الفقہ : آپ کے دینی مسائل

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

اسلام کا نظامِ زکوٰۃ

اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی نشوونما کے لئے زمین اور آسمان سے اس کی ضروریات زندگی، خوراک، پوشاک، رہائش اور سماجی و تمدنی کفالت کا ایسا معقول و وافر انتظام کیا ہے اور اپنی مخلوق کو کسی بات میں کسی کا محتاج نہ رکھا لیکن ابتدائے خلق سے نسل انسانی کے دشمن شیطانی عناصر نے خدا کے پیدا کئے ہوئے وسائل رزق پر غاصبانہ تسلط کر رکھا ہے۔ ایک محدود و حقیر طبقہ روزی کے سرچشموں پر قابض ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ عام لوگوں کو بھی زندگی کی آسائشیں میسر ہوں۔ اللہ کی رزق سے وہ بھی متمع ہوں اور عزت و وقار سے زندہ رہیں۔

قرآنی نظام ربویت چونکہ ہر ضرورت مند کی ضرورت کا کفیل ہے لہذا جو امیر کبیر مالدار لوگ اس نظام کے قیام میں رکاوٹ ڈالیں، وہ ایک طرف اللہ کے دشمن ہیں اور دوسری طرف عام انسان کے بدخواہ۔ وہ چاہتے ہیں ہم بلا روک ٹوک اللہ کی نعمتوں پر سانپ بن کر بیٹھے رہیں اور عوام دانے دانے کو ہمارے محتاج ہوں۔ ان کی عزت، آبرو، آزادی، یہاں تک کے ان کی زندگی و موت بھی ہمارے ہاتھوں میں گروی ہو۔ اس ظالمانہ سوچ اور ذہنیت رکھنے والوں کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے۔

وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا.

’’مجھے اور ان جھٹلانے والے مالداروں کو چھوڑ دو، اور ان کو تھوڑی مہلت دو‘‘۔

(المزمل، 73 : 11)

اسلام اور حقوق العباد کی ادائیگی

اسلام نے دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اخلاق اور قانون دونوں سے کام لیا۔ زکوٰۃ کی صورت میں نقد اور عشر کی صورت میں زمین سے پیدا ہونے والی اجناس پر مقرر و متعین شرح سے آمدنی کا ایک حصہ صاحب ثروت لوگوں سے قانوناً لیکر ضرورت مندوں کی کفالت کا بندوبست کیا اور یہ کام اسلامی حکومت کے اولین فرائض میں شامل کر دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ.

’’وہ لوگ کہ اگر ہم ان کو زمین میں اختیار و اقتدار دیں تو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں‘‘۔

(الحج، 22 : 41)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

توخذ من اغنياهم فترد علی فقرائهم.

’’زکوٰۃ ان کے امیروں سے لی جائے اور ان کے غریبوں پر لوٹا دی جائے گی‘‘۔

(متفق عليه)

ارکان اسلام میں نماز کے بعد دوسرا اہم ترین رکن زکوٰۃ ہے۔ قرآن حکیم میں بیاسی 82 مقامات وہ ہیں جہاں نماز اور زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم یکجا آیا ہے۔ زکوٰۃ سے انکار نصِ قطعی کے مطابق صریحاً کفر و بغاوت اور دائرہ اسلام سے اخراج کے مترادف ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلامی تاریخ کے نازک ترین لمحے میں جب مملکت اسلامیہ چاروں طرف سے گونا گوں آزمائشوں اور فتنوں سے دوچار تھی منکرین زکوٰۃ کے خلاف اعلانیہ جہاد کیا اور نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے ساتھ ان تمام باغیوں کا بھی قلع قمع کر دیا جنہوں نے صرف زکوٰۃ سے انکار کیا تھا۔ اس سے یہ بات بغیر کسی ابہام کے نکھر کر سامنے آتی ہے کہ اسلامی نظام میں زکوٰۃ کی ادائیگی ایک ایسے بنیادی فریضے کا حکم رکھتی ہے جس سے انکار صریحاً بغاوت متصور ہوتی ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف اسلامی حکومت کے ارباب اقتدار کے لئے جہاد کرنا فرض ہو جاتا ہے۔

