتے کہ ہر کسی کی کسی نہ کسی کے ساتھ وابستگی ہے۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ مرگئے، حالات خراب ہیں۔ سوال کریں کہ پھر چپ کیوں ہیں؟ ان کے خلاف کوشش کیوں نہیں کررہے۔ تو جواب خاموشی ہے۔ پس قوم خاموش ہے اور اسی بناء پر اس تباہی کی ذمہ دار ہے۔

کارکن دائیں بائیں کی فکر نہ کریں کہ لوگ کیا کررہے ہیں اور کیا نہیں کررہے؟ اردگرد سے متاثر نہ ہوں۔ آپ دعوت الی الحق دینے والے لوگ ہیں۔ لہذا آپ بہاؤ کے پیچھے نہ چلیں بلکہ ان شعور سے محروم اور بکھرے ہوئے لوگوں کو ساتھ لے کر چلیں۔ آپ کا کردار قیادت کا ہونا چاہئے نہ کہ تقلید کا۔ آپ نے اس قوم کو Lead کرنا ہے، اس قوم کو Follow نہیں کرنا۔ اس لئے کہ قوم نیکی اور بدی میں فرق نہیں کرپارہی۔

آج ایک نام نہاد طبقہ ہم پر مسلط ہے۔ نااھل، اہل اقتدار ہیں، فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ نے کس ایشو میں شامل ہونا ہے اور کہاں شامل نہیں ہونا۔ آپ شعور اور ہدایت کے ساتھ چلیں۔ صدق و اخلاص، روحانیت، عبادت، نیکی نیتی، حسن کردار، حسن سیرت اور علم آپ کا اسلحہ ہے۔ اس اسلحہ کے بغیر آپ بازی نہیں جیت سکتے۔ اعلیٰ اعمال، اعلیٰ اخلاق، روحانیت اور نیک نیتی کے ساتھ آپ نے یہ جنگ جیتنی ہے۔

اللہ آپ کو عزم و ہمت دے، استقامت دے تاکہ آپ جلد از جلد اپنی منزل کو پہنچیں اور مصطفوی انقلاب آپ کی زندگیوں میں شرمندہ تعبیر ہو۔