زکوٰۃ اسلام کے اقتصادی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ زکوٰۃ کے حکم کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما ہے کہ اسلامی حکومت پورے معاشرے کو ایسا اقتصادی و معاشی نظام، طرز زندگی اور سماجی ڈھانچہ مہیا کرے جس سے حرام کمائی کے راستے مسدود ہو جائیں اور رزق حلال کے دروازے کھلتے چلے جائیں۔ اس لئے شریعت مطہرہ نے ہر صاحب مال پر یہ فریضہ عائد کیا کہ وہ سالانہ بنیادوں پر اپنے جمع شدہ اموال پر اڑھائی فی صد کے حساب سے مال نکال کر اجتماعی طور پر حکومت کے بیت المال میں جمع کرا دے تاکہ وہ اسے معاشرے کے نادہندہ اور محتاج افراد کی ضروریات پوری کرنے پر صرف کر سکے۔ اس شرح سے اگر سب اہل ثروت اور متمول افراد اپنے سال بھر کے اندوختہ و زر و مال سے اپنا اپنا حصہ نکالتے رہیں تو اس طرح نہ صرف ان کی کمائی حلال اور ان کا مال و متاع آلائشوں سے پاک و صاف ہو جائے گا بلکہ معاشرے میں پائی جانے والی معاشی ناہمواریاں بھی از خود دور ہوتی رہیں گی۔ اگر یہ سوچ افراد معاشرہ کے قلوب و اذہان میں جاگزیں ہو جائے تو پوری زندگی میں حلال و حرام کی حدیں متعین ہو جائیں گی اور اجتماعی حیات کے احوال و معاملات سنور جائیں گے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کا قیام اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ ایک سے انسان کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے تو دوسرے سے اس کی مادی ضرورتوں کی کفالت کی ضمانت میسر آتی ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ افراد کی روحانی اور مادی تقاضوں کی تکمیل کے بعد ہی جنم لیتا ہے جس کے نتیجے میں نیکیوں اور اچھائیوں کو فروغ ملتا ہے اور اس کے اندر پائی جانے والی برائیوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس کے مختلف مقامات پر بڑے شرح وبسط اور شد ومد کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا گیا ہے۔ باری تعالیٰ جگہ جگہ اہل ایمان کو اس مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ارشاد فرماتے ہیں۔

ان ارشادات میں مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ کے الفاظ غور طلب ہیں کہ انسان بسا اوقات یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اس کا مال اور اس کی کمائی اس کی ذاتی محنت و کاوش اور استعداد و قابلیت کا نتیجہ ہے۔ اس کا یہ زعم باطل اور اس کا یہ دعویٰ خام خیالی ہے۔ اس لئے کہ انسان کے پاس جو کچھ مال و متاع ہے اس کے لئے رب کی عطا اور فضل ہے جس سے اسے کسی بھی لمحہ محروم کیا جا سکتا ہے۔

قرآن پاک میں جابجا محروم طبقات اور حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی طرف رہنمائی فرمائی گئی۔ ارشاد فرمایا :

وَيَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوِ.

(البقره، 2 : 219)

’’اور (یارسول اللہ) تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں؟ تم فرمائو جو ضرورت سے زائد بچ جائے‘‘۔

ضرورت سے زائد حاجت مندوں کو دو تاکہ وہ بھی اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا :

وَفِيْ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ.

(الذاريت، 51 : 19)

’’اور ان کے مالوں میں حق ہے مانگنے والے اور بے نصیب کا‘‘۔

مالداروں کے مالوں میں غریبوں کا حق ہے کہہ کر بتا دیا کہ ضرورت مند کو لینے میں عار نہیں اور مالدار کو دینے میں احسان نہیں۔ وہ اپنا حق لے رہا ہے یہ اپنا فرض ادا کر رہا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

کادا الفقر ان يکون کفرا.

’’قریب ہے کہ غریبی کفر ہو جائے‘‘۔

(بيهقی)

ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا :

ان فی المال لحقا سوی الزکوٰة.

’’بے شک مال میں زکوٰۃ کے علاوہ (بھی) حق ہے‘‘۔

(ترمذی، ابن ماجه، دارمی)

مصارف زکوٰۃ

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ.

(التوبه، 9 : 60)

’’زکوٰۃ تو صرف ان لوگوں کے لئے جو محتاج اور نرے نادار (مسکین) ہوں اور جو اس کی تحصیل پر مقرر ہیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے (اسلام کی طرف مائل کرنا ہو) اور (مملوکوں کی) گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا (مقرر شدہ) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘۔

اس آیت مبارکہ میں آٹھ مصارفین کا ذکر موجود ہے۔

  1. فقراء
  2. مساکین
  3. عاملین زکوٰۃ (زکوٰۃ اکٹھی کرنے والے)
  4. مؤلفۃ القلوب
  5. غلام کی آزادی
  6. مقروض
  7. فی سبیل اللہ
  8. مسافر

قرآن کریم میں زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف ذکر ہوئے ہیں احناف کے نزدیک ان میں سے کسی بھی مصرف میں زکوٰۃ دینے سے ادائیگی ہو جائے گی اور دینے والا دینی فریضہ سے سبکدوش ہو جائے گا۔ خواہ ایک پر صرف کرے خواہ دو پر خواہ زیادہ پر یہ اس کے اپنے اختیار میں ہے۔

اموال ظاہرہ و اموال باطنہ

مال دو طرح کا ہے :

  1. ظاہری
  2. باطنی

ظاہری سے مراد مویشی، غلہ اور مال تجارت وغیرہ ہے اور باطنی سے مراد پوشیدہ مال ہے جیسے زیورات، نقدی وغیرہ۔

عہد رسالت اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ادوار میں ہر قسم کے اموال کی زکوۃ سرکاری سطح پر وصول کی جاتی تھی۔ اس مبارک زمانہ میں اموال ظاہرہ اور باطنہ کی کوئی تفریق نہ تھی۔ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں زکوۃ کے قابل اموال کی کثرت ہو گئی اور اسلامی فتوحات دور دراز تک پھیل گئیں تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ اگر ہر قسم کے اموال کی زکوۃ سرکاری طور پر وصول کی گئی تو لوگوں کے پرائیویٹ مکانات، دوکانوں اور گوداموں کی تلاشی لینی ہو گی اور ان کے املاک کی چھان بین کرنی پڑے گی جس سے لوگوں کو تکلیف ہو گی اور ان کے محفوظ شخصی مقامات کی نجی حیثیت مجروح ہو گی جس سے فتنے پیدا ہوں گے اس لئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے یہ تفریق فرما دی کہ حکومت صرف اموال ظاہرہ کی زکوۃ وصول کرے گی اور اموال باطنہ کی زکوۃ مالکان خود ادا کریں۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اموال ظاہرہ میں مویشی اور زرعی پیداوار کو شامل کیا گیا اور باقی بیشتر اموال نقدی سونا چاندی اور دیگر سامان تجارت کو اموال باطنہ قرار دیا گیا۔

بعد میں جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا تو انہوں نے اس مال تجارت کو بھی اموال ظاہرہ کے حکم میں شمار فرمایا جو ایک شہر سے دوسرے شہر لے جایا جا رہا ہو کیونکہ حکومت کو اس کی زکوۃ وصول کرنے اور اس کا حساب کرنے کے لئے مالکان کے گھروں، دکانوں اور نجی مقامات کی تلاشی لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبائل عرب، شہروں اور دور دراز علاقوں میں زکوۃ وصول کرنے کے لئے مصدقین کو روانہ فرمایا اور آپ کے بعد آپ کے خلفائے راشدین حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہی معمول رہا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب بعض قبائل نے یہ کہا کہ وہ زکوۃ بیت المال میں داخل نہیں کرائیں گے بلکہ بطور خود اس کو صرف کریں گے تو آپ نے ان کی اس تجویز کو قبول نہ کیا اور فرمایا :

’’اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں صدقات وصول کا جو طریقہ رائج رہا اس میں کوئی تبدیلی نہیں کروں گا اور میرا زکوۃ وصول کرنے کا طریقہ کار وہی ہو گا جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرتے تھے‘‘۔

(قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 4 : 155)

فی زمانہ چونکہ زکوۃ و عشر کا نظام حکومت کی طرف سے شرعی اصولوں کے مطابق نہیں اور چونکہ اس سے ضرورت مندوں، محتاجوں، مسکینوں کی کفالت عامہ کی ذمہ داری بھی حکومت نہیں لیتی۔ نہ اس کے شرعی مصارف میں صرف کرتی ہے بلکہ دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ میں بھی لوٹ مار اور افسر شاہی کے اللوں تللوں کی بھرمار ہے، نہ وصولی میں شرعی اصولوں کی پابندی ہے نہ صرف کرنے میں۔ اس لئے محتاط مسلمان اپنے طور پر اپنے مالوں کی زکوۃ مناسب مصرف میں خود صرف کرتے ہیں، یہ بالکل جائز ہے۔ کیونکہ زکوۃ امراء سے لے کر فقراء پر صرف کرنے کے لئے فرض کی گئی ہے تاکہ غریب و مسکین حاجت مندوں کی باعزت کفالت ہو۔

زکوٰۃ کے نصاب

1۔ مال مویشی :

اگر سال کا اکثر حصہ مفت چر کر گزارا کریں تو سائمہ کہلاتے ہیں۔ ان پر مقرر شرح سے سال گزرنے پر زکوٰۃ وصول کی جائے گی۔ اگر سال کا اکثر حصہ قیمتی چارہ ڈالا جائے تو علوفہ کہلاتے ہیں ان پر زکوٰۃ نہیں۔

فارمنگ کے کاروبار کے لئے جو مویشی پالے جاتے ہیں ان کی زکوۃ جانوروں کی تعداد کے لحاظ سے نہیں ہو گی بلکہ ان کا حکم سامان تجارت کی طرح ہو گا کہ ان کی کل مالیت پر سال گزرنے کے بعد زکوۃ واجب ہو گی۔

2۔ زرعی پیداوار :

اگر زمین بارانی ہے یا چشموں کے پانی سے مفت سیراب ہوتی ہے تو اس کی کل پیداوار میں سے دسواں حصہ وصول کیا جائے گا۔ یہ مسلمان سے لیں تو عشر، غیر مسلم سے لیں تو خراج۔ اگر زمین قیمتاً سیراب ہو جیسے ٹیوب ویل یا نہری پانی جس پر آبیانہ وصول کیا جاتا ہے تو کل پیداوار پر نصف عشر یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ وصول کیا جائے۔ غیر مسلموں سے زمین کی پیداوار پر خراج وصول کیا جائے گا، جو اسلامی حکومت ان پر مقرر کرے گی۔ پھل سبزیاں اور غلے وغیرہ کا ایک ہی حکم ہے۔

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

فيما سقت السمآء والعيون او کان عثريا العشر وما سقی بالنضح نصف العشر.

(صحيح بخاری، کتاب الزکوٰة، باب العشر، 1 : 201)

’’زمین اگر آسمان یا چشموں کے پانی سے سیراب ہو یا خود سر سبز و شاداب ہو تو اس کی پیداوار میں دسواں حصہ واجب ہوتا ہے اور جو زمین بیلوں وغیرہ کے ذریعہ سے سیراب ہو اس کی پیداوار میں بیسواں حصہ دینا واجب ہو گا‘‘۔

اخراجات (مثلاً ٹریکٹروں کے ذریعہ ہل چلانا، کیمیائی کھاد ڈالنا اور گوڈی وغیرہ کرانا کیڑے مار ادویات، بیج ڈالنا، فصل کی کٹائی کی مزدوری، تھریشر وغیرہ سے گہائی) کو وضع نہیں کیا جائے گا بلکہ جتنی بھی پیداوار ہو گی اخراجات کو منہا کئے بغیر اس کا عشر یا نصف عشر صدقہ کرنا واجب ہوتا ہے۔

3۔ سونا چاندی یا مال تجارت : سونا چاندی، مال تجارت یا روپیہ پیسہ (کرنسی) ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی، کے برابر مالیت کے ہوں اور ضروریات اصلیہ سے زائد ہوں اور اس مال پر سال گزر جائے تو ایسے مال سے اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ وصول کی جائے گی۔ ضروریات اصلیہ رہائش، لباس، خوراک، سواری، علاج، تعلیم وغیرہ ہیں۔ حدیث مبارکہ ہے کہ

عن سمرة بن جندب ان رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم کان يامرنا ان نخرج الصدقة من الذی نعد للبيع.

(سنن ابی دائود، کتاب الزکوٰة، باب العروض، رقم : 1335)

’’حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ تجارت کے لئے جو مال تیار کریں اس کی زکوۃ ادا کیا کریں‘‘۔

علاوہ ازیں کیونکہ یہ ایک طرح کا مال کی صورت میں اللہ کی طرف سے ملنے والی نعمت کا اظہار تشکر ہے اور جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا اور وہ صاحبِ نصاب ہے اس کے لئے شکر کی یہی صورت ہے کہ وہ محتاج و مساکین کی اعانت کرے۔

دور حاضر میں کرنسی کی شکلیں بدل گئی ہیں، اس لئے کرنسی خواہ شیئرز، سرٹیفکیٹس یا بانڈز کی شکل میں ہو اس پر کرنسی کی زکوۃ کا حکم آئے گا۔

آج کل سرمائے کو زمین اور تجارت کے علاوہ مختلف قسم کی سرمایہ کاریوں میں لگایا جاتا ہے۔ ایسی سرمایہ کاریوں میں کرائے پر دینے کی غرض سے پلازے اور عمارتیں بنائی جاتی ہیں یا پیداوار حاصل کرنے کے لئے کارخانے لگائے جاتے ہیں۔ الغرض مختلف جگہوں پر سرمایہ لگایا جاتا ہے۔ سرمایہ داری کی ان تمام شکلوں میں زکوٰۃ کے حوالے سے ایک ہی مسئلہ ہے کہ خود ان پر زکوۃ واجب نہیں رہتی بلکہ ان کی آمدنی، منافع اور فوائد پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔

سونے کی زکوٰۃ کے حوالے سے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

عن ام سلمة قالت کنت البس اوضاحا من ذهب فقلت يا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم اکنز هو فقال : ما بلغ ان تودی زکاته فزکی فليس بکنز.

(سنن ابی دائود، کتاب الزکوٰة، باب الکنز، رقم : 1337)

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں سونے کا ’’وضح‘‘ (جو ایک زیور کا نام ہے) پہنا کرتی تھی۔ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا اس زیور کا شمار ’’کنز‘‘ میں ہے؟ تو آپ نے فرمایا : چیز اتنی مقدار میں ہو اور اس کی زکوۃ ادا کی جائے تو زکوۃ ادا کرنے کے بعد اسکا شمار جمع ’’کنز‘‘ میں نہیں آتا۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ قرآن کریم نے ’’مال جمع کرنے‘‘ پر وعید بیان فرمائی ہے کہ

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ.

’’اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں‘‘۔

(التوبه : 34)

تو کیا سونے کا میرا یہ زیور بھی اس وعید میں داخل ہے جس کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیا کہ جو مال بقدر نصاب ہو اور اس کی زکوۃ ادا کی جائے تو وہ مال اس وعید میں داخل نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم میں تو ’’درد ناک عذاب‘‘ کی خبر اس کے لئے ہے جسے زکوۃ ادا کئے بغیر جمع کیا گیا ہو۔

مسائل زکوٰۃ

زکوٰۃ ہر مسلمان، عاقل، بالغ، آزاد اور صاحب نصاب شخص پر واجب ہے جب نصاب پورا ہونے کے بعد اس پر ایک سال کا عرصہ گزر جائے۔

٭ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے ہے۔ سونا چاندی میں چالیسواں حصہ نکال کر بطور زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے یہ ضروری نہیں کہ سونا چاندی کی زکوٰۃ میں سونا چاندی ہی دی جائے بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ بازار کے بھاؤ سونے چاندی کی قیمت لگا کر روپیہ زکوٰۃ میں دیں۔ اگر کسی کے پاس تھوڑی چاندی اور تھوڑا سونا ہے اور سونا چاندی میں سے کوئی بھی الگ سے بقدر نصاب نہیں تو ایسی صورت میں دونوں کو ملاکر ان کی مجموعی قیمت نکالی جائے گی اور جس نصاب (سونا یا چاندی) کو بھی وہ پہنچے اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔

٭ جن زیورات کی مالک عورت ہو خواہ وہ میکے سے لائی ہو یا اس کے شوہر نے اس کو زیورات دیکر مالک بنا دیا ہو تو ان زیورات کی زکوٰۃ عورت پر فرض ہے اور جن زیورات کا مالک مرد ہو یعنی عور ت کو صرف پہننے کے لئے دیا گیا ہے مالک نہیں بنایا تو ان زیورات کی زکوٰۃ مرد کے ذمہ ہے عورت پر نہیں۔

٭ تجارتی مال اور سامان کی قیمت لگائی جائے گی اس سے اگر سونے یا چاندی کا نصاب پورا ہو تو اس کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔

٭ اگر سونا چاندی نہ ہو، نہ مال تجارت ہو بلکہ صرف نوٹ اور روپے ہوں تو کم سے کم اتنے روپے پیسے اور نوٹ ہوں کہ بازار میں ان سے ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی خریدی جا سکتی ہو تو وہ صاحب نصاب ہے اور اس شخص کو نوٹ اور روپے پیسوں کی زکوٰۃ، کل چالیسواں حصہ نکالنا فرض ہے۔

٭ اگر شروع سال میں نصاب پورا تھا اور آخر سال میں بھی نصاب پورا رہا۔ درمیان سال میں کچھ دنوں مال گھٹ کر نصاب سے کم رہ گیا تو یہ کمی کچھ اثر نہ کرے گی بلکہ اس شخص کو پورے مال کی زکوٰۃ دینا پڑے گی۔

٭ روپے پیسوں کی زکوٰۃ میں روپے پیسے ہی دینا ضروری نہیں بلکہ جتنے روپے زکوٰۃ کے نکلتے ہیں اگر ان کا غلہ یا کپڑا یا کتابیں یا کوئی بھی سامان خرید کر مستحق زکوۃ کو دے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔

٭ کرایہ پر دینے کے لئے ویگنیں، موٹریں، بسیں، ٹرک اسی طرح دیگیں، دریاں، گدے، کرسیاں، میزیں، پلنگ، مسہریاں یا کرایہ پر دینے کے لئے مکانات اور دکانوں سے حاصل شدہ آمدنی اگر بقدر نصاب ہو اور اس پر سال گزر جائے تو پھر اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی۔

٭ زکوٰۃ و صدقات میں افضل یہ ہے کہ پہلے اپنے اقرباء کو دے پھر ان کی اولاد، پھر دوسرے رشتہ داروں کو پھر پڑوسیوں کو پھر اپنے پیشہ والوں کو پھر اپنے گاؤں اور شہر کے رہنے والوں کو۔ (عالمگیری وغیرہ)